گجرات سے رامپورتک: اب تو جاگیں - کالم از شکیل رشید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-12-11

گجرات سے رامپورتک: اب تو جاگیں - کالم از شکیل رشید

from-gujarat-to-rampur-elections

دو صوبوں کی اسمبلیوں ، دہلی کے کارپوریشن اور چار ریاستوں کی ، پانچ اسمبلی اور ایک لوک سبھا نشست کے لیے ، ہونے والے انتخابات کے نتائج'امید'کا ایک'دیا'روشن کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم ان انتخابات کے دوران مُڑ کر رامپور کی جانب دیکھتے ہیں تو امیدکچھ کچھ دَم سی توڑنے لگتی ہے۔ کچھ کچھ اس لیے کہ بدتر حالات بہت زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہتے ، یہاں بھی قائم نہیں رہیں گے۔ لیکن امید کے دَم توڑنے کا سبب یہ ہے کہ اِن حالات کے ختم ہونے ، اور واقعی 'اچھے دنوں کے آنے' تک جتنا کچھ نقصان ہو چکا ہوگا ، وہ ملّت ہی کے لیے نہیں ، پورے ملک کے لیے ناقابلِ تلافی ہوگا۔


جہاں تک امید کا معاملہ ہے ہماچل پردیش نے امید کی ایک لَو جلائی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ 'کانگریس مُکت بھارت' کا نعرہ لگانے والی بی جے پی نے ہماچل میں جیت حاصل کرنے کے لیے کوئی کسر چھوڑی تھی۔ امیت شاہ نے ، جو ملک کے وزیر داخلہ ہیں اور وزیراعظم نریندر مودی کا داہنا ہاتھ ، اپنے بیانات اور اپنی انتخابی ریلیوں کے ذریعے فضا کو مسموم کرنے کی ، اور اس کے نتیجے میں ہندو - مسلم خلیج کو مزید وسیع کرنے کی کوشش کی تھی۔ بی جے پی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ، وہ ہماچل کی ہر پانچ سال پر سرکار تبدیل کرنے کی روایت کو ، توڑ دے گی ، لیکن وہ یہ نہیں کر پائی اور اُس کا 'کانگریس مُکت بھارت' کا نعرہ ہماچل میں بس نعرہ ، بلکہ کھوکھلا نعرہ ثابت ہوا۔


آج کے حالات میں ہماچل میں بی جے پی کی ہار ایک اہم پیغام ہے ، ہمارے لیے بھی اور بی جے پی و اس ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کے لیے بھی۔ ہمارے لیے اس وجہ سے کہ ہم آج بھی بی جے پی کے سلسے میں کوئی مشترکہ لائحۂ عمل نہیں بنا سکے ہیں۔ گجرات کی مثال ہمارے سامنے ہے ، جہاں 19 مسلم اکثریتی حلقوں میں سے 17 پر بی جے پی کا قبضہ ہوا ہے۔
اگر مسلمان بی جے پی کے خلاف تھے تو ان کی اکژیت والے حلقوں میں بی جے پی کامیاب کیسے رہی؟ ان کے ووٹ کِسے ملے ؟ اگر انھوں نے ووٹ نہیں ڈالے تو کیوں ؟ ان کے ووٹوں کے منتشر ہونے کا سبب کیا بنا ؟
یہ سوال گجرات سے اٹھے ہیں ، اور تقریباً ہر جگہ کے الیکشن کے بعد یہ سوال اٹھتے رہتے ہیں ، بالخصوص یہ سوال کہ مسلمانوں کے ووٹ کیسے اور کیوں تقسیم ہوتے ہیں ، مگر کبھی ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی اور کوئی حل نکالنے کی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی۔


گجرات میں بی جے پی کی جیت ہونا طئے تھی ، کیونکہ اس ملک کے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے دستِ راست امیت شااہ خود گجراتی ہیں۔ یہ شدید قسم کی علاقائیت کا نمونہ ہے۔ گجراتی کوئی بہت مزے میں نہیں ہیں ، چند دھنّا سیٹھوں کو چھوڑ کر ، مگر وہ اپنے لیڈروں کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر مودی میدان میں نہ ہوتے تو نتیجہ بی جے پی کے لیے اس قدر خوش کن نہ ہوتا۔


دہلی میں پندرہ سال سے بی جے پی کا کارپوریشن پر قبضہ تھا ، اسے عام آدمی پارٹی نے ختم کر دیا ، یہ بھی ایک اچھی بات ہے۔ ابھی یہ بحث غیر ضروری ہے کہ 'عام آدمی پارٹی' کون سی اچھی ہے ، یا کانگریس کون سی دودھ کی دھلی ہے ، ابھی بی جے پی کو دیکھنا ہے۔ اگر اس پر غور نہ کیا تو ہر جگہ 'رامپور' ہوگا۔
جانتے ہیں کہ رامپور میں مسلمانوں کو ووٹ دینے نہیں دیا گیا ، گھروں کے اندر گھس گھس کر پولیس نے تشدد کر کے لوگوں کو دہشت زدہ کیا ! یہ یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکار کا 'ہندتو' ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ پورے ملک کا 'قانون' بن جائے گا۔ آج تشدد کرکے مسلمانوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا جا رہا ہے ، کل کو 'قانون' بنا کر ان کا ووٹنگ حق چھین لیا جائے گا۔ لہٰذا آپ سب جاگ جائیں اور دوسرے سونے والوں کو بھی جگائیں۔


From Gujarat to Rampur: Wake up now. Analysis: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں