ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں کی آمد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-02-24

ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں کی آمد

coalition-of-indian-institutes-with-international-bodies

ہندوستان اپنے تعلیمی نظام کے لیے عہد وسطی میں اپنا نمایاں مقام رکھتا تھا۔ چاہے وہ ٹکسیلا ہو یا نالندہ ، ولبھ یونیورسٹی ہو یا وکرم شیلا، ہر دور میں جدید تعلیمی طریقوں کو اپنانے اور اس میں ندرت پیدا کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔ نالج سوسائٹی نے دنیا میں ایک نئے باب کا آغاز کیا ہےجہاں کسی بھی ملک کا موجودہ تدریسی نظام جو روایتی ستونوں پر قائم ہے وہ اس وقت تک کامیاب اور قابل تعمیم نہیں ہو سکتا جب تک وہ بین الاقوامی سطح کے طئے شدہ معیارات پر پورا نہ اترتا ہو۔
اسی ضمن میں ہمارے ملک نے بھی کئی اقدامات کیے لیکن سب سے ٹھوس قدم این ای پی 2020 کے دائرے میں یو-جی-سی نے لیا ہے جس کے تحت غیر ملکی یونیورسٹیاں یا غیر ملکی اداروں کے ذریعے بین الاقوامی برانچ کیمپس (آئی بی سی) اور بین الاقوامی تعلیمی مراکز (آئی ای سی) کے قیام کے لئے ایک جامع اور مستقل ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنے میں درکار مسودہ کو تیار کیا ہے۔ اس مسودے کو بہترین عالمی اطوار پر مبنی ضوابط کے تحت تیار کیا گیا ہے جس کے لئے عام لوگوں کی آراء طلب کی گئی ہیں۔ ہمیں بطور صارف و اسٹیک ہولڈر اپنی رائے 3/فروری 2023 تک یو جی سی کو دینی ہے۔ اس عمل کے بعد ہی مکمل ہدایات کو منظر عام پر لایا جائے گا۔
اعلی تعلیم میں بین الاقوامی یونیورسٹی یا اداروں کو ہندوستان میں زمین فراہم کرنے کا عمل کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس کی شروعات تو گلوبلائزیشن کے ساتھ ہو گئی تھی۔ تعلیم کو بھی بطور ٹریڈیبل کموڈیٹی تجارتی مال/اشیاءکے طور پر سمجھا گیا اور اس طرح ہر ملک نے اپنی سرحدوں کواس تجارت کے لئے کھولنا شروع کر دیا۔ یہ عمل صرف برآمد کا نہیں بلکی درآمد کا بھی ہے۔


اس ضمن میں ہندوستان نے بین الاقوامی یونیورسٹی کو کل وقتی آف لائن موڈ پر مبنی کورسیس کو منعقد کرنے کی شرط رکھی۔ اس کا ذکر ہمیں یو-جی-سی کے جاری کردہ ریگولیشن سیٹینگ اپ اینڈ آپریشن آف کیمپسیس آف فورین ہائیر ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن ان انڈیا 2023 میں دستیاب ہو سکتا ہے۔
یو -جی -سی کے چیر پرسن ایم جگدیش کمار کے مطابق اس ریگولیشن کی مدد سے ہمارے ہندوستانی طلباء کی رسائی بین الاقو امی اعلی معیاری تعلیم سے اپنے ہی ملک میں ہو سکے گی۔ اگر ہم 2020 کی شماریات کا جائزہ لیں تو کم ازکم 4,50,000 ہندوستانی طلباء اعلی تعلیم کے لئےبین الاقوامی ممالک کا رخ کیے ہیں۔
اس طرح 28-30 بلین یو ایس ڈالر کے فنڈ بین الاقوامی ممالک میں ترسیل ہوئے ہیں۔ سٍکہ کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی اسٹوڈنٹس بھی اس نظام کی طرف راغب ہوں گے اگر بین الاقوامی یونیورسٹیاں ہندوستان میں قائم ہوتی ہیں۔ اس صورت حال کو ایم جگدیش کمار نے وٍن -وٍن سچویشن کہا ہے۔ مقبولیت اور ڈیمانڈ کے مطابق یونیورسٹیوں اور ان کے پروگرام ہندوستان میں اپنے قیام کی شروعات کر سکتے ہیں۔ درج ذیل کورسیس چلانے والی یونیورسٹیوں کے قائم ہونے کے امکانات قوی ہیں:
مالیاتی انصرام - Financial Management
فنٹیک میڈیا - Fintech Media
ڈیجیٹل مارکیٹینگ - Digital Marketing
بز نس اینالیٹیکس - Business Analytics
سائنس - Science
انجنیرنگ - Engineering
میتھیمیٹیکس - Mathematics


اس کے علاوہ ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کے شعبے کو اہمیت حاصل ہوگی۔چند یورپین یونیورسٹیوں نے ہندوستان سے پہلے ہی ربط بنانا شروع کردیا ہے۔ حکومتِ ہند نے 55 ممالک کے سفارت کاروں کو ڈرافٹ کے تعلق سے باز رسائی کے لئے خط و کتابت کی ہے۔ بین الاقوامی اعلی تعلیمی انسٹی ٹیوٹ کو خودمختاریت حا صل ہوگی کہ اس میں داخلے کے شرائط اپنے مرکزی کیمپس کے مساوی ہوں۔ چونکہ فیکلٹی کی تنخواہ کی ادائگی یونیورسٹی کے ذمہ ہے اس لحاط سے انہیں فیکلٹی کے انتخاب کا حق حاصل ہوگا۔ معیاری اور موزوں افراد کا انتخاب یونیورسٹی دنیا کے کسی بھی خطہ سے کر سکتی ہے۔
جہاں تک ٹیوشن فیس کا تعلق ہے اسے شفاف اور معقول رکھنے کی شرط ریگولیشن میں موجود ہے۔ ہندوستان کے قومی مفاد کو محفوظ رکھنے کے لئے یو-جی-سی بین الاقوامی اعلی تعلیمی انسٹی ٹیوٹ سے سالانہ رپورٹ طلب کرے گی جس میں پروگرام کی مکمل تفصیلات ہونگی۔ یہ تفصیلی رپورٹ ان کی ویب سائٹ پر بھی موجود رہیگی جس کے تحت ریگولیٹری فورم کے خلاف ورزی کی شنا خت آسانی سے ہوسکے گی۔
اگر کسی طرح کے کوئی منفی نتائج ، غلط استعمال یا حقیقت کو دبانے جیسے حالات پیش آئیں تو یو-جی-سی کو اختیار ہوگا کہ وہ جرمانہ عائد کر سکے یا ان کی اجازت /منظوری کو واپس یا رد کر سکتی ہے۔ یو-جی-سی کے اس قدم کے بارے میں اعلی تعلیم کے ایک شعبے نے تابوت میں آخری کیل سے تشبیہ دی ہے۔
ان کے مطابق یہ شق ملکی اعلی تعلیمی نظام خاص کر عوامی طور پر فنڈ شدہ یونیورسٹیوں اور کالجز کی تباہی کا باعث ثابت ہوگی۔ وجہ صاف ظاہر ہے : فارین یونیورسٹی کی چمک دمک، معیار ، پر کشش تنخواہ اور بہترین کریئر کے فراق میں اچھے فیکلٹی اور اسٹوڈینٹس سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
دوسرا خوف جو ظاہر کیا جا رہا ہے وہ ہندوستان کی خالص تہذیب و ثقافت ، اقدار و عقائد پر منفی اثرات کے امکانات ہیں۔ چند تعلیمی ماہرین مسودہ کی ٹاپ 500 میں شامل ہونے پر تنقید کرتے رہے ہیں کیونکہ یہاں کوئی مختص رینکینگ سسٹم کا ذکر نہیں ہے۔ اس لئے یہ اندازہ ممکن نہیں کہ کونسی بہترین و اعلی 1- 500 رینک والی متعدد ڈسپلن کی یونیورسٹی ہندوستان آ پائے گی؟ ان شبہات کے جواب میں مثبت ذہن والے تعلیمی ماہرین نے چند تجاویز پیش کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:


1۔ عوامی یونیورسٹی کے معیار ، سہولیات و تنخواہ کو خاطر خواہ اہمیت دی جائے اور انہیں بہتر کرنے کے لئے ہرممکن کوشش کی جائے۔
2۔ عوامی یونیورسٹی کے طلباء کو بہترین کئیریر کے مواقع فراہم کیے جائے۔
3۔ نصاب اور درسیات کی تشکیل میں ملکی اہداف و مقاصد کی پاس رکھی جائے۔
4۔ یو-جی -سی کے ذریعے تشکیل ہونے والی اسٹانڈینگ کمیٹی پر بہت سی چیزیں انحصار کرتی ہیں، اس لیے ان میں زرخیز دماغ کی شمولیت ضروری ہے۔
5۔ اعلی تعلیمی یونیورسٹی کی اسکرینیگ اور شناخت کا عمل انتہائی شفاف اور معیاری ہونا چاہیے۔
6۔ دو دہائی سےبیک برنر پر رکھے ہوئے اس عمل کو حقیقی شکل دینے کی ذمہ داری ملک کے ہر فرد پر عائد ہے جو تعلیم سے کسی بھی ذریعے سے جڑا ہے۔ اس لیے ضروری ہیکہ ہم اپنے سجھاؤ یو-جی-سی کو جلد ازجلد دیں۔


بین الاقوامی اعلی تعلیمی انسٹی ٹییوٹ کے آمد سے نہ صرف اعلی تعلیمی معیار کو نئی وسعت عطا ہوگی بلکہ طلبا و اساتذہ کو بھی نئے مواقع فراہم ہونگے۔ تبدیلی اور ٹرانسفورمیشن میں واضع فرق ہے۔ اس لیے اب تبدیلی نہیں بلکہ ٹرانسفورمیشن کی ضرورت ہے۔ اس طرح بہترین ذہن جو اعلی تعلیم کے لیے بیرون ملک کا رخ کرتے ہیں یا انہیں بیرون ملک کی کشش ، تابناک مستقبل راغب کرتا ہے وہ طلباء اپنے ملک میں ہی اپنی تعلیمی پیاس کو بجھا سکتے ہیں اور بہتر مستقبل کے جانب گامزن ہو سکتے ہیں۔ والدین کے لیے بھی یہ ایک طرح سے راحت کی بات ہوگی۔ جو اخراجات اور جدائی دونوں کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ معیار ہندوستان کو مضبوط اور خودکفیل بنانے میں ایک قدم آگے لے جا سکتا ہے بشرط اس عمل کو صحیح سمت درکار ہو سکے۔

***
ڈاکٹر خان شہناز بانو
ایسوسی ایٹ پروفیسر و پرنسپل ، مانو کالج آف ٹیچر ایجوکیشن اورنگ آباد

Higher education in India and permission to International Educational Institutions

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں