محبت دیکھنی ہو تو بلال کی دیکھو۔ تپتی ریگ پر ننگی پیٹھ پڑی ہے۔ سینے پر بھاری پتھر ہے۔ ریت کا ہر ذرہ شعلہ جوالہ بن کر بدن کو جھلسا رہا ہے۔ سنگ دلوں نے شاید اپنے دلوں کا پتھر یکجا کر کے سیدنا بلال کے سینے پر رکھ دیا تھا۔ آگ برساتا سورج بھی اپنی پوری توجہ بلال کی طرف کیے ہوئے تھا۔ جسم کا بیرون و اندرون عذاب میں مبتلا مگر روح کی شادابی و اطمینان کا کیا کہنا۔ ریت کی گرمی ایمانی حرارت کے آگے ہیچ تھی، آتش بار دھوپ انوار توحید کے آگے ماند پڑ رہی تھی۔
ستمگروں نے کہا کہ محمد کو چھوڑ دو۔ تو جواب میں سوکھا حلق اور خشک زبان لے کر مگر پورے زور سے احد احد کا نعرہ مستانہ لگایا۔ زبان حال سے گویا ہوئے کہ تم محمد کی بات کرتے ہو بخدا خاک پائے محمد سے بھی دستبرداری منظور نہیں۔ مرا لہو پانی کے ان قطروں کے آگے بھی ہیچ ہے جو وضو میں سرور کائنات کے جسد اطہر سے ہو کر گزرتا ہے۔
بلال عزم و ایثار کا استعارہ کہ جس کی خشک زبان سے نکلے یکتائی کے گیت پہلے تو کائنات کی وسعتوں میں رقصاں ہوئے پھر درِ استجابت کھلا تو جنت میں ایک خوبصورت محل کی صورت اختیار کر گئے۔ جب نمازوں کے لیے اذان مشروع ہوئی تو یہی کعبے کے پردے اور تقدس کا رنگ اوڑھے ہوئے بلال کبھی مسجد رسول اللہ میں حی علی الصلوٰۃ کی آواز لگا رہا ہے تو کبھی کعبۃ اللہ میں حی علی الفلاح کی ندا دے رہا ہے۔ مگر ایک روز آتا ہے دنیاوی تاریخ کا بے حد سیاہ دن کہ جب تاجدارِ ختم نبوت کو دنیا سے اللہ کی جنتوں کی طرف اذنِ سفر ملتا ہے یعنی کہ اہل دنیا اپنے اس محبوب پیغمبر کے جسمانی وجود سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کائنات پر ماتم طاری ہو جاتا ہے۔ پھر وہ قدم جس کی چاپ رسول اللہ جنت میں سن کر آئے تھے ، ہاں وہی قدم مارے غم کے اپنی توانائی کھو دیتے ہیں۔ بلال کا وجود دھڑام سے زمین پر گرتا ہے۔ اور آنکھوں کے بہتے سمندر کے اس پار رسول اللہ کی شکل دھیرے دھیرے سرکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔۔۔۔
بلال پورا زور لگا کر کھڑے ہوتے ہیں جب اذان دیتے وقت اشہد ان محمدا رسول اللہ پر پہونچتے ہیں تو پھر محبوب سے جدائی کے زخم کے ٹانکے کھل جاتے ہیں اور آنکھوں سے اتنا آنسو بہتا ہے کہ بلال اسی میں ڈوب جاتے ہیں۔
بڑی مشکل سے اپنے آزاد کرنے والے مالک اور خلیفۂ رسول ابوبکر صدیق کے دربار میں پہنچ کر عرض کرتے ہیں : اے مرے محبوب کے جانشین، کیا جہاد فی سبیل اللہ مومن کا سب سے افضل عمل نہیں ہے؟
ابوبکر سراپا استعجاب ہوکر پوچھتے ہیں: بلال صاف صاف کہو، آخر تمہارا منشا کیا ہے۔؟
عرض کیا : "بس چاہتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں کسی محاذ پر چلا جاؤں اور وہیں جام شہادت نوش کرلوں۔"
ابوبکر آبدیدہ ہوگئے : "بلال! میری گزارش مانو ! تم یہیں ہمارے درمیان رہو اور ہمارے لیے اذان دو۔"
بلال نے سرد لہجے میں کہا کہ اگر آپ نے تپتی ریت اور بھاری پتھر کے عذاب سے مجھے اپنے لیے آزاد کیا تھا تو میں آپ کے لیے حاضر ہوں اور اگر اللہ کے لیے کیا تھا تو اللہ کے لیے مجھے چھوڑ دیں۔ میں اشہد ان محمدا رسول اللہ کہتے وقت آخر کس کی صورت دیکھوں۔ مرے سامنے سے جب سے وہ صورت ہٹی ہے لگتا ہے کہ کسی نے میرے اندرون میں صور اسرافیل پھونک دیا ہو۔ قیامت ہے، رائیگانی ہے ، ذہن و زبان اور دوش و ہوش ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔
ابوبکر صدیق اس سے زیادہ سننے کی تاب ہی کہاں رکھتے تھے آنسوؤں سے دھلے ہوئے رخسار اور بجھے دل کے ساتھ بلال کو مدینہ سے کوچ کرنے کی اجازت دے دی۔ اور بلال اپنی زندگی کی شام گزارنے دیار شام کی جانب چل پڑے۔
کاشف شکیل (ممبئی)
Email: mohammadkashif558[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں