عامر سلیم نے معروضی صحافت اور تفتیشی صحافت کا حق ادا کر دیا : اے یو آصف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-12-20

عامر سلیم نے معروضی صحافت اور تفتیشی صحافت کا حق ادا کر دیا : اے یو آصف

amer-saleem-condolence-meeting-delhi
دائیں جانب سے احمد جاوید، شعیب رضا فاطمی، محمد مستقیم خان، ایڈوکیٹ عبدالرحمٰن، نوید حامد، خالد انور، ڈاکٹر وسیم راشد، ڈاکٹر ممتاز احمد رضوی

عامر سلیم خان نے معروضی اور تفتیشی صحافت کا حق ادا کر دیا۔ عامر سلیم خان ایک باشعور صحافی تھے، یہ نیوز ایجنسیوں کی خبروں اور سرخیوں کو من و عن قبول نہیں کرتے تھے۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اے یو آصف نے آج عامر سلیم خان کی تعزیتی نشست میں کیا۔ یہ تعزیتی اجلاس عالمی اُردو ٹرسٹ (رجسٹرڈ) نئی دہلی کی جانب سے سینئر صحافی عامر سلیم خان (مدیر ہمارا سماج) [نئی دہلی] کی یاد میں آل انڈیا مجلس مشاورت، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی کی آفس میں منعقد کیا گیا تھا۔
مولانا محمد مبارک قاسمی نے تلاوتِ قرآن کریم سے اس مجلس کا آغاز کیا۔ ان کے بعد یو این آئی کے سابق ایڈیٹر عبدالسلام عاصم نے کہا کہ عامر سلیم خان نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ ہم لوگ خبر سے نظر کی طرف چلے گئے ہیں، ہمیں نظر سے خبر کی طرف واپس جانا ہے۔ اس جملے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ خبریں نظریات سے آلودہ ہوچکی ہیں، انہیں دوبارہ خبر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔


اُردو روزنامہ قومی بھارت کے ایڈیٹر ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی نے کہا کہ موت کا قرآنی فلسفہ یہی ہے کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ عامر سلیم خان سے میں نے "چونکہ" اور "تاہم" دو الفاظ اور ان کے درست استعمال سیکھے۔ روزنامہ سیاسی تقدیر، کلکتہ کے سابق ایڈیٹر شعیب رضا فاطمی نے کہا کہ اردو اخبارات میں ایکسکلوزیو خبریں لکھنے کا ہُنر اور ملکہ صرف عامر سلیم خان کو تھا، عامر سلیم خان کی اس کمی کو آسانی سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔
زبیر خان سعیدی نے کہا کہ 2019ء میں ہم نے عامر سلیم خان کے ساتھ ایران کا دورہ کیا تھا، میں نے دیکھا کہ اس پورے دورے میں عامر سلیم خان لیکچر سننے، نوٹ بنانے اور سوالات کرنے میں بالکل بھی نہیں جھجھکتے تھے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالر محمد علم اللّٰه نے تعزیتی مضمون پیش کرتے ہوئے کہا روزنامہ صحافت میں میری ایک خبر کی سرخی پڑھ کر عامر سلیم خان میری تعریف کی اور مجھ سے ملنے میرے دفتر تک چلے آئے۔
ایشیاء ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اشرف علی بستوی نے بتایا کہ میں نے عامر سلیم خان کی ماتحتی میں رپورٹنگ کی، لیکن انہوں نے کبھی بھی مجھ پر اپنی سینئیارٹی کا دھونس نہیں جمایا۔ روزنامہ ہندوستان ایکسپریس کے صحافی عبدالنور شبلی نے کہا کہ عامر سلیم خان کے اندر دو تین خوبیاں بہت بنیادی تھیں۔ وہ یو این آئی کی خبروں پر بہت زیادہ بھروسہ نہیں کرتے تھے، بلکہ ہر طرح کے چھوٹے سے چھوٹے پروگرام میں بذاتِ خود شریک ہوکر خبریں لکھا کرتے تھے، وہ اپنے چھوٹوں پر ہمیشہ مشفقانہ رویہ رکھتے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ عامر سلیم خان بہت سارے لوگوں کی خبروں کو شائع کرکے انہیں نیتا بنا دیا۔


سہارا نیوز چینل سے منسلک صحافی ڈاکٹر سید عینین علی حق نے کہا کہ آج کے دور میں جب لوگوں کے یہاں مسلکی شدت پسندی عروج پر ہے، لوگ مسلکوں کی بنیاد پر اپنے رشتے خراب کر لیتے ہیں، لیکن عامر سلیم خان جس مسلک کے بھی شخص سے ملتے وہ انہیں اپنا سمجھتا، ان کے اندر مسلکی تنگ نظری بالکل بھی نہیں تھی۔ یہ بہت ہی وسیع القلب اور وسیع ظرف کے حامل تھے۔
ڈاکٹر اطہر نے کہا کہ ہم لوگوں نے عامر سلیم خان کو ان کی تفتیشی خبروں کے عوض کچھ رقم کی پیشکش کی تھی، لیکن انہوں نے بالکل صاف صاف منع کردیا اور ایک بھی روپیہ نہیں لیا، عامر سلیم ایک صالح فکر کے حامل سنجیدہ صحافی تھے۔ سماج وادی پارٹی (اترپردیش، وِنگ) نے عامر سلیم خان کو ان کی ایک رپورٹ کی وجہ سے کورٹ سے ایک نوٹس بھی بھیجوایا تھا، لیکن پھر بھی عامر سلیم خان اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ سلیم امروہوی نے کہا اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ کہنے کو تو بہت ساری باتیں ہیں، لیکن میں صرف ایک شعر پر اکتفا کروں گا۔
برف کا کام پگھلنا ہے، پگھل جاتی ہے
روز دیوار کی ایک اینٹ نکل جاتی ہے


سیاسی تقدیر کے چیف ایڈیٹر محمد مستقیم خان نے کہا کہ عامر سلیم خان کی وفات بے وقت ہوگئی، عامر سلیم خان کے ساتھ میرے بتیس سال کے دوستانہ تعلقات تھے، عامر سلیم خان ایک بہترین انسان تھے۔ سینئر صحافی اور روزنامہ انقلاب پٹنہ کے سابق ایڈیٹر احمد جاوید نے بتایا کہ روزنامہ راشٹریہ سہارا میں ملازمت کے دوران میں نیوز ایڈیٹر تھا اور عامر سلیم خان رپورٹر تھے، لیکن پھر بھی ہمارے درمیان کبھی تلخی اور شکر رنجی نہیں آئی۔ جتنی ایمانداری اور جواب دہی سے عامر سلیم خان نے کام کیا، ہماری صحافتی برادری میں جتنے زیادہ ذمہ دار عامر سلیم تھے، شاید ہی اتنا زیادہ ذمہ دار کوئی دوسرا صحافی ہو۔


آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے موجودہ صدر جناب نوید حامد نے کہا کہ عامر سلیم خان بہت ہی خود دار شخص تھے۔ وہ اکثر وبیشتر ملی امور میں میری رائے ضرور لیا کرتے تھے۔ عالمی اُردو ٹرسٹ (رجسٹرڈ) نئی دہلی کے روحِ رواں ایڈوکیٹ جناب عبد الرحمٰن نے کہا کہ جس شخص سے آپ محبت کریں وہ اگر گزر جائے تو آپ کو تکلیف ہوتی ہے، لیکن جو شخص آپ سے محبت کرے وہ اگر فوت ہوجائے تو تکلیف بھی دوبالا ہوجاتی ہے۔ انہوں نے مزید یہ بھی بتایا کہ عامر سلیم خان نے ایک ناول بھی لکھا ہے، جسے عنقریب شائع کیا جائے گا۔
ہمارا سماج کے چیف ایڈیٹر جناب خالد انور نے کہا کہ عامر سلیم خان میرے ملازم نہیں بلکہ میرے ساتھی تھے، میں نے ان کے بچوں کے کفالت کی ذمہ داری لی ہے۔ عامر سلیم خان کے لیے ہماری بہترین خراجِ عقیدت یہ ہوگی کہ ہم لوگ "روزنامہ ہمارا سماج" کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنائیں۔ محترمہ وسیم راشد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عامر سلیم خان کے لیے کئی اشعار کہے، جن میں سے ایک شعر یہ بھی تھا۔
سورج ہوں، زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
ہر دور میں پڑھے گا زمانہ ورق ورق
میں انقلاب کا وہ درس چھوڑ جاؤں گا


روزنامہ ہمارا سماج کے رپورٹر اور عامر سلیم کے ساتھی منہاج احمد قاسمی نے اپنا تعزیتی پیغام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دفتر میں عامر سلیم خان چارجنگ پوائنٹ کی حیثیت رکھتے تھے، ہم سب آپس میں بہت ہنسی خوشی سے کام کیا کرتے تھے۔ عامر سلیم خان کے انتقال کے بعد اب دفتر میں ہمارا بالکل بھی من نہیں لگتا۔ واضح رہے کہ اس پروگرام کی نظامت کے فرائض چوتھی دنیا کی ایڈیٹر محترمہ ڈاکٹر وسیم راشد نے انجام دیا۔


اس پروگرام میں سینئر وکیل اور مختلف اخبارات و رسائل کے کالم نگار عبد الرحمٰن، سینئر صحافی اور روزنامہ خبریں کے ایڈیٹر قاسم سید، سینئر صحافی اور کالم نگار مظفر حسین غزالی، ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی، نیوز 18 کے سابق سب ایڈیٹر ڈاکٹر نثار احمد، سماجی کارکن نور اللّٰه خان، عبید سنابلی، بابر اعظم سنابلی اور دوسرے بہت سارے سماجی و سیاسی لوگوں نے شرکت کی اور پروگرام کے اختتام پر ظہرانہ تناول کیا۔

Amer Saleem's condolence program by Aalmi Urdu Trust New Delhi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں