جامعہ امام ابن تیمیہ بہار - علوم دینیہ کی نایاب درسگاہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-12-29

جامعہ امام ابن تیمیہ بہار - علوم دینیہ کی نایاب درسگاہ

jamia-imam-ibn-taymiyyah-east-champaran-bihar

میری زندگی کا خواب ، میرے الجھے ہوئے سوالوں کا جواب ، میرے دل کا ارماں، میرے جگر کا گلستاں ، نگاہِ دل کا فیصلہ ، جذباتِ دل کا غلغلہ ، میری ناکامیوں کا حریف، میری کامیابیوں کا حلیف ، میرے علم کا منبع ، میرے فن کا قلعہ ، میرے قلم کا مرکز ، میرے قرطاس کا محور ، میری حیات کا دن و رات ، میری یادوں کی بارات ، میرے خوابوں کی تعبیر اور زندگی کی حسین تصویر جو ہند کی سنتان ، بہار کی آن بان شان ، چمپارن کی مسکان ، ڈھاکہ کی مان دان ، چندن بارا کی پہچان اور عظیم الشان یادگارِ علامہ محمد لقمان ہے۔ وہ بل کھاتی ، بپھرتی ، ہنہناتی اور شور مچاتی ہوئی ندیاں ، وہ لہلہاتی ہوئی کھیتیاں ، وہ چلتی نکلتی ہوئی سڑکیں ، وہ مچلتی ہوئی نہریں ، وہ گھنیری درختیں اور ان کے درمیان بلند و بالا عمارتوں والی ، رامش و رنگ والی ، عمدہ نقش و نگار و دلربا سنگ والی ، خوبصورت نام والی اور کتاب و سنت کی جام والی وسیع و عریض میدان میں مانندِ محلِ سبا چمک ، دمک ، ہمک ، جھپک اور لپک رہی ہے اور جھوم جھوم کر ، گاگا کر اپنا نام افق پر ، چاندنی سیاہی سے ، ستاروں کے قلم سے ، پیشانئ آفتاب پر ثبت کر رہی ہے۔۔۔
جامعہ امام ابنِ تیمیہ ، مدینۃ السلام ، بہار ، الہند


جامعہ امام ابنِ تیمیہ علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی کا خواب زریں ہے۔ جو 1962ء کو مدینۃ السلام ، چندن بارا میں شرمندۂ تعبیر ہوا۔ اس مردِ مجاہد نے اپنی جان کی طرح خونِ دل سے اس کو سینچا ، جگر کا ماس کھلا کر جوان بنایا ، اپنی جان مار کر اس کے جسم میں جان پیدا کی ، خود بھوکا رہا مگر اسے سیر و شکر کیا۔ اس کے احاطۂ فرش کو عرش کے قرآن سے گلِ گلزار بنایا ، محمد عربی ﷺ کی پاکیزہ، چمکتی ، دمکتی اور نورانیت سے معمور احادیث کے روشن محلات تعمیر کیے۔ قرآن و سنت کے نورانی دھاگوں کا حصار قائم کرتے ہوئے جامعہ کے مہکتے ہمکتے ہوئے فضا میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے مکتبہ بنا کر اس میں عرب و عجم کی کتابوں کا سیلاب بہا دیا اور جامعہ امام ابن تیمیہ کو تاریخ کے صفحات میں نایاب بنا دیا۔


ہائے میری جامعہ۔۔۔۔۔۔ وہ مہکتی ہوئی پھلواریاں ، اس کی کھلتی ہوئی کلیاں ، بلندئ افق کا پیچھا کرتا مسجد کا منارہ ، نغماتِ قرآنیہ سے مغمور و معمور حفظ خانہ، وہ کلاسوں میں کتاب و سنت کے جام چھلکتے ہوئے ، وہ اس کے در و بام مہکتے ہوئے ، اور وہ ہنستا، مسکراتا ، آسمان سے سرگوشیاں کرتا ، چاند سے گل بانگیاں کرتا ، ستاروں سے نور کی گل بازیاں کرتا ، آفتاب کی شعاؤں میں تپتا زرد رُو سا ہمارا پیارا سا ہاسٹل۔۔۔۔ہائے اس کے دلفریب کمرے ، شور میں ڈوبے ہوئے صحن ، عظمت کو چھوتے منازل اور اس کے چہکتے ، تھرکتے ، گرجتے ، برستے ، جھومتے ، جھامتے ،‌ مچلتے ، اچھلتے ، گاتے ، گنگناتے ،‌ دمکتے ، گمکتے ، قلقاریاں مارتے ، ادھم چوکڑی مچاتے ، دندناتے پھرتے ، لڑتے جھگڑتے ، گرماتے اور لہلہاتے ہوئے ننھے ننھے لڑکے۔۔۔
اور ان بچوں کا صف بستہ نمازیں پڑھنا ، سحرگاہی میں قرآن کی تلاوتِ سحر آگینی کرنا ، علامہ اقبال کی دعائے جاوید " لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری" کو فضا میں رس گھول کر اور در و بام کو جُھما نچا کر جھوم جھوم کر پڑھنا ، ان کا قطار اندر قطار کلاسوں میں قدم رنجا ہونا ، اساتذہ کی عزت و احترام کا جام پینا ، کلاسوں کو پرندوں کی آرام گاہ بنانا ، چھنا چھن پلیٹوں کی جھنکار کے ساتھ دھنا دھن ڈائینگ حال جانا ، تہذیب و تنظیف کے ساتھ کھانا کھانا ، اچھل اچھل کر ، مچل مچل کر کھیلنا، چوکڑیاں بھر کر اور دوڑ دوڑ کر گیندوں کو پکڑنا ، ان کا جمعرات کو رامش و رنگ کی مستیوں میں ڈوب جانا ، دل کو تھپتھپانا ، چھٹی کی خوشی میں ارض و سماں کو نچانا و گھمانا ، شمس و قمر کو گہنانا ، قلب و جگر کی دنیا میں کیف و سرور کی مشکاتوں کا چراغاں کرنا ، جس سے ہر گوشۂ بدن کا جَگر جَگر کرنا ، وہ ان کا گلابی اردو بولنا ، عربی میں گفتگو کی روانی کرنا ، انگریزی بول کر ہاسٹل کے بر آمدے کو یورپ کی گلیوں میں تبدیل کر دینا ، وہ مختلف لہجات میں بھوجپوری کا سنائی دینا ، شیریں بنگالی و نیپالی زبانوں کا کانوں میں رس کھولنا ، وہ ان کا طنز و مزاح کرنا ، گل غپاڑے اڑانا ، مسجد کی مخملی قالین پر مذاکرے کرنا ،ایامِ امتحان میں مسجد کو کتب خانہ بنا دینا ، رات رات بھر محوِ قراءت رہنا ، وہ ان کی آوازوں کی باہم ملاپ سے باگیسری کا جنم لینا ، وہ تقاریبِ سالانہ کی جوش و خروش سے تیاریاں کرنا ، اسٹیج پر شیروں سا گرجنا ، وہ ختمِ بخآری کی جشن میں ڈوب جانا اور کبھی گھر جانا کبھی شاخِ جامعہ پر چہچہانا۔


یہ ہے میری جامعہ کا حالِ مختصر۔ جس کے صدیوں سے کھڑے در و بام کو دیکھ کر دل کرتا ہے کہ ان کو نطقِ گویائی عطا کردوں پھر ان کے سامنے معرضِ وجود میں آئے ایک ایک واقعے کو صفحۂ فلک پر خونِ دل سے رقم کردوں۔ کبھی کبھی جب میں احاطۂ جامعہ کی سیر کرتا ہوں تو عجیب مناظر دکھائی پڑتے ہیں۔ وہ رہے علامہ محمد لقمان مخملی ، سرخی مائل ٹوپی پہنے سفید و سرخ ہاتھوں میں اینٹ اٹھا کر سنگِ بنیاد رکھ رہے ہیں ، آگے بڑھتا ہوں تو لوگ بارگاہِ ایزدی میں دعا گو نظر آتے ہیں ، پھر مزدوروں کی چہل پہل دکھائی دیتی ہے ، وہاں اینٹ ڈھوئے جا رہے ہیں ، یہاں پٹریاں ٹھونکی جا رہی ہیں، ادھر معائینے پر معائینے ہو رہے ہیں۔
پھر مکمل کھلتا ہوا ، ابھرتا ہوا ، چمکتا دمدماتا ہوا جامعہ کا حسین ، پری وش ، خوب رو چہرۂ نورانی نظر آ رہا ہے ، پھر ادھر شکیل اثری کی آواز سنائی دے رہی ہے ، ادھر خورشید المدنی کرسئ وکالت پر براجمان ہیں ، وہاں ارشد المدنی کی مجلسِ علمی قائم ہے ، یہاں ابو القیس عبد العزیز کتابیں تصنیف کرتے نظر آ رہے ہیں ،اور کبھی کفایت اللہ کیفی رحمۃ اللہ علیہ کے نغموں کی جھوم سنائی دیتی ہے ، کبھی ذکاء اللہ مدنی کے خطبوں کی دھوم دکھائی پڑتی ہے ، کبھی قاری نثار کے قرأتوں کا سر کانوں میں رس گھولتا ہے ، اور یہ دیکھیے دل محمد سلفی ، ایوب سلفی اور اشفاق سلفی کا جامعہ سے نکلتا ہوا قافلہ آنکھوں میں آنسو بھرتے اور گرد و غبار اڑاتے ہوئے فضا کو غمگین بنائے نکل رہا ہے اور جامعہ کے در و بام چھوٹے بچوں کی طرح گریہ و زاری کر رہے ہیں ، چیخ چیخ کر صدا لگا رہے ہیں کہ کوئی تو ان کو روکے ، ان کے قافلے کو موڑ دے۔۔۔
ادھر دیکھیے سر مشتاق احمد شیدا اپنے اشعار چہک چہک کر لہک لہک کر پڑھ رہے ہیں، ادھر نور الاسلام مدنی مدیر الامتحانات کی کرسی پر متمکن ہیں ، یہاں عبد الرحمن مدنی نماز میں غرق نظر آ رہے ہیں ، وہاں شیخ الحدیث عبد الوکیل سلفی بچوں کو نماز کے لیے جگاتے نظر آ رہے ہیں اور ہر موڑ پر ، ہر گوشہ میں علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ کا نورانی چہرہ ، جبینِ زہرہ ، خوبصورت داڑھی ، باوقار گفتار ، میانہ رفتار ، ان کا درسِ بخاری ، نصیحتِ سحرگاہی اور ان کی للہیت دکھائی دیتی ہے ، ان کی تقریر سنائی دیتی ہے اور ان کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔۔۔


احاطے سے نکل کر ہاسٹل میں آتا ہوں تو معراج تیمی صاحب ہنستے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، کلیم سعید صاحب وضو کر رہیں ، یوسف ابو طلحہ صاحب حدیثیں یاد کر رہے ہیں ، خالد انور صاحب تقریر کر رہے ہیں، رفیع اللہ صاحب مضمون لکھنے بیٹھے ہیں ، صفات صاحب کسی بچے کو نصیحت کر رہے ہیں، ظل الرحمن صاحب ترجمہ کر رہے ہیں ، اسد الرحمن صاحب مطالعہ میں غرق ہیں ، ابراہیم سجاد صاحب شاعری کر رہے ہیں ، عبد الرحمن صاحب بچوں کی مدد کر رہے ہیں، ساجد صاحب ہر یانہ جانے کی تیاری کر رہے ہیں ، ثناء اللہ صادق صاحب اپنی غزل پڑھ رہے ہیں ، آصف تنویر صاحب لائبریری میں ہیں ، نسیم سعید صاحب تہجد پڑھ رہے ہیں ،عامر سہیل صاحب اردوئے معلی کا پرچار پرسار کر رہے ہیں اور جمیل اختر صاحب اپنی سحر انگیز آواز سے سحر کاری کر رہے ہیں۔


اور کبھی جب میں وسیع و عریض ، بلند و بالا سنگِ مر مر سے تراشیدہ مسجد میں قدم رنجہ ہوتا ہوں تو عجیب منظر دیکھتا ہوں کہ یہ مذکورہ بالا سارے لوگ صف باندھے کھڑے ہیں ، امام کا انتظار ہے ، اتنے میں علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ نظر آتے ہیں ، ان کے سر سے موتیوں کے مثل پانی کے قطرات ٹپک رہے ہیں ، گویا ابھی وضو کر کے آئے ہوں ، وہ مصلی پہ کھڑے ہو جاتے ہیں ، اقامت کے بعد دل نشیں و دل فریب " اللہ اکبر" کی آواز بازگشت کرتی ہے۔ سبھی اس کے سحر میں کھوئے ہوئے ہاتھ سینے پر رکھ لیتے ہیں اور پھر میں بھی اللہ کا ہو جاتا ہوں۔


***
نوشاد عبدالقادر (چمپارن ، بہار)
naushadabdulqadir9[@]gmail.com
Jamia Imam Ibn Taimia East Champaran Bihar, an introduction. - Essay: Naushad Abdulqadir

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں