مولانا آزاد اور ریاست بہار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-11-10

مولانا آزاد اور ریاست بہار

maulana-azad
مولانا آزاد ایک تعارفی خاکہ :

علم و عمل کے بے تاج بادشاہ ،مفسر ومؤرخ ، ادیب وشاعر ، رہبر وقائد، خطابت وصحافت کے شہشوار، قوم کی ڈوبتی کشتی کے پتوار، محافظ سنت، عظیم داعی اسلام، سیاست کا امام ، گاندھی جی کے استاد، ہندوستان کا ابن تیمیہ مولانا ابوالکلام آزاد 11نومبر 1888ء مطابق ذی الحجہ 1305ھ میں امن وشانتی کے گہوارے شہر مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصلی نام محی الدین، تاریخی نام فیروز بخت قلمی نام و کنیت ابوالکلام اور تخلص آزاد تھا، آپ کے آبا و اجداد بابر کے زمانے میں ہرات سے ہندوستان آئے تھے۔
آپ کے والد کا نام خیر الدین تھا جو 1831ء میں دہلی میں پیدا ہوئے 25/ سال کی عمر میں ہجرت کر کے مکہ مکرمہ گئے اور مدینہ کے ایک عالم شیخ طاہر وتر کی بھانجی سے شادی کر لی اور پھر وہاں سے علاج کے لئے مع اہل وعیال کلکتہ آگئے اور یہیں پر ان کا انتقال ہوگیا، 1907ء میں زلیخا بیگم سے آپ کی شادی ہوئی۔ آپ بیک وقت فارسی ، عربی ،اردو، فرانسی اور ترکی زبانوں کے جانکار تھے۔ آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کیں، ہندوستان کی آزادی میں بھی آپ کا کردار جگ ظاہر ہے، بلکہ کہا جا تا ہے کہ اگر مولانا آزاد نہ ہوتے تو یہ ملک انگریزوں کے چنگل سے آزاد نہ ہوتا۔ علم و عمل کا یہ روشن چراغ ہندوستان اور عالم انسان کا بے لوث مسیحا 22/فروری 1958ء کو صبح دو بج کر دس منٹ پر ہمیشہ ہمیش کے لئے گل ہوگیا۔ اللهم اغفره وارحمه۔


مولانا آزاد اور بہار:

بہار کی سرزمین شروع سے ہی تاریخی رہی ہے، گاندھی جی کا چمپارن ستیہ گرہ ہو یا لوک نائک جے پرکاش نارائن کی مکمل انقلاب کی تحریک سب بہار کی ہی مرہون منت ہے ساتھ ہی اس تاریخی سرزمین پر ایک سے ایک علمی شخصیات کی آمد ہوئی ہے ان میں سے ایک نابغہ روزگار شخصیت مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کی ذات بھی ہے۔ آپ کا رشتہ پہلی بار بہار سے اس وقت جڑا جب آپ کی عمر صرف 17 سال تھی جس کا ذکر آپ نے انڈیاونس فریڈم میں کیا ہے اس وقت جھارکھنڈ بھی بہار ہی کا حصہ تھا۔


مولانا آزاد مارچ 1916ء کے آخری ایام میں کلکتہ سے روانہ ہوکر رانچی پہنچ گئے اس وقت رانچی متحدہ بہار کے موسم گرما کی راجدھانی تھی آپ کے عزیز واقارب بھی بہار آنے کے متمنی تھے مگر آپ نے کسی کو بھی اپنے ساتھ نہیں لیا رانچی آکر آپ نے "مورہا بادی " نامی گاؤں میں قیام کیا جہاں رابندر ناتھ ٹیگور کا بھی خاندان تھا چند ہی ماہ بعد رمضان کا مہینہ شروع ہو گیا ، جمعہ کی نماز کے لئے آپ شہر کی جامع مسجد پہنچے لوگ آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اصرار کیا کہ آپ خطبہ دیں آپ نے خطبہ دیا لیکن 8/ جولائی 1916ء کو حکومت نے مولانا کی نظر بندی کا اعلان کر دیا اس کے بعد آپ دن کی نماز تو مسجد میں باجماعت پڑھ سکتے تھے لیکن رات میں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی اس لئے عشاء کی نماز مسجد میں نہ پڑھ سکتے تھے۔ آپ نے حکومت سے اجازت مانگی مگر اجازت نہ ملی۔ آپ نے رانچی شہر میں اپنے قیام کے دوران مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کے لئے "مدرسہ اسلامیہ" قائم کیا نتیجتا غیر آبادی اور ویران پڑی مسجد بھی آباد ہونے لگیں آپ نے وہاں کی جامع مسجد میں ایک سال تک درس قرآن بھی دیامگر زیادہ تر وقت آپ کا تصنیف وتالیف میں گذرتا۔ آپ نے قیام رانچی کے دوران جس طرح کی علمی زندگی گزاری تھی ، وہ نہ پہلے گزری تھی اور نہ پھر بعد میں کبھی گذری۔ رانچی میں آپ بیک وقت تین فرائض کو ادا کر تے تھے ، درس وتد ریس، دعوت و تبلیغ اور تصنیف وتالیف، ان چیزوں کے ساتھ اگر ان کی کامیاب سیاست کو شامل کر لیا جائے تو چار ہو جائیں گے ، چنانچہ آپ کے گہر بار قلم سے نکلی آپ کی اہم کتابیں رانچی ہی کی یادگار ہیں، مشہور و معروف ترجمہ وتفسیر "ترجمان القرآن " تاریخ ، دعوت اور علم وادب پر مشتمل شہرہ آفاق کتاب '' تذکرہ" اسلامیات وفقہیات کی حامل کتاب "مساجد اور غیر مسلم" اور "جامع الشواہد"وغیرہ رانچی نظر بندی ہی کی دین ہے۔
ساتھ ہی "البیان"، "الصلوۃ"، "الزکاۃ"،"الحج"، اور "النکاح" جیسے اہم رسالے بھی اسی رانچی نظر بندی کا ہی ثمرہ ہے، اتنا ہی نہیں آپ نے علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی سوانح بھی لکھی ، حالانکہ وہ زمانہ آپ کے لئے سخت پریشانیوں کا زمانہ تھا مولانا آزاد رانچی میں تقریبا چار سالوں تک نظر بندر ہے یکم جنوری 1920ء کو نظر بندی ختم ہوئی، اس چار سالہ مدت میں انہوں نے بہار میں جو دعوتی، علمی ، ساجی اور سیاسی خدمات انجام دیئے وہ سونے کی سیاہی سے چاندی کے کاغذ پر رقم کرنے کے لائق ہے۔
قیام رانچی کے دوران مولانا آزاد نے غیر منقسم بہار کے اندر تعلیمی اصلاح و ترقی لانے کے لئے وسیع پیمانے پر ایک عظیم کانفرنس کے انعقاد کا خواب دیکھا تھا مگر یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا، گاندھی جی نے نظر بندی کے دوران آپ سے ملنے کی کوشش کی مگر اجازت نہ ملنے کے سبب آپ کی ملاقات رہائی کے بعد 1920ء میں دہلی میں حکیم اجمل خاں کی رہائش گاہ پر ہوئی ،21/ اپریل 1921ء کوامارت شرعیہ کے قیام کے موقع پر پٹنہ میں امام الہند بنفس نفیس شریک ہوئے اور جو پودا مولانا نے لگایا تھا اب وہ شجر سایہ دار میں تبدیل ہو گیا۔


دیکھا جائے تو مولانا کی سیاسی زندگی کا آغاز بھی بہار ہی سے ہوتا ہے ان کا انڈین نیشنل کانگریس سے جڑنا اور پھر اس کی صدر کی حیثیت سے کانگریس کی اور ملک کی ناقابل قدر رہنمائی نیز ملک کی آزادی اور اس کی سالمیت کے لئے ان کی کوشش رہتی دنیا تک قائم رہیں گی اور جب بھی ان باتوں کا ذکر ہوگا تو بہار کا ذکر ضرور آئے گا کانگریس سے مولانا کے جڑنے کے سلسلے میں قاضی عبدالودود کا یہ بیان ملاحظہ ہو وہ کہتے ہیں :
" بہار کی کمیٹی پر ہم لوگوں کا قبضہ تھا اور جو ہم چاہتے تھے وہ ہوتا تھا ہم نے اور ہمارے ساتھیوں نے مل کر مولانا کو خلافتی کانگریسیوں کے نمائندے کی حیثیت سے کانگریس ورکنگ کمیٹی بھیجنے کے لئے فیصلہ کیا تعداد میں ہم اتنے زیادہ تھے کہ منتخب ہونا یقینی تھا اور ایساہی ہوا ابوالکلام کانگریس کی مجلس میں پہنچ گئے اور یہاں سے ان کا قومی رول شروع ہوتا ہے"۔
اس وقت بہار میں ہی منعقد انڈین نیشنل کانگریس کے رام گڑھ اجلاس سے مولانا نے جوخطبہ دیا تھاوہ ایک یادگار خطبہ تھا اس خطبہ میں مولانا نے ہندوستانی تہذیب اور سیاست دونوں کے لئے ایک واضح اور قابل عمل لائحہ پیش کر دیا تھا خطبہ آج بھی کتابوں کی زینت بنا ہوا ہے مولانا آزاد نے اپنی تعلیمی ،تصنیفی،اور سیاسی کامیابیوں کی بناء پر رانچی ،جھارکھنڈ اور بہار کو کبھی فراموش نہ کیا 26/ جون 1921ء امارت شرعیہ (بہار ،جھارکھنڈ اڑیسہ) کی بنیاد مولانا کے مشورے اور ایماء پر ہی پڑی 1941ء میں آپ قلعہ احد نگر میں محبوس تھے، ادھر آپ کی شریک حیات کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی ڈاکٹر کے مشورہ پر ان کو انہوں نے رانچی بھیج دیا تھا جہاں پر ان کی صحت اور چہرہ کی رونق واپس آرہی تھی۔
رانچی میں آپ نے ایک مسجد بنام "آزاد مسجد"بھی قائم کیا، رانچی میں مولانا آزاد کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مولانا سید سلیمان ندوی مجلہ "معارف'' میں رقمطراز ہیں :
"رانچی ایک ایسا مقام تھا جہاں مسلمانوں کی ذلت ونکبت انتہاء کو پہنچ گئی تھی جہالت حرب عقائد اور باہمی خانہ جنگی نے ان کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا تھا عیسائی مشنریوں کا جال اس کے طول وعرض میں پھیلا ہواتھا مسلمانوں کا دینی احساس بالکل مردہ ہو گیا تھا، کوئی عالم دین موجود نہیں تھا جو اسلام کا بھولا ہوا سبق ان کو یاد دلاتا ہر طرف تاریکی تھی کہیں روشنی کی کرن دکھائی نہیں دے رہی تھی ، مولانا ابوالکلام کلکتہ سے لا کر یہاں نظر بند کر دیے گئے اور یکایک ان کے فیض اور نور ہدایت سے یہ سارا خطہ چمک اٹھا"۔


مولانا آزاد سے متعلق بہار والوں کا کام:

مولانا آزاد نے بہار میں اپنی خداداد صلاحیت کی وجہ سے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ان کا اہل بہار کو پورا احساس تھا چنانچہ 1958ء میں مولانا کی وفات کے فورا بعد بہار وہ تنہا ریاست تھی جس نے مولانا کی یاد کو اس طرح زندہ رکھا کہ " ابو الکلام" کے نام سے ایک ہفتہ روزہ پٹنہ سے شائع ہونا شروع ہوا پہلا پرچہ 16/ اگست کو نکلا اس میں مولانا کے بارے میں اچھی خاصی معلومات مل جایا کرتی تھی مگر یہ پرچہ زیادہ دن نہیں چل پایا اور 28/ مارچ 1959ء کو آخری پر چہ نکل کر بند ہو گیا۔
اسی طرح 1987 ء میں خدا بخش لائبریری کے چیئر مین کی حیثیت سے مولانا آزاد کی یاد میں ایک بڑی نمائش اور ایک بڑا جلسہ کرایا اس موقع پر راج بھون میں ایک بڑا مشاعرہ بھی ہواتھا ، 1989ء میں پھر ایک بار بڑے پیمانے پر مولانا کو یاد کیا گیا اور خدا بخش لائبریری میں مفسر قرآن کی حیثیت سے ان کی خدمات پر روشنی ڈالنے کے لئے برصغیر کے اہم علماء وفضلاء کو مدعو کیا گیا 1990ء میں ایک بار پھر خدا بخش لائبریری کے زیر اہتمام مولانا آزادکو یا کیا گیا اس بار یہ یاد رانچی میں منائی گئی جس کا موضوع تھا "اسلامی عربی مدارس کا نصاب اور نظام تعلیم" جس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے ۔


مولانا آزاد کے قیام رانچی کی یاد کو تر و تازہ رکھنے اور ان کی یکتائے روزگار شخصیت سے بے پناہ عقیدت ومحبت کی بناء پر 2000ء میں ان کے نام پر ایک ادارہ "مرکز آزاد التعلیمی الاسلامی"قلب شہر گریڈیہ محلہ "بلاتی روڈ "میں کھولا گیا۔ بعینہ پورے بہار میں ان گنت ادارے، انسٹی ٹیوٹ اور تنظیمیں آپ کے نام سے موسوم ہیں ، روز نامہ ہمارا سماج کی طرف سے خصوصی شمارہ’ آزاد کی تلاش'' بھی چند سال پہلے شائع ہوا تھا۔
مادر علمی جامعہ امام ابن تیمیہ کی بات کی جائے تو یہاں کی معروف و مشہور لائبریری آپ کے نام سے موسوم ہے، خود بانی جامعہ ہم سب کے پدر روحانی مفسر قرآن علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کو مولانا سے بے پنا قلمی انسیت تھی جس کا اندازہ آپ کی معروف زمانہ کتاب خود نوشت" کاروان حیات" پڑھ کر ہوتا ہے اس کتاب میں آپ نے پچاسوں صفحات مولانا آزاد کی محبت میں سیاہ کیا ہے انہیں بے پنا محبتوں کی بنیاد پر 2016ء میں جامعہ کے آرگن ماہنامہ"طوبی" کا خصوصی شمارہ "مولانا آزاد نمبر" شائع ہوا پھر 2019ء میں ایک اور خصوصی شمارہ ماہنامہ"طوبی" کو مولانا کی حیات پر نکالنے کا شرف ہوا۔
ساتھ ہی کتنے ایسے بہار کے صحافی ہیں جو گاہے بہ گا ہے کتاب یا مضامین لکھ کر مولانا سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے رہتے ہیں، کتنے ایسے بہاری ہیں جنہوں نے مولانا آزاد پر پی۔ایچ۔ڈی اور ایم فل کے مقالات لکھے اور آج بھی یہ کام جاری ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل بہار مولانا کی عظمت کو ہمیشہ سمجھتے رہیں اور ان پرتحقیقی کام کرتے رہیں، اس سے بہار کی نئی نسل ان سے متعارف ومستفید ہوتی رہیں گی۔
اللہ مولانا پاک مولانا آزاد کی خدمات کو قبول فرمائے اور اہل بہار کو ان کے تئیں محبت کا ثبوت فراہم کرنے کی توفیق دے آمین۔


حوالہ جاتی کتب:
مولانا ابوالکلام آزاد
مولانا ابوالکلام آزاد شخصیت اور کارنامے
مولانا ابوالکلام آزاد کے تعلیمی تصورات
ماہنامہ طوبی خصوصی شمارہ مولانا آزاد نمبر ستمبر 2016ء
دامن کوہ میں کاروان رفتگاں از شیخ اشفاق سجاد سلفی
مولانا ابوالکلام آزاد اور بہار

***
شاہنواز صادق تیمی (جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ)
ای-میل: shahnawasadique[@]gmail.com

Maulana Azad and his relations with Bihar State. Essay by: Shahnawaz Sadique

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں