میری پی ایچ ڈی اردو تحقیق کا سفر - ڈاکٹر سعدیہ سلیم آگرہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-11-08

میری پی ایچ ڈی اردو تحقیق کا سفر - ڈاکٹر سعدیہ سلیم آگرہ

phd-urdu-research-sadia-saleem

مشکل نہیں سفر میں اگر حوصلہ ملے ۔۔۔


علم روشنی ہے جس سے جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں۔ قرآن کی پہلی وحی کے حکم اقراء یعنی پڑھو اور حدیث کے حکم یعنی گود سے گور تک علم حاصل کرو اور علم حاصل کرنے کے لئے چین بھی جانا پڑے تو جاؤ پر عمل کی توفیق کے تحت اللہ نے مجھے رامپور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا کیا اور مدارج علمی طے کرتے ہوئے ایم اے کے بعد دنیا کی مشہور علمی دانش گاہ عثمانیہ یونیورسٹی سے اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کی سعادت دی۔ میرے پی ایچ ڈی اردو میں داخلے سے لے کر تحقیقی کام کی تکمیل اور حصول ڈاکٹریٹ کا سفر انتہائی دلچسپ اور غیر معمولی رہا اس سفر کی روداد سنانے سے قبل یہی کہنا چاہوں گی کہ جب آپ صدق دل سے کوشش کرتے ہیں اور عمل پیہم سے آگے بڑھتے ہیں تو محسنین و معاونین کی شکل میں اللہ کی مدد آتی ہی جاتی ہے۔ اور ہمیں کامیابی کے حصول کے بعد رب کے حضور سجدہ تشکر پیش کرنا پڑتا ہے۔ شادی کے بعد میرا وطن آگرہ رہا۔ میرے شوہر ایڈووکیٹ راشد سلیم شمسی صاحب کے تعاون سے میرا علمی سفر جاری رہا جس کی روداد اس طرح ہے۔ تین مرتبہ شہر اردو حیدرآباد کے اہم سفر کی یہ داستان میری علمی زندگی کا یادگار سرمایہ ہے۔


پہلا سفر حیدرآباد بہ غرض اردو انٹرنس امتحان برائے داخلہ پی ایچ ڈی اردو

یہ بات ان دنوں کی ہے جب میں اپنی پڑھائی کی طرف سے بہت ہی مایوس ہو چکی تھی کوئی بھی راہ نظر نہیں آتی تھی۔۔۔۔ حالانکہ یہ بات اچھی طرح سے جانتی ہوں کہ "مایوسی کفر ہے" مگر پھر بھی ہوں تو ایک انسان ہی اور انسان کی فطرت ہمیشہ سے ایسی رہی ہے کہ وہ بہت جلد نا امید ہوجاتا ہے کچھ ایسا بھی میرے ساتھ بھی ہورہا تھا اور میں خود کو سمجھا نہیں پارہی تھی کہ یا اللہ میں کیا کروں؟ اور اپنی پڑھائی کو کیسے آگے بڑھاؤں؟۔


۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دن یوں ہوا حسبِ معمول میں نیٹ پر ادھر اُدھر سرچ کر رہی تھی تب ہی اچانک ایک ایسی ویب سائٹ پر پہنچی جہاں پر "معروضی سوالات" کے عنوان سے اردو کے کچھ ضروری سوال جواب دئے گئے تھے جب میں اس ویب سائٹ کا مشاہدہ کرتی ہوں تومجھے سوال جواب دینے والے شخص کا نام دکھائی دیا۔ انکا فون نمبر بھی اس پر موجود تھا فوراً ہی دل نے کہا کہ کیوں نہ ان سے بات کی جائے اور میں نے اس نمبر کو ایڈ کرکے ان سے بات کی اور اپنا تعارف اور مقصد بھی بیان کیا اور ایک میسیج انکے واٹس ایپ پر کر دیا پر اس خوف اور اندیشوں نے گھیر رکھا تھا کہ پتا نہیں کیسے شخص ہیں اور کیا جواب دیں گے یا ایسے ہی میرے میسیج کو نظر انداز کردیں گے اسی قسم کے بہت سے ڈر دماغ میں گردش کررہے تھے پر ہوا اسکے بالکل برعکس۔۔۔میں نے طلب علم کی خاطر انٹر نیٹ کے حوالے سے جس علمی شخصیت سے رابطہ کیا ۔ وہ شخص کوئی معمولی شخصیت نہیں بلکہ نظام آباد۔۔۔۔۔۔ " گری راج کالج شعبہ اردو کے صدر، ڈاکٹر اسلم فاروقی صاحب" تھے اور انہوں نے میرے میسیج کا بہت ہی اطمینان بخش جواب دیا اور مجھے پی ایچ ڈی اردو میں داخلہ امتحان کے سلسلے میں مفید مشورے دیئے۔ اور میری قدم قدم پر رہنمائی کی میں انکی نہایت ہی شکر گزار ہوں اور اسی طرح پڑھائی سے متعلق بات چیت کا سلسلہ چلتا رہا۔۔۔۔۔
اور اسی بیچ سر نے مجھے عثمانیہ یونیورسٹی کااعلامیہ بھیجا جس میں direct پی۔ ایچ ڈی کے انٹرینس ایگزام کی اطلاع تھی ایک طرف جہاں اسکی اطلاع ملتے ہی میں خوشی سے جھوم اٹھی تو دوسری طرف اس ششش و پنچ میں کہ یا اللہ کہ میں اتنی دور جاکر کیسے ایگزام دے پاؤں گی؟ اور کیسے اس سب کو پورا کروں گی؟ بس ذہن بہت پریشان۔۔۔۔۔۔ پھر اسی دوران ایک اور معزز اور معروف شخصیت سے فیس بک پر رابطہ ہوتا ہے جن کا نام "ڈاکٹر عبدالعزیز سہیل" ہے جب عزیز سر سے میں نے بات چیت کی تو انہوں نے بھی مجھے بہت حوصلہ دیا اور حیدرآباد کی اور بہت ہی معروف اور مقبول شخصیت "ڈاکٹر فضل اللہ مکرم صاحب" کا نمبر دیا کہ میں ان سے رابطہ کروں اور مزید تفصیلات پتا کروں۔
میں نے فضل اللہ سر سے بات کی تو وہی ڈر اور خوف نے پھر سے گھیر لیا کہ پتا نہیں سر کیسے جواب دیں؟ پر اللہ کا بہت کرم ہے سر نے میری پریشانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے بہت ہی کارآمد مشورے دیے جس سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔۔۔۔ اور میں نے اللہ کا نام لے کر اس ٹیسٹ کا فارم بھر دیا۔۔۔۔۔۔


اب یہاں سے شروع ہوتا ہے میرے حیدرآباد کا سفر۔۔۔۔۔۔ پر ابھی تصورات میں۔۔۔۔۔ فارم پر کرنے کے بعد ہزاروں خیالات کبھی negative کبھی positive۔۔۔۔۔ کبھی سوچتی کہ اپنا ارادہ ملتوی کردوں پر دوسری طرف جیسے ہی اپنے عزیز محترم استاد " ڈاکٹر اسلم فاروقی" سر کو سلام کا میسیج کرتی تو انکا جواب سلام کے بعد فوری ہی حوصلوں سے بھرپور " سعدیہ پڑھائی کیسی چل رہی ہے" کبھی مایوسی سے جواب دے دیتی تو سر پھر اتنا حوصلہ بھر دیتے کہ میں پھر کمر باندھ لیتی کہ نہیں مجھے یہ سفر کرنا ہے اور یہ ٹیسٹ دینا ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔


دن گزرتے گیے اور آخر کار وہ دن بھی آپہنچا جس دن ہمیں جانا تھا اور ہم اپنے سفر کے لیے روانہ ہوگیے اتنا طویل سفر اور گرمی کی شدت نے حال بے حال کر رکھا تھا اِدھر راستے کی گرمی حوصلوں کو پست کرتی تو اُدھر جیسے ہی واٹس ایپ آن کرتی تو جناب ڈاکٹر اسلم فاروقی سر کا میسیج دل ودماغ کو ٹھنڈا کرتا رہتا اسی سرد اور گرم ماحول میں آخر ہم حیدرآباد پہنچ ہی گئے۔ ۔ یہ شاید 2017 کی بات ہے۔ گرمی کی وجہ سے طبیعت بہت ناساز اور تیز بخار۔۔۔۔۔۔۔ اور دل بار بار یہ ہی گنگناتا۔۔۔۔۔
مشکل نہیں سفر میں اگر حوصلہ ملے
رہبر صحیح ملے تو صحیح راستہ ملے


ہماری ٹرین اپنے مقررہ وقت کے مطابق حیدرآباد پہنچ گئ اور سر ہم کو لگاتار گائیڈ کرتے رہے اور پہلے سے ہی ہمارے لیے ایک بہت ہی آرام دہ ہوٹل بک کرکے ہمارے استقبال کے لیے حیدرآباد کے لذیذ کھانوں کے ساتھ ہمارے منتظر تھے۔۔۔۔۔ اور ہوٹل کے گیٹ کے باہر سر نے ہمارا پْر جوش استقبال کیا چونکہ سر سے ہماری یہ پہلی ملاقات تھی پر ایسا لگتا تھا کہ برسوں سے شناسائی ہو اسلم سر کا خلوص اور محبت دیکھکر میں تو دنگ ہی رہ گئ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں کس طرح سےسر کا شکریہ ادا کروں ایسا لگ رہا تھا جیسے سارے الفاظ ہی کہیں گم سے ہوگیے ہوں سفر کہ تھکان اور بخار کی وجہ سے ذہن بالکل ماؤف سا ہوگیا تھا اور سر نے حیدرآباد کے مشہور کھانے ماشاءاللہ قورمہ، کئی قسم کی سبزیاں اسپیشل کھٹی دال، چاول، کباب، آم غرضیکہ بہت سارے کھانے ہمارے لیے لے رکھے تھے خیر سر سے ملاقات ہوئی اور کوئی تفصیلی بات اس وقت نہیں ہو سکی۔۔۔۔۔۔۔


پھر جو رات ہماری گزری ناقابلِ بیان بخار اپنی تیز رفتار سے بڑھتا ہی چلا جاتا تھا اور خوف بھی کچھ کم کام تمام نہیں کررہے تھے کہ اتنی دور آئے اور جس مقصد کے لیے آئے وہ ہی کہیں فوت نہ ہوجائے دیر رات تک میرے شوہر میرے سر پر پانی کی پٹیاں رکھتے رہے اور بہت ہی فکر مند نظر آرہے تھے پر میرے سامنے اس فکر کا احساس نہیں ہونے دے رہے تھے کیونکہ اس وقت اگر انہوں نے ہمت سے کام نہیں لیا تو میں تو بالکل ہی ہمت ہار جاؤں گی پھر پتا نہیں رات کے کس پہر آنکھ لگ گئی اور ساڑھے تین بجے سے پھر آنکھ کھل گئ چونکہ دوائ کھا لی تو طبیعت میں کچھ ٹہراؤ سا لگا اٹھ کر روم کی لائٹ اون کری اور اپنی کتاب لیکر بیٹھ گئ اس سوچ کے ساتھ کہ اگر میں نے یہ ایگزام نہیں دیا تو میرے شوہر کی ساری محنت برباد ہوجائے گی جو اپنے اتنے اہم کاموں کو چھوڑ کر مجھے اتنی دور لیکر آئے ہیں۔۔۔۔۔۔ تو انکو بہت ٹھیس لگے گی۔۔۔۔۔۔۔ اگلی ہی صبح "ڈاکٹر عبدالعزیز سر" کا میسیج آگیا حال احوال معلوم کرنے لگے اور بہت سی دعائیں دیں اور دعوت کا بہت اصرار کیا خیر جب دعوت کے لیے معذرت کرلی تو محبوب نگر سے قصداً ہم سے ملاقات کرنے ڈھیر سارے تحائف بچوں کے لیے لیکر روم پر ہی آ گیے "ڈاکٹر عبدالعزیز سر" بھی نہایت ہی مخلص اور شفیق انسان ہیں انہوں نے بھی مجھے یہاں تک پہنچانے میں بہت رہنمائی کی۔۔۔۔۔۔


غرضیکہ ہم نے اپنا پیپر الحمدللہ اچھا دیا پر جیسا کہ پیپر تھا اسکو میں 90% حل کرسکتے تھی پر سفر کی تھکان اور بخار نے لگتا تھا جیسے توڑ سا دیا تھا۔۔۔۔۔ پھر بھی اللہ رب العزت کی بہت شکرگزار ہوں کہ میں 69% تو الحمدللہ کنفرم صحیح کرکے آئی ہوں باقی اللہ مددگار ہے کیونکہ اور دیگر سوالات کے جوابات مجھے ابھی کنفرم نہیں ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔


اب ہم نکلے اپنی سیرو تفریح پر۔۔۔۔۔۔

"ڈاکٹر عبدالعزیز سر طے کیے گیے مقررہ وقت پر ہمارے روم پر پہنچ گیے اور وہاں سے ہم کو لیکر "ڈاکٹر فضل اللہ سر" کے گھر پہنچے۔۔۔ "ڈاکٹر فضل اللہ سر" نے ہمیں لنچ کی دعوت دی تھی پر ہم نے اسکی معزرت کرلی اور بعد نماز عصر سر کی رہائش پر پہنچے "ڈاکٹر فضل اللہ سر" سے ملاقات سے پہلے میں انکے بارے میں ایسا سوچتی تھی کہ سر ایک بردبار اور نہایت ہی سنجیدہ قسم کی شخصیت کے مالک ہیں اور بہت ہی مختصر بات کرنا پسند کرتے ہیں اور ان سے ملاقات کرنے میں ایک عجیب سا خوف محسوس کررہی تھی پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔۔
قریب آؤ تو شاید سمجھ سکو ہم کو
یہ فاصلے تو غلط فہمیاں بڑھاتے ہیں


اور یہ ہی میرے ساتھ ہوا " ڈاکٹر فضل اللہ سر" کا خلوص اور اپنائیت بھرا لہجہ سے میں بے حد متاثر ہوئی اتنی بڑی شخصیت اور اتنے مخلص۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت اچھا لگا ان سے ملاقات کرکے۔۔۔۔۔۔۔ دل کے باقی رہے سہے خدشات بھی ختم ہوگیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرکی کھانے کی دعوت قبول نہیں کی تو سر نے ناشتہ کے نام پر ہی پوری ٹیبل کھانے سے ہی بھر دی۔۔۔۔۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک لذیذ آئٹم سر کی اہلیہ محترمہ "ڈاکٹر منوّر فضل اللہ" صاحبہ نے اپنے بے شمار خلوص کے ساتھ تیار کررکھے تھے ان سے مل کر بھی دل باغ باغ ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔


اب ہم لوگ وہاں سے فارغ ہوکر اپنی سیر کو آگے نکلے "ڈاکٹر عبدالعزیز سر" نے ہماری سیرو تفریح میں بھی بہت رہنمائی کی اور ہمیں اپنے ساتھ ہی "چار مینار" کہ سیر کرائی اور وہی سے انہوں نے الوداع کیا اور بچوں کے پاس بھی اپنی یادیں چھوڑ کر رخصت ہوگیے۔۔۔۔۔۔ پھر ہم لوگ اگلے دن چڑیا گھر کی سیر پر نکلے بہت انجوائے کیا۔۔۔ اسنو ورلڈ، نیکلس روڈ اور حسین ساگر سے ہم نے اپنی سیر و تفریح کا اختتام کیا کیونکہ وقت کا تقاضہ تھا اور ہماری ٹرین کا وقت ہوچلا تھا۔۔۔۔۔۔
اب ہم روانہ ہو چکے ہیں اور دل ہی دل میں اللہ تعالٰی کا بہت شکر ادا کررہی ہوں کہ اس نے مجھے اتنی عظیم اور قابلِ احترام شخصیات سے ملاقات کا موقع دیا اور اللہ تعالٰی سے دعا گو ہوں کہ وہ ان سب کو ہی دین دنیا کی نعمتوں سے مالا مال کرے اور کامیابیاں اور کامرانیاں انکے قدم چومیں۔۔۔ اور ہم لوگ ساتھ خیر کے اپنے گھر پہنچ جائیں۔۔۔۔۔۔


دوسرا سفر حیدرآباد بہ غرض امتحان تحقیقی طریقہ کار

اللہ کا کرم رہا کہ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صاحب کی رہبری اور ڈاکٹر فضل اللہ مکرم صاحب کی شفقت کی بدولت اورینٹل اردو پی ایچ ڈی انٹرنس میں میری کامیابی ہوئی اور ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صاحب کے مشورے کے مطابق میرے مقالے کا عنوان:
ادارہ الحسنات رامپور کی علمی و ادبی خدمات
طے ہوا۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صاحب کا مشورہ تھا کہ میں چونکہ اسی علمی گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں اس لیے مناسب ہے کہ اس ادارے کی تاریخ مرتب کرنے اور محفوظ کرنے میں مجھے آگے آنا چاہیے۔
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم صاحب نے بھی موضوع پسند کیا۔ میں نے اپنے بھائی عبدالباری وسیم اور ادارے کے دیگر احباب کے تعاون کے ساتھ مواد کے حصول کے لیے ادارے سے جاری ہونے والے رسائل الحسنات نور بتول ہلال وغیرہ کے خاص نمبر حاصل کئے اور اپنا تحقیقی کام شروع کیا۔ ڈاکٹر فضل اللہ مکرم صاحب چیرمین بورڈ آف اسٹڈیز اورینٹل اردو تھے اس دور میں میرے ساتھ جن ریسرچ اسکالرز نے پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا ان میں شفیع الدین ظفر۔ محمد آصف۔ سراج۔ فہیم صاحب۔ محمد محبوب۔ مجاہد۔ فریدہ۔ تبسم۔ فہمیدہ۔ بی بی کوثر اور عرشیہ بدر شامل تھے۔ ڈاکٹر فضل اللہ مکرم صاحب پروفیسر اردو ہونے کے بعد شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد سے وابستہ ہوگئے اور اب صدر شعبہ اردو ہیں۔ میرے نگران کار ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صاحب طے ہوئے جو گری راج کالج نظام آباد اور این ٹی آر کالج محبوب نگر میں صدر شعبہ اردو رہنے کے بعد ان دنوں پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد ہیں۔


میرے نگران کار ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صاحب نے کووڈ دور میں آن لائن زوم کلاس لیتے ہوئے ہم تمام ریسرچ اسکالرز کو طریقہ تحقیق سے متعلق امتحان کے پرچوں کی بھرپور تیاری کروائی جس کی بدولت ہم تمام اسکالرز کا امتحان اچھا رہا اور ہمیں اس امتحان میں کامیابی حاصل ہوئی اس دوسرے سفر حیدرآباد کے موقع پر بھی ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی اور دیگر نے ہماری بھر پور رہنمائی کی اور ہم حیدرآباد میں مختصر قیام کے بعد آگرہ واپس لوٹ گئے۔ میں فون سے رابطے کے ذریعے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صاحب سے مشورے لیتی رہی اور اپنے لکھے گئے ابواب کی تصحیح ذریعے ای میل کراتی رہی۔ میرے مقالے کے ادخال کے ضمن میں تبسم باجی، فریدہ ، عرشیہ بدر آصف بھائی اور دیگر کا تعاون رہا۔ سمینار کے سلسلے میں اور مقالے کے ادخال کے لئے ڈاکٹر عبدالکریم صاحب ڈین ابراہیم سالار صاحب اور بھارت بھوشن صاحب کا تعاون رہا۔ مقالے کے ادخال کے چھ ماہ تا ایک سال کے بعد میری تینوں رپورٹس آگئیں اور زبانی امتحان وائیوا کے لئے ایک مرتبہ پھر حیدرآباد کا سفر طے ہوا


تیسرا سفر حیدرآباد بہ غرض زبانی امتحان پی ایچ ڈی وائیوا

آج 24 اکٹوبر 2022 ہے اور ہم حیدرآباد سے واپسی کا سفر طے کرکے کل آگرہ پہنچ جائیں گے ان شاء اللہ۔ سفر بھی ایسا سفر جو شاید میری زندگی کا سب سے قیمتی اور نایاب سفر،،، جس سفر نے مجھے اتنے بڑے اعزاز سے نوازا کہ میں "ڈاکٹر سعدیہ سلیم" بن گئ الحمدللہ۔۔۔ اللہ رب العزت کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے مجھے اتنی بڑی سند سے نوازا اور ملک بھر کی مایہ ناز یونیورسٹی عثمانیہ یونیورسٹی سے مجھے پی ایچ ڈی کی سند حاصل ہوئ وہ لمحہ شاید میں زندگی بھر نہیں بھول سکتی جب اتنے بڑے کانفرنس ہال میں عثمانیہ یونیورسٹی کے پروفیسر گنیش صاحب نے یہ اعلان کیا کہ آپ کو عثمانیہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کا اہل قرار دیا جاتا ہے اور کہا ہماری یونیورسٹی کے تاج میں ایک بیش بہا ہیرے کا اضافہ ہوگیا یہ وہ الفاظ تھے میرے لیے جس نے میرے گزشتہ چار سال کی محنت، مشقت اور ایک اسکالر کو جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے یہاں تک پہنچنے کے لیے، اس پل میں ایسا کردیا جیسے کل کی ہی بات تھی میرا ایڈمیشن ہوا اس یونیورسٹی میں اور آج سند بھی مل گئی۔


اس پورے سفر میں منزل تک پہنچانے میں میری قدم قدم پر رہنما میرے مخلص اور شفیق استادِ محترم ڈاکٹر اسلم فاروقی صاحب ہیں جنہوں صرف ایک استاد ہی کی طرح رہنمائی نہیں کی بلکہ ایک والد کی طرح سرپرستی کہ کبھی کبھی تو مجھے ایسا محسوس ہوتا میرے پاپا مجھے ایک ایک بات بتا رہے ہیں کہ سفر کیسے کرنا ہے کہاں پہنچنا ہے، کہاں رکنا ہے وغیرہ وغیرہ استاد کو والدین کا درجہ دیا گیا ہے یہ میں نے اپنے استاد سے ہی جانا کہ واقعی ایک استاد صرف ہمارا استاد ہی نہیں ہوتا وہ ہمارے والدین کی مانند ہی ہوتے ہیں ہمارے لیے فکر مند ہر وقت دعا گو ہماری کامیابی کے لیے کوشاں اور ہماری کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھ کر اس سے خوش ہونا۔۔۔ اب کوئی سمجھے گا کہ میں تو اپنے استاد کا قصیدہ ہی لکھنے بیٹھ گئ جیسے،،، لیکن آپ لوگوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ شاعری کی اصناف میں سب سے مشکل صنف قصیدہ ہی تو ہے تو اب آپ خود ہی فیصلہ کیجیے گا کہ میرے استاد میں ایسی خاصیت تو پائ جاتی ہے جس پر ایک ادنیٰ سی طالب علم بھی قصیدہ لکھ سکتی ہے۔


خیر میں اپنے استادِ محترم پر جتنا بھی لکھوں ان کا حق ادا نہیں کرسکتی۔۔۔ اور یہ سب میرے استادِ محترم تک ہی نہیں بلکہ میرے کلاس فیلو میرے پی ایچ ڈی کے ساتھ اسکالرز سب نے ہی مجھے بہت محبت بہت خلوص دیا کہ میں اپنے شہر سے اتنی کوسوں دور ایک اجنبی شہر میں بھی خود کو اجنبی نہیں سمجھتی تھی وہ چاہیں میری ساتھی فریدہ ہوں جو کہ اب ڈاکٹر فریدہ بیگم بن گئی ہیں جیسے ہی انہیں اطلاع ملتی ہے کہ میری وائوا کی تاریخ طے ہوگئ ہے اور میں حیدر آباد پہنچ رہی ہوں تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں بار بار اپنی خوشی کا اظہار اور میرے آنے کا بے چینی سے انتظار۔۔۔ میرے وائوا کی تاریخ 22 اکتوبر بروز ہفتہ متعین ہوئی تھی ہم لوگ 20 اکتوبر بروز جمعرات حیدرآباد پہنچ گئے اور اکیس اکتوبر سے ہی ملاقات کرنے والوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جس میں ہمارے اسکالرز پیش پیش رہے۔۔۔
جمعہ کے دن ہمارے استادِ محترم نے ہمیں اپنے گھر دعوت پر مدعو کیا اور ہم معہ فیملی استادِ محترم کے گھر پہنچے وہاں سب ہی لوگوں سے ملاقات ہوئی سب ہی لوگوں کو امید سے زیادہ اچھا پایا خاص کر ہمارے استادِ محترم کی صاحبزادی امیمہ جنہوں نے بہت ہی منفرد لب و لہجہ میں ہمیں احمد فراز کے کچھ اشعار سنائے غرضیکہ کہ بہت اچھی محفل جمی خواتین کی محفل الگ رہی۔۔۔ اگلے ہی دن ہمیں یونیورسٹی پہنچنا تھا ہم وقت مقررہ سے ایک گھنٹے پہلے یونیورسٹی پہنچ گئے۔
عثمانیہ یونیورسٹی کی عمارت بہت ہی شاندار جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کی مشہور و معروف یونیورسٹی ہے وہاں ہماری ملاقات محترمہ سلمیہ صاحبہ سے ہوئی جو شعبہ میں کلیرکل ورک دیکھتی ہیں انہوں نے ہمیں شعبہ اردو اور کانفرس ہال میں پہنچایا سلیمہ صاحبہ بہت ہی ملنسار شخصیت کی مالک ہیں۔۔۔ اور اس طرح رفتہ رفتہ ہمارے کلاس کے ساتھی سارے ہی اسکالرز وہاں آتے گئے جن میں کچھ ڈاکٹر بن گئے جس میں ہماری بہن ڈاکٹر فہمیدہ، ڈاکٹر کوثر بی بی صاحبہ اور دیگر اسکالرس ہماری بہت مخلص بہن محترمہ تبسم آرا صاحبہ، سب ہی موجود رہے اس کے علاوہ جناب سراج صاحب، مجاہد صاحب، شوکت فہیم صاحب مجاہد صاحب ڈاکٹر مشتاق، ڈاکٹر زیبا انجم، ڈاکٹر محمد ناظم علی سب ہی میرے وائوا کے موقع پر موجود رہے۔
میں ان سب کی بہت شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے اپنے خاص دعاؤں سے نوازا۔۔۔ کچھ ہی دیر میں میری دونوں ایگزامنرس ڈاکٹر نکہت آرا شاہین صاحبہ اور ڈاکٹر رضوانہ بیگم صاحبہ بھی آگئیں ہمارے نگران وہاں پہلے سے ہی موجود رہے اور اس طرح سے شعبہ اردو کے کانفرس ہال میں میرا وائوا شروع ہوا پورا ہال شعبہ اردو کے معزز اساتذہ، اسکالرز وغیرہ سے بھرا ہوا تھا۔۔۔
میرے وائوا کی کاروائی شروع کی گئی میں نے اپنے مقالے جس کا موضوع ہے "ادارہ الحسنات رامپور کی علمی و ادبی خدمات" اس کی تلخیص پیش کی میرے ایگزامنرس نے سوالات کا سلسلہ شروع کیا اور الحمد للہ میں نے سب کے ہی جوابات اللہ کے کرم سے بہت اچھے اور اطمینان بخش دیئے۔
شعبہ اردو کے پرنسپل پروفیسر گنیش صاحب نے بھی مجھ سے کئی سوالات کئے اور اس طرح سے میرا وائوا مکمل ہوا اور مجھے ڈاکٹر کی سند سے نوازا گیا الحمدللہ۔۔۔

phd-urdu-research-sadia-saleem

اس پورے سفر میں اگر میں اپنے شوہر اور اپنی پیارے سے بچوں کا ذکر نہ کروں تو یہ ان کی حق تلفی ہوگی اس پورے سفر میں میرے شوہر محترم جناب راشد سلیم صاحب نے میری ہر قدم پر ہم قدم بن کر ساتھ دیا میں اگر یہ کہوں کہ میری اس کامیابی کے پیچھے میرے شوہر محترم راشد سلیم صاحب کا ہی پورا ہاتھ ہے تو یہ بیجا نہ ہوگا۔۔ میرے پیارے بیٹے مدّثر راشد، پیاری بیٹی عائشہ راشد نے میرے لیے بہت دعائیں کیں اور اپنی بساط کے مطابق میرے اس کام میں بہت مدد کی اللہ پاک میری دونوں ہی بچوں کو دین و دنیا کی کامیابی سے نوازے آمین۔۔۔
میرے اساتذہ میں قابلِ ذکر نام جناب پروفیسر فضل اللہ مکرم صاحب، جناب ڈاکٹر شیخ عبد الکریم صاحب، جناب ڈاکٹر ابراہیم سالار صاحب، میرے مشفق استاد پروفیسر سید شفیق اشرفی، پروفیسر خواجہ اکرام صاحب، جناب پروفیسر شہزاد انجم صاحب اور دیگر اساتذہ کرام ہیں جو میرے اس سفر میں اپنی دعاؤں کے انمول تحائف کے ساتھ ہمیشہ میرے ساتھ رہے۔۔۔
میری والدہ کی دعاؤں نے مجھے ہر مشکل ہر پریشانی سے محفوظ رکھا ان کی دعائیں سایہ دار درخت کی طرح میرے ساتھ رہتیں اور میں بار بار بس یہی گنگناتی۔۔
سخت مشکل میں بھی آسان سفر لگتا ہے
سب میری ماں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے


میرے مشفق بھائی جناب عبد الباری وسیم صاحب ( ایڈیٹر ماہانہ بچوں کا ہلال) ہمیشہ میرے اس سفر میں میرے ساتھ رہے رسرچ کے دوران رسائل کی فراہمی سے لے کر، دفتر میں سارے انتظامات میں ہمیشہ میری رہبری کرتے رہے۔۔ میری پیاری سی پھپھو جان محترمہ خالدہ تنویر صاحبہ (امریکہ کیلی فورنیا) جب سے میرا ایڈمیشن ہوا تب سے ہی مسلسل دعاؤں کے تحائف بھیجتی رہتیں، حوصلے دیتیں، آج جب انہیں یہ خوشخبری ملے گی تو پتا نہیں خوشی سے ان کا کیا حال ہوجانا ہے اللہ پاک ان سب کی ہی سرپرستی بنائے رکھے آمین۔۔۔


میرے والد محترم جناب عبد الملک سلیم صاحب جو میرے ایڈمیشن سے ہی اتنا خوش تھے اور بے صبری سے میرے ڈاکٹر ہونے کا انتظار کررہے تھے پر اللہ پاک نے 18 جولائی 2019 میں انہیں اپنے پاس بلالیا آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں پر میرے والد صاحب نے اس ادارہ کو آگے بڑھانے میں جو کوششیں کیں اور اتنے طویل عرصے اس ادارے کو بہت ہی کامیابی کے ساتھ چلاتے رہے آج اتنی بڑی یونیورسٹی سے سند حاصل ہونا ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے ادارہ الحسنات کے بانی جناب مولانا عبد الحی صاحب جنہوں نے اس ادارہ کو قائم کیا تو غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے
نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پرواہ
گر نہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی


اور اسی نیت اسی پختہ ارادے نے اس ادارے کو اتنا نایاب بنا دیا کہ ساری دنیا میں اس رسائل کا نور پھیلا ہوا ہے کسی بھی کام کو کرنے کے لیے ادارے نہیں بلکہ ارادے کام کرتے ہیں اور میرے دادا کے ان پختہ ارداے اور پختہ عزم نے ہی اس ادارے کو پروان چڑھایا۔۔۔۔
میرے پی ایچ ڈی کے سفر کی یہ روداد میرے لئے تو سرمایہ حیات ہے لیکن مجھے امید ہے کہ اس سفرنامہ سے دوسروں کو بھی حوصلہ ملے گا میں اپنے والدین کی دعاؤں اساتذہ کی شفقتوں شوہر اور بچوں کی پر خلوص رفاقت پر سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں اور سبھی سے ملتمس ہوں کے علم کو عام کرنے میں جس طرح میرے اساتذہ نے میری رہبری کی کچھ اس طرح کا کام میں بھی کروں اور مخدوم کے اس شعر کی عمل تصویر بنوں کہ
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو


***
ڈاکٹر سعدیہ سلیم (آگرہ، اترپردیش)
بشکریہ: روزنامہ 'سچ کی آواز'، نئی دہلی۔ شمارہ: 7/نومبر 2022ء

The journey of my PhD Urdu research. by: Dr. Sadia Saleem, Agra

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں