ہندوستان کا گیان پیٹھ ایوارڈ اور اردو ایوارڈ یافتگان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-02-08

ہندوستان کا گیان پیٹھ ایوارڈ اور اردو ایوارڈ یافتگان

india-jnanpith-award

ہندستان میں آزادی کے بعد حکومتی سطح پر دیے جانے والے جن اعزازات کا آغاز کیا گیا، ان میں "جوہرِ ہند"(بھارت رتن) کو اعلیٰ ترین سیولین اعزاز کا موقف حاصل ہے۔ پدما ایوارڈس جن میں پدما بھوشن، پدما وبھوشن اور پدماشری شامل ہیں۔ فوجیوں کے لیے "پرم ویر چکر" ، شوریا چکر ، وغیرہ ہیں، جو ہر سال فوجیوں کی اعلیٰ کار کردگی پر دیے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ بچوں کی بہادری پر (Indian council for child welfare) کی جانب ہر سال یومِ اطفال کے موقع پر 'بریوری ' ایوارڈ دیئے جاتے ہیں۔ کھیل کے میدان میں "راجیو گاندھی کھیل رتن ایوارڈ" کھیلوں کے تمام شعبوں میں سب سے بہتریں کھلاڑی کو دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف کھلوں میں انفرادی کارناموں پر 'ارجن ایوارڈ ' بھی دیا جاتاہے۔ فلمی میدان میں 'دادا صاحب پھالکے ایوارڈ' سب سے اعلیٰ اعزاز ہے۔ اور ادب کی دُنیا کا اعلیٰ ترین ایوارڈ "گیان پیٹھ ایوارڈ" ہے۔
"گیان پیٹھ ایوارڈ" حکومتِ ہند کی جانب سے دیئے جانے والا سب سے بڑا ادبی انعام ہے۔ یہ انعام ہندوستانی آئین کے آٹھویں شیڈیول کے تحت شامل کی گئیں بائیس (22) ہندوستانی زبانوں کے ساتھ انگریزی زبان کے کسی شاعر یا ادیب کو ہر سال دیا جاتا ہے۔ اس انعام کی بنیاد 'ٹائمس آف انڈیا ' کے ناشر ساہو جین خاندان کے قائم کردہ 'بھارتیہ گیان ٹرسٹ ' نے 1961ء میں رکھی تھی"۔
(حوالہ: انگریزی ویکی پیڈیا معلومات)


پس منظر :
ساہو جین نے 1961ء میں ایک منصوبہ بنایا۔ جس کا مقصد قومی شہرت یافتہ بین الاقوامی معیار رکھنے والی ہندوستانی و انگریزی زبانوں کی معیاری کتابوں کا انتخاب کیا جائے۔ اسی سال ماہ نومبر میں بانی صدر 'گیان پیٹھ' ساہو جین نے کچھ ادبی ماہرین کو مدعو کیا تاکہ اس منصوبے کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر کیا جائے۔ جن میں کاکا کیلکر (دتّا بالکرشن کیلکر ،مجاہدآزادی، صحافی ،سماجی مصلح )، ہری ونش رائے بچن (ہندی شاعر) رام دھاری سنگھ دینکر ( ہندی شاعر اور مضمون نگار)، جتندر کمار( ہندی ادیب) جگدیش چندر ماتھر( ہندی ڈرامہ نگار) وغیرہ دیگر ادبی ماہرین کی آرا سے ایک مسودہ صدر جمہوریہ "راجندر پرساد" کو پیش کیا گیا۔ اس منصوبے کی عمل آوری پر انہوں نے دلچسپی ظاہر کی تھی۔
اس منصوبہ کا اعلان " آل انڈیا گجراتی ساہتیہ پریشد" کے سالانہ اجلاس یعنی "بھارتیہ بھاشا پریشد" 1962ء میں بھی کیا گیا۔ 2/ اپریل 1962ء کو مختلف زبانوں کے تقریباً تین سو (300) مصنفین کو دہلی مدعو کیا گیا۔ یہاں "دھرم ویر بھارتی" ( شاعر ،ادیب ، مدیر ہفت وار دھرم یگ) نے دو اجلاس منعقد کروا کے، ان کا مسودہ اور ایک خط صدر جمہوریہ کو پیش کیا۔
16/ مارچ 1963ء کو صدر جمہوریہ کی صدارت میں پہلی سلیکشن کمیٹی کی میٹنگ طے پائی۔ اِس درمیان 28/ فروری کو صدر جمہوریہ کا انتقال ہونے کے بعد صدارت کی ذمہ داری 'کیلکر ' اور 'سمپورنانند ' (مدرس، سیاست داں و وزیرِ اعلٰی اُتر پردیش) نے نبھائی۔
پہلے انتخابی بورڈ کے ممبران میں 'کیلکر ، نہار رنجن (مورخ)، کرن سنگھ، آر۔ آر۔ دیواکر ( ادیب)، وی۔ رگھوون (سنسکرت اسکالر)، بی۔ گوپال ریڈی (اُتر پردیش گورنر)، ڈاکٹر ہرکشن مہتاب (سیاست داں و وزیرِاعلٰی اُڑیسہ)، رام جین اور لکشمی چندر جین اور بورڈ کے صدر سمپورنانند تھے۔


پہلے انعام کا انتخاب 1921 ء سے 1951ء کے درمیان شائع ہونے والی ادبی سرگرمیوں کے لحاظ سے کیا گیا۔ نو (9) زبانوں کی الگ الگ کمیٹیاں بنائی گیئں جن کا کام نامزدگیوں کا ترجمہ انگریزی اور ہندی میں کرنا تھا۔ آخری راؤنڈ میں قاضی نذرالسلام (بنگالی)، ڈی۔ وی۔ گنداپّا (کنڑا)، وشوناتھن ستیانارائن (تیلگو) اور جی۔ شنکر کررپّا (ملیالم) کے درمیان مقابلہ آرائی تھی۔ ملیالم زبان کے شاعر، مضمون نگار ،و ادبی نقاد ، کررپّا کو سرسوتی کی مورتی اور ایک لاکھ روپے کا چیک دہلی کے وگیان بھون میں پہلے گیان پیٹھ ایوارڈ کی شکل میں تفویض کیا گیا۔
1965 ء سے اب تک کل57 گیان پیٹھ ایوارڈ تقسیم کیے جا چکے ہیں جن میں سے اُردو زبان و ادب کو چار اعزاز حاصل ہوئے ہیں جن کی تفصیل ذیل میں درج ہے۔


1) پہلا گیان پیٹھ ایوارڈ 1969ء:
اردو زبان و ادب کا پہلا گیان پیٹھ ایوارڈ حاصل کرنے والے شاعر و نقاد "رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری" تھے۔ یہ ہندوستان کا اب تک کا پانچواں اور اُردو کا پہلا اعزاز تھا۔ فراق گورکھپوری جدید شاعری کے علمبر دار اور تاثراتی تنقید کے بانی ہیں۔ فراق کا پورا نام رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری تھا۔ وہ 28/ اگست 1896ء کو گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ والد کا پیشہ وکالت تھا۔ ابتدائی تعلیم گورکھپور ، اعلٰی تعلیم الہ آباد میں مکمل کی۔ ڈپٹی کلکٹر کی ملازمت ٹھکرا کر تحریکِ آزادی میں شریک ہوئے جس کی پاداش میں جیل بھیجے گئے۔ جیل سے رہائی کے بعد کرسچن کالج لکھنو میں لکچرر ہوئے پھر انگریزی میں ایم۔ اے۔ کیا۔ الہ آباد یونیورسٹی میں اُستاد ہو گئے۔ فراق بہ حیثیت ممتاز شاعر، نظم ، غزل، رباعی، اور قطعہ کے لیے اپنی منفرد شناخت کے حامل ہیں۔ روحِ کائنات ، مشعل، روپ ، شبستان، گُلِ رعنا اور گُلِ نغمہ ان کے شاہکار مجموعے ہیں۔ فراق کو مختلف اعزازات سے نوازا گیا۔ 1961ء ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ، 1968 ء میں سویت لینڈ نہرو ایوارڈ ، حکومتِ ہند نے انہیں پدم بھوشن خطاب سے سرفراز کیا۔ 1970 ء میں وہ ساہتیہ اکیڈمی کے فیلو بنائے گئے۔ اور " گلِ نغمہ " کے لیے ان کو ادب کے سب سے بڑے اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ سے 1969ء میں نوازا گیا جو ہندوستان میں ادب کا نوبل انعام تصور کیا جاتا ہے۔ 1981 ء میں انھیں غالب ایوارڈ بھی دیا گیا۔


2) دوسرا گیان پیٹھ 1989ء :
اردو کا دوسرا گیان پیتھ ایوارڈ حاصل کرنی والی خا تون عینی آپا کے نام سے معروف اردو کی نامور ادیبہ،ناول نگار، اور افسانہ نگار، قرۃ العین حیدر کی پیدائش 20 / جنوری 1926 ء کو علی گڑھ اتر پردیش میں ہوئی۔ ان کے والد سیو یل ملازم سجاد حیدر یلدرم اور والدہ نذر سجاد حیدر دونوں ہی مشہور ناول نگار تھے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویٹ قرۃالعین حیدر نے 'ڈیلی ٹیلی گراف' لندن اور ' السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا' میں کچھ عرصے تک صحافت کے فرائض انجام دیے۔
لیکن وہ اردو ادب میں اپنی مؤثر تحریروں کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی پہلی کہانی " بی چوہیا " بچوں کے رسالے "پھول" میں شائع ہوئی تھی۔ اس وقت وہ صرف گیارہ سال کی تھیں۔ "پت جھڑکی آواز" ان کی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ان کے ناولوں میں" میرے بھی صنم خانے" "آخری شب کے ہمسفر"" کار جہاں دراز ہے"( نیم سوانح عمری)" گردش رنگیں چمن "اور" چاندنی بیگم" شامل ہیں۔ لیکن ان کی زندگی کا بہترین ناول" آگ کا دریا"(1959ء ) جس میں ہندوستان کے ڈھائی سو برس کی تاریخ سے گزرتے ہوئے آدمی کے درد کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ یہ ناول چوتھی صدی سے شروع ہوکر ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کی تشکیل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس ناول میں مصنفہ نے دو قومی نظریے کو خارج کیا ہے۔ قرۃ العین حیدر نے اپنے ناولوں اور کہانیوں کے موضوعات ،تاریخ ،معاشرے اور بدلتی ہوئی انسانی اقدار سے مستعار لے کر ان میں اپنے تجربات، تجزیات اور تخیل کو سمویاہے۔ وہ ساہتیہ کلا اکادمی سمیت کئی یادگار ثقافتی و ادبی تنظیموں کی روکن ،سینٹرل فلم سینسر بورڈ،حکومت ِہند ا کی چیئرمین ، کی مشیر اور انجمن ترقی اردو کی ایگزیکٹیو کمیٹی کی رکن رہیں۔ وہ ترقی اردو بیورو میں بھی رکن کی حیثیت سے شامل تھیں۔ قرۃ العین حیدر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ اسلامیہ کے شعبے اردو میں وزیٹنگ پروفیسر رہی ہیں۔ وہ جامعہ اسلامیہ کے خان عبدالغفارخان چیر کی پروفیسر امیر ریٹس بھی تھی۔ انہوں نے شکاگو کے کیلیفورنیا ٹیکساس اور اریزونا سمیت کئی یونیورسٹی میں لیکچر دیئے۔ اور ریگا ،لیٹویا اور پشکن فیسٹول (روس)میں منعقدہ مصنفین کی کانفرنس میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔
قرۃ العین حیدر کو 1967ء میں "پت جھڑ کی آواز" کیلئے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ان کی ان کو 1969ء میں سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ، 1985ء میں غالب ایوارڈ، 1989ء میں" آخری شب کے ہمسفر" کے لیے گیان پیٹھ ایوارڈ، 1984ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن سے بھی نوازا گیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے 2007ء میں ان کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی تفویص کی۔ قرۃالعین حیدر کا انتقال 21/ اگست 2007ء کو نوئیڈا اترپردیش میں ہو۔ ان کی آخری آرام گاہ جامعہ اسلامیہ کے قبرستان میں ہے۔ 3؂
(جشن ِ آزادی از مہر فاطمہ حسین،ص108)


3) تیسرا گیان پیٹھ ایوارڈ 1997 ء:
مشہور شاعر ،افسانہ نگار، مجاہد آزادی اور مارکسی نظریات کے زبردست حامی اور سرگرمی کارکن علی سردار جعفری کا جنم 29/ نومبر 1913ء کو اُترپردیش کے بلرام پور ،گونڈا میں ہوا تھا۔ ان کے والد کا نام جعفرطیار اور والدہ کا نام زاہدہ خاتون تھا۔ سردار جعفری نے علیگڑھ ،دہلی اور لکھنؤ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے جدوجہد آزادی میں سرگرم کردار ادا کیا۔ اور 1936ء میں انجمن ِ ترقی پسند مصنفین قائم کی۔ وہ کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سرگرم رکن تھے۔
علی سردار جعفری نے اپنی تخلیقات کے ذریعے حُب الوطنی، امن ،بھائی چارے اور محبت کا پیغام عام کیا۔ انہوں نے پرولتاریوں، محروم اور کمزور طبقہ کی حمایت میں بھی آواز بلند کی۔ وہ دنیائے اردو ادب میں 1938ء میں اپنے افسانوی مجموعے" منزل" کے ذریعے داخل ہوئے۔ لیکن انہوں نے اپنی تلخ نظموں سے اردو ادب کو مالامال کیا۔ ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ" پرواز"1934ء میں اور دوسرا مجموعہ" نئی دنیا کو سلام" 1948ء میں شائع ہو۔ ان کی تخلیقات کے دیگر مجموعے ہیں ،خون کی لکیر 1950ء امن کا ستار، ہ پتھرک ی دیوار، ایک خواب ،اور پیراہن شرر، اور لہو پکارتا ہے، پیغمبر سخن 1970ء میں انہوں نے کبیر ،میر تقی میر اور مرزا غالب کا تقابلی مطالعہ پیش کیا۔ ہندوستان و پاکستان کے درمیان 1965ء کی لڑائی سے بے حد خفا سردار جعفری نے "کون دشمن "نظم لکھی اور دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ تہذیب کا خاکہ کھنچتے ہوئے امن اور دوستی کی ضرورت پر زور دیا۔ "اجودھیا" نامی نظم میں انہوں نے بابری مسجد کے انہدام پر افسوس ظاہر کیا۔ اور اس کو سیکولر اقدار پر زبردست حملہ قرار دیا۔
وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی 1990ء میں جب لاہور( پاکستان) کے سفر پر گئے تو انہوں نے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو علی سردار جعفری کی تحریر کردہ اور سیما سہگل کی صدا بند جنگ مخالف نظمیں پیش کی تھی۔ علی سردار جعفری نے ٹی وی سیریل کہکشاں بھی بنایا تھا۔ جو حسرت جے پوری، جوش ملیح آبادی اور فراق گورکھپوری وغیرہ اردو کے ساتھ شعراء کی زندگی اور تخلیقات پر مبنی تھا۔ انہوں نے کبیر اور علامہ اقبال پر تیار دستاویزی فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں۔
علی سردار جعفری کو 1965ء میں سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ ، 1967ء میں پدم شری، 1978ء میں پاکستان کے اقبال گولڈ میڈل ،1997ء میں گیان پیٹھ ایوارڈ اور 1999ء ہائرورڈ یونیورسٹی( امریکہ) کے بین الاقوامی امن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نیو نے 1986ء میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ یکم اگست 2000ء کو اردو ادب کا روشن ستارہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
(جشن ِ آزادی از مہر فاطمہ حسین،ص96)


4) چوتھا گیان پیٹھ ایوارڈ :
اخلاق محمد خان شہریار (16/جون 1936ء تا 13/ فروری 2012ء) 16/ جون 1936ء اناوا اتر پردیش میں ایک مسلم راجپوت خاندان میں پیدا ہوئے ان کے والد ابو محمد خان ایک پولیس افسر تھے۔ شہر یار ایتھلیٹ بننا چاہتے تھے تاہم والد پولیس کی ملا زمت میں شامل کروانا چاہتے تھے تب ہی وہ خلیل الرحمٰن کی رہنمائی میں گھر سے بھاگ گئے۔ فکر معاش کی تکمیل کے لئے وہ علی گڑھ مسلم یونیور سٹی میں اردو فکشن پڑھانے لگے جہاں انھوں نے بعد میں (ph۔ D) مکمل کی۔ شہریار نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز" انجمن ِ ترقی ِاردو" کے ادبی معاون کی حیثیت سے کیا۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرر 1986ء میں وہ پروفیسر اور پھر 1996ء میں وہ شعبہ اردو کے صدر نشین کے طور پر مستعفٰی ہوئے۔ شہر یار کا پہلا مجموعہ کلام " اسم ِ اعظم" 1965ء د و سرا" ساتواں در"1969 ء تیسرا " سحر کے موسم"1978ء اور ان کا شاہکار " خواب کے در بند ہیں "1978ء میں شائع ہوا۔ جسے ساہیتہ اکادمی اعزاز حاصل ہوا۔ شہریار کے کلام " خواب کے در بند ہیں " کا انگریزی ترجمہ "THE GATWAY TO DREAM IS CLOSE " کے عنوان سے 1992ء میں شائع ہوا۔ ان کی بیشتر نظموں کے ترجمے فرانسسی ، روسی اور جرمن زنانوں میں کیے گئے ہیں۔ شہر یار نے چند فلموں کے لیے نغمے بھی لکھئے ان میں فلم " امراؤ جان ادا " لے لیے لکھے گئے نغمے بالی ووڈ کے بہتریں نغمے مانے جاتے ہیں۔

***
محمد اسمعٰیل۔ محمدیہ کالونی، دیگلور ناکہ، ناندیڑ، مہاراشٹرا۔
ایمیل: scmurdu[@]gmail.com

India's Jnanpith Award, Award for individual contributions to Literature, Instituted in 1961 and Urdu.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں