ہندوستان میں مدرسہ تعلیم اور اردو زبان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-11-24

ہندوستان میں مدرسہ تعلیم اور اردو زبان

madrasa-education-urdu-language-india

انسان نے اپنی اجتماعی زندگی کے لیے جن اداروں کو منظم کیا اور ان کے ذریعہ اجتماعی زندگی کے تسلسل کو قائم رکھا ان میں تعلیم کا ادارہ اہمیت کا حامل ہے۔ تعلیم دراصل ایک نسل کے تجربات کو دوسری نسل تک منتقل کرنے کا نام ہے۔ تعلیم اور تعلم کا سلسلہ ہندوستان میں زمانے سے رائج ہے۔تاریخی حوالے سے قدیم مندروں، تیرتھ استھانوں، گروکل اور پاٹھ شالاؤں میں اس کے ثبوت ملتے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں ہمیں جو تعلیمی روایت ملتی ہے اس میں ٹیکسلا کے علم و فن کی روایت سے کون واقف نہیں ہے، ایک وقت تھا جب اس شہر کو تعلیمی لحاظ سے بین الاقوامی شہرت کا درجہ حاصل تھا۔ یہاں تاریخ، وید، گرامر، منطق، اخلاقیات، ہندسہ، شگون، زائچہ شناسی، جوتش، بھوت ودیا، حربیات، زہریات، عطرشناسی، رقص و موسیقی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ لیکن یہ ساری تعلیم صرف حکمراں اور اعلی طبقے تک محدود تھی، عام لوگوں کی تعلیم تک رسائی نہیں تھی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد تعلیم کا رواج عام ہوا۔ مسلمانوں نے ہندوؤں کی علم پر اجارہ داری کو توڑ دیا اور تعلیم کو اس دور کے مزاج کے مطابق عوام وخواص دونوں کے لیے عام کردیا۔ مسلمانوں نے ہندوستان میں اپنی قدیم تعلیمی روایت کو باقی رکھتے ہوئے جگہ جگہ مکاتب و مدارس قائم کیے۔کیونکہ مسلمان چاہتے تھے کہ اسلامی نظام تعلیم کی جو ر وایت اسلامی ممالک میں رہی ہے وہ یہاں بھی قائم ہو، تاکہ مسلمان اپنے مذہبی و تہذیبی تقدس کو باقی رکھ سکیں۔ اسی نقطہ نظر سے مسلم صوفیا اور حکمرانوں نے مدرسہ کی قدیم روایت کی بنیاد ہندوستان میں رکھی۔ اسلام میں علم کے فرض ہونے کی وجہ سے اسلامی مملکت میں درس وتدریس کا سلسلہ صدیوں سے قائم تھا۔ خاص طور سے مصر، خراسان ، بغداد، اسکندریہ وغیرہ ایسے علاقے تھے جہاں کے مسلمان علمی اعتبارسے مضبوط اور دنیا کے دوسرے ممالک سے افضل تھے۔ مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ سائنسی اور فلسفیانہ تعلیم میں بھی دنیا کے دیگر علاقوں سے بہت بہتر تھا۔


ہندوستان میں مدارس کی روایت مسلم حکومتوں کے قیام سے شروع ہوئی۔ اس سے قبل یہاں گرچہ درس و تدریس کی روایت تھی۔ لیکن وہ خاص لوگوں کے لیے مختص تھی۔ مسلمانوں نے مدارس کی بنیاد ڈال کر تمام لوگوں کے لیے تعلیم کے راستے کھول دیے۔ اس دور کے مدارس میں تمام طرح کے مضامین کی تعلیم دی جاتی تھی۔ دینی و دنیوی تعلیم کی کوئی تفریق نہیں تھی۔ کیونکہ اس وقت علم حاصل کرنے کے لیے مدارس ومکاتب یا پھر گرو کل اور پاٹھ شالہ ہی ہوا کرتے تھے۔ مدارس میں حصول علم کے سلسلے میں مذہبی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جاتی تھی۔مسلمان بچوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے بچے بھی علم حاصل کرتے تھے۔ یہیں کے تعلیم یافتہ افراد حکومت کے عمائدین اور کارندے بنتے تھے۔ مدارس کی یہ روایت صدیوں تک قائم رہی۔
1857ء کی جنگ آزادی کی شکست کے بعد دور رس، مدبر اور مفکر علماء نے ایسے مدارس کا قیام ضروری سمجھا جس کے ذریعہ کم سے کم مسلمانوں کو دینی و اخلاقی زوال سے محفوظ رکھیں تاکہ ان میں داعیانہ روح اور رضاکارانہ صلاحیت اور اشاعت علم کا جذبہ پیدا ہو اور جو حکومت کی اعانت و سرپرستی کے بغیر اس ملک میں مسلمانوں کی دینی خدمت اور رہنمائی اور علم کی اشاعت و حفاظت کے فرائض انجام دے سکیں۔
ہر قوم اپنا فلسفہ تعلیم یا نظریہ تعلیم اس طرح بناتی ہے کہ وہ اس کے نظریہ حیات کی مناسب خدمت کرسکے۔ اسلامی نظریہ تعلیم اسلامی تصورات کی عکاسی کرتا ہے اور اس کا اولین مقصد مسلمانوں کی زندگی میں اسلامی اقدار کو جاری و ساری دیکھنا اور ان کے کردار کو باطل اثرات سے بچا کر الٰہیاتی رنگ میں رنگنا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں نے اپنے قدیمی روایت کو جاری کرتے ہوئے ہندوستان میں مکاتب و مدارس کی بنیاد ڈالی۔
مکتب اور مدرسہ مسلم سماج کے اجتماعی ادارت میں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہے۔ مکتب اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پڑھنے پڑھانے اور لکھنے لکھانے کا انتظام ہوتا ہے۔ کسی معاشرے کے اجتماعی شعور اور انفرادی تشخص کے ارتقا کا دارومدار زیادہ تر مکتب و مدرسہ پر ہوتا ہے۔ جو ماحول مکتب و مدرسہ کا ہوگا وہی ماحول کسی نہ کسی طرح پورا معاشرہ اپنائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اپنے تعلیمی نظام اور تعلیمی درسگاہوں کی عظمت پر زور دیتی ہے۔


ابتدا میں ہندوستان کے مکاتب و مدارس مسجد سے وابستہ تھے یا پھر ذاتی طور پر صوفیا اور اساتذہ کے گھر سے منسلک تھے۔ لیکن دھیرے دھیرے درس وتدریس کا بندوبست الگ عمارتوں میں ہونے لگا۔ اس طرح مدرسہ اپنی ذاتی عمارتوں کی شکل میں بننے لگے۔ اس سلسلے میں مسلم حکمرانوں نے ذاتی دلچسپی لی اور فراق دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدرسے کے نظم و نسق اور نظام تعلیم کو چست و درست کرنے کے لیے سرکار ی فنڈ سے عطیات فراہم کیے۔ بلکہ نصاب تعلیم اور انتظامی امور میں بھی بہتری لانے کی کوشش کی۔ مغل دور تک آتے آتے مدارس اپنے اعلیٰ معیار کو پہنچ چکے تھے۔ ان ہی مدارس سے ملک کے نظم ونسق کو چلانے کے لیے عمائدین لائے جاتے تھے۔ مسلم دورحکومت میں مدارس میں تمام طرح کی تعلیم دی جاتی تھی۔ لیکن برطانوی حکومت کے قیام کے بعد ان کی تعلیمی پالیسیوں کی بدولت مدارس کا نظم ونسق بگڑنا شروع ہوگیا۔ تحریک آزادی کی وجہ سے بہت سے علماء شہید کردیے گئے۔ معاشی طور پر مسلمانوں کو دانستہ طور پر کمزور کیا گیا۔ مسلمانوں کے تیار کردہ نظام تعلیم کی جگہ جدید نظام تعلیم کو رائج کیا گیا۔ اس طرح نظام تعلیم دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔مسلمان طبقہ ان حالات سے بہت متاثر ہوا اور مسلمان علم کے حصول کے سلسلے میں دو خیموں میں تقسیم ہوگئے، ایک جدید تعلیم کا ہمنوا ہوا، جب کہ دوسرا قدیم طرز تعلیم کو مضبوطی سے پکڑے رہا۔ قدیم طرز تعلیم پرمذہبی تعلیم غالب ہوگیا۔ جس کی وجہ سے مدارس کی قدیم روایت جس میں ہر طرح کی تعلیم دی جاتی تھی وہ ختم ہوکر رہ گئی۔


درس و تدریس کے لیے کسی ایک زبان کو ذریعہ بنانا ضروری ہے کیونکہ زبان خیالات کی ترسیل کا ایک اہم ترین وسیلہ ہے جس کے ذریعہ انسان ایک دوسرے انسان سے رابطہ قائم کرتا ہے اور دوسروں کے سامنے اپنے ضمیر کا اظہار کرتا ہے۔ زبان کبھی اظہار خیال کا ذریعہ بنتی ہے اور کبھی حال دل کو راز میں رکھنے کا ہنر جانتی ہے۔ زبان کبھی نفرت کازہر گھولتی ہے تو کبھی محبت کا شیریں جام پلاتی ہے اور کبھی انقلاب کے راگ کو چھیڑتی ہے تو کبھی رومان کے نغمے الاپتی ہے۔ زبان زندگی کے دیگر ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہے۔ زبان اور فکر کے درمیان چولی دامن کا رشتہ ہے، اس کے ذریعہ انسان کے شعور کی تربیت ہوتی ہے اور تہذیب پروان چڑھتی ہے۔ فکر زبان کی رہین منت ہے کیونکہ اگر زبان فکر کے اظہار کے لیے سہارا نہ بنی ہوتی تو انسان فکر سے محروم رہتا۔ زبان ہی کے وسیلے سے انسان گردوپیش کے ٹھوس حقائق کو تصوراتی پیکر میں ڈھالتا ہے اور تخیلات کی دنیا آباد کرتا ہے۔ اس کے ذریعے کبھی تجزیاتی فکر کی داغ بیل پڑتی ہے اور کبھی تخلیقی فکر کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ تحقیقی مطالعوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر سطح پر فکر کی نشوونما میں زبان کا بڑا دخل ہے۔ ساتھ ہی فکر کی نشوونما سے ذہنی نشوونما کا گہرا رشتہ ہے۔ زبان ذہنی ترقی کا ایک نہایت لطیف مگر مؤثر ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعے ہی انسان میں وہ لطافت پیدا ہوتی ہے جو کبھی گرمی محفل پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے اور کبھی ادب وشاعری کے روپ میں ذہن وفکر کو جلا بخشتی ہے۔


اس طرح زبان، فرد اور سماج کے درمیان فعال رشتہ پیدا کرنے کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ یوں تو زبان سیکھنا ایک فطری نیز اکتسابی عمل ہے اور یہ عمل ہمہ وقت نموپذیر رہتا ہے۔ فر د کی نشوونما اور بالیدگی کے ساتھ زبان سیکھنے کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ گویا زبان نے انسانی زندگی کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر زبانیں وجود میں نہ آتی تو انسان حرکات وسکنات کے ذریعہ ترسیل کرتا، جس کی وجہ سے تہذیبیں گونگی رہ جاتیں اور سماج کی نشوونما نہ ہوپاتی اور نہ ہی شخصیت کی تشکیل کا ہی امکان ہوتا۔ اس طرح یہ واضح ہوتا ہے کہ زبان ، فرد اور سماج کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا ہے۔


گلوبلائزیشن کے اس دور میں جب ترقی یافتہ ممالک کی زبانیں دیگر بولی جانے والی زبانوں کو ہضم کرتی جارہی ہیں۔ ایسے میں زبانوں کا وجود باقی رکھنا بہت ہی جاں فشانی کا کام ہے۔ اردو کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جب ہم اردو زبان کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی نشوونما میں بازار ، خانقاہ اور دربار پیش پیش رہے ہیں۔ اردو ہندوستا ن میں مسلم حکمرانوں کے ادوار میں سرکاری سرپرستی کی وجہ سے خوب ترقی کی، بلکہ یہ کہا جائے کہ اپنے ارتقائی مراحل کو طے کرتے ہوئے ایک حتمی شکل میں ابھر کر سامنے آئی اور صدیوں تک عوامی بولی کی صورت میں بازاروں میں رائج رہی جو عوامی زبان کی صورت میں مقبول رہی۔ عوام اپنے روزمرہ کی زندگی میں اسے بول چال کے طور پر اس کا استعمال کررہے تھے۔ جب اسلام ہندوستان میں آیا تو صوفیائے کرام نے اسلام کی دعوت اور وعظ ونصیحت کے لیے اسی عوامی زبان کو اپنایا۔ مسلم حکمرانوں نے بھی اسی زبان کی سرپرستی کی۔ جس کی وجہ سے اردو اپنی ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے واضح شکل میں نمودار ہوئی۔ انگریزوں کے اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے ہندوستانیوں کو آپس میں لڑانے کی شطرنجی چالیں بچھانی شروع کیں، تاکہ حکومت پائیدار اور مستحکم ہوں۔ اس کے لیے انہوں نے زبان کو بھی ا پنی سیاست کا شکار بنایا۔ ان کی اسی سیاست کی وجہ سے اردو زبان سے ایک طبقے کی بیزاری ابھر کر سامنے آئی۔ ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد دفتری کام کاج کے زبان کی صورت میں سرکاری طور پر ہندی کو قبول کیا گیا اور اردو کو بے یارومددگار عوام کے درمیان چھوڑ دیا گیا۔ اردو اپنی حلاوت اور شیرینی کی وجہ سے عوام کے دلوں میں راج کرتی رہی اور آج تک راج کررہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ لوگوں نے اسے ہندی کا نام دے دیا ہے۔ ہندوستانی سنیما اور میڈیا ( ریڈیو، ٹیلی ویژن ، اخبارات) وغیرہ اس کی واضح اور زندہ مثالیں ہیں جس میں اردو زبان کا استعمال وسیع تر پیمانے پر ہورہا ہے۔


جہاں تک اردو زبان کو فروغ دینے کی بات ہے تو اس سلسلے میں اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کی خدمات کو ہمیشہ سے سراہا جاتا رہا ہے۔یہ مسلم حقیقت بھی ہے کہ فورٹ ولیم کالج، جامعہ عثمانیہ، دہلی کالج اور اورینٹل کالج علی گڑھ (موجودہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے اردو زبان کے ساتھ اردو ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن ان سب کے درمیان ایک حلقہ ایسا بھی ہے جو خاموشی سے اردو زبان کی صدیوں سے خدمت کر رہا ہے۔ اپنے ابتدائی مراحل سے لے کر اب تک اس پر قائم ہے۔وہ طبقہ ہے مدارس کا، جو درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ اردو زبان کو فروغ دے رہا ہے۔ وہ اس کے لیے دعوے بھی نہیں کرتا ہے۔


مدارس نے درس وتدریس کے لیے رائج الوقت زبان کا استعمال ہر د ور میں کیا ہے۔ جب مدارس کا ہندوستان میں وجودہوا تو جس روایت کو وہ مسلم ممالک سے لائے تھے اسی کو آگے بڑھایا اور عربی زبان کو میڈیم کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن جیسے جیسے فارسی کا غلبہ ہوتا گیا اور مسلم حکمرانوں کی پکڑ مضبوط ہوتی گئی ویسے ہی مدارس میں نصاب سے لے کر درس و تدریس کے میڈیم تک فارسی زبان حاوی ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ فارسی مدارس کے درس وتدریس کا میڈیم بن گیا۔ افتاد زمانہ نے جب کروٹیں لیں اور عوامی سطح پر اردو نے فارسی کی جگہ لے لی اور پھر اردو اپنی حتمی شکل اختیار کرلی تو مدارس نے بھی اپنے ذریعہ تعلیم میں تبدیلی لائی اور فارسی کی جگہ اردو کو میڈیم کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ اس کے پیچھے جو مقاصد کارفرماتھے ان میں سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ مدارس دینی امور اور اصول کو عوام میں رائج کرنا چاہتے تھے اور وہ تبھی ممکن تھا جب عوام کی زبان میں معلومات فراہم کی جائے۔تاکہ ایسے افراد کا تیار ہو جو دین کی خدمات انجام دے سکیں۔ اس کے لیے عوام میں بولی جانے والی زبان کا سیکھنا لازمی تھا۔ اس لیے مدارس نے میڈیم کے طور پر اردو کا استعمال کرنا لازم سمجھا۔


اردو کشی کے اس دور میں اردو زبان کی بقاء مدارس سے مشروط ہے۔ اس زبان کا نامیاتی ارتقا اور تسلسل بھی مدارس پر ہی منحصر ہے۔ اہل مدارس نے اردو کے احیا کے عملی اقدامات کیے۔ رسم الخط کی تبدیلی، استعارات و علائم میں تغیر، لسانی مزاج کو بدلنے کے خطرناک منصوبوں سے بھی سب باخبر ہیں۔ ایسے پر خطر ماحول میں اردو کی ہیئت حقیقی یعنی اس کے رسم الخط کو مدارس نے برقرار رکھا اور اردو زبان کی اصلی روح اور اس کے تہذیبی حسن کا تحفظ مدارس نے ہی کیا، زبان کی جمالیات اور حرکیات کو نئی توانائی عطا کی، عملی حیاتین کے ذریعہ اردو زبان کو ان جراثیم سے محفوظ رکھا جو اس کے جسم کو دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے اور زبان کو بنجر میں تبدیل کررہے تھے۔ اردو اور مدارس دونوں ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہوگئے ہیں کہ ذکر اردو کا ہو تو بات مدارس تک پہنچتی ہے۔


مدارس نے میڈیم کے طور پر اردو کو کب سے اپنایا؟تاریخ کی کتابوں سے اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا۔ البتہ 'مدرسہ غازی الدین حیدر' کے دلی کالج بننے کے بعد اردو زبان کے فروغ میں اس نے جو کارنامے انجام دیے ہیں اس سے کہا جاسکتا ہے کہ مدارس نے بہت پہلے سے اردو کو میڈیم کے طور پر قبول کرنا شروع کردیا تھا۔ غدر کی ناکامیابی کے بعد دارالعلوم دیوبند کے قیام سے باضابطہ اردو زبان کو درس وتدریس کے وسیلے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ دارالعلوم دیوبند کے قیام کے بعد ہندوستان میں مدارس کا جال بچھ گیا اور تمام مدارس نے اردو کو درس و تدریس کے لیے وسیلے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔


ہندوستانی مدارس کی ان تمام خدمات، قربانیوں، ایثار اور بھرپور تاریخی کردار کو تسلیم کرنے میں بخل برتنے کا کوئی جواز نہیں، تاہم مدارس کے تشخص کو باقی رکھتے ہوئے آج کے دور کے تقاضوں اور ضروریات کے حوالے سے ان کے نصاب و نظام میں مناسب اور ضروری ترمیم و اضافہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ دینی ضرورت اور مستقبل کے امکانات و خطرات کا ادراک کرتے ہوئے باہمی مشاورت کے ساتھ جو تبدیلی ناگزیر ہو اسے اختیار کرنے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔
اس میں شک نہیں کہ مکتبوں اور مدرسوں نے تقسیم ہند کے بعد اردو زبان اور خاص طور سے اس کے رسم الخط کی حفاظت میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اور اس میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی ہے کہ ہندوستان میں مفت تعلیم کا سب سے بڑا غیر سرکاری نیٹ ورک انہیں مکتبوں اور مدارس کا ہے۔ جو سرکاری امداد کے بغیر برسوں سے کام کرتے آرہے ہیں۔


آزادی کے بعد ہر سطح پر اردو زبان کی طرف سے بے توجہی برتی گئی۔ یہاں تک کہ اسکولوں اور کالجوں میں اردو کو صرف اختیاری مضمون کی حیثیت سے رائج کیا گیا۔ اس کے لیے کوئی منصوبے تیار نہیں کیے گئے۔ اسکولوں اور کالجوں کے لیے اردو اساتذہ کا مستقل انتظام نہیں کیا گیا۔ سرکاری نوکریوں کے لیے اس کے راستے محدود کردیے گئے۔ یہاں تک کہ ذمہ داران اسکول نے بھی اس کی طرف سے بے اعتنائی برتی۔ ایسی صورت میں مدارس ہی ایسا ادارہ تھا جس نے اسے گودلیا اور اس کی آبیاری کی۔
ملک کے تقریباً تمام مسلم آبادی والے گاؤں اور محلوں میں مسجدیں اور اس سے وابستہ مکاتب ہیں، جو بچوں کے لیے ابتدائی تعلیم گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جہاں قرآن پاک کے ناظرہ کے ساتھ اردو زبان کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ بچوں کو حروف تہجی سے لے کر مشکل الفاظ تک یاد کروائے جاتے ہیں اور خوشخط تحریر میں اردو حروف لکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس کے بعد بچے مزید تعلیم کے لیے اسکول یا پھر مدرسہ کا رخ کرتے ہیں۔ اسکولوں میں انگریزی یا ہندی میڈیم ہونے کی وجہ سے بچے اردو سے غیر مانوس ہوتے نظر آتے ہیں،جب کہ مدارس کا رخ کرنے والے بچے دینی علوم کے ساتھ ساتھ اردو کے اعلیٰ معیار سے بھی متعارف ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہاں تمام مضامین کی تعلیم کے لیے اردوزبان کو بطور ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے۔


ویسے تو ہندوستان میں مدارس ومکاتب کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ لیکن ان تمام مدارس میں کچھ مدارس ایسے بھی ہیں جو صف اول کے ہیں اور جن کے نصاب کو دوسرے چھوٹے بڑے مدارس قبول کیے ہوئے ہیں۔ ان مدارس کو افضلیت حاصل ہیں اور ان ہی کے نصاب پر بے شمار مدارس تعلیم دے رہے ہیں۔ ان سب نے اردو زبان کی جو خدمات کی ہیں اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامی تاریخ کی روشنی میں مدارس نے ہمیشہ کے لیے کس طرح دنیاوی اور دینوی علوم کے خلاء کو پاٹ دیا اور تمام علوم کو اللہ کی عطا کردہ نعمت قرار دے کر ان کے حصول کو لازم قرار دیا۔ ان کے معتدل اور جامع نظام تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں با شعور طبقہ میں اس کا احساس ہوا کہ اپنا تشخص اور علمی وجود اور دینی شعائر کو کس طرح باقی رکھا جائے، اس کے ساتھ ساتھ خود داری اور خود شناسی کا جذبہ کس طرح پیدا ہو، تاکہ ایک زندہ قوم کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پہچانے جائیں اور اپنے وجود کو اپنی برتری و بالادستی کو تسلیم کراسکیں۔
یہ اہل مدارس ہی ہیں جنہوں نے اردو کی صرفی و نحوی ساخت کی تشکیل، نئی لفظیات، استعارات، تشبیہات، تلمیحات اور لغت میں اضافہ کیا ہے۔ اردو زبان کو ان علوم و فنون و موضوعات سے آشنا کی جو یقینا اردو کی فکر ثروت میں اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور جس سے اردو زبان کو فکری تحریک اور توانائی حاصل ہوگئی۔ اس کا اعتراف ارباب فضل و کمال کو بھی ہے اور اردو زبان و ادب سے وابستہ باشعور، بالغ النظر اساتذہ کو بھی صحیح معنوں میں آج کے عہد زوال اور اردو کشی کے دور میں اردو زبان کی بقا مدارس کی وجہ سے زندہ ہے، ہندوستان میں اگر مدارس نہ ہوتے تو اردو زبان کا دائرہ نہایت سکڑا اور سمٹا ہوتا۔


اردو کی تشکیل، ترویج و اشاعت میں مدارس کی بیش بہا خدمات، ناقابل فراموش ہیں۔ اردو کی ابتدائے آفرینش سے لے کر ارتقاء تک کی مکمل تاریخ میں مدارس کی عظیم خدمات رہی ہیں۔ بیشتر کلاسیکی شعرا کا تعلق مدارس سے رہا ہے۔ اردو غزل کے بابا آدم ولی دکنی، مدرسہ کے فیض یافتہ تھے۔ اسی طرح سراج دکنی ، داغ دہلوی، میر تقی میر، سبھی مدرسے کے پروردہ تھے۔ یہی نہیں بابائے اردو مولوی عبدالحق، اردو میں ناول کی تاریخ رقم کرنے والے مولوی ڈپٹی نذیر احمد، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی، نذیر اکبرآبادی، اکبر الہ آبادی، مولانا شبلی نعمانی، عبدالسلام ندوی، سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالکلام آزاد وغیرہ مدارس ہی کی دین ہیں۔ اس طرح اردو کے تعلق سے ماضی میں مدارس کے فارغین کی عظیم خدمات رہی ہیں۔
اس میں دورائے نہیں کہ اردو اور مدارس ایک دوسرے سے مربوط ہیں اس کی زندہ اور علمی مثال مدارس کا ذریعہ تعلیم ہے۔ اس طرح دینی تعلیم و ترویج و اشاعت کے علاوہ اردو کو برصغیر کے کونے کونے تک پھیلانے میں مدراس کا اعلی تعلیم تک اردو میں ہی دی جاتی ہے۔ خواہ یہ مدرسے شمال میں قائم ہوں یا جنوب میں، مشرق میں ہوں یا مغربی ہند میں۔


ہندوستان کے باہر اردو کا تعارف کرانے میں مدارس کا اہم کردار رہا ہے۔ مدارس نے اردو زبان کو بین الاقوامی زبان بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے یہاں ہندوستان کے علاوہ غیر ممالک کے طلباء بھی علم کی دولت سے سرفراز ہوتے رہتے ہیں اور تعلیم سے فراغت کے بعد بھی اپنے ملکوں میں اردو کی شمع روشن کرتے ہیں۔ اردو زبان کے لسانی اور فکری سرمائے میں ارباب مدارس نے جو اضافے کیے ہیں وہ جلی حروفوں میں لکھنے کے قابل ہیں۔


ہندوستانی مدارس نے اردو زبان کو فروغ دینے میں جو کام کیے ہیں وہ تو قابل تعریف ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اردو زبان کوادبی حیثیت دلانے میں جو اہم کارنامے انجام دیے ہیں اس کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ مدارس سے نکلنے والے رسالے اور اخبارات کی اردو خدمات کا اعتراف کرنا ہوگا۔ دارالمصنفین کے تحت چھپنے والی تصانیف اور ماہنامہ 'معارف' کی تحریریں پڑھنے سے اس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ندوہ سے نکلنے والا رسالہ 'الندوہ' کی تحریریں بھی ادبی زمرے میں آتی ہیں،جن کا اس دور میں کوئی ثانی نہیں تھا۔'اسی ادارہ کے 'رابطہ ادب اسلامی'کے تحت نکلنے والا رسالہ 'کاروان ادب'کی پاکیزہ تحریریں ہوں جس رسالہ کے مطالعہ سے قارئین دوسری زبانوں کے ادب سے واقف ہوتا ہے۔ رسالہ 'تعمیر حیات' کی سادہ زبان سے اسلامی فکر کو عام کیا جاتا ہے۔ دارالعلوم سے نکلنے والے ماہنامہ 'دارالعلوم' اور 'آئینہ دارالعلوم' وغیرہ اردو زبان میں نکلنے والے اہم رسالے ہیں۔ دارالعلوم ان رسالوں کی مدد سے اسلام اور اس کے صحیح عقیدے کی تشہیر کرتا ہے، اور اسلام پر ہونے والے حملوں کا مدلل اور پرزور طریقے سے جواب دیتا ہے۔
اسی طرح مدرسۃ الاصلاح کا ترجمان 'الاصلاح' ہے جو اپنے افکار کو اردو زبان میں عوام تک پہنچاتا ہے۔ اسی ادارے سے 'نظام القرآن'نام کا رسالہ بھی نکلتا ہے۔ جامعۃ الفلاح کا ترجمان 'حیات نو' ہے جس میں اسلامی مکتبہ فکر کے تحت جامع مضامین اردو زبان میں شائع کیے جاتے ہیں۔ جامعہ اشرفیہ کا 'اشرفیہ' اور جامعہ سلفیہ کا 'محدث' بھی اردو میں نکلنے والا ماہنامہ رسالہ ہے جس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اور اسلامی معاشرے کی تشکیل میں ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ بہرحال ان مدارس سے نکلے والے رسالے اردو زبان میں ہوتے ہیں جس کی مدد سے یہ مدارس دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اردو زبان کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں۔
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی مدارس ہی وہ ادارے ہیں جہاں اردو کی آبیاری کی جاتی رہی ہے اور کی بھی جارہی ہے۔ مزید ملک کے حالات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اگر یہ مدارس بھی اردو سے بے اعتنائی برتنے لگیں تو وہ دن دور نہیں جب اردو کے حروف سے لوگ ناآشنا ہوجائیں گے جیسا کہ ہندوستان میں ہی بہت سی ایسی زبانیں ہیں جس کو پڑھنے والے اب موجود نہیں ہیں۔ اگر ان زبانوں کو پڑھنے والے موجود ہوتے تو شاید کہ ہندوستان کی تاریخ میں بہت سے نئے باب کا اضافہ ہوتا اور ایسے رازو نیاز سے پردہ اٹھتا جو اب تک ہندوستانیوں کی نظر سے اوجھل ہیں۔


مراجع و مصادر:
1۔مولانا مناظر احسن گیلانی، ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت، ندوۃالمصنفین، 1944
2۔ریاست علی ندوی، عہد اسلامی کا ہندوستان، ادارۃالمصنفین، پٹنہ، 1950
3۔سید عبدالحئی حسنی۔شمس تبریز خاں، اسلامی علوم فنون ہندوستان میں، دارالمصنفین، اعظم گڑھ،1969
4۔ابوالحسنات ندوی، ہندوستان کی قدیم اسلامی درسگاہیں، دارالمصنفین، اعظم گڑھ،1971
5۔محمد رضوان القاسمی، دینی مدارس اور عصر حاضر، مرکزی دعوت و تحقیق، حیدرآباد، 1994
6۔محمد قمر اسحاق، ہندوستان کے اہم مدارس، اسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی، 1996
7۔ریاست علی ندوی، اسلامی نظام تعلیم، دارالمصنفین ،اعظم گڑھ، 1984
8۔ضیاء الحسن فاروقی، مسلمانوں کا تعلیمی نظام، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ نئی دہلی، 1992
9۔اشفاق احمد عارفی، اردو زبان کا فروغ:جہات اور امکانات، محکمہ السنہ، اردو سیل، نئی دہلی، 2004
10۔ سلیم منصور خالد، دینی مدارس میں تعلیم،انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد، 1986
11۔ مولانا مفتی محمد شعیباللہ خان، اسلامی مدارس تجزیہ تبصرہ مشورہ، شعبہ تحقیق و اشاعت، بنگلور۔
12۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی، مدارس اسلامیہ، مرتب عبدالباری ندوی، سید احمد شہید اکیڈمی، رائے بریلی۔

***
Dr. Wasiqul Khair, Flat No. 302, Plot No. R 213/1
Sir Syed Road, Jogabai Extention
Jamia Nagar, New Delhi - 110025
Mob: 9810383617
Email: wasujnu[@]gmail.com

Madrasa education and Urdu language in India. Essay by: Dr. Wasiqul Khair

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں