مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد : ایک تہذیب کا معیار گیا آپ کے ساتھ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-11-09

مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد : ایک تہذیب کا معیار گیا آپ کے ساتھ

maharaja-sir-kishen-pershad-shad

"میں یمین السلطنت ہوں، راجہ راجایاں مہاراجہ شاد"
پرانا شہر حیدرآباد کی پرپیچ گلیوں میں راقم الحروف اپنی بائک پر بیس تیس کلومیٹر کی رفتار سے دفتر کی سمت رواں دواں تھا کہ اچانک تالاب کٹہ کے قریب یہ آواز کانوں میں گونجی۔ گاڑی کو جوں ہی بریک لگایا ایک چھوٹی سی درگاہ کے سامنے دونوں ہاتھ آسمان کی سمت اٹھائے کچھ بڑبڑاتا ہوا ایک مجذوب نظر کے دائرے میں سمایا۔
"سرکار عالی جناب، آپ کی کچھ تعریف؟"
"پڑھے لکھے لگتے ہو، یمین السلطنت کا مطلب نہیں جانتے؟" سرخ سرخ آنکھوں سے گویا شعلے برساتے ہوئے مجذوب نے گھور کر جواب دیا۔ دل نے چاہا کہ کہا جائے: "یعنی کہ باہوبلی۔۔۔؟!" مگر مجذوب کی خوفناک سنجیدگی کو دیکھ کر حوصلہ نہ ہوا۔


امن و اماں تھا چین تھا دل کو قرار تھا
عہدِ جنابِ شاد بھی کیا پُربہار تھا

تحت اللفظ میں شعر پڑھتے ہوئے مجذوب کی آنکھیں آسمانوں میں کچھ تلاش کر رہی تھیں۔ یکایک آصف جاہی سلطنت کے حوالے سے گوگل سرچنگ کے نتائج اور اردو ویکی پیڈیا کے صفحات یادداشت میں تازہ ہو گئے۔ ڈرتے ڈرتے مجذوب کو مخاطب کیا: "آپ شاید سابق ریاست حیدرآباد دکن کے صدرِ اعظم کشن پرشاد شاد کی بات کر رہے ہیں۔۔۔ یعنی کہ وہی مہاراجہ صاحب ناں جو اپنی دیوڑھی میں مشاعرے کرواتے تھے۔۔۔"
اس کے ساتھ ہی تین دہائی قبل کے ایک تمثیلی مشاعرے کا منظر آنکھوں میں گھوم گیا جو چارمینار کے دامن میں نومبر 1991ء کی ایک رات بپا کیا گیا تھا۔ ہماری نوجوانی کا عالم تھا، جب شہر کے مقبول عام اردو روزنامہ "سیاست" میں یہ پڑھا کہ ماہِ نومبر کی آخری رات کو ایوانِ شاد کا ایک مشاعرہ تمثیلی شکل میں پیش کیا جائے گا جس میں مہاراجہ شاد کے ساتھ جوش، فانی، جگر، امجد، یگانہ، حیرت، طباطبائی، ماہر القادری اور دیگر کے ساتھ امام الفن فصاحت جنگ جلیل بھی شرکت فرمائیں گے۔ وہ مشاعرہ آج بھی یادوں کے محل میں شاد و آباد ہے۔


"یمین السلطنت، یعنی حکومت کا سیدھا ہاتھ، رائٹ ہینڈ آف دی گورنمنٹ۔۔۔" مجذوب کی پاٹ دار آواز اور حیرت انگیز طور پر شفاف انگریزی لہجے نے حال میں واپس لا پٹخا۔ "مہاراجہ محض شاعر و نثرنگار نہیں، بلکہ سلطنت آصفیہ کے چھٹے اور ساتویں نظام کے دورِ حکمرانی میں آپ نائب تحصیلدار، وزیر فوج اور صدرِ اعظم کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ جانتے ہو کیوں اور کیسے؟"
میرے چہرے پر گویا متعدد استفہامیہ سوالات پھیل گئے۔ مجذوب کی آنکھیں حسب معمول خلاؤں میں بھٹک رہی تھیں، پھر اس کی آواز میں ڈرامائی پن آتا گیا۔ لگ رہا تھا کہ وہ کسی اور جہاں میں پہنچ چکا ہے اور پھر اس کی آواز خوابناک لہجے میں گونجنے لگی۔
"راجہ ٹوڈرمل مغل شہنشاہ اکبر کے دربار میں وزیر مال تھے جن کے ورثا نسلاً در نسلاً مغلیہ سلطنت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ رائے مول چند، ٹوڈرمل کی پانچویں پشت کے تھے اور اورنگ زیب کے بعد والے ساتویں مغل بادشاہ محمد شاہ کے دربار میں اعلیٰ عہدہ پر مامور تھے۔ محمد شاہ نے جب آصف جاہ اول کو دکن کا صوبہ دار بنا کر 1724ء میں دلی سے دکن کو روانہ کیا تو آصف جاہ اپنے ساتھ ساتھ رائے مول چند کو بھی دکن لے آئے تھے۔ ٹوڈرمل سے مول چند تک اور مول چند سے کشن پرشاد تک یہ سب ہندو خاندان میں ہندو والدین کی اولاد رہے ہیں جن کا تعلق لاہور کی کھتری ذات سے رہا۔ بلکہ کشن پرشاد تو فخریہ اپنی وصیت میں لکھتے ہیں: ہمارے خاندان کا سلسلہ مہاراج دھیراج رام چندر جی تک پہنچتا ہے یعنی ہم راجہ رام چندر جی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ سورج ونشی خاندان نہ صرف سپاہی نژاد رہا ہے بلکہ سخاوت، مروت اور صداقت کے لحاظ سے ہمارا لوہا ساری دنیا میں مانا جاتا ہے۔"
مجذوب ایک ذرا سانس لینے کو رکا، پھر بولا: "مگر وائے افسوس۔ کشن پرشاد کے نانا راجہ نارائن پرشاد کو کوئی اولاد نرینہ نہ ہوئی اور انہوں نے اپنی دختر رانی جوالا بی بی اور داماد راجہ ہری کشن کے فرزند اور اپنے نواسے کشن پرشاد کو اپنا جانشین بنانے کا ارادہ کیا۔ نواسے کی بہترین تعلیم و تربیت پر لاکھوں روپیہ صرف کرتے ہوئے عربی، فارسی، اردو، سنسکرت اور انگریزی کی اسے باقاعدہ تعلیم دلائی۔ جبکہ کشن پرشاد نے گرمکھی زبان اپنی خود کی خواہش کے ناتے سیکھی کیونکہ وہ سکھوں کے عظیم موحد گرونانک کی تعلیمات سے خود کو روبرو کرنے کے آرزومند تھے۔ حیدرآباد کے مدرسہ عالیہ میں جہاں کشن پرشاد نے تعلیم پائی وہاں سالار جنگ دوم ان کے ہم جماعت تھے۔ نانا کے انتقال کے بعد نواسے نے ان کی جگہ لی تو چھٹے نظام میر محبوب علی خاں نے 'راجہ راجایان مہاراجہ' کے خطاب سے انہیں نوازا اور پھر چند ہی برس بعد وہ 'یمین السلطنت' کے لقب سے بھی سرفراز کیے گئے۔۔۔ خبردار خبردار۔۔۔"


یک بیک مجذوب کی آواز بھڑک گئی اور اس نے جمائی کو روکنے کے لیے اٹھتے میرے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑے عطربیز مورچھل سے یکے بعد دیگرے کئی جھٹکے دئے۔ میں اچانک بوکھلا گیا: "معافی چاہتا ہوں سرکار، دراصل شعر و ادب کا ذوق زیادہ رکھتا ہوں اور تاریخی حکایات کا شوق کچھ کم"۔
"وہ تاریخی حکایات نہیں، تاریخ کا نادر مطالعہ ہے جس کے ذریعے قوموں کے مد و جزر ، عروج و زوال اور ترقی و انحطاط کی راہیں متعین ہوتی ہیں"۔ مجذوب کا لہجہ سرزنش بھرا تھا۔
"سالار جنگ اول کے بعد اگر ریاست حیدرآباد کو قابل و کامیاب منتظم اور عوام کا چہیتا وزیراعظم اگر ملا تھا تو وہ مہاراجہ کشن پرشاد تھے۔ مگر کیا انہیں یونہی طشتری میں حلوہ رکھ کر پیش کیا جاتا رہا تھا؟ نہیں۔ بلکہ انہوں نے امرا کی سازشوں کا زمانہ بھی بھگتا اور انہیں اپنے عہدہ سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور ہونا پڑا۔ 1912ء سے 1926ء تک مختلف وزیراعظم بدلے گئے، ریاست حیدرآباد جو ہندو مسلم ایکتا کا گہوارہ تھی وہاں یک جہتی کا شیرازہ بکھر چکا تھا، رواداری کی زنجیر کی کڑیاں کھل رہی تھیں، عوام میں بے چینی کی لہر پھیلی ہوئی تھی۔ پھر حکومت برطانیہ کے مشورہ پر آصف سابع نے پورے تیرہ برس بعد دوبارہ مہاراجہ کو وزیراعظم مقرر کرنے کا فرمان جاری کیا اور یوں مہاراجہ کا دوسرا دور ریاست بھر میں امن و امان کا حامل رہا۔ اور شاید اس لیے بھی کہ وہ صلح کل اور وسیع المشربی کے قائل رہے، مذہبی تعصب کو تنگ نظری سمجھا کیے اور تمام بندگان خدا سے یکساں محبت کا جابجا اظہار کرتے ہوئے کہا:

نہ ہندو اور نہ مسلم نہ مومن و کافر
ہیں ایک صانع قدرت کی صورتیں ظاہر
کفر و اسلام کے جھگڑوں سے مبرا ہے شاد
یہ گرفتار ترا سب سے ہے اے یار جدا

مجذوب کے لہجے میں گویا جلال ابھر رہا تھا۔ پھر اس نے اچانک ڈپٹ کر پوچھا: "جیب میں سکے رکھتے ہو؟" سر کی اثباتی جنبش پر اس نے آگے کہا: "کیوں؟ یہی ناں کہ راستے سے گزرتے فقرا و مساکین کی فوری حاجت روائی کی جا سکے تاکہ ان کے دل کی دعائیں ہمارے مسائل کو دور یا کم کرنے میں کام آ سکیں۔ کیا کوئی جانتا ہے کہ حیدرآباد میں اس طرح کی مدد کا سلسلہ کہاں سے اور کیسے شروع ہوا؟"
مجذوب کچھ دیر تک میرے چہرے پر اپنے سوال کا جواب تلاش کرتا رہا۔ "یمین السلطنت کو 'بچوں والا مہاراج' کا خطاب دیا گیا تھا۔ کیونکہ اپنی دیوڑھی سے نکلتے اور واپس لوٹتے وقت ان کی عادت تھی کہ بھگوان کے چرنوں میں اظہار تشکر کے ساتھ ساتھ سڑک کے دونوں جانب سکے پھینکتے جاتے اور ان سکوں کی تلاش میں سرگرداں اور انہیں لوٹنے والے زیادہ تر فقراء اور بچے ہوتے۔ اوٹی کے ایک سفر میں جب مہاراجہ کو سکوں کی ایسی سخاوت سے روک دیا گیا تو وہ اپنی قیامگاہ سے باہر نہیں نکلے اور کہا: جب میں خیرات نہیں کر سکتا تو باہر کیوں جاؤں؟"
میرے ذہن میں یکایک ایک فلمی مکالمہ تازہ ہو گیا: "میں آج بھی پھینکے ہوئے پیسے نہیں اٹھاتا"۔ لہذا ڈرتے ڈرتے عرض کیا: "سرکار، معاف کیجیے، زمانہ بدل گیا ہے، آج غریب سے غریب شخص کو بھی بند مٹھی سے خیرات دینی پڑتی ہے، ورنہ اسے انسانیت کی توہین باور کیا جاتا ہے"۔
"ہووووں۔۔۔" مجذوب کی آنکھوں میں کوئی چمک سی لہرائی۔ "یہی بات تو ان کے فرزندِ دلبند نے فرمائی تھی۔ کہا کہ اس طرح کی خیرات کی بجائے حاجت مندوں کو کام پر لگائیں جس سے ان کی گذر بسر ہو سکے اور وہ خود مکتفی بن سکیں۔ مہاراجہ تو اس تجویز پر بےانتہا خوش ہوئے اور بارہ اشرفیاں بطور انعام بیٹے کو عنایت کیں۔"
یہ جان کر میرے دل میں باپ بیٹے کے لیے ستائشی جذبات بیدار ہونے لگے۔ تبھی مجذوب کا کرخت لہجہ گونجا: "اور ہاں یہ بھی سنو! بیٹے پر ایک اشرفی کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا، کیونکہ اس نے اپنے غیرموزوں لہجے سے بزرگوں کو تنقید کا نشانہ جو بنایا تھا"۔ مجھے لگا کہ مجذوب نے گویا آج کی لاپروا نسل کے غیرمہذب اندازِ تکلم پر یخ بستہ پانی کی بوتل انڈیل دی ہو۔


"آپ نے مہاراجہ کی دیوڑھی کے مشاعروں کا ذکر نہیں کیا؟" میرے ذہن میں غلام جیلانی کے مرتب کردہ تمثیلی ڈرامہ 'ایوان شاد کا ایک مشاعرہ' کی یاد دوبارہ تازہ ہو گئی۔ مگر پتا نہیں کیوں مجذوب میری بات سن کر خفا ہو گیا۔ دونوں ہاتھ ہلاتے ہوئے کہنے لگا: "تم نے مہاراجہ کو صرف شاعر سمجھنے کی غلطی کیسے کی؟ انہوں نے تو نظم و نثر کی تقریباً تمام اصناف میں اپنی فکر اور اپنے فن کا خوب مظاہرہ کیا اور ادبی حلقوں میں خاصی شہرت حاصل کی۔ اگر فریادِ شاد اور جذباتِ شاد جیسی کتب ان کی انشائیہ نگاری کا اعلان ہیں تو مطلع خورشید، چنچل نار اور بزم خیال جیسے ناول ان کے تخلیقی وفور کا اظہار بھی۔ پھر ان کے اب تک کے شائع شدہ چودہ (14) سفرنامے اور کتابی شکل میں ہی بارہ (12) مقالے جن کے موضوعات الگ الگ نوعیت کے ہیں اور ہر مضمون جداگانہ تاریخی، مذہبی اور ادبی اہمیت کا حاصل ہے۔"
مجھے اچانک مہاراجہ کی دو کتابیں "دسہرا" اور "ضلع جگت" یاد آئیں جن کو سائبر دنیا میں پی۔ڈی۔ایف شکل میں پیش کرنے کا شرف بھی مجھ ناچیز کو حاصل رہا۔ ایک بار پھر میری انگلیاں گوگل تلاش میں بھٹک گئیں۔ ڈاکٹر حبیب ضیاء کی کتاب کا قولِ فیصل موبائل اسکرین پر جگمگانے لگا:
"حیدرآباد میں اردو کو سربلند کرنے میں جو عوامل کارفرما رہے ان میں سے زیادہ طاقتور عامل مہاراجہ کی اردو دوست اور ادب نواز شخصیت تھی۔"
پروفیسر فاطمہ بیگم کے ایک یادگار مضمون کے اقتباسات اسکرین پر اسکرول ہونے لگے جس میں انہوں نے مہاراجہ کی اردو خدمات کا بھرپور احاطہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
"تقریباً سو تصانیف پر مبنی اپنے تخلیقی کارناموں کے ساتھ مہاراجہ نے باضابطہ شعر و سخن کی سرپرستی شروع کی۔ 'ایوانِ شاد' میں مشاعروں کا انعقاد عمل میں لایا۔ غیر رسمی مشاعرے کم و بیش ہر روز ان کے گھر پر منعقد ہوتے رہتے تھے۔ حیدرآباد و بیرون حیدرآباد کے اہل قلم کی ہزاروں روپیوں سے امداد و اعانت کرتے رہتے تھے۔ ادبی رسائل، ادب کی ترقی میں غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ مہاراجہ نے ادبی رسائل کی سرپرستی کے ذریعہ بھی گراں قدرخدمات انجام دیں۔ دبدب1 آصفی، شوکت عثمانی، رسالہ محبوب الکلام، تزکِ عثمانیہ، گلدستہ جشن آصفیہ، رسالہ حیات سخن جیسے کئی ایک رسائل کی اعانت و سرپرستی فرمائی"۔


مجذوب نے میرے شانے پر مورچھل کا ٹہوکا دے کر اپنی جانب متوجہ کیا:
"مہاراجہ نہ صرف مشرقی تمدن کا آخری نمونہ تھے بلکہ ان کی تحریریں بھی ان کی سیرت کا آئینہ دار رہی ہیں خاص طور پر مہاراجہ کے خطوط اور بطور خاص علامہ سے ان کی خط و کتابت کا سلسلہ۔۔۔"
"کون علامہ؟" میں نے استعجابیہ انداز میں بھویں اچکائیں۔ "تو کیا اب تمہارے زمانے میں کوئی دوسرا اقبال بھی پیدا ہو گیا ہے؟" مجذوب کا لہجہ طنزیہ تھا۔ "ذرا نکالو تم اپنے اسی آتشیں ڈبے کو اور پھیرو انگلیاں اس پر۔۔۔ پتا چلے گا کہ مہاراجہ اور علامہ کی خط و کتابت کا مجموعہ 1942ء میں حیدرآباد سے شائع ہوا تھا جس میں اقبال کے نام شاد کے 52 خط اور شاد کے نام اقبال کے 49 خط شامل ہیں جو 1916ء سے 1927ء کے دوران ایک دوسرے کو لکھے گئے اور۔۔۔" مجذوب نے ایک لمبی سانس چھوڑی پھر کہا: "اور اسی کتاب کے 30 صفحات پر مشتمل مقدمہ میں ڈاکٹر زور نے مہاراجہ اور اقبال کے تعلقات پر وضاحت سے روشنی ڈالی ہے"۔
میں نے جلدی جلدی ریختہ پر کتاب کھوجی۔ تعلقات کا اظہار گویا واضح ہو کر ایک خط اور اس کے جواب کے ذریعے سامنے آ گیا، شاد نے اقبال کو لکھا تھا:
"میرے پیارے اقبال، خدا تمہیں دلشاد و سلامت رکھے۔ بلامبالغہ کہتا ہوں کہ جس وقت اقبال کا خط دیکھتا ہوں باچھیں کھل جاتی ہیں اور دل نہایت شاداں اور مسرور ہو جاتا ہے، اللہ کے واسطے محبت ہے، نہ کوئی غرض دنیوی نہ دین کا سوال۔"
اور جواب میں اقبال لکھتے ہیں:
"محبت نامہ مل گیا جس کے لیے اقبال سراپا سپاس ہے، الحمدللہ آئینہ دل گردِ غرض سے پاک ہے۔ اقبال کا شعار ہمیشہ سے محبت و خلوص رہا ہے اور انشاء اللہ رہے گا۔ اغراض کا شائبہ خلوص کو مسموم کر دیتا ہے۔ دل تو بہت عرصہ سے آرزومند آستانہ بوسی ہے مگر کیا کیا جائے ایک مجنوں اور سو زنجیریں"۔


"کوئی تفصیل تو نہیں ملتی مہاراجہ کی وفات کے متعلق۔۔۔ ایسا کیوں؟" میں نے مہاراجہ کے انتقال سے متعلق معلومات کو گوگل سرچنگ میں ڈھونڈنے کی ناکام سعی کے بعد مجذوب سے پوچھا۔
"جانا تو سب کو ہے، اِس کو بھی، اْس کو بھی تجھے بھی مجھے بھی۔ جگ میں بس رہ جاتے ہیں پیارے تیرے بول۔ کیا کہا تھا فرحت اللہ بیگ نے یمین السلطنت کے انتقال پر؟ ذرا دیکھ، دیکھ ذرا۔۔۔ مجلۂ عثمانیہ کے مہاراجہ نمبر میں بیگ نے لکھا ہے: جب مہاراجہ کا انتقال ہوا تو ہر قوم اور ملت کے لوگ ان کی ارتھی کے ساتھ تھے اور ہر شخص اپنے عقیدے کے موافق ان کے لیے دعائے مغفرت کرتا تھا، یہاں تک کہ ایک پادری صاحب انجیل پڑھتے ہوئے اس مجمع کے ساتھ مرگھٹ تک گئے۔۔۔"
"اللہ ہو، اللہ ہو، حق اللہ ہو"
اچانک مجذوب کے درویشانہ نعرے بلند ہوتے گئے اور ادھر موبائل پر میری انگلیاں اوپر نیچے حرکت کرتے ہوئے مہاراجہ کی ایک رنگین تصویر پر رکیں تو دیکھا کہ اسکرین پر اخلاق، سخاوت، خلوص، بیلوثی، مذہبی رواداری، انصاف پسندی، غربا پروری جیسے اقدار مہاراجہ کی تصویر سے منعکس ہو کر ابھر رہے تھے اور ان کی تصویر اشکوں سے دھندلاتی میری نگاہوں میں گویا ڈوبتی جا رہی تھی:

آپ کی موت تو اک دور کا مٹ جانا ہے
ایک تہذیب کا معیار گیا آپ کے ساتھ
وہ شرافت، وہ صداقت، وہ محبت وہ خلوص
آپ کے دور کا کردار گیا آپ کے ساتھ!

حوالہ جات: (مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے)
1) مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد: حیات اور ادبی خدمات۔ از: ڈاکٹر حبیب ضیاء ۔ سن اشاعت: 1978ء
2) ایوانِ شاد کا ایک مشاعرہ (تمثیل)۔ از: غلام جیلانی۔ سن اشاعت: فروری 1994ء
3) نذرِ شاد (یمین السلطنت مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد)۔ مرتبین: ڈاکٹر نارائن راج، پروفیسر حبیب ضیاء۔ سن اشاعت: 2009ء

***
مکرم نیاز
مدیر اعزازی ، "تعمیر نیوز" ، حیدرآباد۔
16-8-544, New Malakpet, Hyderabad-500024.
taemeernews[@]gmail.com
syed mukarram niyaz
Syed Mukarram Niyaz
سید مکرم نیاز

Maharaja Sir Kishen Pershad Bahadur Yamin us-Sultanat (1864 – 13 May 1940). Essay: Mukarram Niyaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں