شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور علامہ عزیر شمس رحمہما اللہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-12-10

شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور علامہ عزیر شمس رحمہما اللہ

imam-ibn-taymiyyah-and-shaykh-muhammad-uzair-shams

شیخ الاسلام ابن تیمیہ(م 728ھ) اپنے وقت کے مجدد تھے۔ علامہ شبلی نعمانی ( م 1914ھ) نے اس بات کا کھل کر اعتراف کیا ہے (مقالاتِ شبلی :5 /50_62) ابن تیمیہ جیسی شخصیت امتِ مسلمہ کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ جنہیں نہ صرف قرآن و حدیث پر درک تھا بلکہ وہ تمام علوم و فنون پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ ‌ان کے سامنے غزالی و رازی سب ہیچ نظر آتے ہیں۔ بلکہ ائمہ اربعہ کے علم کو ابن تیمیہ کے علم سے تولا جائے تو ابن تیمیہ کا پلڑا بھاری نظر آئے گا۔
انہوں نے اتنی کتابیں لکھی جہاں تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ بلکہ ان کی کتابوں کا حال یہ ہے کہ وہ آج تک مکمل طور پر دریافت نہیں ہو سکیں۔ آئے دن ان کی تصنیفات دریافت ہوتی رہتی ہیں۔ آج بھی دنیا کی مختلف لائبریریوں میں ان کی سینکڑوں مخطوطات گرد و غبار سے اٹی پڑی ہیں۔ جنہیں آج تک شائع نہیں کیا گیا۔ ابن تیمیہ کی کتابوں کی صحیح تعداد بتانا بہت مشکل ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے فتاوی کی تعداد 300 جلدیں بتائی ہیں۔ غلام جیلانی برق نے 385 اور علامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے 591 کتابوں کا ذکر کیا ہے۔
(کاروانِ حدیث:274)


امام ابنِ تیمیہ کی شخصیت نہایت ہی جامع رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگوں نے اپنی زندگیاں ان کی کتابوں کی تحقیق میں کھپا دی۔ اور ہر دور میں ان کی کتابوں کی تحقیق کرنے والے اور نشر واشاعت کرنے والے موجود رہے ہیں۔ ابو عبداللہ ابن رشیق ( م749ھ)، ابن عبد الہادی ( م 744ھ) ، صلاح الدین صفدی(م 764ھ) ، معین الدین ایجی ، محمد بن ناصر الحازمی(م 1283ھ)، محمد رشید رضا (م 1935ء)، محمد منیر الدمشقی(م 1367ھ) ، محمد حامد الفقی ( م 1959ء)، عبد الرحمن بن محمد بن قاسم (م 1392ھ)، محمد بن عبد الرحمن(م 1421ھ) ، الدکتور محمد رشاد سالم (م 1986ء)وغیرہ۔ برصغیر میں بھی ان کے معارف کے محبین نظر آتے ہیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(م1176ھ) ، نواب صدیق حسن خان(م1307ھ) ، سید نذیر حسین محدث دہلوی (م1320ھ)، ابو الکلام آزاد (م1958ء)، علامہ شبلی نعمانی(م1914ء) ، علامہ اسماعیل سلفی (م 1968ء)، غزنوی علماء ، قصوری خاندان ، حافظ محمد گوندلوی(م 1986ء) اور علامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی (م1987ء)رحمہم اللہ یہ بڑے نام ہیں جنہوں نے معارف ابن تیمیہ کی قدردانی کی اور ان کی نشر و اشاعت کا بیڑا اٹھایا۔
انہی محبینِ معارفِ ابنِ تیمیہ میں محققِ عصرِ حاضر علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ تھے‌ جو عصر حاضر میں امام ابنِ تیمیہ کے سب سے بڑے عارف اور ان کی کتابوں کے محقق تھے۔ بلکہ تاریخ کے واحد ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو معارف ابن تیمیہ کی جستجو ، تحقیق ، اور نشر واشاعت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ مستقبل میں جب بھی امام ابنِ تیمیہ کی کتابوں کا تذکرہ ہوگا شیخ عزیر شمس کا نام بھی ضرور لیا جائے گا۔


شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ 1956ء میں مرشدہ آباد ، بنگال میں پیدا ہوئے۔ فیض عام ، احمدیہ سلفیہ، دار الحدیث مرشدہ آباد اور جامعہ سلفیہ بنارس میں 1976ء تک درسِ نظامی کی تکمیل کر لی۔ پھر مدینہ گئے۔ ماجستیر ام القری(مکہ یونیورسٹی) سے کیا۔ اسی یونیورسٹی سے دکتوراہ بھی کررہے تھے مگر کسی وجہ سے بحث کی تکمیل نہ ہو سکی۔ آپ نے عملی زندگی کا آغاز دار عالم الفوائد سے کیا۔ اور پوری زندگی کتب علمیہ کی تحقیق خصوصا کتبِ شیخین ابن تیمیہ و ابن قیم الجوزیہ میں گزار گیے۔
اگر ہم غور کریں گے تو پتا چلے گا کہ شیخ کی آدھی زندگی حصولِ تعلیم میں اور آدھی معارفِ ابن تیمیہ کی تلاش و جستجو اور نشر و اشاعت میں گزری۔ شیخ نے خود کو معارف ابن تیمیہ کے لیے وقف کردیا تھا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ مجموع الفتاوی لإبن تيميۃ (عبد الرحمن بن محمد بن قاسم م 1392ھ کی تحقیق سے 37جلدوں میں شائع ہوئی ہے) میں فہرست کے مطابق ابن تیمیہ کی تمام کتابیں موجود نہیں ہیں تو شیخ کے اندر ان کو جمع کرنےکا شوق بیدار ہوا۔ اور وہ اس کے لیے دنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں میں گھوم گیے۔ جہاں سے جو کچھ ملا لے لیا۔ سینکڑوں مخطوطات کی تحقیق کی۔ ببلوگرافی تیار کی۔ جس میں مجموع الفتاوی کے اندر جتنی کتابیں اور رسالے ہیں ان کی الگ الگ تفصیل جمع کیں۔
ان کتابوں کی اصل کہاں کہاں ہے‌ ، کن مکتبات سے طبع ہو ہیں، کن کن مخطوطات کو سامنے رکھا گیا ، وہ کون سی مخطوطات تھیں جن تک رسائی نہیں ہو سکی، ان کتابوں کے ترجمے کن کن زبانوں میں ہوئے ہیں ، پہلے کس نے کہاں اور کس زبان میں ترجمہ کیا اور کون سا ترجمہ سب سے مفید ہے ، یہ تمام چیزیں شیخ نے اپنی ببلوگرافی میں درج کیں جو تا ہنوز غیر مطبوع ہے۔ شیخ کا دو اہم مقصد تھا ایک ابن تیمیہ کی غیر مطبوعہ کتابوں کو شائع کیا جائے اور دوسرا یہ کہ ابن تیمیہ کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے؛کتاب ،رسالہ یا کوئی مضمون تائید میں ہو یا تنقید میں سب کو اکٹھا کیا جائے۔ یقینا یہ حبِ عظیم ہے جس کی نظیر مشکل ہے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کو اتنی عظمت و عزت سے نوازا کہ بقول شاعر
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں


امام ابنِ تیمیہ بڑے ہی زود نویس تھے۔ ایک بیٹھک میں پوری پوری کتاب لکھ مارتے تھے۔ "فتویٰ حمویہ '698ھ ظہر اور عصر کے بیچ لکھا۔ "العقیدہ الواسطیۃ" عصر کے بعد تو "السیاسۃ الشرعيۃ" ایک رات میں لکھ دی (مقالات :429) اس وجہ سے وہ قلم کو اتنی تیزی کے ساتھ چلاتے کہ جب تبییض کے لیے اپنے شاگردوں کو دیتے تو نہ پڑھ پانے کی وجہ سے وہ لوگ بطور تبرک اپنے پاس رکھ لیتے اور اس کو نہیں دیتے۔


لیکن شیخ عزیر شمس پر اللہ کی خاص رحمت تھی۔ وہ ابن تیمیہ کی تحریروں کو بآسانی پڑھ لیتے تھے۔ بلکہ وہ یہ چاہتے تھے ان کو ابن تیمیہ کا لکھا ہوا مخطوطہ ملے تاکہ اصلی سامان ہاتھ لگے۔ ورنہ ناسخین نے جب عملِ نقل و نسخ ادا کیا تو ابن تیمیہ کی گنجلک خوشخط کو ناسمجھی کی بنیاد پر جو سمجھا وہ لکھ کر چھوڑ دیا۔ یہی وجہ کہ شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ نے ان کتابوں کی بھی از سرِ نو تحقیق کی جو پہلے چھپ چکی تھیں۔ کیونکہ محققین کے ساتھ بھی وہی حادثہ ہوا جو ناسخین کے ساتھ پیش آیا کہ کچھ کا کچھ سمجھ کر چھاپ دیا۔ جیسے" شرح حديث انما الأعمال بالنيات" کی تحقیق شیخ نے نئے سرِ سے کیا اور اس کو شائع کیا۔ اگر آپ شیخ کی تحقیق کردہ نسخوں کا موازنہ دوسروں کی تحقیق سے کریں گے تو پورا فرق نظر آ جائے گا۔
ابنِ تیمیہ کی کتابوں کی تحقیق کے لیے صرف عربی زبان کافی نہیں بلکہ ان کے اسلوبِ تحریر اور ان کے خط کی بصارت کی مہارتِ تامہ بھی بہت ضروری ہے۔ اسی لیے بہت سارے لوگ صرف ابن تیمیہ کا نام سن کر ہی بھاگ کھڑے ہوتے ہیں لیکن شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ کے اندر یہ مہارتِ بصارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آپ پڑھے بغیر صرف دیکھ کر ہی بتا دیتے تھے کہ یہ کتاب ابن تیمیہ کی ہے یا نہیں۔


ایک دفعہ شہرِ ریاض میں ایک شخص نے مسئلۂ تقدیر پر مسجع و مقفٰی عبارت سے گوندی ہوئی کئی ابواب پر مرتب ایک کتاب دکھائی جس پر كتبہ ابن تيميۃ اور تاریخ وغیرہ کا ذکر تھا۔ وہ شخص بڑا خوش تھا کہ ابن تیمیہ اس کو مل گئے۔ شیخ نے کتاب دیکھتے ہی کہا کہ یہ ابن تیمیہ کی نہیں ہے۔ پہلی چیز تو یہ کہ ابن تیمیہ باب اول و ثانی ، یہ کبھی نہیں کرتے۔ دوسری چیز یہ کہ ابن تیمیہ کبھی تاریخ نہیں لکھتے صرف "کتبہ ابن تیمیۃ" اور "واللہ اعلم" کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ تیسری چیز کہ ابن تیمیہ مسجع و مقفٰی عبارت نہیں استعمال کرتے بلکہ عام فہم عربی میں لکھتے ہیں۔ پھر اس کے بعد شیخ نے اس کو بغور پڑھا تو پتہ چلا کہ یہ تو اہلِ سنت کے خلاف لکھی گئی ہے (افادہ از ویڈیو)۔ تو یہ کتاب ابن تیمیہ کی ہر گز ہو نہیں سکتی۔


شیخ عزیر نے امام صاحب کی کتب کی تلاش میں محنتِ شاقہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی خوب مدد کی اور راہ آسان کردی۔ کبھی کبھی بیٹھے بٹھائے ہی کتابیں مل گئیں۔ ایک دفعہ" جمیعۃ إحياء التراث" میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے ایک نامکمل اور پھٹا ہوا نسخہ دکھایا۔ شیخ اس کو دیکھتے ہی پہچان گئے یہ امام صاحب کی کتاب ہے۔ دراصل "فتویٰ الحمویہ" پر شمس الدین سروجی (م 710ھ) نے ایک رد لکھا جس پر امام صاحب نے جواب الجواب کے طور پر 5/4 جلدوں میں ایک ضخیم کتاب لکھی۔ وہ نسخہ اسی کا پھٹا ہوا ایک ٹکڑا تھا مگر پر مغز تھا تو شیخ نے اس کو "جواب الاعتراضات المصريۃ على الفتيا الحمويۃ" کے نام سے شائع کیا ( ایضا)۔


لاک ڈاؤن کے عرصہ میں شیخ ثناء اللہ صادق تیمی حفظہ اللہ نے شیخ محمد عزیر شمس کے ساتھ لائیو سوال و جواب کی صورت میں علمی محاضرات کا سلسلۂ ذہبیہ شروع کیا۔ جس میں مختلف موضوعات کے تحت گفتگو ہوتی رہی۔ یقینا ان محاضرات میں شیخ عزیر شمس نے علوم و معارف کا دریا بہایا ہے۔ بلکہ اردو زبان میں یوٹیوب پر ان ویڈیوز سے زیادہ علمی ، ادبی، معلوماتی و تحقیقی ویڈیوز آپ کو نہیں ملیں گے۔ ان محاضرات میں ابنِ تیمیہ پر بھی گفتگو موجود ہے۔ جس میں شیخ نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی زندگی اور ان کی تصنیفات کے متعلق گفتگو کی ہے۔ کچھ محاضرات عربی زبان میں بھی ہیں۔ آپ اگر ان کو سنیں گے تو ایسا محسوس ہوگا کہ شیخ نے ابن تیمیہ کی پوری سوانح حیات کو ازبر کیا ہوا تھا۔
کس طرح ابن تیمیہ کو ستایا گیا‌ ‌، جیل میں کب اور کیوں ڈالا گیا، وہ کہاں کتنے دنوں تک ٹھہرے ، کیوں ٹھہرے ان باتوں کا تذکرہ شیخ اس طرح کرتے کہ محسوس ہوتا کہ گویا شیخ رٹ کر آئے ہیں حالانکہ ساری معلومات ان کی برجستگی پر مبنی ہوتی تھی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح خود کو ابن تیمیہ کے لیے قربان کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بہت کم کتابیں لکھیں۔ ورنہ اگر وہ کتابیں لکھتے تو بڑے بڑے ان کے سامنے آئیں بائیں شائیں کر رہے ہوتے۔ ویسے انہوں نے کتابوں پر جو مقدمات لکھے ہیں ان سے ان کی تبحرِ علمی کا پتہ چلتا ہے۔ ان کا مقدمہ لکھنے کا جو اسلوب ہے وہ نہایت ہی منفرد ہے جو دوسروں میں کم ہی نظر آتا ہے۔
*اللمحات إلى مافي انوار البارى من الظلمات* (علامہ رئیس ندوی: م 1430ھ) ، *تنوير العينين في إثبات رفع اليدين* (شاہ اسماعیل شہید دہلوی : م 1246ھ) ،*دفاع صحیح بخاری* (ابو القاسم سیف بنارسی :م 1369ھ) اور *فتاوی شمس الحق عظیم آبادی*( شمس الحق ڈیانوی :م 1911ء ) پر جو مقدمے لکھے وہ خود ایک مستقل رسالے کی حیثیت ہیں۔ اگر آپ ان کا موازنہ دوسرے مصنفین ، مفکرین سے کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ شیخ میں اتنی گہرائی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی خوشہ چینی کا نتیجہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب


شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ یہ چاہتے تھے کہ امام صاحب کی تمام غیر مطبوعہ کتابوں کو شائع کر دیا جائے۔ لیکن افسوس کہ قضائے الہی نے مہلت نہ دی۔ پھر بھی انہوں نے اپنی حیات مستعار کی چند گھڑیوں میں اتنی کتابیں وہ بھی پہلی بار شائع کر دیں کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔
شیخ رحمہ اللہ کی چند اہم تحقیقات کے اسماء ذیل میں قلمبند کئے جا رہے ہیں:
1۔ قاعدۃ في الإحسان ، لإبن تيميۃ بخطہ (تحقيق) ، مكۃ المكرمۃ 1999ء
2۔ جامع المسائل( 9 جلدیں) تحقیق ، مکہ مکرمہ 2002ء
3۔ شرح العمدہ لابن تیمیہ (5 جلدیں)مکہ مکرمہ 2016ء
4۔ جامع لسيرۃ ابن تيميۃ مكۃ المكرمۃ 1999ء
5۔ تنبيہ الرجل لإبن تيميۃ، مكۃ المكرمۃ 2005ء
6۔ جواب الاعتراضات المصريۃ على الفتيا الحمويۃ، مكۃ المكرمۃ ، 2009ء
7۔ مکتوباتِ ابن تیمیہ ، غیر مطبوع
8۔ ببلو گرافی کتب ابن تیمیہ ، غیر مطبوع


اگر آپ ان کتابوں پر غور کریں گے تو شیخ کی تبحرِ علمی اور ابن تیمیہ سے محبت و شغف کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجزن نظر آئے گا۔ جب عرب "مجموع الفتاوی" کو طاقوں میں سجائے فخر کناں تھے تب ہند کی ایک گمنام بستی سے نکل کر ایک عجمی بندے نے مکتبات ِ عرب و عجم کی خاک چھان کر سینکڑوں سالہ بوسیدہ اوراقِ قدیمہ کو نکال کر اور میزانِ تحقیق میں تول کر نفیس کاغذ پر پیش کیا تو عرب دنگ رہ گئے۔ مجھے لگتا ہے کہ کتبِ ابن تیمیہ پر مجموع الفتاوی کے بعد جو نئی تحقیق شروع ہوئی ہے اس کا سہرا شیخ کے سر سجتا ہے۔ شیخ تو اب نہیں رہے ، لیکن ہمارا فریضہ ہے کہ شیخ کے نقشِ قدم پر چلیں اور ان کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کریں۔ اور شیخ نے جو علمی تراث چھوڑا ہے اس کی حفاظت کریں اور پوری دنیا میں پھیلا دیں۔۔ اللہ توفیق عطا کرے۔ آمین

***
ابنِ انیس چمپارنی (چمپارن، بہار)

Email: shahfazal97080[@]gmail.com


Imam Ibn Taymiyyah and Shaykh Muhammad Uzair Shams. - Essay: Ibn-e-Anees.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں