انقلاب کے زمانے میں روس کے وسیع و عریض سینے پر کروڑوں مزدور سرمایہ دارانہ نظام کو پاش پاش اور غلامی کے بندھن توڑنے کے لئے سر گرم عمل تھے ، وہ ایک ایسے اشتراکی نظام کی بنیادیں قائم کرنے کے درپے تھے جس کی فضا میں غلام اور آقا کا امتیاز مٹ جائے اور جس میں انسانیت کا پودا پھول پھل سکے، جیسا کہ ایک روسی مقالہ نگار بیان کرتا ہے" ان دنوں زندگی روس کے بازاروں، چوکوں اور جنگ کے میدانوں میں سمٹ کر چلی آئی تھی ، اس زندگی نے اپنے ہنگامی بطن سے ایک ایسی شاعری کو جنم دیا جس کا خطاب لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کے ہجوم کی طرف تھا۔
شاعر ولادی میٹر میا کو رسکی کا حکم تھا کہ "تمام مستقبل پرست، خواب دیکھنے والے(نظری) شاعر،گھروں سے باہر نکل آئیں۔"
جس طرح بالشویکوں اور سوویٹ یونین کے محنت کش لوگوں کی مسلسل اور انتھک کوششوں اور کارل مارکس اور لینن کے آتشیں افکار نے ملوکیت اور نظام کہن کے خس و خاشاک کو آگ لگا کر خاکستر بنادیا اور اس خاکستر کی کھاد بناکر سماج کی کھیتی میں نئے درخت لگائے ، ٹھیک اسی طرح شعلہ نفس شاعروں اورادیبوں نے فرسودہ لٹریچر کو جلاکر ایک نئے ادب کو تخلیق کیا ہے۔
سوویٹ ادبا نے اپنے ملک کی اشتراکی تشکیل میں پیش از پیش حصہ لیا ہے اور انسانی ارواح کو بیدار کرنے کے لئے وہ وہ کام انجام دئے ہیں جن کی مثال ملنی مشکل ہے۔ قدیم اور فرسودہ تخیل کی عمارت ڈھاکر نئی دیواریں کھڑی کرنا سوویٹ روس کے انشا پردازوں کا کام ہے۔ جس کو انہوں نے بڑی سلیقے سے انجام دیا۔
دی ملگودسکی، اشتمالی شاعر کے مندرجہ ذیل اشعار روس کی اشتراکی شاعری کے دیباچے کا کام دیتے ہیں ؎
میری شاعری، میری شاعری
لڑائی کے میدان میں مارنے اور جلا دینے کے لئے ہے۔
زندگی کی مضبوط کلیت ہٹا کر
اس کے حقیقی معانی فاش کرنے کے لئے ہے۔
حوادث اور واقعات کے اسرار میں اصرار کرکے
بہرے کو سماعت اور گونگے کو گویائی عطا کرنا چاہتی ہے۔
کہ وہ قدرت کے قوانین جان سکیں۔
یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ سوویٹ روس کی اشتراکی شاعری اس منزل کے قریب پہونچ گئی ہے جو اس کی نظروں کے سامنے تھی ، ہم یہ چاہتے ہیں ، ہم وہ چاہتے ہیں۔۔ روس کی طرف سے ہواکے جھونکے یہی شور ہمارے کانوں تک پہونچاتے ہیں اور اس شور کو سن کر ہم یہی نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ جو کچھ وہ لوگ چاہتے ہیں ان کو مل جائے۔ روس کی اشتراکی شاعری ابھی تک اپنی منزلِ مقصود کی طرف گامزن ہے اور وہ دن قریب ہے جب لینن کے الفاظ میں روس کی موجودہ شاعری اور اس کا موجودہ ادب"انسانیت کے صناعانہ ارتقا میں ایک نیا اسٹیج" قائم کرنے کا موجب ہوگا۔
سوویٹ روس میں اب نئی پود بوڑھے شاعروں کی مدد کے لئے آگے بڑھ رہی ہے۔ اشتراکیت کے نوجوان علمبرداروں کی آواز سوویٹ شاعری پر اب روز بروز زیادہ اثر کرتی جارہی ہے چھاپہ خانے کا ایک مزدور، یا روسلا وسملیا کوف اندنوں سوویٹ روس کا بہت بڑا شاعر ہے۔ اسے جدید شاعری کی تلنک میں دستگاہ وافی حاصل ہے اس کا شاعرانہ پروگرام یہ ہے۔ ؎
میں اپنی تصانیف میں
جوانی کی حرارت
اور صناع کے فن کو سمو دینا چاہتا ہوں۔
سرمایہ پرست سوسائٹی اس امر کی مدعی رہی ہے کہ مزدوری پیشہ جماعت میں تخلیقی قوت نہیں ہوتی اس لئے آرٹ کلچر، لٹریچر اور تکنک کے میدان میں وہ ہمیشہ ناکام رہے گی ، لیکن روس کی موجودی حیرت خیز ترقیوں کو دیکھنے کے بعد یہ دعوی باطل ثابت ہوجاتا ہے کہ مزدوری پیشہ جماعت نقش کہن مٹانے کے ساتھ ساتھ نئے نقش بھی پیدا کرسکتی ہے جب ان کو لائی تخونوف کی زبان میں
؎
آگ ،دارورسن ،گولیوں اور کلہاڑیوں نے
غلاموں کی طرح ہمارے آگے سر جھکادئے
اور ہمارے پیچھے پیچھے چلی آئیں
ہر بوند میں ایک طوفان سورہا تھا۔
کنکریوں کی بڑی بڑی چٹانیں بن گئیں۔
اور ہر وہ شاخ جو پاؤں کے نیچے روندی گئی تھی
ایک شورافگن جنگل بن گئی
سکوں کی قدروقیمت اور ان کی کھنکھناہٹ غائب ہوگئی۔
لاشیں بچوں کے دلوں میں ڈر پیدا نہ کرسکیں۔
اس وقت ہمیں خوبصورت تلخ اور درشت الفاظ معلوم ہوئے تو سرمایہ داروںں کے اس دعوے کی بنیادیں ہل گئیں۔ وہ "خوبصورت تلخ اور درشت الفاظ کیا تھے جو انہیں معلوم ہوئے؟۔۔۔ یہ کہ"نگاہ کی ہر جنبش میں ایک ستار ہ چمکتا ہے ، اور مکان(Space) ہر قدم پر وسیع ہوتا ہے۔
ان دنوں شاعری کی طرف لوگوں کا رجحان کم ہوتا چلاجارہا ہے۔ وہ دن گزر گئے جب گوئٹے، ماٹنے ہیوگر، غالب اور میر کے کلام پر لوگ سر دھنتے تھے۔ حال سے ماضی کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شاعروں کا کلام نسبتاً بہت کم مطالعہ میں آتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟۔۔ کیا یہ انقلاب کی معرکہ آرائیوں کا باعث ہے؟ ہاں ایک حد تک انقلاب کی معرکہ آرائیوں کو اس رجحان کی تبدیلی میں دخل ہے مگر اصلی وجہ کے لئے ہمیں اور زیادہ گہرائیوں میں جستجو کرنی چاہئے۔ اصل باعث جدید سرمایہ دارانہ زندگی کے فقدان اتحاد میں تلاش کیاجاسکتا ہے۔
اتحاد و شعور، اور حقیقت کے متعلق لوگوں کا اتحاد تصور سوویٹ شاعری کے لئے اجنبی ہے۔ سوویٹ روس میں شاعری زندگی سے الگ تھلگ نہیں ہے۔ وہاں شاعری زندگی کا عضوی(Organice)تسلسل ہے۔ زندگی کا ایک جزو ہے۔ سوویٹ روس میں شعر کی ضرورت عوام کو ہے اشتراکیت کے زیر سایہ بسنے والے عوام کو ہے۔ اس لئے کہ یہ ان کے خیالات و محسوسات کو تازگی بخشتی ہے۔ انہیں تعلیم دیتی ہے اور ان کو پاک وصاف بناتی ہے۔ سوویٹ ، روس میں شاعر ایسا "خود پسند گوشہ نشین "نہیں ہے جو انفرادی افکار کی دم گھوٹنے والی فضا میں زندگی بسر کررہا ہو۔ وہ انسانیت کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کا پیغامبر ہے۔
یو، ایس ، ایس، آر میں مزدوری پیشہ جماعت نے ایسے نئے ادیب، شاعر اور فلسفی پیدا کئے ہیں ، جنہوں نے ایک نئے لٹریچر کی بنیاد ڈالی ہے ، ایسے لٹریچر کی جو ہزاروں پہلو رکھتا ہے اور جس کے اندر جملہ خوبیاں موجود ہیں۔ پرانے روس یعنی سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی میں ادب حاکم جماعتوں کی(Ideology) کا اظہار ہے۔ اس میں یاس و قنوط کروٹیں لیتا ہے، اس کے علاوہ حزن و ملال ، یاس وناامیدی اور بے کسی و ناچاری کی تصویر پیش کرتا ہے۔ انقلاب سے پہلے ادیب زندگی پر کوئی ایمان نہیں رکھتے تھے ، چنانچہ الگزنڈبلوک اپنے اشعار میں اس بات کا شکوہ کرتا ہے کہ"وہ بیس سال کی عمر میں ایک رنگین لاش تھا،"اصلیت اور زندہ جذبات کے بجائے لٹریچر کا رجحان مصنوعی محسوسات کی طرف تھا اور ایک ایسی چھوٹی سی دنیا میں آباد تھا جس میں انشا پرداز کی زندگی تلخیوں اور ناکامیوں کو فراموش کرنے کی سعی کرتی تھی۔ مگر اب حالات بالکل تبدیل ہوچکے ہیں ، حزن و ملال کی جگہ امید ورجا نے لے لی ہے ، قنوطیت، رجائیت کا رنگ اختیار کرگئی ہے اور اب سوویٹ لٹریچر کی زندگی تمام ترتازگیوں اور شوخیوں سے لبریز ہوتی ہے۔ سوویٹ ادب دنیا کی المناک سے المناک مسئلے کا حل رجائیت کی روشنی میں پیش کرتا ہے۔ اس م یں کوئی شک نہیں کہ سوویٹ ادب اور شاعری میں موت اور اس کی ہیبتوں کا اقرار موجود ہے مگر کشمکش زیست میں روح کی پرواز اور انسانیت کے لئے مسرت مہیا کرنے کی کوشش میں زندگی کا خاتمہ سوویٹ لٹریچر میں زندگی کی تصدیق کا مظہر ہے۔
سوویٹ ادباء شعرا کے پیش نظر یہ چیز ہے کہ وہ اشتراکی نظام کے مسائل کو صناعانہ طریق پر حل کریں اور اس طرح اپنے ادب کو غایت درجہ حقیقی بنادیں۔ انفرادیت کی طرف سوویٹ روس کے ادییب بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ ان کی حقیقت پسندی اور ان کے اشعار جو جماعتی فضا میں پیش کئے جاتے ہیں، افراد کی ان سر گرمیوں کی تصویر کشی کرتے ہیں جو تاریخی تبدیلیوں کا باعث ہوتی ہیں۔ سوویٹ ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ماضی کو نئی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
سوویٹ لٹریچر جو اشتراکیت کی تعمیر و تاسیس کا رفیع الشان تخیل پیش کرتا ہے، اسی بناپر لاکھوں اور کروڑوں مزدوری پیشہ افراد کو اپنے دام الفت میں گرفتار کرچکا ہے اور سچ پوچھئے تو وہ اس چیز کا استحقاق بھی رکھتا ہے ، اس لئے کہ سوویٹ ادب ناکارہ اور کاہل الوجود لوگوں کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا لٹریچر ہے جو ملک و قوم کے اشتراکی نظام کی ترفیع چاہتا ہے۔
سوویٹ روس کے ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد قطعی طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ سرمایہ داروں کا یہ خیال بالکل باطل ہے کہ جب گولے برستے ہیں تو تخیل خاموش ہوجاتا ہے "۔۔۔۔ ارض احمر کے سرخ قلموں کی ہر جنبش اس تیقن پر خط تنسیخ کھینچتی ہے۔
ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ شاعر (آگرہ)، سالنامہ 1937ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں