مٹر گرے - ایک آواز بڑی پرانی بڑی سہانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-02-16

مٹر گرے - ایک آواز بڑی پرانی بڑی سہانی

bhelpuri-wala

مٹر گرے ۔۔۔ کہیں دور سے آتی ہوئی دروازوں سے ہوکر گھروں میں گھستی یہ آواز بچپن سے لے کر آج تک کی مکمل کہانی سنا دیتی ہے۔ یہ آواز چھوٹے بڑے ہر ایک کے چہرے پر ایک الگ سی خوشی لانے کی وجہ بن جاتی ہے۔ گلی کا ہر بچہ مہارا کی ایک آواز پر کہتا بھاگتا ہے مہارا آگئے مہارا آگئے ۔۔۔
مہارا بہت دور ہوتے ہیں اور ہم آپس میں لڑ پڑتے ہیں ایک کہتا ہے جلدی پیسے نکالو تو دوسرا کہتا ہے ارے جاؤ جلدی مہارا کو روکو، اور اس خوشی والی ہڑبڑاہٹ میں روپے بھی جلدی ملنے کا نام نہیں لیتے اور پھر کوئی تیسرا کہتا ہے جب تک وہ چلے نہ جائیں پیسے تھوڑی نا ملینگے اور اس بات پر جواب ملتا ہے:
تو آؤ خود ہی ڈھونڈ لو ۔۔۔
اور بات کہنے والا بس آنکھیں دکھا کر چپ ہو جاتا ہے۔ آخر اتنی فرصت کہاں ہے کہ کوئی آپس میں لڑے۔ اگر مہارا چلے گئے تو؟ تو پھر کیسے؟
کسی ایک کی طرف سے صلاح دی جاتی ہے کہ جب تک ہم پیسے نکال رہے ہیں ایک بندہ جا کر باہر مہارا کو روکے اور یہ مشورہ سبھی خوشی خوشی مان لیتے ہیں اور گھر کا سب سے چھوٹا فرد مہارا کو دیکھنے باہر چلا جاتا
ہے اور تھوڑی دیر بعد واپس آکر بتاتا ہے کہ ابھی مہارا تو بہت دور ہیں۔۔۔


وہ کیا ہے نا کہ مہارا کی آواز تو ہے ہی بہت بھاری اوپر سے وہ لگاتار اپنا چمچہ اپنے توے پر کھٹکھٹایا کرتے ہیں۔ ارے نہیں وہ چمچہ توے پر مار کر آواز نہیں نکالتے ہیں بلکہ وہ اپنا مٹر، جو بڑے سے توے پر گرم ہو رہا ہوتا ہے اسے چلایا کرتے ہیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ خالی توے پر چمچہ کھٹکھٹانے کی ان کی عادت پرانی ہے۔ اور پھر چمچے سے نکلنے والی آواز بہت دور تک جاتی ہے، اتنی دور تک کہ محلے میں گھستے ہی ان کی آمد کا پتہ محلے کے آخری گھر تک کو ہو جاتا ہے۔
اور وہ ساتھ ساتھ بہت بھاری آواز میں کہتے ہیں: "مٹر گرے!!"
اور یہی ان کی پہچان ہے۔


لیکن یہ جان کر کہ مہارا تو ابھی بہت دور ہیں سب کی بےچینی بڑھ سی جاتی ہے۔ دس منٹ کا راستہ دس مہینے جتنا لگنے لگتا ہے اور مہارا کے آنے پر صبر نام کی چیز ختم ہو جاتی ہے۔ اور یوں ایک بار پھر سے صلاح کار بیٹھ کر مشورہ کرتے ہیں اور اس بار صلاح یہ بنتی ہے کہ: ایسا کرو مہارا کے آنے میں ابھی بہت وقت ہے تو جاؤ، جہاں وہ کھڑے ہیں وہیں چلی جاؤ۔۔۔


یہ ایک گھر کی کہانی نہیں ہے بلکہ محلے کے ہر گھر کی کہانی ہے۔ ادھر مہارا کا چمچہ کھٹکھٹاتا ہے ادھر ہر گھر کے باہر بچے موجود، اور جب مہارا محلے میں لگی نیم کے پاس کھڑے ہوتے ہیں تو گویا غائب ہی ہو جاتے ہیں کیونکہ چھوٹے بڑے بچوں کی بھیڑ انہیں چاروں طرف سے گھیر جو لیتی ہے اور اس بھیڑ میں وہ دکھائی ہی نہیں دیتے۔
اور پھر سب کے منہ سے ایک ہی بات:
مہارا پکوڑی دینا، مہارا پانچ روپے کا مٹر دینا ،مہارا ٹکی بنا دو ،مہارا مرچی زیادہ کر دو، مہارا میٹھی چٹنی ڈال دو ۔۔۔
مہارا کی پکوڑی بہت اچھی ہوتی ہے، پانچ روپے کی پانچ عدد پکوڑی، اب جب ایک طرف پورا محلہ پکوڑی مٹر کھا رہا ہے تو بھلا نانی دادی کیوں پیچھے رہتیں؟ تو پھر آگے کا احوال یہ ہوتا کہ آواز دی جاتی: جاؤ بٹیا، پانچ روپے کی پکوڑی امی کے لئے لے آؤ اور ہاں چچی کے لئے بھی لیتی آنا اور پھر جاکر بوڑھی نانی اور خالہ جان کے لیے بھی لے آنا۔
دیکھ لیجیے بھیڑ ہے کہ بس بڑھتی جا رہی ہے ،کیونکہ دوسرے محلے کے بچے بھی آگئے ہیں کیونکہ ان کو ڈر لگا ہوتا کہ کہیں مہارا کی پکوڑی، ٹکی اسی محلے میں ختم نہ ہو جائیں ۔۔۔۔ اور جو پہلے سے کھڑے تھے وہ تو ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مہارا کے ٹھیلے سے ایسی خوشبو ہی اڑتی ہے جو پاؤں جکڑ لیتی ہے۔
بہرحال آج سب کی جمع پونجی ختم ہوگئی لیکن دل نہیں بھرا۔ بھلا ایک دو پتے پکوڑی، ٹکی اور مٹر کھا لینے سے بھی کہیں دل بھرتا ہے؟ لیکن ان بچوں کا دکھ بھی تو کوئی جانے کہ جن کے آنے تک مہارا کا ٹھیلا خالی ہو چکا ہے اور وہ خالی توے پر چمچہ کھٹکھٹاتے واپس جا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں:
مٹر گرے ۔۔ مٹر گرے !!

***
صدف جمال (محمودآباد، بارہ بنکی)
ای-میل: sadafjamal104[@]gmail.com

The Matar-gray story. Light-Essay by: Sadaf Jamal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں