معروف شاعر، ادیب اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد کا انتقال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-02-10

معروف شاعر، ادیب اور ڈرامہ نویس امجد اسلام امجد کا انتقال

amjad-islam-amjad
امجد اسلام امجد 4/ اگست 1944ء کو لاہور میں پیدا ہوئے، انھوں نے 1967 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا، 1968 تا 1975 ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ اردو میں استاد رہے اور اگست 1975 میں انہیں پنجاب آرٹ کونسل کا ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔
امجد اسلام امجد نے شاعر، ڈرامہ نگار اور نقاد کی حیثیت سے شہرت حاصل کی، ان کے مشہور ڈراموں میں وارث ،دن اور فشار شامل ہیں۔ انہیں ستارۂ امتیاز، صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سمیت متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کا انتقال آج بروز جمعہ 10/فروری 2023ء لاہور میں ہوا۔

آج اردو کے نامور شاعر، کالم نگار، مترجم ، اور ڈراما نگار امجد اسلام امجد نے بھی اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ دیا۔ امجد اسلام امجد ایسے شاعروں میں رہے ہیں جو عوام اور خواص دونوں میں یکساں مقبول تھے۔ ان کا لطیف اور رواں انداز بیان اور زندگی کی ہلکی پھلکی باتوں کو شاعری میں گہرا رنگ عطا کر دینا انفرادی شناخت ٹھہرا۔
امجد اپنی خوبصورت شاعری کے لیے مشہور رہے ہیں اگر آپ کو شاعری میں جمالیات کا خوبصورت نمونہ دیکھنا ہو تو امجد کی نظمیں اور غزلیں پڑھیں۔ آپ کو اگر پانچ دس اچھے اشعار کا انتخاب کرنا ہوگا تو آپ کو مشکل ہوگی کہ امجد کے درجنوں اشعار ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ شاعری کے دو درجن سے زائد مجموعوں کے ساتھ ساتھ کئی سفرنامے لکھے، مضامین و کالم لکھے، ڈراموں کے اسکرین پلے تحریر کیے۔ ان کے ڈرامے وارث کو غیر معمولی مقبولیت ملی۔ انھوں نے عربی و افریقی نظموں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔


ان کی نظموں کی ایک الگ دنیا ہے۔ ان نظموں میں امجد کا فن اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ میری امجد اسلام امجد سے دو ملاقاتیں رہی ہیں۔ ایک جے۔این۔یو میں اور دوسری این سی پی یو ایل کے دفتر میں۔ امجد اسلام امجد نے اپنی کئی نظمیں سنائی تھیں اور سامعین سے داد وصول کی تھی۔ امجد نے کئی سفرنامے بھی لکھے جن میں ہندوستان کے دورے پر مشتمل سفرنامہ ہے: "جس دیش میں گنگا بہتی ہے"۔
اس سفرنامے سے ہمارے ملک اور یہاں کے لوگوں سے ان کی محبت اور عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ برزخ، فشار، ذرا پھر سے کہنا، ساحلوں کی ہوا، زندگی کے میلے میں جیسے شعری مجموعے کافی مقبول ہوئے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی ڈرامے لکھے ہیں۔ ان پر تقریباً 30 سے زہادہ تحقیقی مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ بے پناہ شہرت اور ناموری ان کے حصے میں آئی اور وہ اردو دنیا میں خوبصورت لہجے کے شاعر کے طور پر مشہور رہے ہیں۔ انھیں ایک درجن سے زائد ایوارڈ اور اعزازات سے نوازا گیا اور وہ آرٹس کونسل و یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے۔
لیکن ان سے ملتے یا بات کرتے ہوئے لگا کہ ایک بہت عا م سا انسان اپنی شاعری سنا رہا ہے اور یہی انکساری انھیں بڑا شاعر بناتی ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے؛ ور اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ۔ آمین۔


بطور خراج عقیدت ان کے کچھ اشعار۔۔۔


سنا ہے کانوں کے کچے ہو تم بہت سو ہم
تمہارے شہر میں سب سے بنا کے رکھتے ہیں
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرز منافقت
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے
ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی
یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے
یہ بھی تو اپنی جگہ ایک پریشانی ہے
ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی
مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے
بات تو کچھ بھی نہیں تھیں لیکن اس کا ایک دم
ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا
صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں امجد
آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرا چمکا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا
کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غم زندگی کے فشار میں
وہ جو درج تھا ترے بخت میں سو وہ ہو گیا اسے بھول جا
اب وہ آنکھوں کے شگوفے ہیں نہ چہروں کے گلاب
ایک منحوس اداسی ہے کہ مٹتی ہی نہیں
مرے کاسۂ شب و روز میں
کوئی شام ایسی بھی ڈال دے
سبھی خواہشوں کو ہرا کرے
سبھی خوف دل سے نکال دے
سر کہکشاں مرا عکس ہو
مرے شوق کو پر و بال دے
مرے فن سے پھیلے جو روشنی
اسے پھر کبھی نہ زوال دے
مرے خوش نظر مرے خوش خبر
یہ جو رات ہے اسے ٹال دے
مرے گلستاں پہ نگاہ کر
اسے اپنا رنگ جمال دے
***
عبدالحئی ،سی ایم کالج، دربھنگہ ، بہار۔
ایمیل: ahaijnu[@]gmail.com

Literary icon Amjad Islam Amjad passes away in Lahore

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں