سب سے پہلے ہم یہ واضح کر دیں کہ ہم ان "شرفا" میں سے ہیں جو فکاہیہ ادب کو دوسرے درجہ کا ادب نہیں مانتے۔ ادب کی درجہ بندی موضوع سے نہیں، معیار سے ہوتی ہے۔ چاہے وہ سنجیدہ ادب ہو ، مزاحیہ ہو، جاسوسی ہو کہ جنسی ادب ہو۔ خیریہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ حیدرآباد کی سر زمین کے باشندے اپنے جلو میں سنجیدگی کے ساتھ ظرافت کا خمیر بھی رکھتے ہیں۔ عابد معز بھی حیدرآبادی ہیں اور ہماری طرح سادات گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ موصوف کا پورا نام ہے سید خواجہ معز الدین۔ کشمیر اور توران میں خواجہ، سادات گھرانے کا لقب رہا ہے۔ خواجگان میں اولیأ کا سلسلہ بھی رہا ہے۔ لیکن ہمیں اس وقت خواجہ احمد عباس، مشفق خواجہ(پاکستان کے) اور ریاض میں مقیم حیدرآبادی خواجہ نظام الدین واصف یاد آرہے ہیں، کے۔این۔واصف جن کا مخفف ہے اور کے۔این۔سنگھ سے ان کا کوئی تعلق نہیں
"کس چیز کی کمی ہے خواجہ تیری گلی میں"
خواجہ معز الدین نے اپنا ادبی نام " عابد معز"رکھا ہے۔ عابد کے معنی ہیں عبادت گذار، متقی اور پرہیز گار اور معز کے معنی ہیں عزت دینے والا۔ لوگ کہتے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ ہمارا ایقان ہے کہ نام کا اثر شخصیت پر ضرور پڑتا ہے۔ عابد معز ہمارے بہت ہی پیارے اور عزیز دوست ہیں۔ ان کی ہم سے پہلی ملاقات کب اور کس طرح ہوئی ہم کو یاد نہیں۔ ممکن ہے، عابد معز کو بھی یاد نہ ہو۔ اتنا یاد ہے کہ ان کے طنز و مزاح کے مضامین رسالوں میں پڑھ کر ان سے ملنے کی خواہش جاگ اٹھی تھی۔ جب ہم ان سے ملے تو مضامین کی طرح موصوف بھی ہم کو اچھے لگے اور پھر 80ء کی دہائی میں جب ہم بسلسلۂ ملازمت سعودی عرب کے شہر جدہ میں (15) سال مقیم رہے تو خلیجی جنگ کے دوران شاید 90ء میں ایک سال ریاض میں بھی ہمارا قیام رہا۔ عابد معز ریاض میں کسی ہاسپتال میں تغذیہ کے ڈاکٹر تھے اور تاحال ہیں۔ ہم دونوں کی خوب گاڑھی چھننے لگی۔ ہماری کمپنی کو جمعرات کے دن نصف یوم کی اور جمعہ کو پورے دن کی تعطیل ہوتی۔ حارہ، ریاض میں ایک ایسا علاقہ ہے جو سچ پوچھئے تو حیدرآبادیوں اور بنگالیوں کا گڑھ ہے۔
جمعرات اور جمعہ کی ملاقاتوں کو ہم کبھی"ہاتھ" سے جانے نہ دیتے۔ ہمارا قیام حارہ میں ہی تھا۔ ہندوستانی اور پاکستانی احباب کا جمگھٹا کسی نہ کسی دوست کے ہاں ہوتا۔ عابد معز کسی دوسرے علاقے میں اپنے افراد خاندان کے ساتھ مقیم تھے۔ بعد میں انھوں نے اپنی فیملی کو حیدرآباد بھیج دیا اور ہماری طرح تنہائی کا کرب جھیلنے لگے۔
حیدرآباد میں ان سے ملاقات دفتر شگوفہ (معظم جاہی مارکٹ) پر ڈاکٹر سید مصطفٰے کمال اور زندہ دلان حیدرآباد کے دیگر احباب کے ساتھ ہوتی جن میں طالب خوندمیری، حمایت اللہ، مصطفٰے علی بیگ اور محمد علی رفعت وغیرہ کے علاوہ سید داؤد اشرف اور سید جمیل احمد صاحبان بھی موجود ہوتے۔ آپ کو ہم بتا دیں کہ دفتر شگوفہ، مجرد گاہ (عمارت کا نام) کی چوتھی منزل پر ہے اور (97) سیڑھیاں چڑھ کر جانا پڑتا ہے۔ سیڑھیاں چڑھتے وقت ہم کو اپنا ہی ایک شعر یاد آ جاتا
اک حوصلہ ہے ، کیا ہے ، بلندی پہ پہنچنا
زینے تو بس اپنی جگہ موجود رہے ہیں
اور جب ہم دفتر پر پہنچتے تو ہمارا حوصلہ"ہانپنے" لگتا اور احباب سے علیک سلیک کرنے میں کچھ وقت لگتا۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی عابد معز کی اور ہم نے اس مضمون کا نام رکھا ہے "دیدہ و شنیدہ" یعنی کس طرح ہم نے عابد معز کو دیکھا اور سنا۔ دوست اگر ادیب ہو تو دوستی میں لکھنے اور پڑھنے کا عمل جڑ جاتا ہے۔ گویا دیکھنا، سننا ، لکھنا اور پڑھنا ادیب دوستوں کے درمیان قدر مشترک بن جاتا ہے۔
تاحال عابد معز کے قلم سے دو کتابیں نکلی ہیں۔ ایک تو "واہ حیدرآباد" ہے جس میں نام کے لحاظ سے ہر مضمون کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔ حیدرآبادفرخندہ بنیاد ایسا شہر ہے، جو یہاں بس گیا، یہیں کا ہو گیا۔ باہر بھی جائے تو اسے حیدرآبادنہیں بھولتا۔ عابد معز کے فن کے بارے میں ہم کیا کہیں۔۔۔؟ہم کوئی نقاد یا محقق نہیں، لیکن ادب کے اچھے قاری ضرور ہیں۔ عابد معز کے قلم میں طبعاً ظرافت کی گلکاریاں موجود ہیں اور وہ اپنا جلوہ صفحۂ قرطاس پر بکھیرتی رہتی ہیں۔ لیکن ظرافت کا عمل شدید نہیں ہلکا پھلکا ہے۔ جیسے کوئی دھیمے دھیمے کچوکے لگا رہا ہو۔ ان کی دوسری کتاب مضامین کا مجموعہ ہے جس میں "کتّے"کے موضوع پر بھی مضمون ہے جسے بابائے ظرافت پطرس بخاری چھو چکے ہیں۔ لیکن عابد معز کا اپنا الگ انداز ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے عابد معز روزنامہ"اعتماد"سنڈے انڈیشن میں مزاحیہ کالم" پھرچھڑی ۔۔۔۔۔"لکھ رہے ہیں۔ جو موجودہ حالاتِ زندگی کے چنندہ واقعات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس قبیل کے کالم فکر تونسوی اور مجتبیٰ حسین بھی لکھ چکے ہیں۔ تقابل مقصود نہیں تاہم عابدمعز کی انفرادیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ وہ تقلید کی بوالعجبیوں سے بہت دور ہیں اور یہی صفت کسی بھی ادیب کو اپنی شناخت بنانے میں کار کرد ہوتی ہے۔
عابد معز کا سن پیدائش 1955ء ہے۔ اس لحاظ سے وہ ہم سے کم وبیش (14) سال چھوٹے ہیں۔ ان کے لکھنے لکھانے کا سلسلہ کوئی ربع صدی سے زیادہ عرصہ سے جاری ہے۔ ہماری دوستی بھی اسی مدت سے رواں دواں ہے۔ ڈاکٹڑ مصطفٰے کمال نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ پیشۂ طب سے وابستہ ہونے کے باعث وہ نبض پر ہاتھ رکھ کر مرض پہچاننے کا فن خوب جانتے ہیں۔ اس میں ہم اتنا ضرور اضافہ کریں گے کہ عابد معزکے قلم اور مزاج کو جہاں تک ہم نے سمجھا ہے، ان میں خود احتسابی کا عمل بھی ہے اور ہر معاملے کے منفی اور تاریک گوشوں کو اجاگر کرنے کی صفت بھی موجود ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو کسی بھی ادیب کو نہ صرف اپنا بلکہ دوسروں کا جائزہ لینے میں بھی جائزہ لینے میں ممد ومعاون ثابت ہوتی ہیں ۔ دوسرے معنوں میں ان میں خودشناسی اور زمانہ شناسی کی نظر پیدا ہوجاتی ہے۔
جن دنوں ہم ریاض میں تھے، ڈاکٹر ستیہ پال آنند جیسے بلند پایہ ادیب و شاعر کے نیاز بھی حاصل ہوئے۔ آنند صاحب نے "واہ حیدرآباد" میں عابد معز پر بڑا اچھا فکاہیہ مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے"شہر میں گھومتا ہوا آئینہ"جس میں وہ رقم طراز ہیں:
"عابد معز مائیکرو لیول کے بلدیاتی آئینہ ساز ہیں جن کا چلتا پھرتا آئینہ صرف حیدرآباد کو ہی دیکھتا ہے۔ خوبصورتی اس آئینے کی یہ ہے کہ لینس(LENS)بدلتا چلا جاتا ہے اور قاری کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ اس ے ساتھ کھلواڑ ہو رہی ہے!"
ہم ستیہ پال آنند کی اس بات سے متفق ہیں کہ عابد معز خاموش طبع اور کم گو ہیں لیکن اس خاموش طبعی اور کم گوئی میں بلاشبہ پر گوئی مضمر ہے۔ بقول شاعر
یہ اور بات کہ منبر پہ جا کے کچھ نہ کہیں
خموش لوگ بلا کے خطیب ہوتے ہیں
پیشۂ طب سے وابستہ ہونے کے باعث وہ فکا ہیہ تحریروں کے علاوہ طبی مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں جو مختلف رسالوں اور اخباروں میں شائع ہو چکے ہیں۔ اتنا کچھ لکھ دینے کے بعد ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ہم عابد معز کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں کیونکہ انسان خود اپنی ذات کی گہرائیوں میں جھانک کر اپنے آپ کو پانے کی آرزو میں ناکام رہتا ہے۔ پھر بھی کسی دوست کے بارے میں اتنا کچھ تاثر ہم چھوڑتے ہیں تو بہت کافی ہے۔ بقول اصغر گونڈوی
"اصغر سے ملے لیکن اصغر کو نہیں جانا !"
ماخوذ از کتاب: حکایت نقدِ جاں کی (مضامین و تبصرے)
مصنف: رؤف خلش۔ سن اشاعت: دسمبر 2012ء
رؤف خلش |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں