آئیے امتحان گاہ چلیں! - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-12-22

آئیے امتحان گاہ چلیں!

the-exam-hall

امتحان کیوں لیا جاتا ہے؟ آخر یہ امتحانات ہوتے کیوں ہیں؟ کیا امتحان لیا جانا ضروری ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ صرف پڑھائی ہو اور امتحان نہ ہو۔ ایسے ہزاروں سوالات طلبہ کے من میں اس وقت پنپتے ہیں جب امتحانات کی آمد آمد ہوتی ہے۔ اور طلبہ و طالبات اسی سوچ میں رہتے ہیں کسی طرح امتحانات سے نجات مل جائے اوران کی ایک کثیر تعداد امتحانات کے دباؤ میں رہتی ہے۔ جب کہ امتحانات کے متعلق بے جا ذہنی دباؤ رکھنے سے طلبہ کونقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر امتحانات کو سوچ سمجھ کر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ خوش آمدید کہا جائے تو نہ صرف یہ کہ آپ کے ذہن و دماغ پر بوجھ نہیں پڑے گا بلکہ آپ کے نمبرات پر بھی اس کا مثبت اثر پڑے گا۔ اس کے لیے سب سے پہلے آپ کو اپنے طریقہ تعلیم پر توجہ دینی ہوگی۔ آپ کے پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟ اگر آپ سارا سال بے دھیانی سے کھیل کود میں صرف کرتے ہیں اور صرف نوٹس کے بھروسے رہتے ہیں تو شاید نہیں یقینا آپ کو امتحانات میں مصیبت کا سامنا کرپڑ سکتا ہے۔


امتحان میں ناکامی کی وجوہات:

خدشات و وسوسات اور ذہنی تناؤ:
پورا سال اچھی محنت کرنے والے بہت سے طلبہ بھی امتحان کے دنوں میں منفی خیالات کے شکنجے میں جکڑے رہتے ہیں، مثلاً یاد کیا ہوا سبق بھول نہ جائے، پرچے مشکل آگئے تو، باہر سے سوالات نہ پوچھ لیے جائیں وغیرہ۔امتحان کے دنوں میں ذہنی تناؤ کا شکار ہونے کی سب سے بڑی وجہ خود اعتمادی کا فقدان ہے۔
پڑھائی کا غلط طریقہ:
اکثر طلبہ کسی مضمون کو سمجھنے کے بجائے رٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جو چیز رٹ کر یاد کی جاتی ہے وہ جلد بھول بھی جاتی ہے۔اسی طرح پڑھائی کے دوران مشکل اسباق کو یہ سوچ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ بعد میں دیکھا جائے گا اور بعد میں ایسے اسباق بھی ذہن پر بوجھ بن جاتے ہیں۔
امتحانات کی راتوں میں رت جگا کرنا:
سال بھر نہ پڑھنے والے طلبہ امتحان کی راتوں میں خوب جاگتے ہیں۔ راتوں میں دیر تک جاگنے کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ امتحان کی صبح طبیعت بوجھل بوجھل سی رہتی ہے، سردرد کرتا ہے اور ایسی صورت حال میں یاد کی ہوئی چیزیں بھولنے لگتی ہیں۔رات بھر جاگ کر پڑھائی کرنا امتحان میں کامیابی کی ضمانت نہیں۔ سخت محنت کے بجائے صحیح محنت کرنی چاہیے۔
لکھنے کی مشق نہ کرنا:
امتحان کی تیاری کے دوران لکھنے کی مشق چھوٹ جانے سے امتحان میں مقررہ وقت کے اندر تیز رفتاری کے ساتھ لکھنے میں پریشانی ہوتی ہے۔
املا اور صرف و نحو کی غلطیاں کرنا:
بہت سے طلبہ صحیح جوابات لکھنے کے باوجود اچھے نمبروں سے کامیاب نہیں ہوتے جس کی وجہ عام طور پر املائی غلطیاں ہوتی ہیں۔


امتحان گاہ میں دھیان دینے والی چند ضروری باتیں:

٭ امتحان گاہ میں جانے سے پہلے اپنے ضروری سامان تیار رکھیں۔ لکھائی کے لیے درکار تمام اشیاء کی موجودگی کا اطمینان کرلیں۔
٭ امتحان گاہ میں داخل ہوتے وقت اس بات کا دھیان ضرور رکھیں کہ آپ کے پاس کوئی کاغذ یا پرچی نہ ہو تاکہ کسی کو آپ پر کسی قسم کا شبہ نہ ہو نیزپرچے پر اپنا نام یا کوئی ایسا اشارہ نہ لکھیں جس سے آپ کا تعارف ہوتا ہو۔
٭ جواب لکھتے وقت اپنے ذہن کو صرف اسی سوال تک منحصر رکھیں جس کا آپ جواب لکھ رہے ہیں دوسرے سوالات کا جواب اس دوران نہ سوچیں اس سے آپ کا زیر تحریر جواب متاثر ہوگا۔ اسی طرح کوئی بات اگر ذہن میں نہیں آرہی ہو تو اس کو جگہ چھوڑ کر اگلی بات لکھنا شروع کریں اور اس کو سوچنے میں وقت ضائع نہ کریں یاد آنے پر چھوڑی ہوئی جگہ میں تحریر کردیں۔
٭ آداب تحریر کی رعایت کریں۔ پرچے کے دائیں بائیں دونوں طرف مناسب حاشیہ چھوڑیں۔ رموز و اوقاف کا خیال رکھیں۔ سوال کی عبارت نقل نہ کرکے صرف جواب نمبر ڈال کر لکھیں۔
٭ بہت سے سوالات بظاہر درسی کتاب کے باہر سے دکھائی پڑتے ہیں مگر ان کی بنیاد درسی کتاب ہی ہوتی ہے اس لیے جس نے درسی کتاب کو بخوبی سمجھ کر پڑھا ہے اس کے لیے وہ مشکل نہیں ہوتا جب کہ کتاب کو رٹ کر آجانے والے طلبہ اسے باہری سوال سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔


امتحان اور نقل:

نقل کی کئی شکلیں ہوتی ہیں:کچھ طلبہ تو امتحان ہال میں موجود اپنے ہم جماعتوں سے نگراں کی نظر بچاتے ہوئے "پوچھ تاچھ" کرتے ہیں۔ کچھ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چٹ تیار کرکے لاتے ہیں اور چوری جیسا قبیح فعل انجام دیتے ہیں۔ نقل کرکے یہ نالائق اور تعلیم میں ذرہ برابر دلچسپی نہ رکھنے والے طلبہ زیادہ نمبر تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن ان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ امتحان میں نقل کرنا یہ بھی چوری کی ایک شکل ہے اور چوری کی ساری شکلیں حرام ہیں اورا س نقل سے وہ جو نمبر حاصل کرتے ہیں وہ ان کے لیے جائز نہیں۔



***
شفق اسعد (بنارس)
shafaqueasad20009[@]gmail.com
The Examination Hall, pros and cons. - Essay: Shafaque Asad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں