شکست - افسانہ از زیبا خان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-12-08

شکست - افسانہ از زیبا خان

shikast-short-story-by-zeba-khan

دو منٹ کے لئے ٹرین کیا رکی، جیسے گرمی نے دھاوا بول دیا، میلے کچیلے مرد عورت اور بدبو سے بھرے ہوئے سلیپر کلاس کے ڈبوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جتنے مسافر سیٹوں پر ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ زمین پر چادریں بچھائے پڑے رہتے ہیں۔ ناک بند کرتے ہوئے اس نے لیٹے لیٹے ہی کھڑکی سے باہر اسٹیشن کی طرف جھانکا سیکڑوں مسافروں کا ہجوم بھاری بھرکم سامان لادے ادھر سے ادھر بھاگا جا رہا ہے۔ ہے بھگوان۔۔۔ آدمی سکون سے ایک جگہ بیٹھتا کیوں نہیں۔۔؟ رات دن چلتا رہتا ہے، آدمی کے حالات پر غور کرتے ہوئے اس کی نظر ٹرین کی پٹری پر گئی۔ ایک مسافر اپنے چار سالہ بچے کو لیٹرین کروانے کے بعد پٹریوں پر دھلا رہا تھا۔ پاس ہی پلیٹ فارم پر پڑی لوہے کی کرسیوں پر بیٹھی اس کی بیوی ایک میلی سی بوتل لیے اپنے شیر خوار بچے کو دودھ پلا رہی تھی۔ بچہ بار بار اپنے ہاتھوں سے بوتل چھیننے کی کوشش کرتا وہ ڈانٹ کر کچھ کہتی۔۔ ہاتھ ہٹا دیتی، بچہ پھر دودھ پینے لگتا۔۔۔ میلی ساری میں ملبوس اس عورت کے آس پاس چار پانچ کتے ٹہل رہے تھے۔ جن میں سے دو خارش زدہ تھے۔۔۔ان‌ کے زخموں پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں وہ اپنی آگے کی ٹانگوں سے مکھیوں پر جھپٹتے مکھیاں ہوا میں رقص کرنے لگتیں، کچھ دیر بعد پھر آکر بیٹھ جاتیں۔۔۔اسے الٹی محسوس ہوئی۔ نظریں گھماتے ہوئے اس نے ٹرین کے اندر بیٹھے مسافروں کو دیکھا جو نیند میں اونگھ رہے تھے۔۔۔عورت۔۔کتا۔۔بدبو۔۔۔اس نے سر جھٹک دیا۔ تبھی ٹرین نے سیٹی بجائی اور ایک ہچکولے کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔


اگلے اسٹیشن پر اسے اترنا تھا سو اب وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اپنا سامان ٹھیک کرنے لگا۔۔چارجنگ پر لگے ہوئے موبائل کو نکال کر جیب میں رکھا ، چارجر بیگ میں ڈال دیا۔ سیٹ کے نیچے رکھے ہوئے جوتے اور موزے نکال کر پہنے تو قدرے تیز بدبو اس کی ناک میں گھسنے لگی۔۔۔ہنہ۔۔۔میرے ہی موزوں سے آ رہی ہے۔۔۔! بیگ میں ہاتھ ڈال کر پرفیوم کی بوتل نکالی اور موزوں سے لے کر شرٹ تک پر چھڑک لی۔ پرفیوم کی مہک سے ڈبے کے کچھ مسافروں کو سخت کوفت ہوئی انہوں نے گھور کر اسے دیکھا اور ناک بند کر لی۔۔۔ وہ اٹھ کر پیشاب خانے کی طرف چلا گیا۔ پیشاب خانے کا دروازہ اندر سے بند تھا اس نے ہاتھ لگاکر دیکھا اور گھوم کر وہیں پر کھڑا ہو گیا۔ چڑاخ چوں۔۔۔کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا ایک موٹی سی عورت پیٹی کوٹ ٹھیک کرتے ہوئے باہر نکلی۔۔۔وہ لپک کر اندر گھس گیا۔ اونہہ۔۔۔تھوڑا رک جاتا۔۔۔سانس لینا مشکل ہو رہا ہے۔ پیشاب کی کھراند اس کے نتھنوں میں گھس رہی تھی۔۔۔ایک ہاتھ ناک پر رکھ کر وہ جلدی سے فارغ ہوکر باہر نکل آیا۔ جیسے جیسے ٹرین کی رفتار دھیمی ہو رہی تھی گرمی بڑھتی جا رہی تھی۔ پسینے سے اس کی بغلیں بھیگ چکی تھیں، پسینے میں ملی ہوئی پرفیوم کی مہک اس کے حواسوں پر چھانے لگی اب وہ جلد از جلد ٹرین سے اتر کر کسی ایسی جگہ چلا جانا چاہتا تھا جہاں گرمی اور بدبو سے نجات مل سکے۔ ٹرین کے رکتے ہی اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور مسافروں کے ہجوم سے نکلنے کی تگ و دو کرنے لگا۔ جلدی نکلنے کی کوشش میں سب ایک دوسرے کو دھکے لگا رہے تھے انہیں دھکوں میں وہ بھی لڑھکتا ہوا باہر نکل گیا۔


پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر اس نے ایک لمبی سانس لی۔۔اب یہاں تک تو آ گئے آگے کیسے جائیں۔۔۔! اس نے سوچا اور پاس ہی پڑی ہوئی ایک خالی کرسی پر بیگ رکھ کر بیٹھ گیا۔ پینٹ پر جہاں تہاں پڑے ہوئے مٹی کے دھبوں کو رومال سے صاف کرنے لگا۔ پانی۔۔۔ہاں پانی کہاں ہے؟ اس نے بیگ کو ٹٹول کر دیکھا بوتل نہیں تھی شاید ٹرین میں ہی چھوٹ گئی۔ دوسری لینی پڑے گی۔ جیب میں ہاتھ ڈالا پچاس روپے کا پسینے سے بھیگا ہوا نوٹ نکال کر ہاتھ میں تھام لیا۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی تھوڑی دور پر کینٹین نظر آ گئی۔۔۔اٹھ کر کینٹین تک آیا ، بوتل لے کر واپس وہیں بیٹھ گیا۔ کیا اتنے دنوں کے بعد رانی مجھے پہچان لے گی۔۔؟ اس کے ذہن پر ایک ایک کر رانی کے نقوش ابھرنے لگے۔ کھلا ہوا رنگ۔۔جیسے سورج کی روشنی میں نہآکر آئی ہو، آنکھیں۔۔مسکرا کر دیکھتی تو لگتا جیسے کسی نے شراب کے پیالے انڈیل دئیے ہوں، ہونٹ۔۔جلتے ہوئے آتش فشاں کی طرح۔۔اسے اپنے ہونٹوں پر گرم انگاروں کی تپش محسوس ہوئی۔
بھائی صاحب یہ بیگ آپ کا ہے۔ ذرا ہٹا لیجیے ؟ مردانہ آواز سے وہ چونک گیا۔
جی کہہ کر اس نے بیگ اٹھایا اور اپنے پیروں کے قریب رکھ لیا۔
شانتی تم یہاں بیٹھ جاؤ۔۔میں کھانے کے لئے کچھ لے کر آتا ہوں۔ وہ آدمی ہاتھ میں پکڑے ہوئے جھولے کرسی کے قریب ہی رکھ کر چلا گیا۔
تو یہ اس کی بیوی ہے۔۔ اس نے من ہی من سوچا۔۔۔ہو سکتا ہے محبوبہ ہو۔۔؟ لیکن اتنا سامان لے کر بیویاں ہی چلتی ہیں۔۔کیا پتہ محبوبہ ہی بیوی ہو۔۔؟ لیکن محبوبہ اتنی بھدی کیسے ہو سکتی ہے۔ جگہ جگہ سے گوشت لٹک رہا ہے۔۔اتنی موٹی۔۔! ہو سکتا ہے شادی کے بعد ایسی ہو گئی ہو۔ ہنہ۔۔۔مجھے کیا کرنا جو بھی ہو۔۔رانی تو ایسی نہیں ہے۔ کیا پتہ رانی بھی ایسی ہو گئی ہو۔۔۔؟ اس کے اندر سے آواز آئی۔ بیس سالوں کا وقفہ بہت ہوتا ہے جسم پر گوشت بڑھانے کے لئے۔۔۔اگر رانی واقعی عورت میں تبدیل ہو چکی ہو تو۔۔؟ اففف میرا ذہن بھی نا کہاں کہاں بھٹکتا رہتا ہے۔ ابھی مجھے صرف یہ سوچنا ہے کہ رانی تک کیسے پہنچوں۔۔۔؟


بیگ ہاتھوں میں لیے کرسی پر سر رکھ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ تیسری منزل سے اترتی ہوئی خوبصورت لڑکی کے نازک ہاتھوں میں اس کا پالتو کتا تھا۔ وہ اٹھلاتی ہوئی بار بار کتے کو بوسے دیتی زینے اترتی چلی جا رہی تھی۔ وہ بلڈنگ کے سامنے والے پارک میں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گئی۔۔ میں اسے جاکر اگر یہ بتا دوں کہ مجھے تم سے محبت ہے۔ تو کیا وہ میرا یقین کر لے گی۔۔یا اس کتے کی طرح میری گردن میں باہیں ڈال کر مجھے چوم لے گی۔ یہ میری خام خیالی ہے۔۔وہ بھلا مجھے کیوں کر گلے لگائے گی۔۔۔میں ایک معمولی سا واچ مین۔۔۔اس کا کتا بھی مجھ سے کہیں زیادہ مہنگا ہوگا۔ پھر بھی کہہ دینے میں کیا برائی ہے۔۔یہی سب سوچتے ہوئے اسے کئی مہینے گزر گئے۔ہر روز وہ پارک میں کھڑے ہوکر زینے سے اترتی اس لڑکی کو دیکھتا رہتا۔ کبھی کتے کو بغل میں دبائے تو کبھی ایک بوڑھی عورت کا ہاتھ پکڑے اسے پارک میں ٹہلاتی ہوئی۔


" رانی مائی ڈارلنگ۔۔میری چھڑی مجھے دو۔۔مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ " بوڑھی عورت نے موبائل پر جھکی ہوئی اس لڑکی کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا، تو وہ خوشی سے ناچ اٹھا۔
رانی۔۔۔کتنا پیارا نام ہے۔۔رانی۔۔میری رانی۔۔۔میرے خوابوں کی رانی۔۔۔اس رات خوشی سے اسے نیند نہیں آئی۔۔۔رات بھر وہ رانی کو اپنے دل کی بات بتانے کے منصوبے بناتا رہا۔
" لو یو رانی۔۔مجھے تم سے محبت ہے۔ کیا تم میرے ساتھ زندگی کے سفر پر چلنا پسند کروگی۔۔!" دھت تیرے کی۔۔ایسے نہیں۔۔۔
" رانی، میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں میری اور تمہاری کوئی برابری نہیں ہے لیکن محبت برابری تھوڑی دیکھتی ہے۔ میں تمہیں دل سے چاہتا ہوں میرے جذبات تمہارے لیے سچے ہیں رانی۔۔میری محبت قبول کر لو۔۔!" یسس یہ ٹھیک ہے۔ اس نے اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔


افففف۔۔۔یہ رات کب ختم ہوگی۔۔۔کھڑکی سے جھانک کر اس نے باہر دیکھا۔۔۔تھوڑی تھوڑی روشنی ہونے لگی تھی۔۔ کتوں کے رونے کی آوازیں آنی شروع ہو گئیں۔ وہ بھاگتا ہوا واشروم میں نہانے چلا گیا۔
سات بجے سے پہلے ہی تیار ہوکر اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گیا۔ آج اس نے یونیفارم نہیں پہنا تھا۔۔بلکہ بلیک جینس کے ساتھ لائٹ بلیو کلر کی شرٹ اور ڈینم شوز پہن کر وہ پارک کے سامنے ٹہلنے لگا۔ اسے انتظار تھا رانی جلد از جلد زینے سے اتر کر آئے وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس سے اظہارِ محبت کرے گا۔ اس کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔۔۔زینے پر کھٹ پٹ کی آواز سن کر وہ بے قابو ہونے لگا۔۔۔بغل میں کتے کو دبائے رانی چلی آ رہی تھی۔ جیسے ہی بلڈنگ کی باؤنڈری کراس کر وہ پارک کی طرف بڑھی ، اس نے زور سے پکارا۔۔
" رانی۔۔۔آئی لو یو رانی۔۔۔میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔۔۔رانی۔۔۔" ، اس سے پہلے وہ کچھ اور کہتا، ایک زور دار مردانہ تھپڑ اس کے گال پر پڑا۔۔۔وہ چکرا کر زمین پر گر پڑا۔
" بلڈی ہیل۔۔۔تیری ہمت کیسے ہوئی رانی کا نام لینے کی۔ دو ٹکے کا واچ مین۔۔۔میرا نمک کھاکر مجھ سے ہی نمک حرامی۔۔۔!"
"جانے دو ڈارلنگ۔۔پاگل لگتا ہے"۔۔۔ رانی نے اپنے منگیتر کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ تو اس کے سارے خواب ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گئے۔
وہ کپڑے جھاڑتا ہوا زمین سے اٹھا۔۔ رانی بلڈنگ کے مالک کمار بابو کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے مسکراتی ہوئی چلی جا رہی تھی۔


رانی کے سامنے اپنی بے عزتی اسے برداشت نہ ہوئی ، اس نے فوراً واچ مین کی نوکری سے استعفیٰ دے کر اپنے گھر لوٹ جانے کا ارادہ کر لیا۔
ان بیس سالوں میں اس نے کہاں کہاں ٹھوکریں نہیں کھائیں۔ کرسی پر بیٹھے بیٹھے وہ اونگھنے لگا۔۔گاؤں میں مزدوری کرکے پیٹ چلانا بہت مشکل دہ تھا مگر وہ لوٹ کر پھر شہر نہیں جانا چاہتا تھا۔ محبت میں شکست فاش نے اسے شہر کے امیروں سے نفرت کرنا سکھا دیا تھا۔ مگر وہ چاہ کر بھی رانی سے نفرت نہ سکا۔ ہفتے بھر پہلے اسے گاؤں کے پتے پر رانی کا خط ملا۔میں تم سے ملنا چاہتی ہوں فوراً ٹرین پکڑ کر شہر آ جاؤ۔۔۔اور بھی سیکڑوں باتیں تھیں جو اسے خوشی میں دکھائی نہ دیں۔ بیس سال سے جو محبت وہ اپنے سینے میں دبائے زندگی کے خارزاروں پر تن تنہا چلا جا رہا تھا اب اس محبت کو پورا کرنے کا وقت آ گیا تھا۔ وہ اسی رات ٹرین پکڑ کر شہر کے لئے روانہ ہو گیا‌۔
دو گھنٹے تک اسٹیشن پر بیٹھا وہ جانے کیا کیا سوچتا رہا۔ پھر اٹھ کر اسٹیٹشن سے باہر نکلا۔ پبلک ٹوائلٹ میں جاکر فریش ہوا۔۔کپڑے بدل کر پاس ہی دھابے پر چائے پی ، اور رکشہ پکڑ کر کمار بلڈنگ کے لئے نکل گیا۔ پارک سے تھوڑا پہلے ہی رکشے سے اتر کر ٹہلتے ہوئے پارک میں داخل ہوا تو سب کچھ کتنا بدل چکا تھا۔۔۔پارک میں اب جگہ بہت تھوڑی سی رہ گئی تھی آس پاس سے سب بلڈنگیں بن چکی تھیں۔ پہلے جو کرسیاں قطاروں میں پڑی رہتی تھیں اب وہ بھی نہیں تھیں۔ رانی اپنے کتے کو لے کر اب کہاں بیٹھتی ہوگی۔۔۔اس نے سوچا۔ زینے پر کھٹ پٹ کی آواز سنائی دی۔۔۔اس کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔۔۔آنکھوں کو زینے پر مرکوز کر دیا۔۔۔ہاتھوں میں کتے کو دبائے ایک بھاری بھرکم عورت زینے سے اترتی چلی آ رہی تھی۔۔۔
رانی۔۔۔
اس نے بیگ کاندھے پر ڈالا اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا پارک سے باہر نکل گیا۔

***
زیبا خان (گوپامؤ ہردوئی، اترپردیش)
ای-میل: kzeba1674[@]gmail.com

Shikast, a short story. by: Zeba Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں