اس دنیائے فانی کے اندر اللہ رب العزت نے جہاں لا تعداد مخلوقات کی تخلیق کی وہیں ایک بلند پائے کی مخلوق قلم کو بھی پیدا کیا _ اور اس کی عظمت و رفعت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ رب ارض سموات نے قرآن مقدس جیسی عظیم اور معتبر کتاب کے اندر اسے نہ صرف حیطۂ تحریر میں لایا بلکہ اس کی قسم بھی کھائی اورمزید برآں پوری ایک سورۃ کو قلم کے نام سے موسوم کردیا_ جو کہ اس کی عظمت و بلندی کی روشن دلیل ہے, فرمایا:
ن والقلم وما یسطرون (1)
ترجمہ : قسم ہے قلم کی اور جو کچھ وہ لکھتے ہیں
قلم کہ تخلیق اس وقت ہوئی جب رب کریم نے کائنات کو بھی وجود نہیں بخشا تھا_ سب سے اول وجود ظاہر میں قلم ہی ہے_ پھر حکمِ رب ہوا کہ لکھ تو اس نے منشائے رب کی مطابق ہر وہ چیز رقم کر دی جو ازل سے ابد تک ہونے والی ہے جیسا کہ نبی ﷺ اس حدیث سے قلم کی عظمت دو بالا ہو جاتی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا۔۔۔۔
"قال عبادۃ بن الصامت رضي اللہ عنہ سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم يقول: " ان اول ما خلق اللہ قلم ، فقال لہ: اكتب فجري بما ھو کائن فی الابد"(2)
ترجمہ :- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول ﷺ کو کہتے ہوئے سنا “اللہ نے سب سے پہلے جس کو پیدا کیا وہ قلم ہے اور اس سے فرمایا: لکھ۔اس نے پوچھا: اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟۔ اللہ تعالی نے فرمایا: قیامت تک ہونے والی ساری چیزوں کی تقدیریں لکھ"
اور بس یہیں پر بات ختم نہیں ہوتی، مزید یہ ہے کہ جب اللہ رب العالمین نے قرآن کریم کے نزول کا سلسلہ شروع کیا تو سب سے پہلے جن آیات کا نزول ہوا ان میں سے ایک آیت قلم کے تعلق سے بھی تھی۔۔۔۔ فرمایا
اللذی علم بالقلم (3)
ترجمہ : جس نے قلم کے ذریعے سکھایا
اس کلام با سعادت نے قلم کو وہ شان و شوکت اور وہ عزت و عروج بخشا کہ قلم خود چیخ چیخ کر زمانے میں برملا اعلان کرنے لگا کہ ۔۔۔۔۔ من شاہ جہانم
شاعر کہتا ہے۔۔۔۔
قلم گوید کہ من شاہ جہانم
قلم کش راہدولت می رسانم
اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قرآن و احادیث کو قلم ہی کے ذریعے محفوظ کیا گیا۔ جس کے ذریعہ ساڑھے چودہ سو سال بعد بھی دین اسلام ہم تک خالص شکل میں پہنچا، وگرنہ ہم شرک و کفر اور بدعت و خرافات کے پاتال میں بھٹک رہے ہوتے۔ حق و باطل کے مابین فرق کرنے سے قاصر ہوتے اور اسی قلم کی وجہ سے تاریخ زندہ ہے
قلم کا استعمال دو طریقہ سے کیا جاتا ہے: (1)مثبت (2) منفی
اگر قلم کا استعمال مثبت طور پر معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے کیا جائے تو وہ سماج اور معاشرے کے لیے بہت ہی سودمند ثابت ہوگا اور اگر اسی قلم کا استعمال منفی طور پر کیا جائے اس سے تخریب کاری عمل میں لائی جائے تو شہر کا شہر برباد ہو سکتا ہے
دنیا کے اندر آج بھی لوگ اچھے اور برے دونوں طریقے سے قلم کا استعمال کر رہے ہیں کوئی اسی قلم سے صفحہ و قرطاس کو رنگین کر کے دو دلوں کو جوڑنے کا کام کر رہا ہے تو کوئی اسی کے ذریعے عوام کے دلوں میں نفرت کے بیج بو رہا ہے کوئی اسی قلم سے آیات قرآنیہ کے تراجم و تفاسیر تو کوئی فحش تحریریں تخلیق کر رہا ہے بہتوں نے اسی قلم کے ذریعے عزت و شہرت کمائی ہے۔
مثال کے طور پر آپ دیکھیں جب حسین بن علی نے قلم کا جائز استعمال کیا تو اسی قلم نے انہیں ابن سینا (م 428 ھ) بنا کر فلسفۂ تخت شاہی پر مامور کر دیا وہی قلم جب علامہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م 728 ھ) کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے علوم و فنون کے اکثر و بیشتر میدان میں کام کیا اور گہری چھاپ چھوڑنے میں کامیاب ہوئے اور وہی قلم جب ابن عقیل (م 1119 ء) کے دست مبارک میں آئی تو انہوں نے "الفنون" جیسی ضخیم کتاب لکھ کر دنیائے علم و ادب میں اپنے علم کا لوہا منوا لیا , ابن الجوزی رحمہ اللہ (م 597 ھ) کے مطابق یہ کتاب 800 جلدوں میں لکھی گئی ہے اور یہ دنیا کی سب سے بڑی کتاب ہے (4)
یہی وجہ ہے کہ شورؔش کاشمیری کو یہ کہنا پڑا۔۔۔۔
کانپتے ہیں اس کی ہیبت سے سلاطین زمن
دبدبہ فرمانرواؤں پر بٹھاتا ہے قلم
صفحۂ ہستی پہ جب موتی لٹاتا ہے قلم
ندرت افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم
اور اسی مہذب قلم کے ذریعے لکھے گئے دعوت اسلامی کے خطوط سے اللہ کے نبی نے امرا اور بادشاہوں کو دعوت دی تھی آپ ﷺ نے قیصر کسریٰ کے پاس جب خط بھیجا تو ”قیصرِ روم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خط کا اکرام کیا، پس اس کی بادشاہت باقی رہی اور غالباً آج تک اس کی نسل میں چلی آتی ہے۔ کسری فارس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا اور آپ کا خط پھاڑ دیا، پس اس کی بادشاہت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوئی اور کسراؤوں کا آج نشان تک نہ ہے۔ اور یہ -واللہ اعلم- اس ارشاد کی عملی تعبیر ہے کہ: "بلاشبہ! آپ کا دشمن ہی جڑ کٹا ہے۔" (5)
ایسے بیشمار واقعات تاریخ میں مرقوم ہیں جو قلم کی عظمت کی دلیل ہیں بر صغیر کے اندر آزادی کے دور میں قلم تلوار پر بھی بھاری ثابت ہوئی ہے_ شاعر کہتا ہے۔۔۔۔
تاریخ کے اوراق الٹ کر ذرا دیکھو
ہر دور میں تلوار ہی ہاری ہے قلم سے
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ شاعر مشرق علامہ اقباؔل (م 1938 ء) نے مسلمانوں کے اندر قلم ہی کے ذریعے آزادی کی روح پھونکی، وہیں فیض احمد فیؔض، حبیب جالؔب اور بہتیرے شعرا و مصنفین نے نظمیں، تحریریں اور اشعار لکھ کر ڈرے ہوئے کمزور لوگوں کو بیدار کرنے کا کام کیا_ تو وہیں مولانا آزاؔد (م 1958 ء) نے "البلاغ" اور "الہلال" کی ابتدا کی اور اس کے ذریعے عوام کو بیدار کیا _قلم کی حرمت و تقدس کا حق فقط اسی صورت میں ادا کیا جا سکتا ہے جب پوری سچائی اور امانتداری کے ساتھ تحریر کیا جائے_
ابو الفتح بستی کہتے ہیں:
اذا اقسم الابطال يوما بسیىفہم
وعدوہ ممايكسب المجد والكرم
كفى قلم الكتاب عزا ورفعۃ
مدی الدھر ان اللہ اقسم بالقلم
ترجمہ:
"جب تلواروں کے دھنی جواں مرد اپنی تلواروں کی قسم کھائیں، اور ان ذرائع کو شمار کریں، جن سے بلندی و کرامت حاصل کی جاتی ہے(ان کے مقابلے میں) لکھنے والوں کے قلم عظمت و برتری کی خاطر کافی ہیں کہ خدائے علام نے ابدالآباد کے لیے اس کی قسم کھائی ہے ۔۔
اسی لیے کبھی بھی قلم چلانے سے قبل سوچیے!!
کہ کہیں ہمارے قلم کی نوک سے نکلتی ہوئی آواز توپوں کی گھن گرج نہ بن جائے ، اور نکلتی ہوئی سیاہی ہماری ذلت و رسوائی اور معاشرے کیلیے تباہ کن امر نہ ثابت ہو جائے۔
قطع کرنی پڑتی ہے فکر و نظر کی وادیاں
تب کہیں شورؔش مرے قابو میں آتا ہے قلم
(شورش کاشمیری)
حوالہ جات:
1) سورۃ القلم آیت 1
2) سنن ترمزی 3319
3) سورۃ العلق 4
4) متاع وقت اور کاروان علم باب دوم کاروان علم 199
5) (الصارم المسلول لابن تيميۃ رحمہ اللہ : 316/2)
Mohd Altamash
ایمیل: altamashyunus5151[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں