عامر سلیم : وہ جو ہنستے ہوئے سب کو رلا دیتا تھا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-12-13

عامر سلیم : وہ جو ہنستے ہوئے سب کو رلا دیتا تھا

amer-saleem journalist

رمضان کا آخری عشرہ چل رہا تھا، اوکھلا میں صاف صفائی کا نام و نشان نہ تھا، میں لکشمی نگر دہلی میں واقع روزنامہ صحافت کے آفس میں بیٹھا ، خبر لکھنے میں مصروف تھا کہ ایک شرارت سوجھی۔ میں نے علاقہ میں ایم سی ڈی کی اندیکھی اور تجاہل عارفانہ پر ایک خبر بناکر عاطف بھائی (محمد عاطف ، اِن دنوں روزنامہ انقلاب گورکھپور سے وابستہ ہیں) کو تھما دیا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ خبر نہیں چھپے گی، مگر عاطف بھائی نے جو اُن دنوں روزنامہ صحافت کے چیف رپورٹر ہوا کرتے تھے، اس خبر کو نواب علی اختر، جو دہلی کا صفحہ دیکھا کرتے تھے(نواب صاحب اب بھی روزنامہ صحافت میں ہی ہیں) کی جانب مسکراتے ہوئے بڑھا دیا۔ نواب بھائی نے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی اور اسے اپنے سامنے میز پر رکھ لیا۔
میں پھر سے کام میں لگ گیا، شام کو جب نکلنے لگا تو نواب بھائی نے کہا، ارے بھائی ! سرخی تو رہ ہی گئی، میں نے مسکراتے ہوئے کہا، لکھ دیجیے۔ "کیا انجینئر جمال الدین اعتکاف میں ہیں۔؟۔" ان دنوں انجینئر جمال الدین کاؤنسلر ہوا کرتے تھے۔ ذیلی سرخی کیا تھی اب یاد نہیں رہا۔


دوسرے دن آفس پہنچا تو نواب بھائی نے بتایا کہ ایک سینئر صحافی آپ سے ملنے آئے ہیں۔ دیکھا تو ایک صاحب لمبے تڑنگے، مڑے تڑے جرسی میں ملبوس، آنکھوں میں چشمہ لگائے، ایک ہاتھ میں ہیلمیٹ پکڑے، دوسرے میں ڈائری ، بانہیں پھیلائے قہقہہ زار ہیں۔ مجھے دیکھتے ہیں؛ اچھا تو آپ ہی علم اللہ ہیں، کہتے ہوئےاپنی بانہوں میں بھر لیا اور کہنے لگے، آفس جانے سے پہلے (چند فرلانگ پر ہی روزنامہ ہمارا سماج کی آفس تھی) سوچا مل لوں کہ کون ہیں آخر یہ علم اللہ، اور پھر بار بار دہراتے رہے۔ "ارے بھائی، آپ نے واقعی غضب کی سرخی لگائی، میں تو سمجھ رہا تھا یہ نقوی صاحب(سید ظفر نقوی مرحوم ) نے لگائی ہوگی، انہیں فون کیا تو معلوم ہوا کہ یہ، ان کا نہیں ،آپ کا کمال ہے، ارے بھائی جواب نہیں ہے"۔


یہ قہقہہ زار شخصیت عامر سلیم خان کی تھی جن کا 12 دسمبر 2022 کو حرکت قلب بند ہو جانے سے دہلی میں انتقال ہو گیا۔ بعد کے دنوں میں بھی جب کبھی عامر بھائی سے ملاقات ہوتی تو بے پناہ اپنائیت سے ملتے۔ اس سرخی کا ذکر ضرور کرتے ، مجھے احساس ہے ، یہ کوئی ایسی سرخی نہ تھی جس پر اتنی شاباشی دی جاتی ، لیکن خدا جانے یہ سرخی عامر بھائی کے ذہن میں کیوں چپک سی گئی تھی، دوستوں سے بھی ملتے تو اس کا ذکر ضرور کرتے۔ یہ ان کا ایک انداز تھا ، اپنوں سے ملنے کا۔ انھیں خوش کرنے کا۔


آج ان کے انتقال کے بعد جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو یقین نہیں ہو رہا ہے کہ عامر سلیم خان اب واقعی ہمارے درمیان نہیں رہے۔ وہ اپنے کام کے دھنی، بہادر اور بے باک صحافی تھے۔ مسلم مسائل پر ان کی تحریروں اور اداریوں کو دیر تک یاد رکھا جائے گا۔ وہ دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والے انسان تھے، جس کا عکس ان کی تحریروں میں بھی نظر آتا تھا۔


ایک مرتبہ کا واقعہ ہے، میں نے جامعہ نگر میں واقع نور نگر سرکاری اسکول کی بد انتظامی اور کسمپرسی پر ایک خبر روزنامہ صحافت میں چھاپ دی۔ خبر کا چھپنا تھا کہ ہنگامہ مچ گیا۔ اس واقعہ کو ابھی زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا، میں اسکول کے پاس سے گذر رہا تھا کہ اس کے پرنسپل نے اپنے غنڈوں سے مجھ پر حملہ کروا دیا، اللہ کے شکر سے مجھے کچھ ہوا نہیں کیونکہ اسی وقت سامنے کی باب العلم مسجد سے نمازی نکل رہے تھے ، ان میں سے کئی مجھے پہچانتے تھے ۔ انھوں نے فورا مجھے گھیر لیا اور مسجد لے گیے ، بات آئی گئی ، گذر گئی ، لیکن عامر بھائی بڑے بے چین ہوئے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے تا آنکہ انہوں نے اس پرنسپل کو اُس اسکول سے باہر کا راستہ نہیں دکھوا دیا۔ انہوں نے ہفتوں اس پر خبریں چھاپیں، دوسرے صحافیوں کو متوجہ کیا اور اخیر تک فالو اپ کرتے رہے کہ دہلی حکومت کو ایکشن لینا ہی پڑا۔


ایسا نہیں تھا کہ عامر بھائی نے صرف میرے معاملہ میں ایسا کیا تھا بلکہ دیگر گڑبڑیوں اور نا انصافیوں پر بھی وہ کھل کر لکھا کرتے تھے۔ اردو کے ساتھ نا انصافی کا معاملہ ہو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ، دارا لعلوم دیوبند میں وستانوی صاحب کی بات ہو یا پھر مسلم مجلس مشاورت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا۔ حج سبسڈی کا قصہ، بابری مسجد یا مسجد اکبری دلی کی کہانی ہو، سی اے اے این آر سی کا معاملہ ہو یا اپنی قوم کی بد معاشیوں کا وہ سب پر کھل کر لکھتے مگر اجتماعی مسائل کو ہمیشہ مقدم رکھتے، اس میں خواہ اپنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے، انھیں ان کی پروا نہ تھی۔


میں جب کبھی ملی مسائل پر کچھ سخت سست لکھ دیتا تو بہت سارے احباب مجھے اس سے باز رہنے کی تلقین کرتے ،مگر عامر بھائی ہمیشہ کہتے ، آپ نے بہت اچھا لکھا، صحافت میں اگر مزاحمتی آہنگ باقی نہ رہے تو وہ نِری کلرکی بن کر رہ جاتی ہے۔ مزاحمت کا مطلب یہ ہے کہ ہر اس شخص یا گروہ پر سوال اٹھایا جائے ، جس پر سوال اٹھانا کسی بھی حوالے سے مفاد عامہ کے لیے ضروری ہو اور لوگ اس پر سوال اٹھاتے ہوئے ہچکچاتے ہوں۔ ہمارے یہاں اہل صحافت میں ایک عجیب سا چلن فروغ پا رہا ہے۔ حکومت، اس کے ماتحت محکموں اور اداروں وغیرہ کی ترجمانی بھی کچھ لوگ صحافت کی آڑ میں کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ حکومت اور ملی اداروں نے اس کام کے لیے اپنے تعلقات عامہ کے شعبے قائم کر رکھے ہیں۔ صحافی کسی کا بھی ترجمان نہیں ہوتا ۔ اگر ترجمانی ہی مقدر ہے تو اسے عوام کی جانب کھڑے ہونا زیب دیتا ہے۔


ملی مسائل پر ان کی بڑی گہری نظر رہتی اور سات پرتوں میں چھپی خبر کو بھی وہ نکال لاتے۔ ان کی انہیں خوبیوں کی وجہ سے ان کے مخالفین بھی ان کا احترام کرتے اور ان کے ساتھ عزت سے پیش آتے۔ اس بات سے بہت کم لوگ واقف ہوں گے کہ عامر سلیم خان بنیادی طور پر عالم دین تھے اور اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے مشہور دینی درس گا ہ جامعہ سنابل دہلی سے فضیلت کیا تھا، لیکن ان کے احباب اور چاہنے والوں میں ہر مسلک و مشرب کے لوگ تھے، بلکہ ان کی خبریں اور مضامین اس بات کی گواہ ہیں کہ انھوں نے بہت سارے معاملوں میں مکتبِ اہل حدیث کی گڑبڑیوں پر جم کر لکھا۔ انھوں نے خبر کے معاملے میں مسلک کو کبھی بھی سامنے آنے نہیں دیا۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے اور اسی دہلی میں بہت سارے نام نہاد صحافیوں نے ان کے بعد کریر شروع کیا اور اونچے اونچے مکانوں اور فلیٹوں کے مالک بنے مگر عامر سلیم خان جس طرح بستی کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے کنگال آئے تھے، کنگال ہی رہے۔


وہ صحافتی مصروفیتوں کے علاوہ مہدیان میں واقع ایک مدرسہ میں پڑھاتے اور وہیں قیام کرتے۔ حالیہ دنوں میں اردو کے وہ واحد صحافی تھے جو ملت اسلامیہ ہند کے مسائل پر بیباکی کے ساتھ لکھ رہے تھے۔ ملی تنظیموں اور مسلم لیڈروں کے تعلق سے وہ ہمیشہ مثبت رخ اختیار کرتے۔ وہ کئی اخبارات کے عروج کا حصہ بنے لیکن انہیں عروج کبھی نصیب نہ ہوا۔ معمولی تنخواہ اور سادہ زندگی ان کا مقدر ٹھہری لیکن عزت خوب ملی۔ ایسی عزت ہر باعزت کو نہیں ملتی۔


جب روزنامہ ہندوستان ایکسپریس کا بٹوارہ ہوا اور اس سے ٹوٹ کر ہمارا سماج نکلا تو ان دنوں ہمارا سماج اور ہندوستان ایکسپریس دونوں اخباروں کی قلمی لڑائی دیکھنے لائق تھی۔ ایک طرف شاہد الاسلام اور اور احمد جاوید صاحبان مورچہ سنبھالے ہوئے تھے تو دوسری جانب عامر سلیم خان اور خالد انور۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اردو صحافت کے عروج کا دور تھا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی بساط لپیٹ لی۔
عامر سلیم خان اور اس قبیل کے لوگوں کو صحافت کے آخری قبیلہ کے کارواں کے طور پر دیکھا جائے گا۔ ان کی وفات سے اردو صحافت کے ایک دور کا خاتمہ ہو گیا۔ وہ صحافیوں کے اس کارواں کے ہدی خاں تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں ان مسائل پر سچائی اور غیر جانبداری سے رپورٹنگ کے لیے وقف کر دی تھیں جن سے ان کی برادریوں کے لوگ متاثر تھے۔ عامر سلیم خان کی صحافت کو ان کی لاجواب سرخیوں، نفیس زبان اور بہترین تلمیحات اور کلاسک محاوروں نیز منفرد انداز بیان کے لیے بھی دیر تک یاد رکھا جائے گا۔
عامر سلیم، آپ قلم کے مجاہد تھے۔ صحافت اور انشاء کے آدمی، آپ کی کہانیاں متاثر کن تھیں، آپ کے الفاظ حوصلہ افزا اور آپ کی ہمت بے مثال تھی۔ آپ نے غریبوں کو اٹھانے، اور بے آوازوں کو آواز دینے کے لیے لکھا۔آپ ایک دیانت دار صحافی تھے، جو حرف اور قلم کے تقدس کو سمجھتے تھے۔آپ قلم ہاتھ میں لے کر جیتے اور مرتے رہے۔ اب، آپ اپنے سفر کی آخری منزل پر پہنچ چکے ہیں، یقینا وہ جگہ جنت ہوگی، جہاں بہت سے عظیم قلم کاروں نے آپ کا استقبال کیا ہوگا، جن کے پاس صرف ایک ہی جذبہ ہوگا، احساس کا، دکھ کا، درد کا۔ وہاں آپ کو کسی بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں پڑے گی، وہاں، کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں، کوئی شکایت نہیں کرے گا کہ آپ ان کے بارے میں کیوں لکھ رہے ہیں۔
الوداع قلم کے سپاہی ۔۔۔الوداع ۔۔۔


***
alamislahi[@]gmail.com
E-26, AbulFazal, Jamia Nagar, Okhla , New Delhi -110025
محمد علم اللہ

Amer Saleem, a sincere and fearless journalist. - By: Mohammad Alamullah

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں