سال 2022ء کے تناظر میں اردو زبان و ادب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-01-23

سال 2022ء کے تناظر میں اردو زبان و ادب

ادب کو پچھلی کئی صدیوں سے تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور اخلاقی، انسانی اقدار اور لسانی اسالیب کے نسل در نسل منتقل کرنے کا ذریعہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے اس کے ذریعے اسلاف کی مایۂ ناز شخصیات کے فکر و فن سے استفادہ کرنے کی روایت بھی پائی جاتی رہی ہے۔ ادب کی تخلیق ہر زبان میں ہوئی ہے کیوں کہ حسِ ادب انسانی فطرت کے خاصّے میں شامل ہے، اردو زبان کا دامن بھی ادب کے حوالے سے بہت وسیع ہے اردو زبان کا ادب ہندوستانی تہذیب و معاشرت کے ہزار رنگ سے آراستہ ہے اس میں تنوع کے ساتھ گہرائی و گیرائی بھی پائی جاتی ہے، ادب کا اپنا ایک وسیع حلقہ رہا ہے، اس کے مزاج میں ہندوستان کی طرح جمہوریت کا عنصر غالب رہا ہے لیکن پچھلی کچھ دہائیوں میں فرقہ پرست عناصر نے اس پہ مذہب کا لیبل لگا کر اس کا دائرہ تنگ کرنے کی کوشش کی ہے، اکیسویں صدی میں اگر ایک طرف اردو زبان کو جدید وسائل کے ذریعے فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے وہیں دوسری طرف اس کو کئی طرح کے چیلنجز کا بھی سامنا رہا ہے۔


اردو زبان و ادب کا اپنا ایک ارتقائی سفر رہا ہے، جس میں نشیب و فراز دونوں ہی رہے ہیں، اگر 2022 کے منظرنامے میں اردو ادب کے ارتقاء اور اس کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے تو مجموعی طور پہ یہ بات یقینی طور پہ کہی جا سکتی ہے کہ اس نامساعد دور میں بھی اہالیان اردو اردو کی ترویج و ارتقا کے لئے کمر بستہ رہے ہیں۔ بےشک اردو زبان جس کو کہ کچھ لوگ مسلمانوں کی زبان کہتے ہیں اس کو اپنوں کی بے توجہی، عدم دلچسپی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے، لیکن ایسے حالات میں بھی محبین اردو کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اس کو عہد جدید کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے اس کا مستقبل روشن کرنے کے لئے مسلسل کوشاں ہیں۔


اس وقت ہم 2022 کے تناظر میں اردو ادب کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سال بھی اردو ادب کی بساط پہ بےشمار کتابیں شائع ہوئیں جو کہ افسانے، مضامین،صحافت، انشائیہ نگاری، تحقیق و تنقید، شاعری جیسی تمام معروف اصناف پہ لکھی گئیں، جس میں نوآموز قلمکار کے ساتھ کہنہ مشق اور مایۂ ناز قلمکار کی کتابیں بھی شامل ہیں جس میں افادات شبلی، علامہ شبلی کے فارسی خطوط:ایک مطالعہ (ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی) جہات اقبال (ڈاکٹر محمد مرتضی) جدید اردو صحافت کا معمار قومی آواز، مقالات ابن احمد نقوی، دینی رسائل کی صحافتی خدمات کا دوسرا اضافہ شدہ ایڈیشن، جی ڈی چندن کی نادر صحافتی تحریریں، اردو زبان مقبول بھی مظلوم بھی (سہیل انجم) بہار میں اردو انشائیہ نگاری (ڈاکٹر نفاست کمالی) کھرے کھوٹے(اظہار خضر) کتاب بن پھول (مترجم احمد کمال حشمی) آسماں کیسے کیسے (ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی) مڈل کلاس (محمد ذاکر) کہانی ختم ہوئی (ابوللیث جاوید) آبیاڑہ (مرتبہ رمیشا قمر) ہندوستان میں معذور بچوں کا نظام (مترجم تعلیم فیض اللہ خان) سرمایۂ تنہائی (انیس نبیل) جنون آشنا (حسن امام قاسمی) راستے خاموش ہیں (مکرم نیاز) ناول ارسلان اور بہزاد(خالدجاوید) نصف صدی کا قصہ ( سیدمحمد اشرف ) سسٹم (عبدالصمد) شہر ذات (شاہد اختر ) صفر کی توہین ، جوکر (اشعر نجمی ) خود نوشت ہندوستانی سیاست اور میری زندگی (محسنہ قدوائی ) نہ ابتدا کی خبر ہے نہ (شارب ردولوی ) دیکھ لی دنیا ہم نے (غضنفر ) طفل برہنہ پا کا عروج ( جلیس احمد خاں ترین ) علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور میری داستان حیات (الما لطیف شمسی) جیسی بےشمار اعلی علمی و ادبی کتابیں شائع ہوئیں جو کہ اردو ادب کی بساط پہ ایک گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔


بےشک ہر مصنف کے طرز اسلوب، زاویۂ فکر، اور اس کے نظریات سے صد فیصد متفق یا متاثر نہیں ہوا جا سکتا اختلاف سے ہی افکار کو مہمیز ملتی ہے۔ لکھنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ایک مصنف اسی وقت قلم اٹھائے جب کہ اسے عوامی سطح پہ قبولیت ہائے عام کی سند حاصل ہوگئی ہو، لکھنے کے لئے لازمی شرط یہ ہے کہ الفاظ و اسالیب پہ دسترس حاصل کرنے کے ساتھ خیالات و نظریات کی تخلیق کے فن پہ مہارت حاصل ہو، پھر تحریریں اپنے قاری خود پیدا کرلیتی ہیں، قاری کسی بھی نظریے کی تکرار سے بہت جلد اوب جاتا ہے وہ چاہتا ہے کہ منکشف شدہ حقائق سے آگے بڑھ کر زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو مرکز فکر بنایا جائے۔ اس تناظر میں اگر ہم گزشتہ سال کی تخلیقات کا جائزہ لیں تو ہمیں اس بحر میں کچھ خالی سیپیں نظر آتی ہیں تو کچھ سیپیوں میں ندرت و جدت کے لعل و گہر بھی ملتے ہیں جس نے ذہن و فکر کو آسودگی بخشی ہے، اس طرح کی کوششیں ہر دور میں جاری رہی ہیں ان میں سے اعلی درجے کا ادب خود اپنی حیثیت منوا کر کلاسیکیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے، اہم یہ ہے کہ کوشش کا عمل جاری رہے اور انسانی اذہان و افکار جمود کا شکار نہ ہوں۔


زندگی کے دوسرے شعبوں میں آنے والی تبدیلیوں سے ادب کا شعبہ بھی متاثر ہے اب اس میں مافوق الفطرت عناصر سے زیادہ حقیقت پرستی کو غلبہ حاصل ہو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ 2022 میں زیادہ تر ایسی تحریریں لکھی گئیں جو بدلتے ذہنوں کے تقاضوں سے ہم آہنگی اختیار کرنے کی کوشش میں ہے۔
اس رویے و نظریے کو پزیرائی بھی مل رہی ہے یہ سائنس کا دور ہے جس نے نوجوان ذہنوں کے اندر سوالات کی بوچھاڑ کر دی ہے وہ خیالی قصوں کہانیوں سے متاثر نہیں ہو رہے یہ رویہ انسانی ذہن کے ارتقاء میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے وہیں اس کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں حالیہ ادب نے ان تمام پہلوؤں کو اپنے اندر سمونے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کے مطالعہ سے ذہن و فکر کو وسعت ملتی ہے۔


گزشتہ سال کو اردو کی صحافتی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اس سال اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن پورے ملک میں جوش و خروش سے منایا گیا، اس موقع پہ دو سو سالہ تاریخ کا نہ صرف تجزیہ کیا گیا بلکہ موجودہ وقت میں اردو صحافت کو درپیش چیلنجوں کے حوالے سے بھی غور و فکر کی گئی، بےشمار سیمینارز اور ویبینارز کا انعقاد کر کے کہنہ مشق اردو صحافیوں نے اپنے اپنے خیالات کو بڑی بےباکی کے ساتھ پیش کیا جس سے اختلاف و اتفاق کرنے میں ہم آزاد ہیں۔ اردو زبان کی ترویج و ارتقاء میں اردو صحافت کا بڑا دخل رہا ہے اس کے ذریعے اردو زبان کو عام سطح پہ بھی خاص پزیرائی حاصل ہوئی اردو صحافت کا اردو ادب پہ بڑا احسان رہا ہے یہ الگ بات ہے کہ جدید وسائل اور حکومت کی سرپرستی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اردو صحافت کی صحت پہ گہری ضرب پڑی ہے اس پہ سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور اس پہ ترجمہ اور نقالی کا لیبل بھی لگایا جا رہا ہے ان تمام الزامات کے باوجود بےشمار اردو اخبار ملک عزیز میں پابندی سے نکلتے رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس کا تناسب وقت کے ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے۔


صحافت کے موجودہ منظر نا مے پر غور کریں تو RNI کے مطابق 2015- 16 میں 5,17,75,006 اردو اخبارات کی کاپیوں کی سر کولیشن کا دعویٰ کیا گیا تھا جو بتدریج سا بقہ تین برسوں سے بڑھ رہا تھا لیکن 20120-21 میں سرکلیشن کا دعویٰ 2,61,14,412 کا ہی ہے ۔ تقریبا پچاس فیصد گراوٹ کی وجہ شاید کورونا رہی ہو کیونکہ بہت سارے اخبارات دم توڑ چکے تھے، ایسے دور میں کچھ ایسے اخبارات ہیں جو اپنے معیارات کو بلند سے بلند کرنے میں مصروف ہیں گزشتہ سال میں بھی روزنامہ انقلاب اور راشٹریہ سہارا، قومی تنظیم، سیاست قارئین تک اردو کا صحافتی معیار بلند کرنے میں لگے رہے۔ 2022 میں اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پہ ایک طرف جہاں جشن منایا گیا وہیں دوسری طرف صحافت پہ ایسی کتب بھی منظر عام پہ آئیں جس نے اردو صحافت کی تاریخ کا مکمل احاطہ کرتے ہوئے آگے کی راہ کو روشن کرنے کی کوشش کی ہے، اس حوالے سے وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم صاحب کی کتاب تو واقعی نہایت اہمیت کی حامل ہیں اس کے علاوہ روزنامہ انقلاب کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ڈاکٹر یامین انصاری کی کتاب صدائے دل کا اجراء ہوا ان کی یہ کتاب ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جس کو کہ سالہا سال تک پڑھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اس میں صحافت کے ساتھ ساتھ ادب، تعلیم کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے، اردو صحافت کی بساط پہ ماس میڈیا اور صحافت ایک گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتی ہے جس کے مصنف روزنامہ انقلاب نارتھ انڈیا کے سابق ایڈیٹر شکیل حسن شمسی صاحب ہیں اس میں پرنٹ نیوز، ریڈیو، ٹی وی، اور سوشل میڈیا پہ ہونے والی صحافت کی تاریخ اور تعریف بیان کی گئی ہے، اردو صحافت کے حلقوں میں اسے غیر معمولی پزیرائی حاصل ہوئی اس کی کامیابی میں اردو زبان کا بھی بڑا دخل ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری کتابیں شائع ہوئیں ہیں جس کو اس مختصر مضمون میں سمیٹنا مشکل ہے۔


2022 کے تناظر میں اردو زبان و ادب کے حوالے اگر کچھ نئی پیش رفت کی گئی تو بےشک اس زبان کے معیار پہ ضرب بھی لگی ہے جس سے کہ ہم نظریں نہیں چرا سکتے ہر گزرتے وقت کے ساتھ اردو زبان کے معیار پہ لوگ سمجھوتہ کئے جا رہے ہیں لوگ اس زبان کو محض بولنے کو ہی کافی سمجھنے لگے ہیں صحیح تلفظ اور لفظوں کے برمحل استعمال کو قطعی اہمیت نہیں دے رہے جس کی وجہ سے اداروں کی سطح پہ بھی اس بگاڑ کو دیکھا جا سکتا ہے اپنے مشاہدے میں میں نے خود یہ پایا کہ کالج کی سطح پہ اردو پڑھانے والے اساتذہ کا تلفظ بھی غلطیوں سے خالی نہیں اور طلبہ اسے درخوار اعتنا سمجھنے کو روادار نہیں صاحب حیثیت اردو قلمکار بھی اردو اخبار و رسائل خرید کر پڑھنے کو ضروری نہیں خیال کرتے انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر کے وہ شیئر کر کے اپنے فن کی داد حاصل کر لیتے ہیں اگر یہ لوگ خود ایسا کریں گے تو پڑھنے والا طبقہ کیوں کر اخبار و رسائل کو خرید کر پڑھنے کی اہمیت کو سمجھے گا۔ انحطاط کا یہ سلسلہ گزشتہ سال بھی قائم رہا جس پہ کہ ہم سبھی کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔


اردو ادب کی ترویج و ارتقاء رسائل و جرائد کا ہمیشہ سے ایک نمایاں کردار رہا ہے اس حوالے سے گزشتہ سال میں شائع ہونے والے ادبی رسائل کی بات کی جائے تو ہم اس کی صورتحال زیادہ تشفی بخش نہیں پاتے کورونا نے ان رسائل و جرائد کی اشاعت پہ جو ضرب لگائی تھی اس سے بہت سے ماہنامے ابھی بھی باہر نہیں نکل سکے ہاں سہ ماہی رسائل کی حالت اس سے قدرے بہتر ہے جن میں عالمی فلک ، ثالث ، دربھنگہ ٹائمز ، مژگاں ، اردو جرنل پٹنہ ،جہان اردو ، نیاورق ،تمثیل نو، دیدبان ، ساغرادب ، اثبات ، انتساب ، استفسار ، امروز ، رہروان ادب ، انشا ، فکر و تحریر ،تکمیل ، تفہیم،جدید فکرو فن، عالمی ادبستان و دیگر نے خوب محنت کی۔ سرکاری رسائل میں، فکرو تحقیق، ادب و ثقافت ،زبان و ادب، روح ادب ، شیرازہ ، ہندوستانی زبان، بھاشا سنگم ، فروغ ادب وغیرہ نکل رہے ہیں۔ اس دور میں ندائے ادب، اور ادب عالیہ جیسے سہ ماہی رسالے کی اشاعت کا آغاز بھی کیا گیا۔


2022 کے اردو زبان و ادب کا اگر مجموعی طور پہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ محبین اردو کو اس پہ خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ صورتحال تشویشناک نہیں لیکن اگر اس پہ ابھی حسب ضرورت توجہ نہیں دی گئی تو وقت کے ساتھ اس کی تنزلی بڑھتی چلی جائے گی جو ادب کے ساتھ اردو زبان کے لئے بھی ایک بڑا خطرہ بن جائے گی۔
مجموعی طور پہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ 2022 میں تخلیق کیا جانے والا ادب اپنی پچھلی روایت کو قائم کرنے کی کوشش میں رہا اور کتب و رسائل کی اشاعت انھیں کوششوں کا نتیجہ رہی، ڈجیٹل اسکرین پہ بھی اردو ادب کی روزافزوں افزائش ہوتی نظر آئی ایک بڑی تعداد میں ای بک کی اشاعت بھی عمل میں آئی۔ اردو زبان کی بقا و ارتقاء کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اسے جدید وسائل سے آراستہ کیا جائے نئی نسل نسل کے ذہن کو ایڈریس کرتے ہوئے ادب کی تخلیق کی جائے گزشتہ سال کا اردو زبانو ادب کچھ اس طرح کے نشیب و فراز کے ساتھ گزرا۔

***
علیزے نجف۔ سرائے میر، اعظم گڈھ، اترپردیش
ایمیل: alizeysikander[@]gmail.com

Urdu language and literature in the context of the year 2022. Review: Alizey Najaf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں