"شیشہ گھاٹ" اور "گنگا گھاٹ" کچھ تو مطابقت ہے دونوں میں۔ ورنہ میرے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا۔ سینکڑوں افسانے پڑھنے کے باوجود "شیشہ گھاٹ" نے ویسے ہی میرے ذہن کو اپنی گرفت میں لیا جیسے کوئی نہ چاہتے ہوئے بھی دل ودماغ میں بس جائے اور لاکھ کوششوں کے باوجود بھی اس کا تصور ذہن سے نہ جائے۔ بس وہی حال ہے جب سے اس افسانے کو پڑھا، بارہا کوشش کی کہ اس کو اپنے ذہن سے نکال دوں مگر نہ جانے کیا ہے جیسے ہی بستر پر لیٹتی ہوں فوراً ذہن میں ایک ہی خیال آجاتا ہے۔ پانی، بیر، زمین پھر۔۔ افف کرکے اس خیال کو دور کرتی ہوں اور کروٹ بدل کر خیال بدلنا چاہتی ہوں۔
میری ایک خاص عادت ہے جب کوئی چیز بار بار میرے ذہن سے ٹکرانے لگتی ہے۔ تو مجبوراً نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اس جانب توجہ دینا پڑتی ہے۔شاید یہی حال "نیر مسعود" کے افسانے شیشہ گھاٹ کے ساتھ ہوا۔
نیر مسعود ایک ایسے نثرنگار ہیں جس کی گرفت میں سب سے پہلے 'نظر' آتی ہے اور اس کے بعد 'ذہن'۔ وہ ان دونوں کو گرفت میں لینے کے بعد دل میں ایک "شش و پنج" کی کیفیت طاری کردیتے ہیں۔
ان کی تحریر (نثر) کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی نثر جب کاغذ پر اترتی ہے تو وہ تحریر کی بھیڑ نہ ہوکر تجسس کی سڑک ہوتی ہے۔ ایک ایسی سڑک جس کے ہر موڑ پر نئے نئے راز افشاں ہوتے ہیں۔ (یہ خالص میرا اپنا نظریہ ہے)۔
"شیشہ گھاٹ" جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو برابر میرے ذہن میں سمجھی اور نا سمجھی کی کیفیت طاری رہی۔ مگر افسانہ جوں جوں آگے بڑھتا رہا میں خود بخود اس سڑک پر چلنے کے لیے راضی ہوتی گئی جو "نیر مسعود" نے اپنے بہترین اور چُنے ہوئے الفاظ کے ذریعے بنائی تھی۔ "نیر مسعود" کے الفاظ تجسس کا ایک ایسا جال بچھاتے ہیں جس میں ہر ذی شعور پھنستا چلاجاتا ہے۔
"شیشہ گھاٹ" ایک ایسا افسانہ ہے جس کی تاثیر کرب کو صرف محسوس کیاجاسکتا ہے اور احساسات کو قلم کے ذریعے بیان کرنا بے حد مشکل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ جب کسی احساس میں کرب کی کیفیت ہو تو بہت مشکل۔ یہ میری مجبوری ہے کہ میں اپنے اس احساس کو لکھ رہی ہوں جو برابرمیرے ذہن کو کرب دیتا ہے۔ مگر ہے خوشنما۔ شاید یہ میرے لیے بہتر ہے کہ لکھنے سے یہ خیال ذہن سے نکل جائے۔ یا اس کا کرب کچھ کم ہوجائے۔جہاز، بوڑھا فن کار، جس نے پوری کہانی میں بہت کم گفتگو کی ہے۔ اس کی اسی کم گوئی میں زمانے بھر کا دکھ، زندگی بھر کا تجربہ، سبھی کچھ تو کہہ گئے نیر مسعود!
ایک ایسی بستی جہاں دن میں بھی رات کا گمان ہوتا ہے، اندھیرا اور دھواں، افف۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی نیر مسعود کے ساتھ اس بستی میں قدم رکھناپڑا۔ دم گھٹتا ہے۔ جہاں ذرا دیر رکنا ممکن نہ تھا۔ مگر اسی اندھیری بستی کے لوگوں کے ہاتھوں ایسی صناعی۔۔۔ یہ ضرور کسی بڑے فن کار کا کام ہے ،جو خود اندھیروں میں اور دھوئیں میں تاعمر رہ رہے ہیں مگر دوسروں کو چمکتے ہوئے روشن آئینہ (شیشہ) دیتے ہیں جو ان کو دھواں دھوپ اور دھول سے بچائے۔ ہاں مگر بستی تو شیشہ گھاٹ ہے۔
ہاں گھاٹ کے نام سے یاد آیا۔ اس دھواں بھری بستی سے نکل کر جب میں اس عجیب وغریب گھاٹ پر پہنچی تو وہاں ایک اور حیرت اور تجسس میری منتظر۔ افف خدا۔۔۔ پیشانی پر شکن صاف نمایاں تھی۔ افسوس اور حیرت کے ملے جلے تاثرات چہرے پر آئے اور چلے گئے۔ ایک طرف جھیل اور "پریا" کی ناؤ دوسری طرف جہاز اور اس کا خریدا ہوا بیٹا۔
"پریا" جس نے کبھی اپنے پاؤں زمین پر نہیں رکھے تھے وہ پانی میں پیدا ہوئی اور پانی ہی میں بڑی ہوئی۔ زمین کو نہ چھونا اس کی پاکیزگی کا سب سے بڑا ثبوت تھا۔ مگر کہتے ہیں نا کہ حرص وطمع انسان کے لیے ازل سے مضر ہے۔ شاید اس جل پری (پریا) کے لیئے بھی اس کی طمع مضر ثابت ہوئی۔
دوسری طرف ایک ایسا کردار جو تاعمر اپنے جذبات اور بات دونوں کو ظاہر کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ شاید "پریا" سے اس کی حالت کچھ مختلف نہ تھی۔ وہ زمین میں رہ کر زمین والوں کی طرح نہ تھا۔
زبان کی "لکنت" اس کے لیے زمین کی مصیبت بن گئی۔ اس کا کرب تو بیان کرنا بھی مشکل تھا کیونکہ جو خود اپنا دکھ بیان کرپائے۔ اس کا دکھ بیان کرنا بے حد مشکل ہے ۔ "نیر مسعود" کا یہ ایک ایسا کردار ہے جو "شیشہ گھاٹ" میں برابر ایک ذہنی کرب میں مبتلا نظر آیا۔ حد تو یہ ہے کہ اس کے کرب کی وہ انتہا جب "پریا" اس کے سامنے پانی پر قدم رکھتی ہے اور وہ کچھ نہیں کرپاتا اور میں سوچتی ہوں کاش اس کی زبان میں لکنت نہ ہوتی۔ کاش وہ "پریا" کو اس بات سے باز رکھ پاتا۔ حسرت اور آرزو دونوں کی منزل تھی۔ مگر کرب دونوں کی قسمت۔
عافیہ حمید۔ ریسرچ اسکالر، خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی، لکھنؤ
ای-میل: aafiyahameed6[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں