سائنس جرنلزم ایک ایسا موضوع ہے جس کے تحت ہمارے معاشرے میں تشفی بخش بیداری نہیں پائی جاتی ان کے نزدیک جرنلزم سیاست کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ سائنس ایک ایسا موضوع ہے جس کے تحت معاشرے میں آگاہی کا پیدا ہونا وقت کے ساتھ ضروری ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری زندگی میں کئی ایسے مسائل بڑی تیزی سے سر اٹھا رہے ہیں جن سے نمٹنے کے لئے بنیادی سائنسی علم کا ہونا از حد ضروری ہے سائنس کے حوالے سے بیداری پیدا کرنے والوں میں ایک قابل ذکر نام صادقہ خان کا بھی شامل ہے سائنس جرنلزم ان کا پروفیشن ہے یہ ایک بلاگر اور رائٹر بھی ہیں ان کا تعلق پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے ہے انھوں نے نامساعد حالات کا پامردی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے نہ صرف سائنس میں اعلی تعلیم حاصل کی بلکہ سائنشیا [Scientia] نامی ادارے کی بنیاد بھی رکھی، انھوں نے اپنے محدود وسائل کا بخوبی استعمال کرتے ہوئے اپنے لئے ترقی کی راہ ہموار کیں۔ اس کے علاوہ وہ کئی انٹرنیشل سائنسی اداروں کے ساتھ بطور سرگرم کارکن کے وابستہ ہیں، انھیں بلوچستان کی پہلی خاتون جرنلسٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ وہ ماحولیات کے ضمن میں پیدا ہونے والے عدم توازن کے حوالے سے ریسرچ ورک بھی کر رہی ہیں طلبہ میں سائنس سے رغبت پیدا کرنے کے لئے سائنسی میگزین بھی اپنی ادارت میں نکال رہی ہیں۔ صادقہ خان سائنسی شعبے میں بہتوں کے لئے ایک انسپریشن کی حیثیت رکھتی ہیں، اس وقت وہ میرے سامنے ہیں، میرا متجسس ذہن سوالات کی ترتیب کے ساتھ ان سے گفتگو کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش میں مصروف ہے میں اپنے سوالات کے پلندہ کے ساتھ ان سے براہ راست مخاطب ہونے جا رہی ہوں۔
علیزے نجف:
سب سے پہلے میں آپ سے آپ کا تعارف چاہتی ہوں اور یہ بھی جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے اور اور اس خطے کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟
صادقہ خان:
میرا تعلق بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے ہے۔ میری پیدائش اور تعلیم اسی شہر کی ہے۔ میرے والدین دو علیحدہ ثقافتوں کے امین ہیں۔ میری والدہ کی پیدائش آگرہ انڈیا کی ہے جبکہ میرے والد اورکزئی پٹھان ہیں اور ان کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔اگرچہ میں لسانیات میں بہت کمزور ہوں اور بہت کوشش کے باوجود بلوچی یا پشتو نہیں سیکھ سکی مگر والدہ کی وجہ سے میری اردو ہمیشہ سے بہت اچھی رہی ہے کیونکہ ہمارے گھر میں اردو ہی بولی جاتی ہے۔
کوئٹہ کو برطانوی راج میں لٹل پیرس کہا جاتا تھا جو چاروں طرف سے سنگلاخ پہاڑوں میں گھری خوبصورت وادی ہے۔ اگرچہ اب حالات ، بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی ہجرت و آباد کاری ، اور حکومتوں کی عدم توجہ کی وجہ سے کوئٹہ اپنی تمام خوبصورتی کھو چکا ہے ۔ بلوچستان میں خواتین کو بہت کم حقوق اور آزادی حاصل ہے اور ہمیں یونیورسٹی یا آفس بھی اکیلے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ فی الوقت میں جاب اور دیگر پروفیشنل ضروریات کی وجہ سے اسلام آباد میں رہائش پزیر ہوں۔
علیزے نجف:
آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے اور اس سفر کا آغاز کس ادارے سے ہوا اور کہاں کہاں سے گذرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچا اور اس دورانیے نے آپ کی زندگی میں کس طرح کی دو واضح تبدیلیاں پیدا کیں؟
صادقہ خان:
میں نے بلوچستان یونیورسٹی سے اپلائیڈ فزکس میں فرسٹ پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کیا ہے۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں ملی تو آن لائن ہاروڈ یونیورسٹی، آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی اور متعدد انٹر نیشنل یونیورسٹیوں سے ایسٹروبایولوجی، ایسٹرو فزکس، سائنس رائٹنگ کے کورسز کئے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ حال ہی میں آکسفورڈ کلائی میٹ جرنلزم نیٹ ورک سے آن لائن ایک تربیتی سمیسٹر مکمل کیا ہے۔
علیزے نجف:
تعلیم کی افادیت مکمل طور پہ اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب تعلیمی نظام کو بدلتے وقت کے تقاضوں اور اعلی علمی اقدار سے ہم آہنگ کیا جائے آپ کو کیا لگتا ہے کیا موجودہ وقت کا تعلیمی نظام اس ضمن میں تسلی بخش کارکردگی انجام دے رہا ہے اس وقت کے تعلیمی نظام کی تین بڑے نقائص کیا ہیں؟
صادقہ خان:
میری تعلیم بلوچستان کی ہے جہاں کے تعلیمی اداروں کا حال بہت ہی برا ہے۔ تحقیق اور عملی سائنس کا رجحان ان اداروں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماسٹرز کے بعد کچھ عرصے میں درس و تدریس سے وابستہ رہی ۔ مگر جلد ہی مجھے محسوس ہوگیا تھا کہ اس تعلیمی نظام میں بلکل ان فٹ ہوں جہاں بچوں کو تعلیم سے محبت سکھانے کے بجائے انھیں تعلیم خصوصا سائنس بیزار بنایا جارہا ہے ۔ پاکستان میں تعلیمی نظام سب سے بڑا نقص پرانا اور فرسودہ سیلیبس ہے جسے موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا جارہا۔ دوسرا نقص غیر تربیت یافتہ اساتذہ ہیں۔ پرائیوٹ سکولوں کی بھر مار ہے جہاں پڑھانے والا اساتذہ عموما گائڈز سے لیکچرر کی تیاری کر کے آتے ہیں۔
تیسرا بڑا نقص عملی سائنس اور تجربات کے لئے تجربہ کار اساتذہ اور آلات کی کمی ہے۔ سائنسی مضامین پریکٹیکل کے بغیر بچوں کو پڑھائے جارہے ہیں اور وہ سائنسی قوانین ، مساواتوں وغیرہ کو تجربات کی کسوٹی پر پرکھے اور سمجھے بغیر ان کا رٹا لگانے پر مجبور ہیں۔
علیزے نجف:
آپ کی پوری تعلیم سائنس کے شعبے سے ہوئی آپ نے سائنس کا انتخاب اپنی خواہش کے تحت کیا یا گھر والوں کی خواہش تھی اگر آپ کو سائنس کے ساتھ کسی دوسرے علمی شعبے کا بھی انتخاب کرنا پڑے تو وہ کون سا شعبہ ہوگا؟
صادقہ خان:
فزکس میں تعلیم میرا پنا انتخاب تھی گھر والوں کی طرف سے کوئی مسئلہ مجھے نہیں ہوا۔ البتہ میری بڑی بہن اکنامکس پڑھنا چاہتی تھیں مگر والد کی خواہش اور دباؤپر انھیں ریاضی میں ماسٹرز کرنا پڑا تھا۔ فزکس کے بعد میری دلچسپی فلکیات اور ماحولیات میں ہے ۔ ایم فل ماحولیات میں ایڈمیشن بھی لیا تھا مگر یونیورسٹی میں اس حوالے سے تحقیق سے مطمئن نہیں تھی اس لئے چھوڑ دیا۔
علیزے نجف:
یہ دور ٹکنالوجی کا دور ہے جو کہ سائنس کے مرہون منت ہے اور اس پورے شعبے میں مسلمانوں کی کارکردگی خال خال ہی نظر آتی ہے جب کہ سائنسی علوم کی دریافت میں مسلمانوں کا ایک بڑا کردار رہا ہے میرا سوال یہ ہے کہ ایشیائی ممالک میں مسلمانوں کے اندر سائنس سے رغبت رکھنے والوں کا تناسب کیا ہے ان کی اس شعبے سے غیر وابستگی و بےرغبتی کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟
صادقہ خان:
اگر انفرادی طور پر دیکھیں تو پاکستان سمیت دیگر ایشیائی ممالک سے بے شمار سائنسدان امریکہ، برطانیہ، جرمنی، چین وغیرہ میں سائنس کی تمام فیلڈز میں غیر معمولی کارنامے سر انجام دے رہے ہیں اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مسلمان سائنسدان کچھ کر نہیں رہے۔ یہ ایک الگ امر ہے کہ اپنے وطن میں جب مناسب سہولیات اور ذریعۂ معاش نہیں ملتا تو یہ انتہائی با صلاحیت افراد وطن لوٹنے کے بجائے دیار غیر میں سکونت پزیر ہو جاتے ہیں۔
مجموعی طور پر مسلم ممالک کے سائنس اور ٹکنالوجی میں پیچھے رہ جانے کی وجہ یہاں حکومتوں کی سائنس و ٹیکنالوجی میں تحقیق کی جانب بے رغبتی ہے۔ آپ پاکستان ہی کو لے لیں ملٹری بجٹ سب سے زیادہ اور تعلیم و تحقیق کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ابھی کل ہی اعلان سامنے آیا ہے کہ بیرون ملک کے لئے دئیے جانے والے ایم فل، پی ایچ ڈی سکالر شپ میں 55 فیصد کمی کی جارہی ہے۔
جب ارباب اختیار ملک کی ترقی سے زیادہ ذاتی بینک بیلنس بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہوں اور ان کا اوڑھنا بچھونا ہی سیاست ہو تو ایسے میں سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کس طرح ہو پائے گی؟
علیزے نجف:
آپ سائنس جرنلسٹ ہیں اس حوالے سے آپ نے اب تک بےشمار آرٹیکلز لکھے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری و ساری ہے میرا سوال یہ ہے کہ جرنلزم میں سائنسی مضامین کو کیا قارئین کی طرف سے وہ ردعمل ملتا ہے جو کہ مطلوب ہے دوسرے میں یہ بھی جانتا چاہتی ہوں کہ آپ نے سائنس جرنلزم کا یہ سفر کب اور کیسے شروع کیا اور مستقل طور پہ کن اخبارات سے وابستہ ہیں ؟
صادقہ خان:
میں نے 2017 کے اوائل میں ڈان نیوز میں اردو زبان میں سائنس بلاگ لکھنا شروع کئے تھے ۔ اگرچہ بلاگز میں یہ ایک نئی جینری تھی مگر اس وقت کے ایڈیٹرز کی جانب سے مجھے بھرپور سپورٹ کیا گیا ۔ پاکستان میں سائنسی مضامین میں ایک خاص پڑھا لکھا طبقہ ہی دلچسپی رکھتا ہے ان میں بہت سے افراد ڈان بلاگز شوق سے پڑھا کرتے تھے تو مجھے ابتدا ہی سے بہت اچھا رسپانس ملا ۔اس طرح سلسلہ چل نکلا جنگ کراچی، ایکسپریس نیوز، ہلال میگزین اور متعدد دیگر ویب سائٹ پر اردو میں سائنسی مضامین لکھنے کے علاوہ ڈان ڈاٹ کام پر انگلش میں سائنسدانوں کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا جس کا فیڈ بیک اردو مضامین سے کہیں زیادہ اچھا تھا۔
تین سال تک ڈان میڈیاگروپ سے وابستہ رہنے کے بعد 2020 میں اسے خیر بعد کہا اور ڈوئچے ویلے اردو سروس جوائن کی۔ اس دوران بی بی سی اردو کے لئے بھی کچھ سا ئنسی مضامین لکھے مگر مجھے لگا کہ بی بی سی اردو سائنس رائٹنگ کے لئے موزوں نہیں سو جلد ہی چھوڑ دیا ۔ جبکہ جرمن میڈیا ڈوئچے ویلے کی میں اب باقاعدہ ملازم ہوں۔ اس کے ساتھ ہی گاوی، کلائیمیٹ ٹریکر، اور کئی بین الاقوامی اداروں کے لئے سائنس رپورٹس کرتی رہتی ہوں۔
علیزے نجف:
آپ کو بلوچستان کی پہلی خاتون سائنس جرنلسٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس کے علاوہ لیڈنگ وومن ان سائنس کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں میں چاہتی ہوں آپ اپنے اس سائنسی سفر کے حوالے سے ادا کی جانے والی خدمات پہ مختصراً روشنی ڈالیں اور اگر سفر کی کوئی ایک خوبصورت یاد ہم سے شیئر کرنا چاہیں گی تو ہمیں خوشی ہوگی؟
صادقہ خان:
میں آج جہاں ہوں اس میں کبھی میری پلاننگ کا دخل نہیں رہا بس سب کچھ اللہ پاک کی رضا اور منصوبہ بندی سے ہوتا چلا گیا۔ میرے گھر والوں کی طرف سے میرے کیریئر میں کبھی کوئی سپورٹ نہیں کی گئی۔ ابتدا میں کافی اچھے ایڈیٹرز ملے جن سے بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملا مگر عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی سارے نا اہل افراد میڈیا پر ٹاپ پوزیشنز پر آگئے تھے جنھیں سائنس جرنلزم تو کیا جرنلزم کی اخلاقیات کا بھی علم نہیں تھا۔ سو اس دوران بہت سے تکلیف دہ واقعات سے گزرنا پڑا مگر ہمت نہیں ہاری اور سائنسی تعلیم و شعور کو عام کرنے کی اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
علیزے نجف:
تعلیم نسواں ایک ایسا پہلو ہے جو بےشک گزشتہ دو تین دہائیوں میں کم و بیش ہر علمی پلیٹ فارم پہ موضوع بحث بنا رہا جو کہ قابل ستائش ہے لیکن اب بھی اس ضمن میں مزید بیداری کی ضرورت ہے سائنس ایک ایسا شعبہ ہے جس میں عورتوں کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر ہے میرا سوال یہ ہے کہ آپ اس پورے منظرنامے کو کس طرح دیکھتی ہیں، اس کے پیچھے کن عوامل کو کارفرما خیال کرتی ہیں اور کس طرح عورتوں کو سائنسی علوم کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے؟
صادقہ خان:
سائنس جرنلزم ہی نہیں تقریبا تمام شعبوں میں خواتین کی نمائندگی ابھی بہت کم ہے۔ پاکستان میں گنتی کی سائنس جرنلسٹ ہیں وہ بھی زیادہ تر ماحولیات پر ہی رپورٹس کرتی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا سماجی نظام ہے جہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ کچھ پیشے صرف مردوں کے لئے ہیں۔ ان شعبوں میں اگر خواتین طبع آزمائی کرتی بھی ہیں تو انھیں مردوں کے منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گھر والے بھی کسی نئے شعبے کے لئے لڑکی کو سپورٹ نہیں کرتے۔ میرے اپنے ساتھ کچھ یہی صورتحال رہی ہے ۔ بلوچستان میں سائنس رائٹر کا کوئی مستقبل نہیں مگر فیملی یہی دباؤ ڈالتی رہی کہ سماجی موضوعات پر لکھ لو ، ٹیچنگ کرلو مگر کوئٹہ سے باہر نہیں جانا۔ تو اس طرح کے مسائل خواتین کو آگے بڑھنے نہیں دیتے۔ پھر شادی کے بعد گھر،بچوں کے مسائل بھی آڑے آتے ہیں اور خواتین ہمت ہار جاتی ہیں۔
علیزے نجف:
آپ آکسفورڈ کلائی میٹ جرنلزم نیٹ ورک کی ممبر ہیں اس وقت دنیا کو جو مسائل درپیش ہیں ان میں سے ایک بڑا مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی کا ہی ہے اس کی وجہ سے قدرت کا فطری نظام متاثر ہو رہا ہے موسموں میں اعتدال نہیں رہا میرا سوال یہ ہے کہ کیا سائنسی علوم اس بےاعتدالی کا حل رکھتے ہیں اور وہ حل کیا ہے عام انسانی آبادی کو اس کے منفی مضمرات سے بچنے کے لئے انفرادی طور پہ کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے؟
صادقہ خان:
صحافت میں میرا زیادہ تر کام ما حولیات پر ہے اور اپنے ادارے سائنشیا پاکستان کے ذریعے بھی ہم ماحول ، ایکو سسٹم، سمندری حیات وغیرہ کی حفاظت کے لئے شعور اجاگر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ ماحولیات ایک سائنسی مضمون ہے لیکن اگر آپ گہرائی میں جا کر دیکھیں تو یہ سوشل مضمون ہے جس کا براہ راست تعلق انسانوں کے رہن سہن سے ہے۔ یہ درست ہے کہ ماحول کو سب سے زیادہ نقصان صنعتی ترقی، کارخانوں، کول پاور پلانٹ وغیرہ سے پہنچا ہے مگر آپ دیکھیں کہ پا ور پلانٹس سے حاصل شدہ توانائی، کارخانوں میں بننے والی اشیاء سب ہماری روز مرہ زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔
لہذا ماحول کو بچانے کے لئے حکومتوں سے زیادہ عام افراد کو آگے آنا ،اپنے رہن سہن کو بہتر بنانا ہوگا۔ زمینی اور فضائی آلودگی اجتماعی کوششوں کے بغیر کم نہیں کی جاسکتی۔ اگر عام افراد اس حوالے سے آگے نہیں آتے تو قدرتی آفات کی شرح مزید بڑھے گی، ہیٹ ویوز معمول بن جائیں گی اور سمندروں کا پانی مزید گرم ہونے سے ایکو سسٹمز میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہو جائیں گی جن کو بدلنا ممکن نہیں ہوگا۔
علیزے نجف:
ہمارے یہاں یہ ایک عام تصور پایا جاتا ہے کہ سائنس انسان کو خدا سے برگشتہ کر دیتی ہے وہ نظام قدرت پہ سوال اٹھانا شروع کر دیتا ہے جبکہ سائنس کی ابتدائی تاریخ میں مسلم سائنسدانوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں میں یہ جاننا چاہتی ہوں آپ کے نزدیک اول الذکر خیال کی حقیقت کیا ہے کیا واقعی سائنس اور مذہب ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں جب کہ فی زمانہ بےشمار اسکالر قرآن کے ذریعے سائنس کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
صادقہ خان:
سائنس اور مذہب کا آپس میں ٹکراؤ بلکل نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ بلکل الگ اور علیحدہ جینریز ہیں۔ ان کا ٹکراؤ وہاں ہوتا ہے جب آپ ان کی حدود کو آپس میں گڈ مڈ کرتے یا ایک کے قانون کو دوسرے کے کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلامی قوانین اور قر آنی تعلیمات آفاقی ہیں۔ ہر بندہ ہر آیت کو اپنی ذہنی استطاعت، سمجھ بوجھ اور رجحان کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جیسے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قر آن پاک کے مختلف تراجم میں مفہوم کا فرق ہے۔
اسی طرح سائنس کی بھی سب کی اپنی سمجھ بوجھ اور اپنی حدود ہیں۔ اگر آپ اپنے گھر کی باؤنڈری کو توڑ کر ساتھ والے گھر کی باؤنڈری میں بیٹھنے پر اصرار کریں تو لا محالہ ٹکراؤ ہوگا۔ سائنس اور مذہب کو ملا کر پڑھنے اور سمجھنے کے لئے آپ کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے۔ مطلب یہ کہ نہ آپ سائنس کو حرف آخر سمجھیں نہ اسلامی تعلیمات میں اپنی یا کسی اور کی تشریح کو حرف آخر مان لیں۔ دونوں ہی میں ابھی مزید کھوج ، جستجو اور تحقیق کی ضرورت ہے۔
علیزے نجف:
آپ جرمن میڈیا ڈوئچے ویلے اردو کے ساتھ کام کر رہی ہیں آپ ہمیں اس ادارے کے بارے میں بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ انسانی معاشرے میں اس ادارے کی خدمات نوعیت کیا ہے اور اس میں آپ کا in put کیا ہے ؟
صادقہ خان:
میں جرمن میڈیا کی اردو سروس سے ڈھائی سال سے وابسطہ ہوں۔ ڈان ، بی بی سی اردو اور دیگر میڈیا ہاؤسز جن میں میں کام کرتی رہی وہاں سائنس کی جانب رجحان کم تھا۔ ان کی ترجیح سیاست یا معاشرتی مسائل ہوا کرتے تھے۔ جبکہ ڈوئچے ویلے اردو سروس کا زیادہ جھکاؤ سائنس خصوصا ماحولیات کی جانب ہے۔ اس حوالے سے یہ ادارہ صحافیوں کو تربیت بھی فراہم کرتا ہے اور سیمینارز، ورک شاپس کا بھی انعقاد کرایا جاتا ہے۔ اگر آپ ان کی ویب سائٹ چیک کریں تو آپ ماحولیات اور دیگر سائنسی موضوعات پر بہت سی ایسی رپورٹس دیکھیں گے جن کو پاکستان میں دیگر میڈیا آؤٹ لیٹس کور نہیں کرتے ۔ اس طرح ڈی ڈبلیو کی کوششوں سے عوام میں شعور بڑھ رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان سمیت پسماندگی کا شکار دیگر علاقوں کی آواز بھی سامنے آرہی ہے۔ بلوچستان کے مسائل سے متعلق ڈی ڈبلیو رپورٹس پر مجھے اب تک تین ایوارڈز مل چکے ہیں۔
علیزے نجف:
سائنشیا پاکستان نامی ادارے کی آپ سی۔ای۔او۔ ہیں آپ نے اس ادارے کی بنیاد کب اور کس مقصد کے تحت رکھی اس سے کتنے لوگ عملی طور پہ وابستہ ہیں اور اب تک کس سمت میں خاص پیش رفت کی اور مستقبل میں اس ادارے کے کیا اہداف ہیں؟
صادقہ خان:
میں نے 2018 کے اواخر میں ڈان ڈاٹ کام پر انگلش میں پاکستانی سائنسدانوں کے انٹرویو سیریز کا آغاز کیا تو فیڈ بیک میری توقع سے بہت زیادہ تھا۔ سلسلہ چل پڑا تو بیرون ملک تحقیق میں مصروف کئی سائنسدان اور پاکستانی طلباء مجھ سے رابطے کرنے لگے کہ تاکہ وہ بھی اپنے مضامین ڈان میں شائع کروا سکیں مگر ایڈیٹرز اکثر یت کو جواب بھی نہیں دیتے تھے۔ پھر ایک سینئر ایڈیٹر کی تبدیلی کے بعد مجھے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ نئے ایڈیٹر کی سائنس میں دلچسپی ہی نہیں تھی۔
جنوری 2019 میں اپنی ٹیم کے ساتھ خود ہی ایک سائنسی جریدہ نکالنے کی پلاننگ شروع کی اور ابتدائی دو سال سارا خرچہ بھی خود ہی اپنے محدود وسائل پر چلایا۔ ٹیم کے زیادہ تر ممبر یونیورسٹی سٹودنٹس اور لڑکیاں ہیں۔ الحمدللہ محنت کا صلہ ملا اور اب سائنشیا پاکستان انٹر نیشنل لیول پر پہچانا جاتا ہے۔ دنیا بھر سے پاکستانی سائنسدان میرے رابطے میں رہتے ہیں اور اپنی تحقیق یا اچیومنٹس، ایوارڈز وغیرہ کی خبریں، مضامین مجھے شائع کرنے کے لئے بھیجتے رہتے ہیں۔ 2020 میں ہمارا پراجیکٹ برلن سائنس ویک میں سائنس انگیجمنٹ کی کیٹگری کے فا ئنلسٹ میں بھی شامل تھا ۔
علیزے نجف:
ہمارے یہاں کتابیں پڑھنے کا رجحان پہلے کے مقابلے میں کم ہوتا جا رہا ہے اس کی وجہ اسکرین کی مبہوت کن دنیا بتائی جا رہی ہے ایسے میں رسائل و جرائد کی اشاعت پہ بہت منفی اثر پڑا ہے اگرچہ حالات بہت مایوس کن نہیں ہیں لیکن تسلی بخش بھی نہیں ہیں آپ خود اپنی ادارت میں ایک سائنس میگزین اپنے ادارے سے نکال رہی ہیں ہمارے یہاں ادبی رسالوں کے مقابلے سائنسی رسالوں کی اشاعت کا تناسب بہت ہی کم ہے آپ کو کیا لگتا ہے کیا اس طرح کے رسالے حسب توقع قارئین تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہیں کیا یہی وجہ ہے کہ بنیادی سائنسی علوم سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے نئی نسل اس شعبے میں دلچسپی پیدا کرنے میں ناکام ہے؟
صادقہ خان:
آپ کی بات سے متفق ہوں کہ اب کتابیں پڑھنے کا رجحان بہت کم ہوچکا ہے۔ ہمارا پراجیکٹ چونکہ شروع سے ہی نوجوان نسل کے لئے تھا تو ہم نے اسے ہارڈ کاپی کے بجائے ڈیجیٹل ہی نکالا۔ اس وقت ہمارے پاس اتنے وسائل بھی نہیں تھے پھر کوروناوائرس وبا کےبعد تو بہت کچھ ویسے ہی آنلائن ہوچکا ہے تو ہم نے ہارڈ کاپی کا اجراء ابھی تک نہیں کیا ۔ مگر ہم کچھ یونیورسٹیوں کے تعاون سے جلد اس کی اشاعت کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ یہ کاپیز ابتدا میں صرف تعلیمی اداروں کی لائبریریز کو فراہم کی جائیں گی۔ اس کے فیڈ بیک کے بعد ہی ہم فیصلہ کر سکیں گے کہ اسے آن لائن میگزین ہی رکھنا ہے یا اشاعت کا سلسلہ آگے بڑھانا ہے۔
علیزے نجف:
بات کتابوں کی ہو رہی ہے تو اس سوال میں میں آپ سے یہ جاننا چاہوں گی کہ مطالعہ سے آپ کو کس حد تک شغف ہے اور کتابوں کی طرف راغب کرنے میں کن عناصر نے اہم کردار ادا کیا ہے اور آپ کو کس طرح کی کتابیں پڑھنا پسند ہے؟
صادقہ خان:
کتابوں سے شغف بچپن سے ہے۔ میرے والد کتابوں کے بہت شوقین ہیں اور ان کی اپنی ایک کافی بڑی لائبریری ہے جس میں اردو، انگریزی، پشتو، بلوچی ، فارسی بہت زبانوں کی کتابیں ہیں۔ میری بہنیں اردو ناولز، سفر نامے، نثر پڑھتی تھی تو اس سے مجھے بھی عادت ہوتی گئی۔ شاعری، نثر، ناولز سب کچھ پڑھتی تھی۔ اب زیادہ تر سائنس کی کتابیں ہی پڑھتی ہوں۔ سائنس فکشن ناولز اور موویز کبھی مس نہیں کرتی۔
علیزے نجف:
ٹکنالوجی سائنس کے مرہون منت ہے اس کے اپنے بےشمار فائدے ضرور ہیں لیکن اس کے نقصانات بھی کچھ کم نہیں ٹکنالوجی کی ترقی کو دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ عنقریب انھیں کی انسانوں پہ حکمرانی ہوگی اور اس کی وجہ سے انسانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے میرا سوال اسی تناظر میں ہے کہ کیا انسانی معاشرے میں سائنس عدم توازن کا شکار ہے اس سائنسی ترقی کو متوازن بنانے کے لئے ہمیں کن علوم کی ضرورت ہے؟
صادقہ خان:
سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ ہر ایجاد کے فائدے اور نقصانات دونوں ہوتے ہیں۔ ہم انھیں جس طرح استعمال کرتے ہیں وہی اس ایجاد کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں توہمات، اور منفی سوچ کا راج ہے ہم مثبت سوچ کی طرف مائل ہی نہیں ہوتے۔ آپ سوشل میڈیا ہی لے لیں ۔ سوشل میڈیا کے اصل فوائد آپ کو وہ لوگ خصوصا خواتین بتائیں گی جو گھروں میں مقید ہیں اور اپنے حقوق کی آواز اٹھانا پہلے ان کے لیئے ممکن نہیں تھا۔ میں نے خود آن لائن کام کر کے جگہ بنائی اور یہاں تک آئی ہوں کیونکہ گھر سے اجازت نہیں ملتی تھی۔
اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی یا آرٹی فیشل انٹیلیجنس ، روبوٹکس وغیرہ سب کے اپنے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی ہیں۔ مگر یہ سمجھ لینا قطعا غلط ہے کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت انسانوں کو بائی پاس کر دے گی۔
علیزے نجف :
آپ نے جس جدوجہد اور حوصلے کے ساتھ سائنسی میدان میں اپنی خدمات انجام دی ہیں قابل ستائش ہے آپ اوروں کے لئے خصوصاً لڑکیوں کے لئے مشعل راہ ہیں آپ کی ان خدمات کو معاشرتی سطح پہ کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور اب تک کن اعزازات سے نوازا جا چکا ہے اس کے بارے میں ہمارے قارئین کو بتائیں؟
صادقہ خان:
میں نے کبھی بھی اعزازات یا شہرت کے لئے کام نہیں کیا۔ ابتدائی تین سال تک میں انٹرویوز دینے سے بہت ہچکچاتی تھی۔ میں تنہائی پسند ہوں اور مجھے اپنی پرائیسویسی بہت عزیز ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی بہت زیادہ ایکٹو نہیں ہوں اور نہ ہی پرسنل پوسٹنگ کرتی ہوں۔ اللہ پاک کا کرم ہے اس نے پھر بھی مجھے بہت عزت دی ہے۔ 2019 میں حکومت پاکستان کی طرف سے نیشنل سائنس ایوارڈ ملا۔ 2020 میں برلن سائنس ویک جرنلزم گرانٹ کے لئے منتخب کیا گیا۔ 2021 میں تعلیم کے حوالے میری خدمات پر برٹش ایوری وومن ان ٹیکنالوجی ایوارڈز کے لئے اکیڈیمک کیٹیگری کی فائنلسٹ منتخب ہوئی۔ اس علاوہ جرنلزم پر متعدد بین الاقوامی گرانٹس، ایوارڈز اور فیلو شپس جیت چکی ہوں۔
علیزے نجف:
اس دنیا میں انسانوں کو عطا کی جانے والی سب سے بڑی نعمت زندگی ہے جس کے متلعق ہر کسی کے اپنے اپنے نظریات ہوتے ہیں جو کہ ان کے علم و تجربے کی روشنی میں ترتیب پاتے ہیں میں آپ سے جاننا چاہوں گی کہ آپ کی نزدیک زندگی کی تعریف کیا ہے اور آپ اپنی زندگی کو کس طرح سے گزارنا پسند کرتی ہیں؟
صادقہ خان:
میری زندگی جہد مسلسل ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب میں کام کی زیادتی کے باعث اپنے لئے بلکل بھی وقت نہیں نکال پاتی تھی۔ اس میں مالی مسائل بھی شامل تھے مگر الحمدللہ مجھے میری محنت کا صلہ ملا اور مل رہا ہے۔ زندگی کو ہر کوئی اپنی ذہنی سطح پر پرکھتا ہے۔ کچھ لوگوں کے لئے یہ صرف انجوائمنٹ ہے۔ کچھ لوگ اسے بامقصد گزارنا اور دوسروں کے کام آنا پسند کرتے ہیں میرا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ بچپن میں اشفاق احمد کی کتاب زاویہ پڑھی تھی تب سے یہ موٹو رکھا ہے کہ " اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے او ر آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرما ئے"۔ تعلیم کی روشنی اور شعور پھیلانا بھی ایک طرح کا جہاد ہے اور میں دن رات اسی میں مصروف رہتی ہوں۔ البتہ اب ہفتے میں ایک بار اپنے لئے کچھ وقت ضرور نکالتی ہوں، اپنا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔
علیزے نجف:
ہر انسان کی عادات و اطوار اور نظریات اس کی شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں آپ کی زندگی میں وہ کون سے نظریے اور عادات ہیں جو آپ کی شخصیت کی نمایاں شناخت ہیں اور آپ کی شخصیت سازی میں آپ کے خاندان کے کن لوگوں کا کلیدی کردار رہا ہے ؟
صادقہ خان:
میری تربیت میں میری امی کا بہت ہاتھ ہے۔ اگرچہ وہ زیادہ پڑھی لکھی خاتون نہیں ہیں مگر انھوں نے ہمیں دوسروں کو عزت دینا، اخلاقیات، ایمانداری ، مشکل حالات میں صبر اور ثابت قدمی سکھا ئی۔ کیریئر کے ابتدائی دور میں بے شمار مشکلات کا سامنا رہا ، اب بھی ہوتا ہے مگر یہ عادت امی سے سیکھی ہے کہ جب کبھی دل بھاری ہو، دو نفل پڑھو، قرآن پاک کی تلاوت کرو اور انسانوں کے بجائے اللہ پاک سے مدد مانگو۔ بہت کرم ہے کہ جب بھی اللہ سے مانگا اس نے خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔
یہ میری شخصیت یا ایک سٹرونگ پہلو ہے جو کچھ لوگوں کو عجیب بھی لگتا ہے کیونکہ میرا زیادہ رجحان سائنس کی طرف ہے تو اللہ پاک سے ایک گہرا تعلق انھیں کنفیوزڈ کر دیتا ہے۔ مگر میں کبھی سائنس اور مذہب دونوں کے حوالے ابہام کا شکار نہیں ہوئی ۔
علیزے نجف:
اب ہم انٹرویو کے اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں آپ کے پروفیشن کے بارے میں بہت ساری باتیں ہو گئیں اب میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بھی کچھ بتائیں مثلاً فرصت کے لمحات میں آپ کے کیا مشاغل ہوتے ہیں اور اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے کن سرگرمیوں کا خاص اہتمام کرتی ہیں وغیرہ وغیرہ ؟
صادقہ خان:
فرصت اب تو بہت کم ہی ملتی ہے پروفیشنل مصروفیات بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ مجھے ٹریولنگ کا بہت شوق ہے لیکن کوئٹہ میں ایسا ماحول ہے کہ ہم خواتین کبھی مہینوں میں ہی گھومنے پھرنے جا پاتی ہیں ۔وہاں تفریحی مقامات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ۔البتہ اب اسلام آباد میں اپنا شوق ضرور پورا کرتی ہوں اور ویک اینڈ پر اکیلے ہی کہیں نکل جاتی ہوں۔ کتابیں پڑھنے، سائنس فکشن موویز اور سکیچنگ کا شوق ہے۔ بنیادی طور پر میں بہت کم گو اور تنہائی پسند ہوں بھیڑ بھاڑ کی جگہ جیسے شادی بیاہ وغیرہ سے دور بھاگتی ہوں۔ فیشن وغیرہ کا بھی زیادہ شوق نہیں ہے، سادہ مگر پر وقار ڈریسنگ میری ترجیح ہوتی ہے۔
علیزے نجف:
یہ انٹرویو دیتے ہوئے آپ کے احساسات کیا تھے سوالات سے کس حد تک مطمئن تھیں کیا اب بھی کوئی ایسا تشنہ موضوع ہے جس پہ آپ بات کرنا چاہتی تھیں لیکن میں پوچھ نہیں سکی اگر ہاں تو اس سوال کے تحت اپنی وہ بات کہہ سکتی ہیں؟
صادقہ خان:
بہت اچھے سواالات تھے۔ ایک عرصے بعد اپنے بارے میں کھل کر بات کرنے اور بہت سے سنجیدہ موضوعات پر بات کرنے کا موقع ملا۔ جس کے لئے میں علیزے نجف کی بہت شکر گزار ہوں۔
انٹرویو نگار: علیزے نجف۔ سرائے میر، اعظم گڈھ، اترپردیش
ایمیل: alizeysikander[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں