بھارت جوڑو یاترا اور راہل گاندھی کا چیلنج - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-01-30

بھارت جوڑو یاترا اور راہل گاندھی کا چیلنج

bharat-jodo-yatra-rahul-gandhi-unity-march-ends-in-kashmir

راہل گاندھی کی 'بھارت جوڑو یاترا' کا 105 دنوں کے بعد اختتام

راہل گاندھی کی ' بھارت جوڑو یاترا ' 105 دنوں میں 3570 کلو میٹر کا فاصلہ طئے کر کے ، سرینگر میں اختتام کو پہنچ گئی۔ یوں تو یہ ' یاترا ' کئی معنوں میں تاریخی ہے ، مگر کشمیر میں راہل گاندھی کے پیغام اور ' چیلنج 'نے اس ' یاترا ' کو ' خاص ' بنا دیا ہے۔ اگر اس' یاترا ' کے اثرات کا ذکر کیا جائے تو سب سے بڑا اثر برسراقتدار جماعت بی جے پی کے خیمے میں بوکھلاہٹ کا پھیلنا ہے۔
جب 7 ، ستمبر 2022 کو ' یاترا ' شروع ہوئی تھی تب بی جے پی کی مرکزی قیادت اور چھوٹے بڑے لیڈر اس پر تنقیدیں اور نکتہ چینیاں کرتے نظر آ رہے تھے ، یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا کہ بھارت تو ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک اکھنڈ ہی ہے ، لہٰذا ' بھارت جوڑو یاترا ' کی کیا ضرورت ہے۔ راہل گاندھی کا ' پپّو ' کہہ کر مذاق اڑایا گیا۔
لیکن یہ ' یاترا ' جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی ، اور جیسے جیسے اسے بےشمار لوگوں کا ساتھ اور پیار ملتا گیا ، اور جیسے جیسے مرکزی حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں پر راہل گاندھی کےحملے تیز ہوتے گیے ، ویسے ویسے بی جے پی کی بولتی بند ہوتی گئی۔ اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ اس ' یاترا ' میں کی گئی ہر تنقید اور ہر نکتہ چینی کو غلط ثابت کرنے کے لیے بی جے پی حرکت میں آئی اور کبھی اقلیتوں کے تحفظ کی بات کی اور کبھی جمہوریت اور آئین کا حوالہ دیا۔


یہ ' یاترا ' اس معنیٰ میں بھی تاریخی تھی کہ اس نے کانگریس کو اور کانگریسی کارکنان کو ایک بار پھر فرنٹ فٹ پر لا کھڑا کیا اور وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے دستِ راست امیت شاہ کو بیک فٹ پر جانے پر مجبور کیا۔ مودی اور امیت شاہ کے پاس ' یاترا ' کے دوران کی گئی نکتہ چینیوں کا کائی جواب نہیں تھا۔ ' یاترا ' کو ملنے والی زبردست عوامی توجہ کو بھٹکانے کے لیے کووڈ پھیلنےکا بہانہ بنایا گیا ، کوشش تھی کہ اس بہانے ' یاترا ' روک دی جائے ، لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔


یہ ' یاترا ' کنیا کماری سے شروع ہوئی تھی ، اس کا مقصد عوامی رابطہ تھا ، ایک دوسرے کا ساتھ ، پورے بھروسے کے ساتھ ، اور یہ ' یاترا ' اپنے اس مقصد میں کامیاب رہی۔ اس نے لوگوں میں پیار بانٹا اور لوگوں کو پیار بانٹنے کا پیغام دیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ' یاترا ' ہر مذہب اور ہر فرقے اور ہر درجہ کے بھارتیوں کے درمیان پیار محبت کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ تھی۔ ظاہر ہے کہ راہل گاندھی کی ' محبت کی دوکانیں ' کھولنے کا اعلان ، اور اسے بھاری تعداد میں ملنے والی لوگوں کی تائید و حمایت سے بی جے پی کی نیندیں تو حرام ہونا ہی تھیں ، سو ہوئیں۔


راہل گاندھی کے پیار بانٹنے کے اعلان کا واضح مقصد بی جے پی کی ' نفرت کی دوکانوں ' کا شٹر گرانا تھا ، اور شٹر گرا بھی۔ لیکن ان اثرات سے بڑھ کر اس ' یاترا ' کو 'خاص ' بنایا راہل گاندھی کے اس چیلنج نے کہ مودی اور امیت شاہ کشمیر میں ، جیسے وہ چلے ہیں ، ویسے پیدل چل کر دکھا دیں۔
یہ چیلنج اس لیے اہم ہے کہ مودی اور امیت شاہ دونوں کشمیر میں امن و امان کا دعویٰ کرتے ہیں ، لیکن ان کی کبھی ہمت اور جرات نہیں ہوتی کہ وہ کشمیر میں عوامی رابطہ کریں۔ جموں تک میں یہ دونوں مرکزی لیڈر عوامی رابطہ سے دور ہیں۔ یہ چیلنج اس لیے اہم ہے کہ یہ مودی سرکار کی کشمیر پالیسی پر سیدھا حملہ ہے ، یہ راہل گاندھی کا ایک طرح سے دعویٰ ہے کہ کشمیر کے معاملہ میں مودی اور امیت شاہ ناکام رہے ہیں ، وہاں نہ امن کا قیام ہوسکا ہے اور نہ ہی کشمیری عوام کا بھروسہ جیتا جا سکا ہے۔ اگر مودی سرکار راہل کے بیان کو غلط قرار دیتی ہے تو اسے غلط ثابت کرنے کے لیے ، بی جے پی کے لیڈروں کو راہل کی طرح کشمیر میں پیدل چلنا ہوگا۔


مذکورہ چیلنج کے دوسرے دن راہل نے جو خطاب کیا اس کا موضوع بھی کشمیر تھا۔ اس دوران انہوں نے پھر چیلنج کیا کہ :
" ہم چار دن کشمیر میں پیدل چلے ، گارنٹی دیتا ہوں کہ بی جے پی کا کوئی لیڈر اس طرح پیدل نہیں چل سکتا ، اس لیے نہیں کہ جموں کشمیر کے لوگ انہیں چلنے نہیں دیں گے ، اس لیے کہ وہ ڈرتے ہیں ، کشمیریوں اور فوجیوں کی طرح میں نے اپنوں کو کھونے کا درد سہا ہے ، مودی شاہ یہ درد نہیں سمجھ سکتے۔"


راہل نے کشمیریوں کے ' درد ' کی بات کہہ کر یہ وضح اشارہ دیا کہ یہ ' درد ' اور اس کے نتیجے میں کشمیریوں کی آنکھوں کے آنسوؤں کی ذمہ دار بی جے پی اور اس کی مرکزی قیادت ہے۔ مرکز کے پاس راہل کے سوالوں کا کوئی منطقی جواب نہیں ہے ، ہاں وہ ان کے بیانات کو توڑ مروڑ ضرور سکتی ہے۔ لیکن اس ' یاترا ' کا ایک مثبت اثر یہ پڑا ہے کہ لوگ اب آنکھ بند کرکے نفرت کے تاجروں کی باتوں پر یقین نہیں کرتے۔ اس ' یاترا ' نےمودی ، شاہ اور بی جے پی کی عوام مخالف پالیسیوں کو اجاگر کرکے بھگوائیوں کو ایک بڑا جھٹکا دیا ہے ، عوام کی آنکھیں کھولی ہیں اور آنے والے دنوں میں ' محبت کی سیاست ' کی راہ کھولی ہے۔
اب عوام کو ، اور اپوزیشن کو راہل گاندھی کی دکھائی ہوئی راہ پر چل کر یہ یقینی بنانا ہوگا کہ یہ ملک نفرت کے بیوپاریوں کے اشارے پر نہیں چلنے والا۔ اپوزیشن کو ، بالخصوص مایاوتی اور اکھلیش یادو کو چاہیے کہ وہ بھلے ' یاترا ' میں شامل نہ ہوئے ہوں لیکن اب راہل کے کندھے سے کندھا ملا لیں ، اس میں ان کا بھی بھلا ہے اور ملک کا بھی۔ اگر اپوزیشن متحد نہ ہوا تو مرکز کے اشارے پر مایاوتی اور اکھلیش کبھی بھی ای ڈی کے نشانے پر آ سکتے ہیں۔


Bharat Jodo Yatra: Rahul Gandhi's unity march ends in Kashmir
On the culmination day of the Bharat Jodo yatra, Gandhi challenged the BJP to undertake a yatra such as his in Jammu and Kashmir

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں