ٹونک راجستھان کا گاؤں : غیرمسلم بچوں میں اردو سیکھنے کا جنون - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-12-30

ٹونک راجستھان کا گاؤں : غیرمسلم بچوں میں اردو سیکھنے کا جنون

rajasthan-urdu-learning-children

راجستھان کے ضلع ٹونک میں ایک ایسا گاؤں ہے جہاں کی سو فیصد آبادی ہندو ہے اور یہاں ہر کوئی اردو پڑھنا چاہتا ہے۔ اس گاؤں کے رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ وہاں کم از کم ایک ہزار نو جوانوں نے اردو سیکھ لی ہے۔ "چھوٹی کاشی" کے نام سے مشہور یہ گاؤں جے پور سے تقریباً 85 کلومیٹر دور ہے۔ یہاں 1800 ہندو خاندان رہتے ہیں۔ گاؤں میں ایک بھی مسلم خاندان نہیں ہے۔ لیکن اس گاؤں میں بچوں کو سنسکرت سے زیادہ اردو پڑھانے پر توجہ دی جاتی ہے۔


گاؤں میں 100 سے زیادہ اردو اساتذہ

سدڑہ گاؤں میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پورے ٹونک ضلع سے اردو زبان کے سرکاری اساتذہ کی تعداد سب سے زیادہ وہاں ہے۔ سدڑہ کے رہائشی اور پنچایت سمیتی کے رکن رام کشور کہتے ہیں:
"اردو نے گاؤں کے نوجوانوں کا سرکاری نوکریوں کا خواب پورا کر دیا ہے"۔
انہوں نے بتایا: آج گاؤں میں ہر سطح پر اردو کے اساتذہ موجود ہیں۔ تیسرے درجے، دوسرے درجے ، اول درجے، کالج کے لیکچرر، اسکول کے پرنسپل اور یونیورسٹی میں اردو زبان کے پروفیسر گاؤں سے ہی ہیں۔
سیارام مینا سدڑہ گاؤں میں آٹھویں جماعت تک ٹیچر ہیں۔ وہ خود اردو زبان کے سرکاری استاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں: پہلے بچوں کو اردو بھی نہیں آتی تھی۔ لیکن، آج گاؤں کے بہت سے اردو ٹیچر ہیں۔ وہ ہمیں کئی نام بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے بھائی بھی اردو کے استاد ہیں۔


گاؤں میں کم از کم ایک ہزار بچوں نے اردو سیکھ لی ہے

وہ کہتے ہیں: گاؤں میں کم از کم ایک ہزار بچوں نے اردو پڑھ لی ہے۔ گاؤں سے بنائے گئے سرکاری اساتذہ نہ صرف ٹونک بلکہ دوسرے اضلاع اور ریاستوں میں بھی اردو پڑھا رہے ہیں۔ سدڑہ سکول کے پرنسپل بیربل مینا بتاتے ہیں:
سدڑہ میں بہت سے ایسے نوجوان ہیں جنہوں نے اردو پڑھ کر بی ایس ٹی سی اور بی ایڈ کیا ہے، جو اب اساتذہ کی بھرتی کے منتظر ہیں۔ اس بار یقینی طور پر کم از کم 30 نوجوان ٹیچر بننے والے ہیں۔
ایک مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں سال 2013ء میں اردو کے اساتذہ کی بھرتی ہوئی تھی، جس میں درج فہرست قبائل کی 26 اسامیوں میں سے گیارہ (11) سدڑہ نوجوانوں کو منتخب کیا گیا تھا۔


یہ سفر 98-1997 ء سے شروع ہوا

سال 14۔ 2013ء تک سدڑہ کے سکول میں صرف آٹھویں جماعت تک تعلیم ہوتی تھی۔ اس دوران یہاں اردو سے کوئی واقف نہیں تھا۔ گاؤں کے بچے آٹھویں جماعت سے پڑھائی کیلئے نیوائی جایا کرتے تھے۔ گاؤں کے کچھ بچوں نے نیوائی سکول سے اردو کو اختیاری مضمون کے طور پر پڑھنا شروع کیا۔ یہیں سے سدڑہ میں اردو کا آغاز ہوا جو مستقبل میں اردو کی وجہ سے مشہور ہو گیا۔ سدڑہ کے رہنے والے اور پنچایت سمیتی کے رکن رام کشور بتاتے ہیں:
سال 98-1997ء میں، آٹھویں جماعت کے بعد، ہم مزید پڑھائی کیلئے نیوائی جاتے تھے۔ ہمارے کچھ دوستوں نے وہاں اردو پڑھنا شروع کی، اور اس کے چند سال بعد ہی سرکاری استاد بن گئے۔


لوگ سرکاری نوکری حاصل کرنے کیلئے اردو پڑھ رہے ہیں

بارہویں جماعت کی طالبہ گایتری مینا کہتی ہیں:
میں دسویں جماعت سے اردو پڑھ رہی ہوں، میں نے اب تک اردو پڑھنا لکھنا سیکھ لیا ہے۔
اپنے خاندان کے بارے میں بات کرتے ہوئے گایتری کہتی ہیں:
میرے چار چچا، ایک خالہ نے اردو پڑھی ہے اور اب بی ایڈ کر رہے ہیں۔ ایک چچا اور ایک خالہ اردو کے استاد ہیں۔
سدڑہ سکول کے پرنسپل بیربل مینا کا کہنا ہے کہ:
اردو پڑھنے والے بچوں میں 70 فیصد لڑکیاں ہیں۔ پچھلے سال کے بیچ میں، ایک طالبہ کلپنا نے اردو بورڈ کے امتحانات میں 100 فیصد نمبر حاصل کئے تھے اور ایک اردو طالبہ سمن نے 99 فیصد نمبر حاصل کیے تھے۔ اسکول میں گیارہویں جماعت کے 37 بچے اور بارہویں جماعت کے پچاس بچے اردو پڑھ رہے ہیں۔ تقریباً 50 فیصد بچے سنسکرت کے بجائے اختیاری مضمون کے طور پر اردو پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک اور طالبہ راجیشوری اردو سیکھنے کے اپنے تجربے کے بارے میں کہتی ہیں:
مجھے اردو پسند ہے، اس لئے میں گیارہویں جماعت سے اردو پڑھ رہی ہوں۔ میں اردو لکھ اور پڑھ سکتی ہوں۔ کچھ حروف تہجی ضرور مشکل لگتے ہیں۔ جس کے لیے استاد سے مدد لی جاتی ہے۔


اردو سرکاری ٹیچر سیا رام مینا

سیا رام مینا کہتے ہیں:
جیسے ہی ایک کے بعد دوسری سرکاری ملازمتیں اردو سے شروع ہو ئیں ، تب ہی بچوں اور گاؤں کا رجحان اردو کی طرف چلا گیا۔ آج بچے بہت شوق سے اردو سیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ اس دوران وہاں چند ہی سرکاری ملازمین تھے۔ لیکن جیسے ہی اردو استاد کے عہدے کیلئے لوگوں کا انتخاب ہوا، گاؤں کے بچے اردو پڑھنے لگے۔


اردو ہی کیوں پڑھنا چاہتے ہیں؟

سدڑہ گاؤں کی تقریباً 95 فیصد آبادی شیڈولڈ ٹرائب سے تعلق رکھتی ہے۔ ملازمتوں میں ریزرویشن کے قانون کے مطابق درج فہرست قبائل کیلئے ملازمتوں میں ریزرویشن رکھا گیا ہے۔ ابتدا میں جب گاؤں کے بچوں نے 98-1997ء میں اردو پڑھنی شروع کی۔ اور چند سال کے بعد وہ سرکاری استاد بن گئے، تب سے گاؤں والوں میں اردو کی طرف رجحان بڑھنے لگا۔ اساتذہ کی بھرتی میں اردو زبان کی پوسٹ درج فہرست قبائل کیلئے مخصوص ہیں۔ ایسے میں اس زمرے سے اردو نشستوں پر امیدواروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ نشستیں خالی رہتی تھیں۔ لیکن اب جو نوجوان اردو کے ذریعے با آسانی سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے سے واقف ہو چکے ہیں، وہ اردو میں اپنا اور اپنے عزیز واقارب کا مستقبل ڈھونڈ رہے ہیں۔
اردو کے استاد گنگا دھر مینا کہتے ہیں:
اردو پڑھنے کے بعد کچھ نوجوان ایم ڈی ایس یونیورسٹی (مہارشی دیانند سرسوتی یونیورسٹی، اجمیر) میں پروفیسر بنے ہیں، کئی سکول ٹیچر بنے ہیں۔ ان سب سے متاثر ہو کر نوجوانوں اور بچوں نے اردو پڑھنا شروع کر دی ہے۔
راجستھان کے ٹونک ضلع کا سدڑہ گاؤں جہاں ہندو طالب علم اردو پڑھتے ہیں، یہاں جب نامہ نگار نے اردو پڑھنے والے بچوں سے بات کی تو معلوم ہوا کہ زیادہ تر خاندانوں میں ایسے بزرگ ہیں جنہوں نے اردو پڑھی ہے۔ کچھ اساتذہ ہیں یا اساتذہ کی پوسٹ پر بھرتی کے منتظر ہیں۔
اردو کے استاد سیارام مینا کہتے:
میں نے پہلی بار سدڑہ میں دیکھا کہ گاؤں میں اردو کیلئے اتنا پیار ہے۔ تمام بچے اردو پڑھ رہے ہیں۔ کیونکہ اردو ہی کے ذریعے سرکاری ٹیچر کی نوکری بھی مل رہی ہے، اس لئے والدین کا بھی احساس ہے کہ بچوں کا مستقبل صرف اردو میں ہے۔ بلاشبہ سرکاری نوکری ایک زبان کو سیکھنے اور ایک کلچر سے قریب آنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔

A rajasthan's village, where new generation kids shown interest in learning Urdu.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں