رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-12-21

رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے

meer-taqi-meer

رات کے تقریبا ایک بجے ہوں گے،میں خلاف عادت (حسب عادت کی ضد) اپنی تھیسس کے متعلق ایک کتاب کامعائنہ کر رہی تھی یعنی ناپ تول میںمصروف تھی کہ کتاب طول و عرض میں تو ٹھیک ہے لیکن پڑھی بھی جا سکتی ہے کہ نہیں؟کیا اس کے مطالعہ سے کوئی فائدہ ہوگا بھی، کہ نہیں ؟کیونکہ بیشتر کتابیں اس معاملے میں انسانوں سے زیادہ دھوکہ باز ثابت ہوتی ہیں۔
بڑے عرصے سے میرے ساتھ یہ ہوتا رہا ہے کہ کتابوں پر عنوان دیکھ کر کتاب خرید تو لی اور مارے جوش کے پڑھ بھی ڈالی لیکن کئی دن لگانے کے بعد معلوم یہ ہوا کہ اس موضوع کے تعلق سے تو خود مصنف کی بھی واقفیت ندارد تھی۔ خیر، پھر ہم پڑھنے کے معاملہ میں کافی محتاط ہوگئےکہ جب تک پوری طرح سے مطمئن نہ ہوجائیں تب تک مطالعہ نہیں شروع کرتے کیونکہ اکثر و بیشتر تو یوں لگا کہ مصنف اپنے موضوع پر اب آیا ہی چا ہتا ہے کہ اور اب آ ہی گیا لیکن آخرکار مصنف نے یو ٹرن لے کر موضوع بحث کو کوئی اور رخ دے دیا اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔


اس خفت سے بچنے کا طریقہ یہی ہےکہ آدمی بھلے ہی شادی بیاہ کے معاملہ میں ظاہری خوبیوں کا اعتبار کرلے لیکن کتابوں کے مطالعے کے تعلق سے کبھی کسی چیز پربھروسہ نہ کرے۔ حالانکہ انتخاب آپ کتنی بھی جانفشانی سے کریں لیکن آخر کو یہی کہنا پڑ تا ہے کہ کتابوں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے (اس سے متعلق ایک بات اور کہ اکثر امتحان میں ہم جوبھی کتاب پڑھ کر جاتےتھے اس سے ممتحن کوخدا واسطے کا بیر ہوتا تھا سو کتابوں کے انتخاب وہ وہ رسوائیاں دکھائیں کہ جس کا بیان کر کے یہاں پرایک بار پھر سے قعر مذلت میں اوندھے منھ نہیںگرنا چاہتی،لیکن سچ کہوں تو وہ رسوائیاں بھلائے نہیں بھولی جاتیں)۔


انہی خیالوں میں تھی کہ باہر کار کا ہارن سن کر کھڑکی سے جھانکتے ہوئے نیچے کی طرف دیکھا۔ دیکھتی کیا ہوں کہ ایک سفید کار عین میرے گیٹ کے سامنے رکی ہے۔ اس وقت کون آگیا سوچتے ہوئے دودو سیڑھتی پھلانگتے ہوئے جلدی سے گیٹ کی طرف آئی۔ گاڑی میں بیٹھا شخص بالکل بھی شناسا معلوم نہیں ہوتا تھا۔ آف وائٹ کرتے پاجامے میں ملبوس یہ نفیس شخص بالکل ہی اجنبی تھا۔ میں نے پوچھا آپ کو کس کے گھر جانا ہے؟ وہ صاحب تو خاموش رہے۔ ڈرائیور نے کہا کہ ان کو آنا تو یہیں تھا،یہ کہتے ہوئے ایک کارڈ میری طرف بڑھایا جس پر واقعی میرے ہی گھر کا پتہ درج تھا،ڈرائیور نے تائید چاہی کہ یہی گھر ہے نا۔ میں نے کہا ہاں اور ان صاحب کو غورسے دیکھنے لگی گویا پہچاننے کی کوشش کررہی ہوں۔ ڈرائیور نے میری کیفیت کو بھانپتے ہوئے میری مشکل آسان کرنے کی کوشش کی۔
کہنے لگا کوئی میر صاحب ہیں جی،خود کو شاعر بتا رہے تھے جی۔


میں سوچنے لگی کہ موجودہ عہد میں کون سا ایسا شاعر ہے جو میر بننا نہ پسند کرے میر نام رکھ لینے سے کوئی میر تقی میر تھوڑی ہوجاتا ہےاور مان لو کہ میر ہی ہیں تو یہاں کیونکر آئے ہیں؟ ہاں مانتے ہیں کہ ہمارے یہاں اکثر شاعروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ غالب،سودا، مصحفی اور قائم وغیرہ سب آچکے ہیں مگر خواب میں ہی آتے ہیں۔ قائم ہی کو لے لیجئے جب آئے تھے تو انہوں نے بذات خود فرمائش کی تھی کہ میں پی ایچ ڈی ان پر ہی کروں۔
اسی لئے تو ہم نے اس موضوع کا انتخاب کیا ،ظاہر ہے مرحومین کی خواہش کا احترام بھلا کون نہیں کرتا ،یہ الگ بات ہے کہ آج کل کسی طالب علم کو اگر کوئی شاعر پسند آجائے تو وہ اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب وہ اس دار فانی سے کوچ کرے کہ اس کا پی ایچ ڈی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔ خیالوں کی اس دنیا میں مگن تھی کہ ابے او گاڑی آگے کر کے پارک کر پیچھے سے آواز آئی۔ مجھے اس معزز مہمان جو کہ بقول ڈرائیورکوئی "میر ــ" تھے۔ ان کے سامنے ابے او کے الفاظ سن کر بڑی کوفت سی ہوئی۔ جبھی وہ صاحب جو اب تک خاموشی کو مورت بنے تھے، بڑبڑائے:
یوں پکارے ہیں مجھے کوچہ جاناں والے
ادھر آئیے آئیے او چاک گریباں والے


انہوں نے یہ شعر کچھ اس انداز سے پڑھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی پتہ نہیں کیوں دل ان کو میر تسلیم کرلینے پر قائل ہوگیا۔ میں نے بنا کسی تاخیرکے گاڑی دروازہ کھولا ،وہ بھی اتر کر میرے پیچھے پیچھے اندر آگئے۔ میں انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا کر پانی لینے آگئی۔ واپس آئی تو دیکھتی ہوں وہ شیلف میں کتا بوں کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں۔ میری آہٹ محسوس کرکے میری طرف پلٹ کرمیرے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے لیا اور صوفے پر براجمان ہوگئے۔ سامنے میز پر آج کا اخبار موجود تھا۔ اس کی طرف متوجہ ہوگئے،ایک خبر پر تو چونک ہی گئے۔ خبر کی سرخی تھی :
بہار میں پھر ہوئی پل کی چوری، روہتاس کے بعد اب بانکا میں لوہے کا پل اڑا لے گئے چور۔
یہ پڑھ کر بڑی حیرانگی سے میری طرف دیکھنے لگے جیسے خبر کی تصدیق چاہ رہے ہوں۔ میں نے انگریزی میں تصدیق کر دی کہ
yes, bridge theft again in Bihar
ظاہر ہے ہمارے یہاں یہ رواج ہے کہ بات اگر انگریزی میں کہہ دی گئی تو اس کے مصدق ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں بچتی۔ شاید اس سرخی کو پڑھ کر میر صاحب آگے پڑھنے سے خود کونہ روک سکے۔ نیچے پوری خبر تھی جس کا لب لباب یہ ہے کہ بہار کے بانکا ضلع میں ایک لوہے کا پل جو کہ ۸۰ فیٹ لمبا اور ۱۵ فیٹ چوڑا تھا۔ اس کے دو تہائی حصے کو گیس کٹر سے کاٹ کر چرا لیا گیا ہے۔


میر صاحب یہ پرھ کر بڑی دیر تک مسکراتے رہے پھر کہنے لگے کہ اپنے زمانے میں تو ہم دوسروںکے مصرعے تک اٹھانا گوارا نہیں کرتے تھے جبکہ ان میں وزن بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہ سن کر مجھے وہ شرمندگی ہوئی کہ گویا منوں پانی پڑ گیا ہو۔ شرمندگی ہوتی بھی نہ کیوں ؟ آخر کو شاعری کے بارے ہمارے ایمان کی عمارت جس بنیاد پر کھڑی تھی وہ یکایک ڈھے گئی۔ وہ اس طرح کہ ہم سمجھتے تھے کہ شاعری کے لئے وزن ہی ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ ہمارے مہربان رب جو ستر مائوں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے اس نے ہمیں اس گمرہی سے نکالنے کے لئے خدائے سخن کوہی بھیج دیا ہے۔ ہم من ہی من میں پھولے نہیں سمارہے تھے اورتعجب میں تھے کہ ان کے زمانے میں واقعی بے وزن شاعری بھی ہوتی تھی۔
جبھی میر صاحب میز پر موجود گفٹ پیپر میں لپٹی چیز کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے کہ مجھے خالی ہاتھ آنا اچھا نہیں لگا سو آب حیات لے آیا ہوں۔ میں نے ان کے ہاتھ سے لے کر گفٹ پیپر ہٹایا۔ اس میں موجود حسین آزاد والی آب حیات دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ اچھا ہے آج میر بھی میسر ہیں۔ سارا کچا چٹھا صاف ہو ہی جائیگا کہ آزاد نے ان کے تعلق سے غپ ہی ہانکی ہے یا اس میں کچھ سچائی بھی ہے کیونکہ بچارے فاروقی صاحب تو میرکو بڑا بدمعاش آدمی کہتے کہتے اور ثابت کرتے کرتےچلے گئے لیکن کتابوں میں آج تک وہی روتے بسورتے یا بدمزاج سے میر موجود ہیں۔ سچ کہو تو مجھے بھی اس ملاقات سے بالکل ایسا محسوس نہیں ہوا۔


آخر کار میں نے ہمت کرکے کہا کہ میر صاحب آپ کے بارے بڑی غلط فہمیاں رائج ہوگئی ہیں حالانکہ فاروقی صاحب نے آپ کے تعلق سے غلط فہمیوں کے ازالہ کرنے کی بڑی کوشش کی۔ آج آپ میرے مہمان ہیں اس لئے میں یہ تو نہیں چاہتی کہ آپ کو میری کوئی بات ناگوار گزرے بس آپ میرے سوالوں کے جواب میں سرکو اثبات یا نفی میں ہلانے کی زحمت کریں تو عین نوازش ہوگی۔
میں نے بلاتمہید بات کچھ اس طرح شروع کی کہ آزاد نے لکھا ہے : جب آپ دہلی سے لکھنو جا رہے تھے تو آپ کے پاس گاڑی کا کرایہ بھی نہیں تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہوگئے اور دلی کو خدا حافظ کہا۔ تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی۔ آپ اس کی طرف سے منہ پھیر کر کھڑے ہو بیٹھے،کچھ دیر بعدپھراس نے بات کی۔ آپ چین بجبیں ہو کر بولے کہ صاحب قبلہ آپ نے کرایہ دیا ہے۔ بیشک گاڑی میں بیٹھیے مگر باتوں سے کیا تعلق !
اس نے کہا حضرت کیا مضائقہ ہے۔ راہ کا شغل ہے باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔ آپ بگڑ کر بولے خیر آپ کا شغل ہے میری زبان خراب ہوتی ہے۔
یہ پڑھ کر ذرا رکی۔ ایک نظر میر صاحب پر ڈالی جس سے معلوم ہوا کہ وہ اس کے جواب میں no comments کے موڈ میں ہیں۔ میں نے اگلا واقعہ پڑھنا شروع کیا:
ایک دن نواب مرحوم نے ایک غزل کی فرمائش کی۔ دوسرے تیسرے دن جو پھر گئے تو پوچھا کہ میرصاحب !ہماری غزل لائے ؟ میر صاحب نے تیوری بدل کر کہا۔ جناب عالی ! مضمون غلام کی جیب میں بھرے ہی نہیں کہ کل آپ نے فرمائش کی آج غزل حاضر کردے۔ اس فرشتہ خصال نے کہا خیر میر صاحب جب طبیعت حاضر ہوگی کہہ دیجیے گا۔
وقفہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


ایک دن نواب نے بلا بھیجا۔ جب پہنچے تو دیکھا کہ نواب حوض کے کنارے کھڑے ہیں۔ ہاتھ میں چھڑی ہے۔ پانی میں لال سبز مچھلیاں تیرتی پھرتی ہیں۔ آپ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ میر صاحب کو دیکھ کربہت خوش ہوئے اور کہا کہ میر صاحب کچھ فرمائیے۔ میر صاحب نے غزل سنانی شروع کی۔ نواب سنتے جاتے تھے۔ اور چھڑی کے ساتھ مچھلیوں سے بھی کھیلتے جاتے تھے۔ میر صاحب چیں بجبیں ہوتے اور ہر شعر پر ٹھیر جاتے تھے۔ نواب کہے جاتے تھے کہ ہاںپڑھئے۔ آخر چار شعر پڑھ کر میر صاحب ٹھیر گئے اور بولے کہ پڑھوں کیا آپ تو مچھلیوں سے کھیلتے ہیں۔ متوجہ ہوں تو پڑھوں۔ نواب نے کہا جو شعر ہوگا متوجہ کر لے گا۔ میر صاحب کو یہ بات ناگوار گزری۔ غزل جیب میں ڈال گھر کو چلے آئے اور پھر جانا چھوڑ دیا۔ چند روز کے بعد ایک دن بازار میں چلے جاتے تھے۔ نواب کی سواری سامنے سے آگئی۔ دیکھتے ہی نہایت محبت سے بولے کہ میر صاحب آپ نے بالکل ہمیں چھوڑ دیا ہے۔ کبھی تشریف بھی نہیں لاتے۔ میر صاحب نے کہا بازار میں باتیں کرناآ داب شرفانہیں۔ غرض بدستور اپنے گھر میں بیٹھے رہے۔ اور فقر و فاقہ میں گزارہ کرتے رہے۔
یہ پڑھ پھر سے میں نے میر صاحب کو دیکھا کہ شاید کچھ فرمائیں ، لیکن وہی ایک خاموشی۔


میں نے پھر سے ایک واقعہ پڑھنا شروع کیا لیکن یہ سب سنتے سنتے میر صاحب وہ پیچ و تاب کھانے لگے کہ بس۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کچھ کہنا چارہے ہوں مگر مارے ضبط کے الفاظ ساتھ نہ دے رہے ہوں۔ کچھ سوچتے سوچتے یک دم کھڑے ہوگئے۔ تھوڑی دیر ٹہلنے کے بعدشیلف میںلگی کتابوں کا جائزہ لینے لگے۔ خطوط غالب،دیوان غالب،باقیات غالب ،آہنگ غالب،آئینہ افکار غالب،احوال غالب،شرح دیون غالب۔ نیچے کی لائن میں فلسفہ اقبال، سر گذشت اقبال،مکاتیب اقبال،بانگ درا،بال جبریل،ارمغان حجاز،ضرب کلیم،اقبال ایک مطالعہ،شرح ضرب کلیم وغیرہ۔ میر صاحب تیوڑی چڑھا کر گویا ہوئے:
کہتے ہیں سب مرنے والے یاں سے گئے
سب یہیں رہ گئے کہاں سے گئے
لگتا ہے آپ کی پچھلے جنم کی کوئی دشمنی رہی ہے ہم سے، انہوں نے وہی اپنے خاص طرز یعنی مایوسانہ انداز سے کہا۔ میں نے معاملہ کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے جلدی سے کہا کہ آپ نے سب سے اوپر پہلی لائن تو دیکھی نہیں،فرمانے لگے کیا دیکھوں اور سر کو ذرا اوپر کی طرف اٹھا کر بغور دیکھنے لگے۔ ذکر میر،فیض میر،مزا میر،نقد میر،تفہیم میر،کلیات میر،شعر شور انگیز،افکار میر،اسالیب میر،میر کا تغزل،میر کے نشتر،تلاش میر۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ کہنے لگے وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن میرا کلام مکمل موجود نہیں ہے۔ ایک ہی کلیات نظر سے گزری۔ باقی کہاں ہے۔ اوروں کے ساتھ تو یہ معاملہ روا نہیں رکھا گیاہے۔


میں نے ذرا شرمندگی سے معصومانہ لہجے میں کہا :دراصل میر صاحب میرے ابا میاں نے یہ گھر بڑے ارمانوں سے تعمیر کرایا ہے۔ وہ زیادہ دن کہیں بھی نہیں ٹھہرتے ہیں۔ ان کو یہیں آکر سکون ملتا ہے۔ اس کوجنت کہا کرتے ہیں۔ ارے بس بس بی بی !یہ تم اپنے ابا کی داستان کیوں لے کر بیٹھ گئیں؟ہم نے تو اپنے بقیہ دیوان کی غیر موجودگی کی وجہ دریافت کی تھی۔ وہی تو بتا رہی ہوں میر صاحب آپ نے اپنے اس ایک ہی دیوان میں اس قدر گریہ و زاری کی ہے کہ آپ کے آنسووں کی وجہ سے دوسری کتابیں تو خشک ہونے کا نام نہیں لیتی ہیں۔ بقیہ پانچ دیوان اور لاکر گھر کو کیا سیلاب کے حوالے کردوں:
اے ابر تو اور کسی سمت کو برس
اس ملک میں ہماری ہے یہ چشم تر ہی بس
مژگاں بھی بہہ گئیں مرے رونے سے چشم کی
سیلاب موج مارے تو ٹھہرے ہے کوئی خس
٭٭٭
سرہانے میر کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے
٭٭٭
روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
٭٭٭
ایسی ہے میر کی بھی مدت سے رونی صورت
چہرے پہ اس کے کس دن آنسو رواں نہ پایا


وغیرہ وغیرہ۔ ان اشعار کو میں اس جوش و خروش کے ساتھ پڑھ رہی تھی کہ میری آنکھ ہی کھل گئی۔ دیکھتی کیا ہوں کہ سماں ہی بدلا ہوا ہے۔ نہ میر ہیں نہ میریات،نہ ہی وہ سوال و جواب کا سیشن۔ ۔ ہاں البتہ یہ ضرور محسوس ہو ا کہ ایک ہی کروٹ بڑی دیر تک سونے کی وجہ سے ہاتھ سن ہوچکا ہے۔ بالکل میر کے اس مصرع کے مانند:
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے
ہاتھ کی تکلیف سے کراہ کر آنکھ کھولی تو بیڈ کے عین سامنےدیوار پر شاعروں کی تصاویر میں موجود میر صاحب کی تصویر پر نظر ٹھہر گئی اور غیر شعوری طور پر میر کا یہ شعر ذہن میں کلبلانے لگا:
رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ

***
مہر فاطمہ۔ ریسرچ اسکالر (پی ایچ ڈی)، دہلی یونیورسٹی، نئی دہلی۔
ای-میل: meharekta004[@]gmail.com

A meeting with Meer. Light Essay by: Mahar Fatima

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں