اسلام نے موسیقی کی طرح مصوری کی بھی اجازت بڑے قید و بند کے ساتھ دی تھی، صرف بے جان چیزوں کی تصویر کشی جائز تھی ، جاندار کی شبیہ بنانا ممنوع تھی ۔ اس لئے فنون لطیفہ کی اس شاخ کے بارآور ہونے کی توقع مسلمانوں سے دنیا نہیں کرسکتی تھی ۔ مگر خلاف امید مسلمانوں نے اس فن سے بھی اتنی ہی دلچسپی لی جتنی دنیا کی کسی اور قوم نے ۔ مسلمان کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔ انہوںنے مذہبی قیدکو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے تخیل کو دنیا سے الگ کرلیا اور اس فن کی نمائش میں مذہب کا سہارا نہیں لیا بلکہ فن کو فن کی حیثیت سے دیکھا اس کو کسی خارجی سہارے سے آگے بڑھانا مصوری کی توہین سمجھا ان کے نزدیک اس کی اہمیت خود اتنی زیادہ تھی کہ جواز کے لئے کسی بہانے کی ضرور ت نہ تھی عبدالرحمن چغتائی نے بڑی عمدہ بات کہی ہے’’فنون جمیلہ ہر جگہ مذہب کی گود میں پلے اور جوان ہوئے مگر عربوں اور ان کی تائید میں عجمیوں نے فنون کی بنیادیں صرف حکیمانہ اور فطری اصولوں پر کھڑی کیں۔‘‘
ہندوستان آنے سے پہلے ہی مسلمانوں میں فن مصوری کا مذاق پایہ تکمیل کو پہونچ چکا تھا ۔ اس کو معراج کمال پر پہنچانے کے لئے مغرب و مشرق دونوں کے کمالات سے انہوں نے فیض حاصل کیا۔ مگر اس کے بعد ایک ایسے عنوان سے اس فن کو آگے بڑھایا کہ مغرب انگشت بدندان تھا۔ چنانچہ سرار فلڈ اور ڈاکٹر مارٹن جیسے نامور نقاد فن لکھتے ہیں کہ ایرانیوں کی وہ تصاویر جو انہوں نے معراج نبوی کے متعلق بنائی ہیں عقیدت و کمال فن کے اعتبار سے یورپ کی بہترین مصوری یعنی حضرت عیسیٰ ؑ کے واقعات زندگی کی تصویروں سے بدرجہا بہتر ہیں۔
رفائپل یورپ کا مایہ ناز مصور بہزاد کا ہمعصر تھا اور یہ دونوں اپنے کمالات کی وجہ سے خدائے فن سمجھے جاتے تھے مگر مسلمان بادشاہوں کی سر پرستی میں بہزاد نے جو کمال بہم پہنچایا اس کا اندازہ آپ کو چغتائی کے اس بیان سے ہوسکتا ہے کہ’’رفائپل بہزاد کے نقوش کو بڑی حیرت سے دیکھا کرتا تھا اس نے اور میرنٹ نے کئی بار عجمی مصوری و تقلید اور نقل میں اپنا قلم اٹھایا جو ان کے شاہکاروں سے اب بھی ظاہر ہے مگر وہ موڈل کے مقلد ازاد بلندیوں پر دیر تک سانس نہ لے سکے اور گھبراکر دنیا کے میدانوں میں آبسے مسلمانوں کو قسمت سے بہزاد ایسا حیرت انگیزخالق فن مل گیا تھا کہ جس نے مصوری کے گوشہ گوشہ کو منور کردیا۔ مسلمانوں نے بھی اپنی قدردانی و مردم شناسی کا ثبوت دیا۔ جب تک وہ صاحب سیف و قلم رہے اس فن میں بہزاد ہی کا دم بھرتے رہے ، اسی کے نقوش کو خضر راہ سمجھتے رہے اور اسی کی بنائی ہوئی دنیا میں فنی آب حیات کی تلاش کرتے رہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گواس پایہ کے نہ سہی مگر ہر عہد میں تیموریہ و صفویہ دور سے لے کر مغلیہ حکومت کے آخری حصہ تک چند باکمال استاد فن پیدا ہوتے رہے جنہوں نے مصوری کو اگر گے نہیں بڑھایا تو کم ا ز کم سطح سے کبھی نیچے بھی نہیں آنے دیا۔
مسلمانوں میں بہزاد سے بھی بہت پہلے بڑے بڑے استاد گزر چکے ہیں مگر ان کا تذکرہ یہاں بالکل غیر ضروری ہے، البتہ بہزاد کا مختصر سا حال بیان کردینا بیجا نہ ہوگا اس لئے کہ فن مصوری جو ہندوستان میں مغلیہ بادشاہوں کے وساطت سے پہنچا اس میں زیادہ کا ر گزاریی اسی استاد زمانہ کی ہے۔ یہ پندرہویں صدی عیسوی کے وسط میں پیدا ہوا اس نے کسب فن پیر سید احمد سے کیا جو جہانگیر بخاری کے شاگرد رشید تھے اور بخاری گنگ ملقب بہ نقوۃ المحریرین کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنے کا فخر حاصل کرچکے تھے۔ گنگ تیموریہ اسکول کے باوا آدم سمجھے جاتے تھے ۔ بہزاد نے بہت جلد فن مصوری میں شہرت حاصل کرلی اور منصور ابن بہقرہ والی خراسان کے درباری مصوروں میں ملازم ہوگیا لیکن ۱۵۰۶ء میں شاہ اسماعیل صفوی مشہورو معروف شاہ ایران کے یہاں چلا گیا اور مرتے دم تک اسی خاندان سے وابستہ رہا۔ اس کا انتقال ۱۵۲۶ء میں تبریز میں ہوا ۔ مرنے سے پہلے ہی وہ شہرت حاصل کرلی تھی کہ نہ صرف ا پنے استاد اور استاد کے استادوں کا نام روشن کرگیا بلکہ سبھوں سے اس کا مرتبہ بلند سمجھاجانے لگا۔
تیموریہ اسکول کا فن ہندوستان میں بابر ارو اس کی اولاد کے ذریعہ سے پہونچا۔ اس اسکول میں بھی خطوط(لکیروں) پر زیادہ زور دیا گیا تھا۔ اظہار جذبات و خیالات کا آلہ صرف خطوط تھے ان خطوط میں بڑی ہمہ گیری و دلفریبی تھی ۔ یہ خطوط موقع محل کے لحاظ سے باریک و دبیز کردئیے جاتے تھے۔
کبھی ان کو خم بھی کردیتے تھے اور اگر ضرورت ہوتی تو خوبصورتی سے توڑبھی دیتے تھے ۔ ان ہی سے زاویہ اور دائرہ بھی بناتے اور اقلیدس کی مختلف شکلیں بھی تیار کرلیتے غرض کہ ایک طغرائی کیفیت تھی جو خاص حسن کے ساتھ ہر تصویر میں کام آتی تھی ۔
اس اسکول کی توجہ انفرادی حالتوں پر زیادہ تھی اجتماعی زندگی و عوام کی حرکات و سکنات سے سروکار بہت کم تھا۔ ایک فرد کی تصویر میں فنکاری اور پوری دلچسپی سے کام لیتے تھے عضو، عضو کی تفصیلات کو لکیروں سے اچھی طرح واضح کرتے تھے اور سب سے زیادہ خیال تناسب و توازن جگہ و گنجائش کا رکھتے تھے جس کی وجہ سے تصویر کی دلفریبی میں چار چاند لگ جاتے تھے۔
ہندوستانی مصوری
ہندوستان بھی فن مصوری میں اپنے کمالات کاثبوت دے چکا تھا۔ چنانچہ اجنتا کے غار اب تک مثال کے لئے باقی ہیں جن میں نقاشی و سنگتراشی کے وہ نمونے موجود ہیں جو عہد ماضی کے زریں کارناموں کا پتہ دیتے ہیں، اجنتا کے غاروں کی تصویروں کا وجود زیادتر مذہبی جذبہ کی بناپر ہوا ۔ اس کے ہر گوشہہ سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے حقیقت میں مجموعی حیثیت سے یہ بدہ مذہب کی تاریخ کا کام دیتی ہے گوتم بدھ کے مختلف کارگزاریوں اور مہاتمائی جذبات کو مد نظر رکھ کر کام شروع کیا گیا ہوگا تاکہ ان کی کرامات ، عظمت، تقدس کو فنی حیثیت سے لازوال بنادیاجائے اور اس میں شک نہیں کہ اس خواہش کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ، آج تک اجنتا اپنی خصوصیات کی وجہ سے زیارت گاہ عالم ہے غار کے پتھروں کو کاٹ کر چھتوں اور دیواروں میں عجیب و غریب صناعی کی گئی ہے ۔ انسان ،حیوان، لباس، درخت، دریا ، مکانات، سب کی رنگین تصویریں پتھروں پر اس خوبی کے ساتھ بنائی گئی ہیں کہ ہر تصویر کی جزئیات ۔ حرکات و سکنات واضح طور پر نظروں کے سامنے آجاتی ہیں اس صناعی میں بھی لکیروں ہی کو آلہ کار بنایا گیا ہے ، ان لکیروں کی اہمیت ہر جگہ نمایاں ہے استحکام ووسعت کے ساتھ بڑی سی بڑی جگہ میں وہ رواں دواں نظر آتی ہیں ، موزونیت و یکسانیت کا احساس ہر ہر قدم پر پیدا کرتی جاتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ تصویروں کے مختلف جذبات غم و غصہ، رنج و مسرت استغراق و رقص کا پورا پورا اثر ذہن نشین کرتی جاتی ہیں ۔ اتار چڑھاؤ کے پیچ و خم میں ان لکیروں کا نازک لوچ اور استقلال خاص طور پر اثر انداز ہوتا ہے ۔
اجنتا غار کی تصویروں میں رنگ نے ایک خاص اہمیت پیدا کردی ہے گیروا، کاجل، نیلا، اور ملتانی مٹی کا رنگ نمایاں حیثیت سے پیش کئے گئے ہیں۔ جس سے ایک لطیف دل کشی کا اضافہ ہوگیا ہے ۔
ہندوستانی مصوری و سنگتراشی کا یہ پہلا دور تھا اس کا دوسرا دور کوئی نوسو برس کے بعد اس وقت شروع ہوا جب تیموریہ خاندان ہندوستان میں حکمران ہوا سب سے پہلے بابر نے ادھر توجہ کی اور بہزاد کے مرتب کئے ہوئے نقوش کو نمونہ بناکر ہندوستانی مصوری کی تجدید کی خوش قسمتی سے بابر کی اولاد نے بھی غیر معمولی سرپرستی و دلچسپی سے اس فن کو ابھارنے میں حصہ لیا ۔ باہر سے آئے ہوئے کاریگروں اور ہندوستان کے صناعوں نے ایک جگہ بیٹھ رک کام کرنے کا موقع پایا تو فوراً دونوں اسکولوں کو اپنے مذاق مصوری کو پرکھنے کا موقع ملا اور حسب ضرورت اپنے اپنے فن میں ترمیم کرنے لگے یہاں تک کہ اکبر کے زمانہ سے شروع ہوکر جہانگیر کے عہد میں دونوں کے امتزاج سے ایک مستقل نیا اسکول قائم ہوگیا جس کو صرف ہندوستان کی پیداوار سمجھنا پڑتا ہے ۔ مسلمانوں کی مصوری سے ہندوں نے اپنی لکیروں میں تناسب اور فاصلہ لے لیا اور اس کے علاوہہ دوسرے پہلو بھی تصویروں میں نمایاں کرنے کے لئے مستعار لئے مثلاً دربار کے آداب، شاہانہ رعب و دبدبہ وغیرہ لیکن سب سے زیادہ مسلمانوں کے فن سے انفرادیت کا عنصر لے کر اپنی تصویروں میں اجتماعی کیفیت کی بہتات میں توازن پیدا کرلیا۔
ماخوذ از کتاب: مذہب و شاعری۔ مصنف: ڈاکٹر اعجاز حسین
ناشر: اردو اکیڈمی سندھ، کراچی (سن اشاعت: جنوری 1955ء)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں