ساحر لدھیانوی : ایک زود گو اور حساس شاعر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-12-23

ساحر لدھیانوی : ایک زود گو اور حساس شاعر

sahir-ludhianvi-sensitive-poet

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو مجھ کو دیا ہے وہی لوٹا رہا ہوں میں


یہ شعر ایک ایسے شاعر کا ہے جو اپنے شعروں کا آئینہ دار رہا ہے، اس کے ہر الفاظ اس کے احساس کی سچائی کے امین رہے، انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی دو رنگی شخصیت کا لبادہ نہیں اوڑھا، واقعی انھوں نے زندگی سے جو کچھ سیکھا اور حالات و واقعات نے جو نقش ان کی شخصیت پر مرتب کئے اسے بلا کم و کاست اپنے شعروں میں اتار دیا تھا یہ فن صرف انھیں ہی عطا ہوا تھا ان کی اسی خوبی نے انھیں شہرت دوام بخشنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ان کے عہد میں اردو شاعری کی بساط پہ ان کے جیسا زود گو شاعر شاید کوئی تھا ہی نہیں۔، ان کے شاعری کے موضوعات اور نفس مضمون ان کی زندگی کے تجربات کے عین ترجمان تھے، ان کا انداز بیان اپنے آپ میں کافی منفرد اور نئی جہت کا حامل تھا۔ اس ہمہ جہت شخصیت کے حامل شاعر کو دنیا ساحر لدھیانوی کے نام سے جانتی ہے، ساحر لدھیانوی دنیائے ادب کے روشن و تابندہ ستاروں میں سے ایک ہیں۔
ساحر کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے یہ بات شدت محسوس ہوتی ہے کہ ان کی شاعری کی اساس شدت احساس پر رکھی گئی ہے، انسانی جبلت میں احساس کو ہمیشہ سے ایک نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ ان کے کلام کو پڑھ کر ہم ان کی زندگی کو تصوراتی آنکھوں سے بخوبی دیکھ سکتے ہیں، ہم میں سے بیشتر لوگ جن سختیوں اور مصائب کو محض سنتے آئے ہیں ساحر نے زندگی کی ان تلخ سچائیوں کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا تھا اور اسی کا اثر تھا کہ انھوں نے جھوٹی خوشنمائی اور ابہام گوئی کو اپنی شاعری میں داخل نہیں ہونے دیا، انھوں نے اپنے دور کے حالات پہ نہ صرف تنقید کی بلکہ امن کو فروغ دینے کے لئے انھوں نے اپنے لفظوں کے فن کا بحسن خوبی استعمال کیا تھا۔ وہ نہ صرف نوجوان نسل کے شاعر ہیں بلکہ ان کی شاعری ہر مکتب فکر کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے شعری اسلوب اور لفظوں کا انتخاب کمال کا رہا ہے، انھوں نے قدیم شعری روایتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی جدت پسند نفسیات کا بھرپور استعمال کیا ہے، اس کا اندازہ ان کے مجموعہء کلام کے ہر شعر سے لگایا جا سکتا ہے۔
ساحر لدھیانوی ایک ایسے شاعر کے طور پہ جانے جاتے ہیں جنھوں نے شاعری کو محض وقت گذاری اور عارضی شغل کے طور پہ نہیں اپنایا تھا انھوں نے اس بساط کو اپنی تخلیقی کوششوں سے تعمیر ذات اور اصلاح وقت کا ذریعہ بنایا، فکر و فن کو حقیقی دنیا سے قریب تر کرنے کے لئے ساری زندگی جدوجہد کی۔ ترقی پسند تحریک سے جڑنے اور اس کے نظریات سے اتفاق کرنے کی وجہ سے ان کی شاعری میں اگر ایک طرف رومان پسندی تھی تو دوسری طرف احتجاج کا عنصر بھی غالب تھا جو کہ معاشرے میں پائے جانے والی عدم مساوات اور ظلم وجبر کی تلخیوں کے خلاف تھا، انھوں نے دوسروں کے سامنے سر جھکانے اور حقائق سے نظریں چرانے کے بجائے نہ صرف سچ کو آشکار کیا بلکہ انسان پہ ہونے والے ہر ظلم و بربریت کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو کر اس کی بھر پور مذمت بھی کی، انھوں نے انسانی معاشرے میں پائی جانے والی غیر اخلاقی اونچ نیچ کی بےبنیاد اور غیر انسانی قرار دیا اور انسان کو انسان ہونے کا مارجن دینے کی بات کی ان کی آواز نے ہر دل کے ساز میں ردھم پیدا کیا، اسی تناظر میں انھوں نے ایک شعر کہا ہے۔
لوگ کہتے ہیں تو لوگوں پہ تعجب کیسا
سچ تو کہتے ہیں کہ ناداروں کی عزت کیسی
لوگ کہتے ، مگر آپ ابھی تک چپ ہیں
آپ بھی کہیے، غریبوں میں شرافت کیسی
وجہ بےرنگئ گلزار کہوں یا نہ کہوں
کون ہے کتنا گنہگار کہوں یا نہ کہوں


اس احتجاجی اور انقلابی سوچ کی آمیزش نے ان کی شاعری میں انفرادیت پیدا کردی تھی، ان کی شاعری کے طرز و آہنگ میں ایک نرمی اور دلداری کا احساس ہوتا ہے وہ بہت ہی شائستگی اور سادہ دلی کے ساتھ اپنے جذبات کو نوک قلم پر رکھنے کا ہنر رکھتے ہیں جیسے وہ ایک جگہ لکھتے ہیں ۔
اب نہ کیجئے مری گستاخ نگاہی کا گلہ
دیکھئے آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھ کو


یہ کہتے ہوئے ساحر نے کس قدر پر لطیف انداز میں اور بے باکی کے ساتھ اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے، انھوں نے رومانیت کو اپنی فطری صلاحیت سے ایک اعلی مقام عطا کیا، جو ہر دور کے نوجوانوں کے دلوں میں ایک ردھم پیدا کرتی رہے گی، آج بھی ان کی شاعری کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے اپنے ہی احساس ہیں ان کی انقلابی و احتجاجی شاعری آج کے دور کی بھی عکاسی کررہی ہے بس جبر کا پیرہن بدل گیا ہے اور محل وقوع بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ گہرائی سے اگر دیکھا جائے تو ان کے دور میں ظلم و جبر کا جو ماحول روا تھا وہ آج بھی باقی ہے اس سے پیدا ہونے والی کشاکش آج بھی قائم ہے۔ انھوں نے جنگ کی ہمیشہ مخالفت کی اور امن کو ترجیح دینے پہ زور دیا اس حوالے سے لکھی جانے والی ان کی نظم اردو ادب میں ایک شاہکار کا مقام رکھتی ہے۔ جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے/ جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی۔ یہ نظم آج بھی لوگوں کی زبانوں پہ رواں ہے۔
انھوں نے افراتفری و ظلم و تعدی کے متعلق اپنے خیالات کو اپنی طویل ترین نظم ٬پرچھائیاں٬ کا مرکزی خیال بنایا ہے بہت دلدوز آہنگ کے ساتھ اس نظم میں لفظوں اور اسالیب کا انتخاب کیا ہے۔
میں شہر جا کے ہر اک در پہ جھانک آیا ہوں
کسی جگہ مری محنت کا مول مل نہ سکا
ستمگروں کے سیاسی قمار خانوں میں
الم نصیب فراست کا مول مل نہ سکا


ان کی دلگرفتگی اور غمناکی ان اشعار سے پوری طرح چھلک رہی ہے آگے وہ لکھتے ہیں،
تم آ رہی ہو سر شام بال بکھرائے
ہزار گونہ ملامت کا بار اٹھائے ہوئے
ہوس پرست نگاہوں کی چیرہ دستی ہے
بدن کی جھینپتی عریانیاں چھپائے ہوئے


اگر اس وقت کی انسانیت زخم آلود تھی تو اخلاقیات بھی اس کی تپش سے محفوظ نہیں تھی، اگر چہ یہ ہر دور کا المیہ رہا ہے آج کا دور بھی اس سے مستثنیٰ نہیں، ایک حساس ضمیر کبھی بھی ایسے مناظر کی مذمت سے گریزاں نہیں ہوتا ساحر نے اپنے ضمیر سے کبھی بیعت نہیں کی انھوں نے اپنی زندگی سچ کا سامنا کرتے ہوئے ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے گذاری۔
کہتے ہیں کہ انسان کے فن کے سنوارنے و نکھارنے میں اس کی طرز زندگی اور حالات زندگی کا ایک بڑا کردار ہوتا ہے، ساحر کے معاملے میں یہ سچائی آخری حد تک صادق ہوتی دیکھی جا سکتی ہے، ان کی زندگی کی نشیب و فراز ان کے اشعار پڑھنے کے بعد محتاج وضاحت نہیں رہتے۔ ان کا لکھا گیا ہر شعر ان کی ذاتی احساسات کی ترجمانی کر رہا ہے۔
میں نے ہر چند غم عشق کو کھونا چاہا
غم الفت غم دنیا میں سمونا چاہا


کثرت غم بھی میرے غم کا مداوا نہ ہوئی
میرے بےچین خیالوں کو سکوں مل نہ سکا


آہ اس کشمکش صبح و مسا کا انجام
میں بھی ناکام مری سعئ عمل بھی ناکام


ساحر لدھیانوی لدھیانہ کے ایک زمیندار گھرانے میں 8 مارچ 1921 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام عبد الحئی تھا ساحر ان کا قلمی نام ہے وہ اپنے والد چودھری محمد فضل کی اس بیوی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے جن سے ان کا تعلق مخفی رشتہء ازدواج کا تھا، اس کے مخفی رکھنے کے پیچھے کیا عوامل تھے یہ ایک الگ بحث ہے، یہ ایک سچ ہے کہ اس طرح کے مخفی رشتوں کی مضبوطی اکثر وبیشتر مخدوش ہوتی ہے، ایسا ہی کچھ ساحر کے والدین کے یہاں بھی ہوا ان کی ماں چاہتی تھیں کہ اس نکاح کو ظاہر کیا جائے تاکہ ساحر کی پہچان مستند رہے، لیکن ان کے والد نہ جانے کیوں آمادہ نہیں ہوئے بالآخر خیالات کا یہ اختلاف ان کے درمیان جدائی کا سبب بن گیا، اس کی سب سے بڑی قیمت ساحر نے جذباتی نا آسودگی کی صورت میں چکائی۔ وہ ساری عمر باپ کی شفقت سے محروم رہے ، انھوں نے صرف محبت سے محرومی کا دکھ نہیں جھیلا بلکہ بدقسمتی سے وہ اپنے والد کی بے اعتنائی، بےحسی و سفاکیت کا شکار بھی بنتے رہے ۔ ان کی ماں نے ساحر کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لئے ناقابل بیان دکھ جھیلے، وہ اپنی ماں کی بےبسی اور غربت کو دیکھ کر عیرمحسوس طریقے سے اندر سے تلخ اور رعونت زدہ ہوگئے تھے لوگوں پر ان کا اعتماد لڑکھڑا گیا تھا۔
انھوں نے غربت و احتیاج کا خود تجربہ کیا تھا یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنی انقلابی نظموں میں ایسے حالات سے دوچار لوگوں کے حق میں آواز اٹھائی اور معاشرے میں اعلی طبقے کی غالبیت اور نچلے طبقے کے تئیں کئے جانے والے ان کے ظلم کو ہدف تنقید بنایا، ان تلخ ترین حالات نے ساحر کو جذباتی آسودگی سے محروم کر دیا تھا ان کے اندر ایک الاؤ تھا جو کہ مسلسل دہکتا رہتا، انھیں ہر ظالم سے لاشعوری طور پہ نفرت سی ہوگئی تھی، دنیا سے بدلہ لینے کی سوچ ان کے لاشعور میں داخل ہوگئی تھی جو کہ شاید لوگوں کو احساس دلانے اور ان کو متنبہ کرنے کی ایک کوشش تھی بےشک انھوں نے اسی تناظر میں یہ شعر کہا۔
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو مجھ کو دیا ہے وہی لوٹا رہا ہوں میں


کہتے ہیں ساحر نے اپنی زندگی میں ففٹی پرسنٹ عشق کیا تھا، ففٹی پرسنٹ عشق سے مراد ایک ایسا عشق جو اپنے انجام تک نہیں پہنچا، ایک ایسا ہی ادھورا عشق ان کا اور امرتا پریتم کا رہا امرتا پریتم خود لکھتی ہیں 'میرے اور ساحر کے درمیان کبھی الفاظ حائل نہیں ہوئے وہ سرد کڑاکے کے موسم میں میرے پاس آتا اور چپ چاپ سگریٹ پیتا رہتا راکھ دانی جب بھر جاتی تو وہ خاموشی سے اٹھ کے چلا جاتا اور پھر میں اس کے جانے کے بعد ادھ جلے ٹکڑوں کو اپنے لبوں سے لگا کے کش لیتی'
اس وقت امرتا پریتم شادی شدہ تھیں، انھوں نے ساحر سے سچا عشق کیا تھا اور ساحر کے عشق میں ڈوب کر بےشمار نظمیں لکھیں اور ان کے اس شعری مجموعے کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی ملا تھا اپنی تمام تر چاہتوں اور شدتوں کے باوجود یہ جذبہء عشق منزل کی تلاش میں تاعمر بھٹکتا رہا، امرتا پریتم ایک جگہ لکھتی ہیں کہ ایک دن میرے بیٹے نے مجھ سے کہا کہ لوگ مجھے ساحر کا بیٹا خیال کرتے ہیں تو اس پر انھوں نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ کاش کہ تم ساحر کے بیٹے ہوتے ۔


ساحر کی نظموں سے بھی ان کی جذباتی وابستگی عیاں و نمایاں ہے، انھوں نے برملا طور پہ اپنے جذبات و احساسات کا اظہار اپنی شاعری میں کیا ہے، ان کی انھیں بےباکی اور بے ساختگی نے انھیں رومانی شاعری کا بے تاج بادشاہ بنا دیا۔
برف برسائی مرے ذہن و تصور نے مگر
دل میں ایک شعلہء بےنام سا لہرا ہی گیا
تیری چپ چاپ کو نگاہوں کو سلگتے پاکر
میری بےزار طبیعت کو بھی پیار آ ہی گیا


ساحر کا عشق یوں تو اور کئی لوگوں سے رہا لیکن وہ زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہ سکا، امرتا پریتم کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ساحر سے شادی کے لئے رضامند تھیں لیکن پھر بھی ساحر نے ان سے شادی نہیں کی امرتا پریتم کا عشق اتنا معصوم اور ایثار پسند تھا کہ انھوں نے شادی کے لئے ساحر کے رضامند نہ ہونے پہ انہیں کوئی الزام نہیں دیا بلکہ انھوں نے اپنے بہت زیادہ خوبصورت ہونے کو اس کا قصوروار ٹھہرایا اور سارا الزام اپنے سر لے کر ساحر کو بری کر دیا۔
ساحر نے شاید اس لئے اپنے کسی تعلق کو انجام تک نہیں پہنچایا کیوں کہ وہ کہیں نہ کہیں اپنے ساتھ کی گئ زیادتیوں کا بدلہ لاشعوری طور پہ اپنے ہی عشق کو تشنگی کی کھائی میں ڈال کر لے رہے تھے، جو کچھ انھیں زندگی سے ملا تھا انھوں نے دنیا کو وہی سب کچھ لوٹانے میں اپنے جذبات و احساسات کو تاعمر مجروح رکھا، کہا جاتا ہے کہ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی ۔
فلمی دنیا میں ان کا ایک شاندار مسقبل رہا آر۔ڈی۔ برمن کے ساتھ انھوں نے بےشمار فلمی گیت لکھے جو کہ سدا بہار ہو گئے، انھوں نے سیاست کے پیچ و خم کو بھی اپنے قلم سے بیان کئے اور جذباتی اور نفسیاتی احساس کی ترجمانی کرنے والے اشعار بھی لکھے، انقلابیت پسندی تو ان کی شعروں کی پہچان رہی ہے جیسا کہ انھوں نے اپنا تخلص ساحر رکھا تھا بالکل اسی طرح سحر کی گہری چھاپ ان کے اشعار سے مترشح ہے، ان کی شاعری میں دوسرے شعرا کے مقابلے میں زیادہ سچائی اور گداز پایا جاتا ہے، اسی محبت کی اثر آفرینی نے انھیں زندہء جاوید بنا دیا۔
ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں 1971 میں پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا مہاراشٹر کی حکومت نے انھیں 'جینس آف پیس' کا ایوارڈ دیا تھا۔ 1973 میں آؤ کہ کوئی خواب بنیں کل کے واسطے کی کامیابی پر انھیں 'سویٹ لینڈ نہرو' کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی ایوارڈ ان کو ملے جس کے کہ وہ واقعی مستحق تھے۔ انھوں نے اردو ادب کی خدمت جس جانفشانی سے کی وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے جس کو کہ ادب کی دنیا میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
مجھے معلوم ہے انجام روداد محبت کا
مگر کچھ اور تھوڑی دیر سعئ رائیگاں کر لوں

***
علیزے نجف۔ سرائے میر، اعظم گڈھ، اترپردیش
ایمیل: alizeysikander[@]gmail.com

Sahir Ludhianvi: A sensitive poet. Essay by: Alizey Najaf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں