قبریں بولتی ہیں - سفرنامہ آگرہ و فیروزآباد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-11-23

قبریں بولتی ہیں - سفرنامہ آگرہ و فیروزآباد

agra-to-firozabad

مسافرت کا ولولہ سیاحتوں کا مشغلہ
جو تم میں کچھ زیادہ ہے سفر کرو سفر کرو
تاج محل دیکھنے کی چاہ بچپن سے دل میں تھی، لیکن کبھی آگرہ جانے کا حسن اتفاق ہی نہیں ہوا، ابھی چند روز قبل عم زاد واصل حسینی کی آمد پر اچانک سے خیال آیا کہ کیوں نہ ساتھ آگرہ کے دربار میں حاضری بھر آئیں، چھ سات ماہ سے گھر میں بیٹھے بیٹھے بور ہی ہورہے ہیں، واصل بھائی کے سامنے جب بات رکھی تو وہ فورا راضی ہوگئے، اور عابد بھائی نے بھی ساتھ چلنے کی ہامی بھر دی، کہ یہ تو "سفر پہ پاؤں جمائے رکھو" پر عمل کرنے میں بہت شارپ واقع ہوئے ہیں، اور انہی کا تھوڑا سا حصہ ہمیں بھی حاصل ہوا ہے، سفر کا نام سنتے ہی باچھیں کھل اٹھتی ہیں، اور آنکھوں میں ایک چمک سی آجاتی ہے، جیب میں پیسے ہوں یا نہ ہوں، سفر ضرور ہونا ہے، واصل بھائی کو اپنے دوست کے نکاح میں شرکت کے لئے امبیڈکر نگر جانا تھا، ساتھ میں ہماری بھی دعوت تھی لیکن حساب کچھ یوں بنا کہ اسی دن ہمارا محمدی(لکھیم پور) نکلنا ہوگیا، اور طے یہ ہوا کہ واپسی کے بعد جمعہ کے دن آگرہ کا سفر رکھ لو، جمعہ میں چار دن تھے اس لئے بات آئی گئی ہوئی، اور یہ پروگرام کھٹائی میں پڑتا نظر آیا، لیکن تاج کا سفر مقدر میں لکھا جاچکا تھا، ہم لکھیم پور میں تھے، واصل بھائی لکھنؤ آچکے تھے، اگلے دن جمعہ تھا اور ہمارا واپسی کا مکمل ارادہ، لیکن خالہ زاد کے اصرار اور ڈاکٹر فضیل کی ملاقات نے ارادہ میں جھول پیدا کردیا، رکیں نہ رکیں کی کشمکش میں واصل بھائی کو رات 12:22 پر میسج ڈالا، "بھائی کیا آگرہ چلنا ہے" جواب کی جگہ سوال آیا "کب؟" اور واپسی کب ہوگی؟ کل شام روانگی اور سنیچر کی رات واپسی کا پروگرام بتایا تو کہنے لگے آؤ چلتے ہیں، ایک اندیشہ سا تھا کہ رسپانس نفی میں ہی آئیگا، اس لئے یقین مضبوط کرنے کے لئے پھر سوال کیا "پکا نا؟ " کہنے لگے آؤ بتاتے ہیں، لبوں کے گوشے مسکرا اٹھے کہ یہ ہمارے لکھنؤ پہنچنے کے بعد گولی دے جاتے، اس لئے پوری بات واضح کرنا مناسب سمجھی کہ آگرہ چلنا کنفرم ہے تو ہم آئیں ورنہ کینسل ماریں، اور محمدی میں ہی رک جائیں، خیر سے آدھے گھنٹے کے اندر اندر آگرہ کا سفر طے ہوگیا، اگلے دن صبح دس بجے لکھنؤ پہنچ گئے، اور اسی دوران فیروزآباد میں شہزی کو بتا بھی دیا کہ ہم لوگوں کی میزبانی کا بوجھ برداشت کرنے کے لئے تیار ہوجاؤ، عابد بھائی نے انٹرسٹی سے چیئر کار کے تین کنفرم ٹکٹ نکال لئے تھے، بیگ تیار ہی تھا، بس ایک سوٹ نکال کر دوسرا سوٹ رکھ لیا، کہ تبھی جمعہ کی نماز سے قبل عابد بھائی کا فون آیا کہ رافع طیب اور محی الدین بھی چلنا چاہتے ہیں، یعنی کہ مزید دو افراد اور، بھئی میزبان کا بھی خیال رکھنا تھا، اور یہی بات عابد بھائی کو بھی فکرمند کر رہی تھی، صہیب حسینی کو اب تک آنے سے متلعق نہیں بتایا تھا، لہذا ان کی ناراضگی کے ڈر سے خبر کرنا ضروری سمجھا، فون کیا تو معلوم ہوا شہزی نے پہلے ہی انہیں خبر دیدی تھی، ساتھ واٹسپ پر ان کے میسج میرے منتظر تھے، اسی درمیان طہ بھائی انیس بھائی کو بھی خبر کرچکے تھے، کہ یہ سب تمہیں پریشان کرنے آرہے ہیں، خیر سے ماہی اور رافع کا ٹکٹ بھی کنفرم ہوگیا، واصل عابد بھائی کے ساتھ اس سے قبل کئی اسفار ہوچکے تھے، اور ان دونوں کے ساتھ یہ پہلا اتفاق تھا، لیکن معلوم نہیں تھا کہ یہ سفر بہت ہی خوبصورت ہونے والا ہے، کیونکہ بھئی سفر کا مسئلہ بڑا نازک ہوتا ہے، ہم مزاج کوئی مل جائے تو پھر کیا ہی کہنے! سبحان اللہ، ورنہ سفر، سفر کم عذاب زیادہ ہوتا ہے۔


چارباغ چھوٹی لائن سے 03:55 پر ٹرین تھی، بعد نماز جمعہ طے شدہ وقت پر ہم سبھی ندوہ کے گیٹ پر تھے، اب مسئلہ چار باغ پہنچنا تھا، اگر اوبر بک کرتے ہیں تو ڈرائیور چار سے زائد بٹھانے سے رہا، اس لئے ای رکشہ سے لکھنؤ یونیورسٹی پہنچے اور وہاں سے بذریعہ میٹرو چار باغ اترے، ٹرین چھوٹنے میں ابھی دس منٹ اضافی تھے، واصل بھائی نے رافع طیب کے ساتھ اپنا شوق پورا کیا، اور پھر سبھی خراماں خراماں اسٹیشن کی طرف بڑھے، پہلی مرتبہ اتنا سناٹا دیکھ کر آنکھوں کو بس چھلکنے کی دیر تھی، خیال گزرا اتنی خاموشی اور سکون تو انسان کو شاید قبر میں بھی میسر نہ ہو، ٹرین پلیٹ فارم پر لگی ہوئی تھی اور ماشاءاللہ وقت مقررہ پر تھی، کوچ کی طرف بڑھے اور سیٹیں تلاش کر کندھوں کا بوجھ ہلکا کیا، ٹرین کے اندر بھی وہی حال تھا جو پلیٹ فارم پر تھا، سچ کہیں تو سفر کا اصل مزہ کان پھاڑ دینے والے شور اور بھیڑ بھاڑ ہی میں ہے، ورنہ تو ایسا لگتا ہے کسی میت میں آئے ہوئے ہوں، وقت ہوتے ہی ریل نے سیٹی دی اور بے ہنگم آوازوں کے ساتھ دھک دھک کرتے ہوئے پلیٹ فارم کو پیچھے چھوڑ دیا، خلاف معمول بوگی میں آج سیٹیں زیادہ تھیں اور انسان کم، باتوں کا سلسلہ ایسا چلا کہ کانپور کی مسافت کب طے ہوگئی احساس ہی نہیں ہوا، اور پھر کانپور کی گنگا میں ڈوبتے ہوئے سورج نے چائے کی چاہ بڑھا دی، ٹرین رکتے ہی عابد بھائی چائے کی کھوج میں نکل پڑے، اور پھر چاہ کو تسکین مل ہی گئی، یہاں مسافروں نے خالی سیٹ اور ہماری آنکھوں کو بھر دیا، اور وقت ریل کی پٹری کے ساتھ چلتا رہا، رات کی تاریکی کے ساتھ ٹھنڈ کا احساس بھی بڑھ گیا تھا، بیگ سے شال نکال کر کندھے پر ڈالی، اور تقریبا 08:45 پر ٹرین بنا کسی حق تلفی کے فیروزآباد اسٹیشن پر جا لگی۔


شہزی اور صہیب بھائی ہم لوگوں کو رسیو کرنے کے لئے موجود تھے، آگے بڑھ کر مصافحہ اور سب کا ہلکا سا تعارف ہوا، یہاں سے ہم لوگوں کو مدینہ کالونی جانا تھا، صہیب بھائی کے ساتھ ہم بائک پر بیٹھے اور باقی چاروں افراد شہزی کی کار میں براجمان ہوگئے، فیروزآباد سے تاج کی مسافت محض چالیس کلو میٹر رہ جاتی ہے، اور یہ شہر چوڑیوں کا شہر کہلاتا ہے، یہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے، صہیب بھائی نے مدینہ کالونی کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ نام آپ کے دادا ماسٹر احسن حفظہ اللہ کا تجویز کردہ ہے، آپ کے دادا ماسٹر سید محمد احسن صاحب دامت برکاتہم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے کرچکے تھے، اور پی ایچ ڈی کررہے تھے اسی دوران فیروزآباد میں اسلامیہ انٹر کالج میں اکنامکس کے لیکچرر کے طور پر آپ کا تقرر ہوگیا، اور پھر آپ کے والد ماجد مولوی سید مصطفی صاحب نصیرآبادی، خلیفہ ومجاز حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد زکریا صاحب مہاجر مدنی رحمہ اللہ بھی فیروزآباد منتقل ہوگئے، آپ کا اصل تعلق نصیرآباد ضلع رائے بریلی سے ہے، تبلیغی جماعت سے طالبعلمی کے زمانے سے ہی بہت گہرا تعلق تھا، تبلیغ کے کام کو فیروزآباد اور اس کے اطراف واکناف میں وسیع پیمانے پر پھیلایا، جس کے لئے دن رات جد وجہد کی، 1967 میں آپ یہاں تشریف لائے تھے، بزرگوں سے کافی ربط تھا، قاری صدیق صاحب باندوی رحمہ اللہ ، مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ ، اور حضرت مولانا انعام الحسن صاحب رحمہ اللہ سے خصوصی تعلق تھا۔


ریلوے اسٹیشن سے مدینہ کالونی صرف دس منٹ کا راستہ ہے، فیروزآباد کا یہ پہلا سفر تھا اور جو تصویر اس شہر کی ذہن میں بنی ہوئی تھی، اس سے مختلف پایا، بڑی بڑی عمارتیں، چوک چوراہے، کشادہ سڑکیں، سڑک پر دوڑتی گاڑیاں، کارخانے، اورکارخانوں سے نکل کر فضا میں تیرتا ہوا دھواں، لوگوں کا ازدحام اور شور وغل سبھی کچھ تھا، ڈامر کی سیاہ چکنی سڑک پر گاڑی دوڑتی رہی، اور نگاہیں بڑی بڑی عمارتوں، سڑکوں اور گلیوں میں الجھتی رہیں، ذرا سی دیر میں ہم لوگ صہیب بھائی کے گھر پہنچ چکے تھے، گھر کے سامنے ہی چار منزلہ عالیشان مسجد ہے، جو کہ تبلیغ کا مرکز بھی ہے، اور اسی کے تہہ خانے میں ایک عمدہ سی لائبریری بھی، ہم لوگوں کا قیام مسجد ہی سے متصل مہمان خانے میں تھا، جس کا ایک راستہ مسجد کے اندر سے ہی ہوکر جاتا ہے، گاڑی سے اترے اور بیگ سنبھالتے ہوئے صہیب بھائی اور شہزی کی رہنمائی میں مسجد کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے کمرے پہنچ کر سامان کنارے رکھا، سوچا پہلے عشاء کی نماز سے فارغ ہولیا جائے، اس لئے مسجد آکر وضو کیا اور فردا فردا نماز ادا کی، مسجد میں داخل ہونے کے لئے دو راستے ہیں ایک صدر دروازہ ہے تو ایک راستہ عقب سے ہے، مین گیٹ سے داخل ہو تو سامنے چند سیڑھیاں عبور کرتے ہی بالکل آنکھوں کے سامنے وضو کرنے والوں کے لئے ایک بڑا سا حوض ہے، جس میں مختلف رنگوں کی بہت سی مچھلیاں تیر رہی تھیں، اسی سے متصل وضو خانہ بھی ہے، اور مسجد کے فرش پر سرخ قالین بچھی ہوئی ہے، صہیب بھائی نے بتایا کہ مسجد میں بیک وقت تقریبا ساڑھے پانچ ہزار افراد نماز ادا کرسکتے ہیں، ابھی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ انیس بھائی علالت کے باجود مسکراتے ہوئے ملنے تشریف لے آئے، سلام پھیر کر ملاقات کی، اور پھر سب ہی دھیرے دھیرے آکر ساتھ بیٹھ گئے، انیس بھائی سے یہ میری کوئی پہلی ملاقات نہیں تھی، اوت کتنی مرتبہ ان سے ملاقات ہوچکی ہے، یہ بھی یاد نہیں، ہاں اتنا تو کنفرم ہے کہ بڑے بھائی طہ حسینی کے توسط سے ملاقات ہوئی، آپ کا تعلق نصیرآباد کے سادات حسینی خاموادہ سے ہے، پورا نام سید احمد انیس حسینی ندوی ہے، انتہائی ملنسار، خوش مزاج، اور نہایت اعلی ذوق کے مالک ہیں، میانہ قد، گورا رنگ، کھڑی ناک، اس پر خوبصورت چشمہ اور نفاست سے تراشی ہوئی داڑھی آپ کی شخصیت میں جمال کے ساتھ رعب بھی پیدا کردیتی ہے، بولنے کا اندازہ خطیبانہ لیکن مٹھاس لئے ہوئے، جب زبان سے الفاظ ادا ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی جلسہ کے اسٹیج پر براجمان ہوں، اور مخاطب متاثر ہوئے بنا نہیں رہتا، شہر فیروزآباد سے انٹر کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء سے 2017ء کی فراغت ہے، خطیب و مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عمدہ مضمون نگار بھی ہیں، ابھی چند ماہ قبل ہی آپ کی دو کتابیں "قرآنی سفر" اور "تذکرہ مفتی عبدالعلیم عیسی صاحب وصی الہی رحمہ اللہ" منظر عام پر آئی ہیں، اسی طرح ندوہ سے فراغت کے فورا بعد "مادیت و روحانیت اور ہمارا نصاب تعلیم" کے عنوان سے ایک کتاب شائع ہوئی تھی، یوں تو آج کل آپ ابوہریرہ گرلس انٹر کالج کی ذمہ داری دیکھ رہے ہیں، الحمدللہ شہر فیروزآباد اور آگرہ میں آپ ہی کے ذریعہ درس قرآن کا سلسلہ قائم ہے، انیس بھائی کا فیرزآباد میں عوام سے جو دینی اور اصلاحی رابطہ ہے وہ صرف دادا نہیں بلکہ نانا مفتی عبدالعلیم عیسی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے بھی ہے، جن کا ابھی جلد ہی انتقال ہوا ہے، آپ 1973 میں فیرزآباد آئے تھے، یہاں کی جامع مسجد کے امام و شہر مفتی بھی رہے اور پچاس سال تک یہاں زبردست دینی اور علمی خدمات انجام دیں، اور ان کی سب سے چھوٹی بیٹی سے انیس بھائی کے والد صاحب کا نکاح ہوا۔


کافی دیر تک گفتگو جاری رہی اور مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا رہا، اسی دوران انیس بھائی نے آگے کے پروگرام کے مطابق دریافت کیا، اور پھر اپنے مخصوص انداز میں ہنستے ہوئے میرے پلان کو مسترد کیا اور کہا کہ اب ہم تمہاری ترتیب بناتے ہیں، یوں کرو کل صبح فجر بعد کچھ دیر آرام کرو اور پھر صبح آٹھ بجے ہمارے ساتھ کالج میں ناشتہ کے بعد باری باری سارے کالجز دیکھ لو اور پھر نو ساڑھے نو بجے تک صہیب آپ لوگوں کو آگرہ کی بس پہ بٹھادینگے، تاج محل، آگرہ فورٹ دیکھنے کے بعد اگر موقع ملے توسکندرا نکل جانا، اور شام کا کھانا فیروزآباد میں ہمارے ساتھ، پھر اتوار کو صبح کی ٹرین سے واپسی، بات بالکل درست تھی لہذا اسی پر معاملہ ڈن کیا، حالانکہ میرا اگلے روز ہفتہ کی شام ہی ٹرین سے واپسی کا ارادہ تھا جو سراسر حماقت پر مبنی تھا، جس کا بعد میں احساس ہوا۔
آنکھیں فیروزآباد کی رنگ برنگی چوڑیاں اور کان کانچ کی کھنکتی چوڑیوں کی آواز سننے کے لئے مچل رہے تھے، کھانا شہزی کی طرف تھا، اور وقت بھی زیادہ ہورہا تھا، انیس بھائی نے طبیعت خرابی کی وجہ سے ساتھ چلنے سے معذرت کرلی اور ہم لوگ صہیب بھائی کے ساتھ پتلی پتلی گلیوں میں آگے پیچھے قدم بڑھاتے رہے، شہر میں ہونے کے باجود گاؤں کی سی فیلنگ آرہی تھی، ہر طرف سناٹا، نہ نُکّڑ پر لوگوں کی بھیڑ، اور نہ چائے خانوں پر، دکانوں کے شٹر گر چکے تھے، اور گھر کے دروازوں میں کنڈی لگ چکی تھی، صہیب بھائی نے بتایا کہ اس علاقہ میں زیادہ تر مزدور طبقہ رہتا ہے، جنہیں صبح جلدی کام پر جانا ہوتا ہے، اس لئے یہاں رات جلدی آجاتی ہے، اسی لئے لوگ بھی چوک چوارہوں پر کھڑا ہونا پسند نہیں کرتے، ایک خاص بات اور یہاں دیکھنے میں آئی کہ اکثر وبیشتر گھروں میں تہہ خانے بنے ہوئے ہیں، اس طرح اوپری منزل میں رہائش ہوتی ہے اور تہہ خانوں میں کام دھام، پانچ منٹ میں ہم سب شہزی کے گھر میں تھے، شہزی سے میری جان پہچان ندوہ میں دوران تعلیم اس طور پر ہوئی کہ عالمیت کے آخری سال میں ہم دونوں ایک ہی سیکشن میں تھے، اور ہمارے بڑے بھائی طہ حسینی سے اس کا پہلے سے تعلق تھا، انہوں نے بھی دراصل انٹر کے بعد ندوہ میں داخلہ لیا تھا اور اس سال آزاد یونیورسٹی میں بی ایس سی کمپیوٹر سائنس کے اسٹوڈنٹ ہیں، گھر کی ہر شئے سے سلیقہ مندی اور عمدہ ذوق کی جھلک صاف نظر آرہی تھی، یہاں انتہائی پرتکلف قسم کا کھانا ہوا، چکن کڑھائی، چکن چلی، اور چکن پنیر کے ساتھ مٹر پلاؤ اور ان سب پر فوق ربڑی، کھانا انتہا کا لذیذ اور مزیدار کہ بندہ انگلیاں چاٹتے ہوئے دسترخوان سے اٹھے، یہاں صہیب بھائی کے مامو زاد سعد سلمہ سے بھی ملاقات ہوئی جو پہلے سے موجود تھے، کھانے سے فارغ ہوتے ہی ہم لوگ چوڑیوں کے کارخانے پہنچے۔


فیکٹری کے دروازے میں قدم رکھتے ہی یہاں کا منظر دیکھ لمحہ بھر کو آنکھیں پتھرا گئیں، ہمیں یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ سمجھئے جہنم کا نظارہ تھا، دور ایک بھٹی میں شیشہ پگھل رہا ہے، اور بہت سے لوگ اس پگھلے ہوئے شیشہ کو ہاتھ میں پکڑے ہوئے ایک لمبے ڈنڈے سے لپیٹ کر باہر نکال رہے ہیں، اور بڑی مہارت کے ساتھ انگلیوں کی مدد سے نچاتے ہوئے، اور ہوا میں لہراتے ہوئے دوسری جگہ منتقل کررہے ہیں، یہاں ہر ہر دوسرا فرد ہاتھ میں شعلہ اٹھائے ہوئے تھا، جب کوئی بندہ اسے قریب سے لیکر نکلتا تو دیکھ کر خوف محسوس ہوتا کہ کہیں گر نہ جائے، اور جس پر گرے اسے جلاکر راکھ کر ڈالے، ذرا سی دیر میں تپش کے مارے حال خراب ہوگیا، نومبر کی رات میں ایسی گرمی کہ بس اللہ کی پناہ، کارخانے کے اندر کا ماحول کسی پرانے قلعہ یا قبیلے کی طرح لگ رہا تھا، جیسے لوگوں کو غلام بناکر ان سے زبردستی کام اور محنت کرائی جارہی ہو، شہزی نے بتایا کہ شیشہ پگھلانے والی بھٹی بند نہیں ہوتی ہے، بلکہ چوبیس گھنٹے کارخانے میں کام چلتا رہتا ہے، البتہ کام کرنے والوں کی شفٹ بدلتی رہتی ہے، اور یہ ہر دو قدم پہ جو ایک آدمی بیٹھا ہوا ہے، وہ اس دہکتے ہوئے کانچ پر رنگ چڑھا رہا ہے، جو چوڑیاں بننے کے بعد اس پر ظاہر ہوگا، رنگ کے مرحلہ سے گزرنے کے بعد اسے تار بابو کے پاس لے جایا جاتا ہے جو اسے مشین کی مدد سے چوڑی کی شکل میں ڈھالے گا، یہ سب سے زیادہ مشکل اور محنت والا کام ہے، جس کی وجہ سے تار بابو کی پگار بھی سب سے زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ ایک ہلکی سی چوک سب برباد کرسکتی ہے، چوڑیوں کو ایک سے سائز میں رکھنے کے لئے تار بابو کے ہاتھ کا کھیل دیکھنے لائق تھا، اگر وہ اپنا ہاتھ مشین کے زیادہ قریب کردے تو چوڑیاں موٹی ہوجائیں اور دور کردے تو چوڑیاں باریک، ایک بار میں تقریبا سو دو سو چوڑیاں تیار ہوتی ہیں، اور پھر چوڑی کے شیپ میں آنے کے بعد اسے دوسرے شخص کے پاس لے جایا جاتا ہے، گول گول گھومتے ہوئے تار ایک دوسرے سے چپک جاتے ہیں، اب اسی پر کسی شیشہ نما چیز سے ایک لمبا سا خط کھینچا جاتا ہے تاکہ ایک دوسرے سے چپکا ہوا حصہ تڑخ کر الگ ہو جائے، فیکٹری کا کام یہاں پر ختم ہوجاتا ہے، اب یہ چوڑیاں شہر کے اندرون مختلف کارخانوں میں باریکی سے ایک ایک کرکے جوڑی جاتی ہیں، پھر اسے مختلف قسم کی ڈیزائن سے مزین کیا جاتا ہے، یوں وہ ایک طویل مرحلے کے بعد بازار میں آتی ہیں۔


یہاں سے نکل کر لائبریری کا رخ کیا جو مسجد کے نیچے والے حصہ میں بنی ہوئی ہے، کافی دیر تک وہاں بیٹھے کتابوں پر رشک بھری نگاہ ڈالتے رہے، یہ ایک بڑا وسیع کتب خانہ ہے، جس میں مختلف موضوعات پر ڈھیروں کتابیں ہیں، ہنسی مسکراہٹ اور قہقہوں کے درمیان گیارہ بج چکا تھا، اور تکان کے باعث چائے کی خواہش زوروں پر تھی، کشاں کشاں کمرے پہنچے اور صہیب بھائی نے چائے تو نہیں البتہ اس کے بدل کا انتظام کردیا، محفل لگی رہی اور وقت تماشائے ہاؤ ہو کے ساتھ کمرے کی فضا میں تحلیل ہوتا رہا، گھڑی نے دو بجائے اور ہم سب بستر پہ تھے، لیٹتے ہی جھٹ سے آنکھیں بند ہوگئیں اور ہم نیند کی آغوش میں تھے، جیسے نیند بھی ہمارے فراق میں تھی۔
فجر کی اذان ختم ہوئی اور موبائل نے چگنھاڑنا شروع کردیا، نہ چاہتے ہوئے بستر چھوڑا اور وضو کرکے مسجد پہنچے، مصلے پر امام کی عمدہ انداز و لہجہ میں قرات جاری تھی، آواز سن کر انیس بھائی کا دھوکہ ہوا، نماز ادا کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے چھوٹے بھائی حُمید مظاہری امامت کررہے تھے، کہہ لیجئے انیس بھائی کی دوسری کاپی، نماز کے بعد کمرے آئے اور پروگرام کے برعکس سب ایک ایک کرکے دوبارہ چادر تانے تکیہ پر تھے، آنکھ جو لگی تو پھر آٹھ بجے صہیب بھائی نے اٹھایا، کہنے لگے آپ لوگوں کو سونے ہی نہ دیا جاتا اگر رات چھوٹے چچا کی طبیعت نہ خراب ہوئی ہوتی، خیر فریش ہوجائیں اور ناشتہ یہیں ہوجائیگا، کیونکہ انیس بھیا کی بھی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اس لئے وہ کالج نہیں گئے ہیں، نہا دھوکر کپڑے تبدیل کرنے کے بعد ناشتہ پر چچا کی طبیعت سے متعلق دریافت کیا، تقریبا دس بجے یہاں سے نکل کر مسجد سے ہی متصل ابوھریرہ ہائی اسکول پہنچے، یہ ایک تین منزلہ عمارت ہے جو صرف لڑکوں کے لئے خاص ہے، اور ساتھ ہی ایک حصہ میں کمپیوٹر سینٹر بھی ہے، جس کا قیام 2007 میں ہوا، لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ایک دوسری عمارت ہے جس کے ذمہ دار ان کے چچا مولانا عالم مصطفی یعقوبی ہیں، حضرت مولانا قاری صدیق صاحب باندوی رحمہ اللہ نے اس کی بنیاد رکھی، اور ابوہرہرہ اسکول نام تجویز ہوا، پھر وہ دھیرے دھیرے ہائی اسکول، ہائی اسکول سے انٹر کالج اور اس وقت الحمدللہ ابوہریرہ ڈگری کالج تک پہنچ گیا ہے، ان تمام اداروں میں سولہ سے سترہ سو طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں، اہم بات یہ کہ مخلوط تعلیم نہیں ہے، بلکہ لڑکے اور لڑکیوں کے پڑھنے کا الگ نظم ہے، اور چندہ پر یہ عمارتیں نہیں کھڑی کی گئیں۔
صہیب بھائی نے بتایا کہ انیس بھائی کے والد مولانا مفتی اکرم مصطفی ایوبی مظاہری حفظہ اللہ فراغت کے بعد تین سال لکھنؤ میں رہے اور پھر جب فیرزآباد آئے تو ان کے والد محترم ماسٹر احسن صاحب مدظلہ نے کرائے کی عمارت میں ابوہریرہ پرائمری اسکول شروع کروایا، اسکول کالج میں کبھی خود نہیں پڑھا تھا لیکن اس وقت کے دگرگوں حالات دیکھ کر اور مسلم اسکول نہ ہونے کی وجہ سے کئی بزرگوں سے مشورہ کیا گیا اور سبھی نے کہا کہ اگر چلا سکتے ہو تو ضرور، پھر 1990 سے وہ سلسلہ شروع ہوا جو پھر کرائے کی عمارت سے اپنی ذاتی عمارت میں آیا، اس طرح ایک تعلیمی انقلاب ان کے ذریعہ وجود میں آیا، یہاں سے نکل کر مسجد کے دروازے پر پہنچے، دائیں جانب گلی میں بمشکل بیس قدم کے بعد گرلس ہائی اسکول ہے جس کی ذمہ داری انیس بھائی کے چھوٹے چچا بحسن بخوبی نبھارہے ہیں، یہ بھی ایک تین منزلہ عمارت ہے، گیٹ سے داخل ہوکر سیڑھیاں عبور کرتے ہی سامنے پرنسپل آفس ہے، یہاں مولانا عالم مصطفی یعقوبی صاحب سے ملاقات ہوئی، صہیب بھائی نے نظام تعلیم پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہائی اسکول تک کے طلباء کی فیس بہت معمولی ہے، یہی کوئی دو سو سے تین سو کے درمیان، اور یہ کہ اگر تین بھائی بہن زیر تعلیم ہیں تو ان میں سے ایک کی فیس نصف ہوتی ہے اور ایک کی معاف، ٹیچرس بلیک بورڈ کے سامنے کھڑے طالبات کی کلاس لے رہے تھے، اپنی جگہ سے ہلے بغیر ایک نظر پورے اسکول پر ڈالی اور باہر آگئے۔


اب ڈگری کالج جانا تھا، گلی سے نکل کت دائیں جانب بازار کی روڈ پر آئے، شہزی گاڑی لئے موجود تھا، سب گاڑی میں بیٹھے اور ہم صہیب بھائی کے ساتھ بائک پر ہولئے، ڈگری کالج شہر کی آبادی سے تقریبا ایک دو کلومیٹر پر واقع ہے، بھیڑ بھاڑ اور کارخانوں سے اٹھنے والے شور کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہم لوگ ابوہریرہ گرلس ڈگری کالج پہنچے، یہ جگہ عاقلہ آباد حسن پور کہلاتی ہے، ڈگری کالج کا قیام انیس بھائی کے والد ماجد مولانا اکرم مصطفی ایوبی حفظہ اللہ کے ذریعہ 2018 میں عمل میں آیا، کالج کی ایک منزلہ عمارت تین رویہ ہے، صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب پرنسپل آفس ہے اور درمیان میں بڑا سا پارک ہے، جس میں نفاست سے تراشے ہوئے خوبصورت پیڑ پودے اور مختلف قسم کی بیلیں لگی ہوئی ہیں، جن کو دیکھ کر آنکھوں میں تازگی اور جسم میں ایک لہر سی دوڑ جاتی ہے، صدر دروازے سے بیس قدم ناک کی سیدھ میں چلتے ہوئے آگے بڑھینگے تو بائیں جانب کالج ہی کی کافی بڑی زمین خالی پڑی ہوئی ہے، کالج کھلا ہوا تھا اور کلاسیز میں لیکچر ہورہے تھے، پرنسپل آفس پہنچ کر انیس بھائی کے والد مولانا اکرم مصطفی صاحب سے تعارف اور ملاقات ہوئی، کچھ دیر بیٹھ کر گفتگو ہوتی رہی، وقت کم تھا اس لئے کالج پر ایک اچٹتی سی نظر ڈال کر اجازت چاہی اور باہر آگئے، یہاں سے ہم لوگ ابوہریرہ گرلس انٹر کالج، آزاد نگر بامبا روڈ پہنچے، جس کی ذمہ داری انیس بھائی بحسن خوبی نبھارہے ہیں، آپ کی عدم موجودگی میں یہاں ان کے چھوٹے بھائی مفتی حُمید مظاہری سے ملاقات ہوئی، آگے بڑھ کر مصافحہ کیا اور پھر ساتھ ہی پوری عمارت کا دورہ، یہ ایک دو منزلہ عمارت ہے جس میں اوپر نیچے دونوں منزلوں پر کلاس روم بنے ہوئے ہیں، اور تعمیری کام ابھی چل رہی رہا ہے، وقت کافی ہوگیا تھا، اور آج ہی اگرہ بھی پہنچنا تھا، کہ بھئی تاج محل کے دیدار کے لئے ہی سفر کی مشقتیں برداشت کی تھیں، شہزی کی کار سے ہم لوگ بس اسٹینڈ پہنچے اور وہاں سے بس کے ذریعہ آگرہ، فیروز آباد میں صہیب بھائی کے والد مولانا آدم مصطفی صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی، آپ حضرت مولانا شیخ یونس جونپوری رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز ہیں، مشہور ومعروف مقرر اور خطیب ہونے کے ساتھ اسلامیہ کالج میں اردو کے لیکچرار بھی ہیں، تیسرے نمبر کے چچا مولانا اعلم مصطفی یعقوبی صاحب ہیں، جو فیروزآباد میں ہی اسلامی اسٹڈیز سینٹر کے نام سے ایک ادارہ چلا رہے ہیں، مختلف رفاہی اور سماجی تعمیراتی کام انجام دیتے رہتے ہیں، اس سینٹر میں گریجویٹ لڑکے اور لڑکیاں ایک بڑی تعداد میں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں، شہزی نے بتایا کہ اسلامک سینٹر کہ ایک الگ عمارت مدینہ کالونی میں ہی تعمیر کروانے کا ارادہ ہے، زمین موجود ہے بس کام۔شروع ہونے کی دیر ہے۔
گھڑی کے ڈائل میں 11:20 ہوچکا تھا اور بس بھانت بھانت کے مسافروں کا بوجھ اٹھائے بے ہنگم آواز کے ساتھ اپنا فرض نبھانے کی کوشش کررہی تھی، ہماری سیٹ کے سامنے بیٹھا ایک نو عروس جوڑا ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے بیٹھا تھا، اور لڑکا کبھی اپنی جورو کی مشک افشاں زلف سے کھیلتا تو کبھی سرمایہء ناز کے کندھے پر سر رکھ کر کچھ گنگناتا، اور کبھی آس پاس سے بے پروا کسی وحشی کی طرح اسے خود سے چمٹانے کی کوشش کرتا، اور لڑکی ناک بھوں پر زور دیتے ہوئے کسی سلگتی ہوئی لکڑی کی طرح اینٹھنے لگتی، پچھلی سیٹ پر عابد بھائی اور ماہی ایک ادھیڑ عمر چچا کی باتوں سے لطف اندوز ہورہے تھے، جو منھ میں پان دبائے خود میں اتنے مگن تھے کہ باتوں کے ساتھ اگلے کے منھ پر پان کے لال چھینٹے بھی مار رہے تھے، اور بولتے بولتے ان کی آواز کسی غیر مرئی جذبہ سے مغلوب ہوکر کبھی اتنی بلند ہوجاتی کہ پاس بیٹھا شخص کان میں انگلی ٹھونسنے پر مجبور ہوجائے، ہماری آنکھیں اگلی سیٹ پر اٹک جارہی تھیں اور کان پچھلی سیٹ پر چچا کی دلچسپ گفتگو سے بندھے تھے:
طلسم خواب زلیخا و دام بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں


اسی سب کے بیچ گھنٹہ بھر سے کم وقفے میں ہم لوگ آگرہ پہنچ گئے، گاڑی رکی اور بس سے اترے ہی تھے کہ آٹو والے کسی عذاب کی طرح مسافروں پر ٹوٹ پڑے، ایسا لگنے لگا جیسے آدھا جسم یہ نوچ ہی لے جائیں گے، یا گود میں اٹھاکر آٹو میں بٹھا کر ہی دم لینگے، الاماں والحفیظ، عابد بھائی نے ایک آٹو والے سے جب تاج محل تک کا کرایہ پوچھا تو بس کانوں میں انگلی ٹھونسنا باقی رہ گیا تھا، ایک دو ماہ قبل عابد بھائی آگرہ کا چکر لگا آئے تھے، اس لئے یہاں کے حال سے واقف تھے، اور بس والے چچا نے بھی آگاہ کردیا تھا، ورنہ جیب تو کٹ ہی جانی تھی، کرایہ چار سو بتایا پھر کم کرتے کراتے معاملہ سو روپئے پر آٹکا، تو پیچھے سے کسی کا ٹانکا ہوا جملہ "سالے! بڑے حرامی ہیں" سن کر بے ساختہ ہنسی آگئی، اور سب ایک ایک کر کے آٹو میں ایڈجسٹ ہوگئے، ہم لوگ آٹو میں بیٹھے تاج محل کی طرف رواں دواں تھے، اور آگرہ کو یوں قریب سے دیکھنے کا پہلا اتفاق تھا، آگرہ کا تاج محل کے حوالے سے نام بھی بہت سنا اور قصے بھی، یہی شہر ہے جسے نظیر اکبرآبادی، میر تقی میر اور مرزا غالب جیسے شعراء کی جائے پیدائش سے خاص نسبت ہے، دریائے یمنا کنارے بسا ایسا شہر جس کی ایک ایک اینٹ تاریخ سے وابستہ ہے، جہاں سے مغل بادشاہوں نے سالہا سال تک زمام حکومت سنبھالا، اور اسی شہر نے شاہجاں کے ہاتھوں تاج محل، مغل گارڈن کے ساتھ نقاشی کے کام اور بہترین چمڑے کے علاوہ پیٹھے کی میٹھی سوغات بھی دی۔
دس سے بارہ منٹ کے وقفہ میں ہم لوگ تاج محل پہنچ گئے، اتر کر کرایہ ادا کیا اور صدر دروازے سے گزر کر شوق دیدار لئے آگے بڑھے، لیکن پھر دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ابھی یہاں سے کافی چلنا پڑے گا، اس لئے پاس ہی کھڑے ای رکشہ پر بیٹھنے ہی میں عافیت سمجھی، رکشہ والا کسی بَکَیت سے کم نہیں تھا، اس نے جو بولنا شروع کیا تو ایسا محسوس ہوا جیسے ٹیپ ریکارڈ یا کسی بچے نے قاعدے سے گاڑی میں چابی بھر کر چھوڑ دی ہو، البتہ بولنے کا لب ولہجہ ہمیں بہت بھایا اس لئے باتیں سماعت پر گراں نہیں گزریں، یہاں رکشہ والا ہو یا آٹو رکشہ والا باتوں کے معاملہ میں شاید سب کا یہی حال ہے، مغل گارڈن ہوتے ہوئے اس نے ہم لوگوں کو ایک مارکیٹ کے سامنے اتارا، اور پھر خود ہی تیز رفتاری کے ساتھ آگے آگے چلتا ہوا ایک شاپ پر لے گیا، اور ہم لوگوں کو دکاندار کے حوالے کردیا، اور اب دوکاندار کی زبان ہم لوگوں کی جیب کترنے کے لئے چلنا شروع ہوگئی تھی، لیکن ہم لوگ ٹہرے ڈھیٹ لکھنوی، اطمنان سے ایک ایک چیز دیکھنے کے ساتھ قیمت بھی دریافت کرتے رہے، یہاں پر دکاندار نے دو چیزیں ایک بیڈ شیٹ اور دوسری اوڑھنے والی چادر دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ سب جیل کے قیدیوں کے ذریعہ بنائی گئی ہیں جسے کیلے کے پتّوں اور بانس کے تاگے سے بُنا گیا ہے، اس کے استمعال سے مچھر دور ہی دور رہتے ہیں، نہ کاٹتے ہیں نہ قریب آتے ہیں، قیمت ہے سترہ سو، کپڑوں کے معاملے رافع بھائی زیادہ جانکاری رکھتے ہیں، کہ ان کا کاروبار ہی اسی کا ہے، انہوں نے دو چار شیٹس اور نکلوائیں، کبھی اسے پلٹ کر دیکھتے اور کبھی اسے، پھر ایکدم سے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا چلو چلیں، بس دیکھنا ہی تھا، ہم لوگ بھی مسکراتے ہوئے رکشہ میں آبیٹھے، مین گیٹ پر پہنچ کر کرایہ ادا کیا اور آگے بڑھے تو معلوم ہوا ٹکٹ آنلائن نکالنے پڑینگے، اور تبھی نیٹورک نہ ہونے کی خبر سن کر موڈ چوپٹ ہوگیا، خیر عابد بھائی کوشش میں لگ گئے اور ہم سب ٹامک ٹوئیاں مارنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے تھے، کیونکہ ابھی ٹکٹ کے بعد چیکنگ کی لمبی لائن سے بھی گزرنا تھا، اللہ اللہ کرکے ٹکٹ ہوگیا اور پھر چیکنگ کے مرحلہ سے گزر کر ہم لوگ لال پتھروں سے بنے ایک دروازے سے ہوکر تاج محل کے صدر دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے۔


تاج محل میں انٹر ہونے کے لئے ایک دروازہ ہے لیکن باہر نکلنے کے لئے دو دروازے مزید ہیں ایسٹ اور ساؤتھ، ساؤتھ والا دروازہ آپ کو تاج گنج مارکیٹ میں نکالے گا، ہم لوگ ستئی النساء سہیلی برج ہوتے ہوئے ویسٹ سے داخل ہوئے تھے، یہ چہار دیواری سے گھرا احاطہ ہے جس میں دونوں جانب خوبصورت پارک بنے ہوئے ہیں جن میں چھوٹے پودوں کے ساتھ سبز گھاس پھیلی ہوئی تھی، اور درمیان سے ایک راستہ اصل دروازے تک جاتا ہے، بمشکل چالیس قدم ہی چلے ہونگے کہ بائیں جانب نظر اٹھا کر دیکھا تو دیوار کے پیچھے سے تاج محل کی ہلکی سی جھلک بجلی کی طرح آنکھوں میں کوندی، اور اس غیر متوقع دیدار پر موٹی سی گالی بتّیس دانتوں کے درمیان پھنس کر رہ گئی، فرط شوق میں قدموں کی رفتار تیز ہوگئی اور ہم لوگ صدر دروازے تک پہنچ کر باہر ہی رک گئے، یہاں ہر طرف فوٹوگرافرز گلے میں کیمرا لٹکائے ٹہل رہے تھے، اور سیاحوں کی ایک بڑی تعداد ان شیریں لمحوں کو کیمرے میں قید کرنے کی کوشش کررہی تھی، عابد بھائی اور رافع طیب نے اپنے اپنے فون نکالے اور اب نہ تھمنے والا تصویروں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا، ہم لوگ تاج کے مرکزی دروازے کے سامنے تھے، یہ لال پتھر کا عالیشان دروازہ ہے جس میں خوبصورتی کے ساتھ سفید پتھر جڑے ہوئے ہیں، سنگ مرمر کے ہی ذریعہ اس میں نقاشی بھی کی گئی ہے، اور جگہ جگہ سبز و سرخ پتھر بھی نظر آرہے تھے، سب سے خاص بات یہ کہ دروازے کے تین اطراف میں جڑے سفید پتھروں پر سیاہ رنگ کے پتھر سے مکمل سورۃ الفجر دل موہ لینے والی خطاطی میں لکھی ہوئی ہے، خط ایسا ایک دوسرے سے مربوط ہے کہ پڑھنے میں ہم جیسوں کو تھوڑی سی دقت بھی پیش آئی لیکن اس عجب کاریگری کو دیکھ کر دل کے ساتھ دماغ بھی داد دئیے بغیر نہ رہا، دروازے کے سامنے کھڑے ہوکر جب چہرہ آسمان کی طرف کرینگے تو دروازے کے چاروں کونوں پر ایک ایک برج دکھے گا، جس کے گنبد سفید سنگ مرمر کے ہیں، اور دونوں برج کے درمیان سفید پتھر کے گیارہ چھوٹے چھوٹے گنبد اور گنبد کے ارد گرد ایک ایک مینار ہے، یہی منظر دروازے کے عقبی حصہ کا بھی ہے، اور جب اندر پہنچ کر دروازے کے بالکل سینٹر میں کھڑے ہو تو دائیں اور بائیں جانب سے اوپر جانے کے لئے دو دروازے ہیں، ساتھ ہی کچھ کمرے بھی بنے ہوئے ہیں، جن کی دیوار اور چھت پر سفید سنگ مرمر سے نقاشی کی گئی ہے اور جگہ جگہ سبز وسرخ رنگ کے پتھر بھی استعمال کئے گئے ہیں، چھت کی بناوٹ اندر سے گول ہے، جس میں ایک بے رنگ فانوس بھی جھول رہا ہے۔
دل حسرت کی تکمیل اور آرزو کے صلہ کے لئے کسی چھوٹے بچے کی طرح مچل رہا تھا، لیکن میرے اندر ہی کوئی تھا جو روک کر کہہ رہا تھا کہ بس یہیں سے واپس چلے چلو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نے تاج محل کی عظمت ورفعت اور سندرتا کا جو قلعہ اپنے اندر تعمیر کر رکھا ہے وہ ڈھیر ہوجائے، لیکن ڈھائی سو روپئے کا ٹکٹ یوں برباد تو نہیں کیا جاسکتا تھا، اس لئے دل کی دھڑکنوں کو قابو کرکے دماغ کو سمجھا بجھا کر اور سرگوشی کرنے والے کی سرگوشی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قدم تاج محل کی طرف بڑھادئیے، لمحہ نہیں گزرا کہ بلاواسطہ دیدار میں آنکھیں الجھ کر رہ گئیں، تاج محل اپنی تمام تر رعنائیوں اور شان و شوکت کے ساتھ اس پار جہاں پانی کا سلسلہ ختم ہوتا تھا خاموش کھڑا مسکرا رہا تھا، اور یہ موقع تھا جب شاعروں کی شاعری اور ادیبوں کا تخیل دم توڑتا نظر آیا، ہوش ربا حسن، نگاہوں کو خیرہ کردینے والا فسوں ساز منظر، دیواریں اوپر سے نیچے تک چاند کی چاندنی میں بجھی ہوئی، نہایت موزوں بلندی، بے نظیر استحکام، جگہ جگہ سیاہ سنگ مرمر سے آراستہ قرآنی آیات، تراش وخراش میں وہ صناعی گویا سانچہ میں ڈھالا ہے، بس دیکھتے رہو اور دیکھتے رہو، ایک لمحہ کو ایسا لگا جیسے چاند فلک سے زمین پر اتر آیا ہو، سب کے سب تاج محل کے حسن میں کھوئے ہوئے نظر آئے سو ہم بھی اس بھیڑ کا حصہ بن کر کسی کے خیالوں میں کھوگئے، اور جب عالم گمشدہ سے جیتی جاگتی دنیا میں واپس ہوئی تو بے ساختہ ساحر لدھیانوی کا یہ شعر زبان پر وارد ہوا:
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق


اور سب کے قہقہے اس زور سے بلند ہوئے کہ اندیشہ ہوا کہیں ان اذیت بھرے قہقہوں کی تاب نہ لاکر سندرتا کا یہ تاج محل زمین بوس نہ ہوجائے، اور پوری غزل خانۂ لاشعور سے شعور میں تیرنے لگی،
تاج تیرے لئے اک مظہر الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیئ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لئے تشہیر کا سامان نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں
میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
تاج محل بچپن سے اب تک دیوار پر لگے فریم، اخبار کے صفحات، نوٹ بُک کے فرنٹ پیج، چوک چوراہے پر لگے اشتہار، لفافوں کے پیکٹ، اَگربَتّی، موم بتی ماچس کی ڈبیا یا پھر نائی کی دکان کی خستہ حال دیوار پر جھولتے کلینڈ میں دیکھا تھا، یوں آنکھوں میں آنکھ ڈالے دیکھنے کا موقع پہلی بار مل رہا تھا اس لئے تاج محل کے روبرو ہونے کے باجود کسی طور یقین کرنا مشکل تھا، سب ہی پہلی دفعہ آئے تھے، رافع بھائی تو ایسے گھور کر دیکھ رہے تھے گویا آنکھوں کے وزن سے ہی اسے پیس ڈالنا چاہتے ہیں، اس پر فوق سب کچھ نظر انداز کرتے ہوئے گنگنارہے تھے
میں تیرے حسن کو نغمات کے سانچے میں ڈھالوں گا
تجھے تجھ سے چرالوں گا، تجھے تجھ سے چرالوں گا


وہ لمحے جب نگاہیں تاج محل سے چار ہوئی مانو زندگی کے طوفان میں ٹہری ہوئی موج تھے، شہر اجنبی تھا لوگ اجنبی تھے لیکن ایک مرحلہ شوق تھا جو ہر چیز کو مانوس کررہا تھا، تاج محل کے گرد بہت آدمی جمع تھے، کچھ نو عروس جوڑے، تو کچھ دنیا ومافیہا سے بے خبر ایک دوسرے کو محبت کے نغمے سنانے والے پریمی جوڑے، اور ان ہی میں اکّا دکّا ہم جیسے شدید کنوارے، جن کا نہ کوئی ماضی ہے اور نہ حال۔
مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی چند سیڑھیاں اترنے کے بعد بالکل سیدھ میں اس چھور سے اُس چھور تک نہر کی صورت میں پانی کا ایک طویل سلسلہ ہے، جس میں فوارے لگے ہوئے ہیں، نہر کے ارد گرد گھاس، اور ایک خاص شکل کے دلکش پیڑوں کی قطار ہے، اور اس سے ذرا ہٹ کر جانبین میں دو راستے ہیں جو آپ کو تاج محل پر اتارنے سے پہلے درمیان میں چوراہے کی شکل میں آپس میں ملتے ہیں، یہیں چبوترہ نما ایک حوض بنا ہوا ہے، اور دائیں بائیں مڑ جانے کی صورت میں آخری حد پر دو نوبت خانے ہیں، بائیں جانب بنے نوبت خانہ میں اس وقت میوزیم ہے، سو ہم لوگ آگے بڑھے اور چلتے ہوئے حوض تک پہنچے، یہ سطح زمین سے اونچا ایک بڑا حوض ہے جس کے کنارے لوگوں کے بیٹھنے کے لئے سنگ مرمر کی نشستیں بنی ہوئی ہیں، تاج محل کی سیر کرنے والا ہر سیاح ان نشستوں پر بیٹھ کر تصویر کھنچوانا فرض عین سمجھتا ہے، یہاں سے تاج محل کچھ الگ ہی نظر آیا، آنکھوں سے بھی اور کیمرہ کی نگاہوں سے بھی، جسے دیکھتے ہی عمران عاکف کا یہ قول کسی بجلی کی طرح آدھمکا کہ تاج محل کی رہی سہی چمک ان نظروں نے لوٹ لی جو رات دن اس پر پڑتی ہیں البتہ ان کا یہ کہنا کہ وہاں کچھ بچا ہی نہیں، تو ہم کہینگے شاید وہ آنکھوں پر بلیک گوگلس چڑھا کرگئے تھے اس لئے انہیں کچھ دکھا ہی نہیں، بھئی تاج کی خوبصورتی کی تو کوئی مثال نہیں، ہاں لیکن فیکٹری اور کارخانوں سے اٹھنے والے دھویں نے اس کے دھودیا جسم کو پیلے پَن میں تبدیل کردیا ہے اور چمک ماند پڑتی جارہی ہے، انہیں سب خیالات کے ساتھ تاج محل کے حوالے سے اقبال اشہر کی یہ نظم یاد آگئی
میں وقت کی دہلیز پہ ٹہرا ہوا پل ہوں
قائم ہے میری شان کہ میں تاج محل ہوں
بھولا ہے نہ بھولے گا کبھی مجھکو زمانہ
زندہ ہے میرے دم سے محبت کا فسانہ
پتھر کی عمارت ہوں مگر موم کا دل ہے
پونم کا حسین چاند میرے گال کا تِل ہے
کب میں نے کہا مجھکو نگاہوں میں بسالو
ممکن ہو تو زہریلی ہواؤں سے بچالو۔


وقت زیادہ ہورہا تھا اور سورج مغرب کی طرف جھکنے لگا تھا، یہاں سے فارغ ہوکر ابھی قلعہ کی طرف بھی رخ کرنا تھا، لیکن ایک تصویر کے چکر میں اس حوض پر تقریبا آدھا گھنٹہ ضائع ہوگیا، سیٹ سے ایک اٹھتا تو دوسرا آبیٹھتا، دوسرا جاتا تو تیسرا اس طرح لوگوں کا ایک تانتا بندھا ہوا تھا، جیسے ہی بیٹھنے چلو کوئی نَوبیاہتا یا پریمی جوڑا سر پہ کھڑا ہے، اور ہم ٹہرے لکھنوی! "پہلے آپ۔۔۔۔۔۔۔" کا فارمولہ یہاں پر مہنگا پڑگیا، اللہ اللہ کرکے ہم جیسوں کا نمبر آہی گیا، اور پھر یہاں سے اٹھ کر تاج محل کی طرف بڑھے، تاج محل کی عمارت سطح زمین سے کافی بلندی پر ہے، اور اس تک پہنچنے کا راستہ دائیں جانب سے کافی گھوم کر ہے، تاج محل کی تعمیر 17 ویں صدی میں مغلیہ سلطنت کے بادشاہ، اورنگزیب عالمگیر رحمہ اللہ کے والد شاہجاں نے اپنی بیگم ممتاز محل کی یاد میں کروائی تھی، جس کا نقشہ شاہجہاں نے خود تیار کیا تھا، اور ایک روایت کے مطابق عیسیٰ شیرازی نامی ایک ایرانی انجینئر نے، استاد احمد لاہوری کو اس کا معمار بتایا جاتا ہے، تاج محل کی تعمیر میں کُل پچیس سال کا طویل عرصہ لگا، جو کہ فارسی، ترکی، ہندوستانی، اور اسلامی طرز تعمیر کا ایک انوکھا ملاپ ہے، تاج محل کی تعمیر کے لئے دنیا بھر کے سولہ ممالک سے پتھر آئے تھے، جس کی پوری تفصیل اور ان کے نمونے تاج کے میوزیم میں موجود ہیں، تاج محل کا چبوترہ سطح زمین سے سات فٹ اونچا ہے، اور ہر کونے پر ایک عالیشان مینار ہے، جس کی لمبائی قطب مینار سے بھی چار یا پانچ فٹ زیادہ ہے، تاج محل میں ایک بڑا گنبد اور اس کے ارد گرد چار چھوٹے گنبد کے ساتھ ساتھ تقریبا سولہ چھوٹے مینار تاج کی دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں، اس کے علاوہ دیواروں، پردوں، قبروں اور محرابوں پر خوبصورت سیاہ پتھر سے پچی کاری کی گئی ہے، اور گونا گوں رنگ کے قیمتی پتھروں سے آراستہ کیا گیا ہے، ساتھ ہی دروازوں پر قرآن مجید کی لکھی گئی سورتیں فن کاری، مہارت اور خطاطی کا اعلی نمونہ ہیں، مقبرہ میں داخل ہونے کے لئے چہار جانب سے ایک ایک دروازہ ہے، لیکن فرنٹ گیٹ سے ہی عموما داخلے کی اجازت ہے، باقی تین دروازے بند ہی رہتے ہیں، یہ دروازے محراب کی شکل میں بنے ہیں، اور ان ہی میں چھوٹے چھوٹے دروازے ہیں، چاروں دروازوں کے بیرونی حصہ پر ٹکڑوں میں سورہ یس لکھی ہوئی ہے، جو فرنٹ گیٹ سے شروع ہوکر مہمان خانے کی جانب بنے دروازے سے ہوتے ہوئے مسجد کے سمت ختم ہوتی ہے، اور چھوٹے دروازوں پر سورۃ التکویر(اذا الشمس کورت)، سورۃ الانشقاق(اذا السماء انشقت)، اور سورۃ الانفطار(اذا السماء انفطرت) خوشخط انداز میں لکھی ہوئی ہے، جسے دیکھ کر حیرت پیچھا نہیں چھوڑتی، چوتھے دروازہ پر کونسی سورہ لکھی تھی ذہن میں نہیں ہے۔
تاج محل کی جانب چہرہ کرکے کھڑے ہو تو بائیں جانب مسجد ہے، اور بالکل اسی طرح دائیں جانب مہمان خانہ کی عمارت ہے، البتہ اس میں بیت اللہ کے سمت نشاندہی کرنے والا نہ محراب ہے، نہ منبر، نہ مصلے اور نہ ہی قرآن کی آیات لکھی ہیں، مسجد اور مہمان خانہ پر تین سنگ مرمری گنبد ہیں جس میں درمیان والا بڑا ہے اور اس کے دائیں بائیں دو گنبد ہیں جو وسط والے سے نسبتا چھوٹے ہیں، ہر کونے پر ایک چھوٹا برج بنا ہوا اور سامنے کے حصہ میں قد آدم سے کم چار چھوٹے مینار ہیں، دونوں عمارتیں لال پتھر سے بنی ہوئی ہیں البتہ گنبد اور برجیاں سفید سنگ مرمر کی ہیں، داخل ہونے کے لئے سات دروازے ہیں، جن میں سے تین فرنٹ پر اور دو دو دائیں بائیں، جن پر سفید سنگ مرمر اور سبز سرخ رنگ کے پتھروں سے پچی کاری کی گئی ہے، مسجد کی محراب سفید سنگ مرمر سے آراستہ ہے اور اس کے اطراف میں سورۃ الشمس لکھی ہوئی ہے، اوپری حصہ میں جگہ جگہ قرآنی آیات اور تسبیحات دلکش انداز میں لکھے گئے ہیں، مسجد کے درمیان صحن میں ایک حوض بھی ہے، اور تاج محل کے پچھلے حصہ پر جمنا کسی چنچل دوشیزہ کی طرح چھل بل دکھاتی دلفریب منظر کے حسن میں اضافہ کرتی ہے، جیسے جیسے تاج محل سے قریب ہوتے رہے شدت سے کنوارے پن کے ساتھ ساتھ سنگل ہونے کا احساس بھی تیز ہوتا رہا، یہاں سے وہاں تک سَسُرا ہر آدمی اپنی ممتاز کی بانہوں میں جھولتا نظر آیا، جسے دیکھ کر جب واصل بھائی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو کہنے لگے یار یہاں ایک نیا قانون لاگو ہونا چاہئے کہ کنواروں کے ساتھ نوبیاہتا یا پریمی جوڑے بالکل الاؤ نہیں، بلکہ دونوں کی انٹری ٹائمنگ الگ ہو، تاکہ کم از کم یہاں تو ہم جیسوں کے جذبات سے کھلواڑ نہ ہو، بات سہی تھی یا غلط اس کا فیصلہ تو نہ ہوسکا، البتہ اس جملے نے ہمارے اور تاج محل کے درمیان خالی جگہ کو ایک زوردار قہقہے سے ضرور بھر دیا۔
مسجد سے ہوکر کچھ دیر جمنا کا نظارہ کرتے رہے اور پھر دھیرے دھیرے شاہجہاں ممتاز کے مقبرہ کی طرف بڑھے، مقبرہ تک پہنچنے کے لئے دو دروازے ہیں، پہلے دروازے سے داخل ہوتے ہی سامنے چوڑائی میں پتھروں سے تھوڑی جگہ گھیری ہوئی ہے، یہ تہہ خانے میں موجود اصل قبر تک جانے کا راستہ ہے جو اکثر بند ہی رہتا ہے، اور اس کے بعد سنگ مرمر کا ایک اور دروازہ جو آپ کو مصنوعی قبر تک لے جاتا ہے، مقبرہ کے گرد منقش سنگ مرمر کی دیواریں اور اس سے پہلے ریلنگ لگی ہوئی ہے، اندر جانے کی اجازت نہیں ہے، سامنے وسط میں ممتاز کی قبر ہے اور بائیں جانب شہاجہاں مدفون ہیں، قبر اور اردگرد کی دیواریں جو کہ محراب کی شکل میں ہیں، قرآن کریم کی آیات اور سورتوں سے مزین ہیں، اندر پہنچے تو دیکھا کبوتر کا ایک جوڑا ممتاز کی قبر پر سیاحوں سے بے پروا بیٹھا غٹرغوں کررہا ہے، رافع طیب نے یہ منظر دیکھتے ہی فورا اسے ممتاز کی قبر پر شاہجہاں کی محبت کے اظہار سے تعبیر کیا، جی تو چاہا کہ اس منظر کو کیمرے میں قید کرلیں، لیکن یہاں تصویریں کِلک کرنا اور ویڈیوز بنانا منع ہے، اس لئے کچھ دیر ٹہر کر اس منظر کو دیکھ تو سکتے ہی تھے، لیکن جیسے کبوتر کے جوڑے نے ہماری نظروں کو محسوس کرلیا اور جھٹ پَروں کو پھڑپھڑاتے ہوئے کسی گوشہ میں جا بیٹھا، ایک گارڈ یہاں پر کھڑا مسلسل لوگوں کو آگے بڑھنے کے لئے کہتا رہتا ہے، اس لئے بس ایک اچٹتی سی نظر ہی ڈال سکے، جس کا افسوس ہے، اور جلد ہی فاتحہ پڑھ کر باہر نکل آئے،
گوشے میں اسی قصر کے دو دل ہیں ہم آغوش
شعلے ہیں مگر، مصلحت وقت سے خاموش


گھڑی کے ڈائل پر نظر ڈالی اور تاج میوزیم پہنچے، داخل ہوتے ہی سامنے ایک چھوٹا سا ہال، تین محراب والا برآمدہ اور اس کے دونوں طرف کمرے ہیں، اوپر ایک چھتری نما برج ہے جس کا اوپری حصہ سنگ مرمر کا ہے، یہاں شاہجاں کی تصویر، چند ایک تاریخی دستاویز، مہریں، سونے چاندی کے سکے، جنگی سامان جیسے نیزے، تلواریں، بھالا، ڈھال اور کچھ فارسی مخطوطوں کے علاوہ تاج محل سے متعلق بہت سی معلومات درج ہے، کیمرہ کے استعمال کی یہاں بھی اجازت نہیں ہے، تھکن کافی ہوگئی تھی اس لئے پیروں کو سکون دینے کے لئے خیالات کی ردا اوڑھے تاج محل کے احاطہ میں قرینے سے لگے فرختوں کے سایہ میں بہت دیر تک بیٹھے رہے، نگاہیں کبھی کسی حسینہ کی مخروطی انگلیوں جیسے طویل خوبصورت مناروں سے ہوکر پیڑ کی شاخوں کے پیچھے سے جھانکتے سفید گنبد کو بوسہ دیتیں تو کبھی سفید سنگ مرمر سے بنی اس نادر عمارت کو سلام پیش کرتیں جس میں محبت کا رمز پوشیدہ ہے، جس پر نگاہ ڈالتے ہی سیاح عش عش کرنے لگتے ہیں، اور اس کے حسن و کمال فن پر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں، ساڑھے تین گھنٹے برف کی طرح پگھل گئے اور پتا ہی نہیں چلا، نہ چاہتے ہوئے اٹھنے کا ارادہ کیا اور اسی دوران انیس بھائی کی کال آگئی، آج رات میں انیس بھائی کا شہر کی کسی مسجد میں درس قرآن تھا، جس میں چلنے کے لئے انہوں نے کل رات ہی کہا تھا، اور ہم نے سب کے چہرے کا ہاؤ بھاؤ دیکھتے ہوئے منھ پھیر کر ہامی بھرلی تھی، جیب سے فون نکال کر کال رسیو کی، اور سلام کے بعد بھائی کا پہلا سوال تھا ابھی کہاں ہو، تاج محل میں ہیں ادھر سے جواب دیا گیا، اور ادھر سے انہوں نے کچھ اور باتیں پوچھ کر کال ڈسکنکٹ کردی، اور ہم نے خود کو تسلی دی، کہ یار چلو اچھا ہوا درس قرآن میں شرکت سے متعلق کچھ نہیں کہا، جلدی سے تاج محل کے احاطہ سے باہر نکل کر رکشہ کیا اور آگرہ قلعہ پہنچے۔
آگرہ قلعہ تاج سے بمشکل دو ڈھائی کلو میٹر ہے، راستہ میں ایک جگہ رک کر کچھ سامان خریدا اور پندرہ منٹ میں ہم لوگ قلعہ کے عالیشان دروازے پر تھے، اسے لال قلعہ بھی کہا جاتا ہے، یہ مغلیہ سلطنت کا سب سے اہم قلعہ رہا ہے، یہیں بابر، ہمایوں، اکبر، جہانگیر، شاہجہاں جیسے سلاطین رہائش پذیر رہے اور سارے ہندوستان پر حکومت کی، یہ لال پتھروں سے بنا ایک خوبصورت اور شاندار قلعہ ہے، جس کے چاروں طرف طویل وعریض فصیل ہے، اور ایک گہری نہر ہے جو اب خشک ہے، صدر دروازے کی طرف رخ کرکے کھڑے ہو تو گیٹ کے دونوں طرف بغیر چھتری کے دو بڑے برج بنے ہوئے ہیں، دیکھ کر معلوم ہوا کہ یہ قلعہ دہلی کے لال قلعہ سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے، وقت کی کمی شدت سے کَھل رہی تھی، اور افسوس ہورہا تھا کہ پہلے یہاں کیوں نہ آگئے، خیر سے یہاں بھی آنلائن ٹکٹ کا جھمیلا تھا، ایک تو نیٹورک نے عاجز کر رکھا تھا، اس کے اوپر یہ کہ اللہ اللہ کرکے کسی طرح ٹکٹ ہوا بھی تو ہڑبڑاہٹ میں دہلی کے لال قلعہ کا، بس دیوار سے ٹکرا کر سر پھوڑنا رہ گیا تھا، اسی سے ملتا جلتا ایک تجربہ پہلے دہلی میں ہوچکا تھا، کہ عابد بھائی کرنٹ کے بجائے اگلے دن کا ٹکٹ غلطی سے نکال بیٹھے تھے، اس واقعہ کے پیش نظر احتیاط کے باجود یہاں تو بس حد ہی ہوئی تھی، پیسوں کا افسوس الگ، گھڑی کی ٹک ٹک الگ، مانو سوئیاں جیسے ریس کرنے میں لگی ہوئی ہوں، ٹکٹ نے تقریبا پچیس منٹ بغیر گلا تر کئے نگل لئے تھے، اب بس ایک گھنٹے کا وقت تھا، اور دسیوں ایکڑ میں پھیلا قلعہ دید کا منتظر، سیکورٹی کی فارمیلٹیز سے گزر کر ہم لوگ اندر قدم رکھ چکے تھے۔
آگرہ کا یہ قلعہ اپنے رقبہ کے اعتبار سے دہلی کے لال قلعہ کے مقابل کئی گنا بڑا ہے، جبکہ اس کا پچھتر فیصد حصہ آرمی کے انڈر میں ہے، اور محض پچیس فیصد حصہ سیاحوں کے لئے، قلعہ میں داخل ہونے کے لئے یکے بعد دیگرے چار دروازے ہیں، سامنے ہی لال پتھر سے بنا ایک بڑا دروازہ تھا، جو امر سنگھ دُوَار سے موسوم ہے، امر سنگھ دروازے سے داخل ہوتے ہی سامنے ایک بڑا احاطہ ہے اور راستہ کے دونوں کناروں پر کھجور کے خوبصورت درخت قطار سے کھڑے ہیں، راستہ سے ہٹ کر دائیں ہاتھ پہ خالی جگہ ہے جسے سبز گھاس نے بھر رکھا تھا، اور بائیں جانب عالیشان دروازہ، اور سامنے کی جانب عمارت میں چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے ہیں، یہ دروازہ اپنی بلندی اور خوبصورتی دونوں میں دیگر دروازوں کو مات دیتا ہے، جس پر مختلف رنگوں کے مٹے ہوئے نقوش صاف نظر آتے ہیں، دروازہ کے دونوں جانب اوپر کی سمت دو برج ہیں، اندر داخل ہوتے ہی دروازے سے متصل جانبین میں بہت سے کمرے بنے ہوئے ہیں، اور سامنے ڈھلان کی مانند نہایت کشادہ راستہ ہے، جس کے گرد لال لکھوری اینٹوں کی اونچی دیوار بنی ہوئی ہے اور پھر ایک اونچا دروازہ ہے جو قلعہ کے اندرونی حصہ میں پہنچاتا ہے، اندر پہنچتے ہی دائیں سمت گھوم کر کھڑے ہو تو سامنے جہانگیری محل (اکبری محل) نظر آتا ہے، لال پتھروں سے بنے اس محل کی دیواروں پر جگہ جگہ سفید سنگ مرمر کے گل بوٹے اور دلکش ڈیزائن بنی ہوئی ہے، اور دونوں کناروں پر ایک ایک برج ہے، یہ محل مغلیہ سلطنت کی شاہی خواتین کے رہنے کے لئے مخصوص تھا جو مغل سلاطین کی راجپوت بیویوں کے زیر استعمال رہا، محل کے بالکل سامنے دروازے سے ذرا پہلے بھاری بھرکم پتھر سے بنا کٹورے کی مانند جہانگیر کا باتھ ٹب رکھا ہوا ہے، جس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کہیں بھی جوڑ نہیں ہے، اور پورا ٹب ایک ہی پتھر کا بنایا گیا ہے، ٹب میں اترنے کے لئے اندر کی جانب دو تین زینہ بھی بنے ہوئے ہیں، ہم لوگ تیزی سے چلتے ہوئے مین گیٹ سے گزر کر ایک چھوٹی راہداری سے ہوتے ہوئے محل کے اندر صحن میں پہنچے، یہاں دیکھنے لائق بہت کچھ تھا، یہ محل دو منزلہ ہے، نچلے حصہ میں دائیں بائیں آمنے سامنے پانچ دروں والے دو بڑے ہال ہیں، جس میں سے ایک جہانگیر کا بیڈ روم اور دوسرا ڈائیننگ ہال بتایا جاتا ہے، دوسری منزل پر کمرے اور ہال کے بجائے چاروں طرف کُل اسّی کھڑکیاں ہیں، جو محل میں کسی پروگرام کے دوران بادشاہ کے مصاحبوں کے زیر استعمال رہتی تھیں۔
وقت کی قلّت شدّت سے محسوس ہورہی تھی اور موبائل بھی اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہا تھا، اس حال میں ہر چیز پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا، لہذا اندر ہی کے راستوں سے جہانگیری محل کے پشت پر بنے روشن آراء پیلس پہنچے، یہ جگہ پالکی کے شیپ میں بنی ہوئی ہے، اور اوپری حصہ سنہرا ہے، جس پر کسی زمانہ میں سونا لگا ہوتا تھا، کہتے ہیں انگریزوں نے حملہ کے دوران سونا نکال لیا اور اس کی جگہ نقلی چادر فٹ کردی، روشن آراء پیلس سے متصل جہان آراء پیلس ہے، یہ عمارت سفید سنگ مرمر سے بنی ہوئی ہے، چھت اور دیواروں پر نقش ونگار بنے ہوئے ہیں، اس عمارت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی ڈیزائن میں سونا پگھلا کر پینٹ کیا گیا تھا، اور جب سورج کی کرنیں کمرے کا رخ کریں تو پورا کمرہ جگمگا اٹھتا، لیکن انگریزوں کی لالچ بھری سیاہ نگاہوں کی تپش نے اس کا حسن بھی لوٹ لیا، جہان آراء پیلس کے سامنے ہی مشہور زمانہ انگوری باغ ہے، انگور کا یہ باغ چار حصوں میں ہے، اور اس میں خاص قسم کے سرخ پتھر کی کیاریاں بنی ہوئی ہیں، باغ کے درمیان میں سنگ مرمر کا ایک چبوترہ بھی بنا ہوا ہے، انگوری باغ کے تین اطراف میں بہت سے کمرے ہیں جو کہ شائد کبھی بادشاہ کے خاص مصاحبوں کے ہوا کرتے تھے، یہاں سے آگے بڑھے اور تہہ خانہ و پھانسی گھر سے گزرتے ہوئے شیش محل پہنچے جسے اب بند کردیا گیا ہے، لی گئی معلومات کے مطابق اس کی چھتوں اور دیواروں پر کانچ کے ٹکڑے لگائے گئے تھے، جنہیں سیریا کے شہر حلب سے منگوایا گیا تھا، کہتے ہیں اندھیرے کمرے میں شیشہ کے سب سے پہلے ٹکڑے پر روشنی پڑتے ہی کمرہ ہزاروں کرنوں کی طرح چمکتا اٹھتا تھا۔
شیش محل کو باہر ہی سے دیکھ کر ہم لوگ اس جگہ پہنچے جہاں شہنشاہ جہانگیر نے سن 1605 عیسوی میں "زنجیر عدل" لگوائی تھی، اس زنجیر سے متعلق بہت سے قصے کہانیاں پڑھ رکھے تھے، زنجیر نہ سہی وہ جگہ دیکھنا نصیب ہوگئی، جو ہندوستانی تاریخ میں مثالی حیثیت رکھتی ہے، یہ زنجیر مکمل سونے کی بنی تھی، جس کی لمبائی اسّی (80) میٹر ہوا کرتی تھی، ساتھ ہی اس میں ساٹھ گھنٹیاں لگی ہوئی تھیں، اور پوری زنجیر کا وزن ایک کوئنٹل تھا، جس کا ایک کنارہ شاہ برج کے کنگورے سے بندھا ہوا کرتا تھا تو دوسرا ندی کنارے پتھر کے ایک کھمبے سے، یہاں سے نکل کر مسمّن برج پہنچے، جسے شاہی برج بھی کہا جاتا ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں اورنگزیب عالمگیر رحمہ اللہ نے اپنے والد شاہجہاں کو آٹھ سال تک قید رکھا، اور یہیں ان کی موت ہوئی، یہ سنگ مرمر سے بنی آٹھ کونوں کی عمارت ہے، جس کے پانچ حصے دالان کی شکل میں ندی کی جانب نکلے ہوئے ہیں، جس میں دروازے اور کئی کمرے ہیں، ٹھیک یہیں شاہی جھروکا بھی بنا ہوا ہے، مغرب کی طرف ایک بڑی دالان ہے جس میں شاہ نشیں بنے ہوئے ہیں، اور اس کے فرش میں ایک کنڈا بنا ہوا ہے، ساتھ ہی فرش میں دلکش نقش ونگار بنے ہوئے ہیں، اس دالان کے بعد ایک صحن ہے جس کے شمال میں ایک جالی دار چبوترا ہے، مغرب میں بہت سے کمرے بنے ہوئے ہیں، اور جنوبی حصہ میں کھنمبوں دار دالان ہے، دیواروں اور کھنمبوں میں نقاشی کی گئی ہے اور جگہ جگہ بیل بوٹے اوکیرے گئے ہیں، جو خوبصورتی میں سونے پہ سہاگا کا کام کرتے ہیں، یہ شاندار محل آگرہ قلعہ کے سب سے اونچے برج پر بنا ہے، جہاں سے تاج محل کا دل موہ لینے والا منظر آنکھوں میں سما جاتا ہے، اسی شاہی برج (مسمّن محل) سے متصل سنگ مرمر کی مینا مسجد ہے، جسے شاہجہاں نے تعمیر کروایا تھا، اور کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران وہ یہیں اپنی نماز بھی ادا کیا کرتا تھا۔
یہاں سے ہلکا سا آگے بڑھے اور اب ہم لوگ دیوان خاص میں تھے، اس میں چوبیس کھمبے، پانچ دَر سامنے سے اور تین تین دائیں بائیں سے، اسے شاہجہاں نے سن 1635 عیسوی میں تعمیر کروایا تھا، یہ ایک چھوٹی سی عمارت ہے لیکن اس کے سامنے ایک بڑا صحن ہے، جس پر بس آسمان کی چادر تنی ہوئی ہے، یہاں سے آپ کو تاج محل صاف نظر آئیگا، تاج محل کی جانب رخ کرکے کھڑے ہونگے تو دائیں جانب دیوان خاص، اور پشت پر لال پتھر سے بنی دو منزلہ تین رویہ عمارت ہے جس میں دالان، لاتعداد کمرے، کھمبے اور دَر بنے ہوئے ہیں، کہتے ہیں اسی عمارت میں سلطنت مغلیہ کی خواتین کے لئے بازار لگا کرتی تھی، اور درمیان میں وسیع و عریض گرین گارڈن ہے، دیوان خاص کے سامنے جو کھلی جگہ ہے اس میں آمنے سامنے ایک کنارے پر سفید اور دوسرے کنارے پر سیاہ سنگ مرمر کے دو تخت رکھے ہوئے ہیں، اس طرح کہ سیاہ سنگ مرمر کے تخت پر بیٹھو تو تاج محل آپ کی پشت پر ہوگا، یہ تخت شہزادہ سلیم (شہنشاہ نورالدین جہانگیر) نے سن 1605ء عیسوی میں الہ آباد میں بنوایا تھا، جو 1610 میں الہ آباد سے آگرہ لایا گیا اور محل میں رکھا گیا، جہانگیر نے اس تخت کے متعلق خود لکھا ہے کہ "یہ سگ مہک اور کسوٹی کے پتھر کا بنا ہے، جو چمکدار کالے رنگ کا ہے، جس کی لمبائی 10۔07، چوڑائی 09۔10 اور موٹائی 6 ہے، اس کے چار پائے ہیں جو 01۔04 اونچے ہیں، اور یہ تخت ایک ہی پتھر سے بنا ہے" اس تخت کے کناروں پر فارسی میں ایک عبارت بھی کندہ ہے، البتہ انگریزوں نے جب حملہ کے دوران توپ کا گولہ مارا تو وہ اس تخت پر گرا جس کی وجہ سے اس میں ایک اچھی خاصی دراڑ پڑچکی ہے، یہیں پر پاس میں شاہی حمام بھی ہے، جسے بادشاہ اکبر نے بنوایا تھا، لی گئی معلومات کے مطابق اس کے چھت پر تین تالاب ہیں جن کو ندی کے پانی سے بھرا جاتا تھا، اور چھت پر بنے ان تالابوں سے پانی دیوار میں پوشیدہ مٹی اور تانبے کے پائپ اور کھلی نالیوں کے ذریعہ نگینہ مسجد، شیش محل اور مسمّن برج (شاہی برج) کے فوّاروں، جھرنوں اور تالابوں تک لے جایا جاتا تھا۔
دیوان خاص میں دو چار تصویریں اتاریں، اور نگینہ مسجد پہنچے، لیکن دروازے پر لٹکتے تالے نے قدموں میں زنجیر ڈال دی، یہ مسجد مغل بادشاہ شاہجہاں نے 1635 عیسوی میں حرم کی خواتین کے لئے سفید سنگ مرمر سے تعمیر کروائی، یہ چھوٹی سی مسجد انتہائی سادہ اور خوبصورت ہے، دیواروں پر نہ کوئی بیل بوٹے بنے ہیں نہ نقش ونگار، دروازے کی جھُرّی سے آنکھیں اندر انڈیل کر دیکھا تو اس سے زیادہ کچھ نہیں معلوم ہوسکا کہ اس کے تین طرف آنگن ہیں، ایک گوشہ میں وضو کے لئے حوض بھی بنا ہوا ہے، مسجد کے اوپر تین گنبد ہیں، جس میں درمیان والا اونچا اور بڑا ہے، ارد گرد ایک ہاتھ کے پانچ چھ چھوٹے مینار ہیں، گنبد اور مینار باہر کے حصہ سے صاف نظر آتے ہیں، کچھ ہی دیر میں ہم لوگ ایک زینہ سے اتر کر چلتے ہوئے دیوان عام پہنچے، اسے بھی شہنشاہ شاہجہاں نے بنوایا تھا، اور انگریزوں نے اپنے دور میں اس عمارت کو گولہ بارود کا بھنڈار بنادیا، یہ 208 فٹ لمبا اور 76 فٹ چوڑا ایک ہال ہے، سامنے کی طرف نو اور سائڈ سے تین در بنے ہیں جس میں دہرے کھمبے (پلر) ہیں، اس طرح پورے ہال میں ساٹھ پلر ہیں، جنہیں ایک خاص طرز پر بنایا گیا ہے، ہال کے اندر کھڑے ہوکر دیکھینگے تو سارے پلر الگ الگ نظر آئینگے اور ایگزٹ گیٹ ہاف دکھے گا، لیکن جب آپ اسی دروازے سے داخل ہوکر چہرہ دیوان عام کی طرف کرینگے تو سارے پلر ایک رَو میں نظر آئینگے، اور شہنشاہ کے بیٹھنے کی جگہ بالکل سامنے نظر آئیگی، ہال میں سنگ مرمر کا ایک تخت رکھا ہوا ہے، اور اسی کے اوپر اونچائی میں تین محرابی شاہ نشین ہے، جو چھوٹے رنگین پتھروں کے نقش ونگار سے آراستہ ہے، یوں تو یہ عمارت لال پتھر کی ہے، لیکن اس پر اندر باہر سیپ کا سفید پلستر چڑھا ہوا ہے، جو دور سے دیکھنے پر سنگ مرمر معلوم ہوتا ہے، دیوان عام کے چاروں جانب محراب دار دالان ہے، اور سامنے ایک بڑا میدان ہے جہاں چھوٹے ہرے بھرے کئی پارک ہیں، جن کے درمیان سے راستہ گزرتا ہے، دیوان عام کے سامنے ایک طرف برٹش توپ رکھی ہوئی ہے اور دوسری طرف John Russell Colvine کی قبر ہے، جو کسی دھبہ سے کم نہیں۔
دیوان عام کے بائیں جانب "رَتَن سنگھ" کی حویلی، مینا بازار، موتی مسجد اور خزری دروازہ ہے، لیکن اس طرف انٹری نہیں ہے، اس لئے ہم لوگ بوجھل قدموں کے ساتھ دائیں جانب ایگزٹ گیٹ کی طرف بڑھے، لکڑی کا بھاری بھرکم یہ دروازہ بھی اپنی مثال آپ ہے، چھت میں بے نور اور بے رنگ فانوس جھولا کرتے ہیں، ساتھ ہی دسیوں کمرے اور محراب ہیں، جن میں لکڑی کے خوبصورت دروازے لگے ہوئے ہیں، دروازے کے سائے میں ٹہر کر بگڑتی سانسوں کو ترتیب میں کرنا چاہا، لیکن گارڈ کی ہنکار شروع ہوچکی تھی، اس لئے ٹہرنے کے بجائے باہر کا رخ کیا، شام کا جھٹپٹا بھی چھانے لگا تھا، شہر تو دیکھا ہی نہ تھا، اور اب اتنی ہمت نہ تھی کہ آگرہ کے بازار کی خاک چھانی جائے۔
گھڑی کی سوئیاں معمول کے مطابق اپنے دائرے میں طواف کررہی تھیں، اور رات دبے پاؤں شہر بھر کو تاریکی کی دبیز چادر میں لپیٹے لے رہی تھی، فیروز آباد بھی ابھی واپس ہونا تھا، اور دوپہر کا کھانا سیاحت کی نظر ہوچکا تھا، خالی پیٹ روٹی کا متقاضی تھا، قلعہ سے نکل کر اسی کشمکش میں تھے کہ اب کہاں؟ میری شہزی سے پہلے ہی بات ہوچکی تھی، لہذا صدر مارکیٹ جانے کے لئے آٹو کیا اور چل پڑے، خیر سے رافع طیب کے کہنے پر ہم لوگوں نے بیٹھتے ہی ماسک لگالیا، کیونکہ کچھ پتا نہیں کہاں پولیس والے "چالان کاٹو" مہم چھیڑ دیں، اور بیٹھے بیٹھے جیب ہلکی ہوجائے، ابھی کچھ ہی دور پہنچے تھے کہ ایک چوراہے پر پولیس والوں نے روک لیا، ہم لوگ تو ماسک کی بنا پر صاف بچ گئے اور شامت آٹو ڈرائیور کی آگئی، پولیس والے نے کاغذات طلب کئے جو اس نے نہیں دئیے، ڈرائیونگ لائسنس مانگا تو اس نے کہہ دیا کہ گھر پہ رکھا ہے، جس پر پولیس والے نے گِن کر چار گالیاں دیں اور پھر سائڈ میں لے گیا، کچھ ہی دیر میں آٹو ڈرائیور پھیکی سی مسکان لئے واپس آیا، جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ چھٹکارا تو مل گیا لیکن چونا لگ گیا، آٹو اسٹارٹ ہوکر آگے بڑھا تو واصل بھائی نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگا اس نے اپنا فون نمبر دیا ہے جس پر سو روپئے کا ریچارج کروانا ہے، اور پھر اس کے منھ سے گالیوں کی برسات شروع ہوگئی، اس کے علاوہ کیا بھی کیا جاسکتا تھا خیر!


کچھ ہی دیر میں اس نے ہم لوگوں کو صدر مارکیٹ کی بھیڑ میں اگل دیا اور چلتا بنا، دکان کی لائٹوں سے روشن سڑک پر ایک گہری نظر ڈالی اور سمت کا تعین کرکے قدم بڑھائے، چائے کی چاہ شدت سے محسوس ہورہی تھی، چلتے ہوئے ابھی چوراہے تک ہی پہنچے تھے کہ وہیں پر کُلّہڑ والی چائے کی ایک دوکان نظر آگئی، بس پھر کیا تھا
کسی تاخیر کے بغیر ہم پانچوں براجمان تھے، اور پھر پورے دن کی تکان چائے کی ایک کپ میں سمٹ کر رہ گئی، بھوک اب مرچکی تھی، اور کھانے کی ذرا بھی خواہش نہیں تھی، گپ شپ جاری تھی کہ انیس بھائی کی کال آگئی، ریسو کرکے فون کان سے لگایا، اور وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، ہنستے ہوئے کہنے لگے بیٹا تم نے بہت دماغ لگایا، ہیں! اسی لئے دیر کی تاکہ درس قرآن میں نہ جانا پڑے، بے ساختہ ہمیں بھی ہنسی آگئی، اور ہم نے چاروں کی دبی دبی ہنسی میں یہ بولتے ہوئے صاف دامن بچانا چاہا کہ ارے بھائی ہمارا تو درس قرآن میں شرکت کا مکمل ارادہ تھا، لیکن کیا کریں دیر ہوہی گئی، انشاءاللہ آئندہ پھر کبھی، یہ سن کر وہ بھی ہنسنے لگے اور ہم لوگوں کی کرنٹ لوکیشن دریافت کرنے کے بعد فیروزآباد واپسی کا پوچھا، اور کھانا ساتھ میں کھانے کی تاکید کرکے فون رکھ دیا، ساڑھے چھ ہوچکا تھا، چائے کے پیسے ادا کئے اور آگے بڑھے، کچھ خریدنا تھا نہیں، بس دیکھنا ہی دیکھنا تھا، آگرہ کے بازار بھی لکھنؤ کے بازار ہی کی طرح تھے بس وہاں جگہ جگہ آگرہ کے پیٹھے کی دکانیں کثرت سے تھیں، آگرہ آکر پیٹھے سے محرومی شرم کی بات ہے، سو ایک دکان کا انتخاب کیا اور اندر پہنچے، یہاں دسیوں قسم اور رنگ کے پیٹھے رکھے ہوئے تھے، روایتی پیٹھا ہلکا پیلا یا سمندر کے پانی کے رنگ کا ہوتا ہے اور آگرہ میں یہ بڑے پیمانے پر تیار کیا جاتا ہے، وقت کے ساتھ پیٹھے کی شکل و صورت بھی بدل گئی ہے اور اب یہ کئی رنگوں اور ذائقوں میں ملنے لگا ہے، قیمت دریافت کی اور ڈبے پیک کراکر آگے بڑھے۔
فیروزآباد واپسی کرنی تھی، گھڑی پر ایک نظر ڈالی اور چلتے ہوئے اسی چوراہے پر آکھڑے ہوئے جہاں چائے پی تھی، یہاں سے ہم لوگوں کو بجلی گھر جانا تھا، اور وہیں سے فیروزآباد واپسی، ای رکشہ والے کو روک کر کرایہ پوچھا، جسے سن کر عابد بھائی نے کہا آگے بڑھو، کیونکہ نیا نیا دیکھ کر یہ لوگ قاعدے سے بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں، آگے بڑھنے کے بجائے اس نے کہا بھائی کتنے دوگے؟ بھائی نے اپنا حساب بتایا تو پہلے اس نے آنا کانی کی اور پھر راضی ہوگیا، باتوں میں الجھے ہوئے ہچکولے کھاتے ہم لوگ بجلی گھر پہنچے، سات بج چکا تھا، بس سے واپسی کا موڈ نہیں تھا اس لئے طے پایا کہ فیروزآباد تک آٹو بک کرلیا جائے، دو تین آٹو ڈرائیور سے پوچھا، پہلے تو کوئی تیار نہیں ہوا، پھر ایک نے ہامی بھری لیکن پھر وہی کرایہ پر آکر معاملہ اٹک گیا، اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ لوگ اپنی طرف سے چونا لگانے کی مکمل کوشش کرتے ہیں، اور کچھ لوگ غچہ بھی کھا جاتے ہیں، جی ہاں ڈرائیور نے ایک ہزار کرایہ بتایا، اور ہم لوگوں کے انکار پر آگے بڑھ گیا، کیا کرسکتے تھے سو ہم سب سڑک پر ایک کنارے کھڑے ہوگئے کہ اب کسی اور سے بات کرتے ہیں، لیکن کیا دیکھتے ہیں کہ گھوم پھر کر وہ دوبارہ آگیا، اور کہنے لگا سات سو دو اور چلو، ہم لوگ بھی ڈھیٹ واقع ہوئے اور انکار پر جمے رہے، آخر کار وہ دھیرے دھیرے کرایہ کم کرتے ہوئے ساڑھے تین سو پہ لاک کردیا، ہم لوگ جھٹ ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے تیار ہوگئے، اور آٹو ڈامر کی چکنی سڑک پر پھسلنے لگا۔
نومبر کی شام دسمبر کی خنک ہوا ساتھ لائی تھی، بیگ سے شال نکال کر اوڑھی، اتنے میں ڈرائیور نے کشور کمار کی آواز میں 1980 کی دہائی کا ایک شاندار گانا لگادیا، حواس پر تاریکی چھانے لگی، اور رات کسی نئی نویلی دلہن کی طرح چپ سادھے پہلو میں پاؤں سمیٹے بیٹھی رہی، آگرہ سے واپسی ہورہی تھی اور اندرون میں ایک خالی پن محسوس ہورہا تھا، جانے ایسا کیوں تھا! پینتالیس منٹ کی مسافت طے کرکے ہم لوگ آگرہ سے فیروزآباد پہنچ گئے، آٹو والے نے بس اسٹینڈ پر لا اتارا، یہاں سے ای رکشہ کیا اور پانچ سے دس منٹ میں ہم لوگ مدینہ کالونی میں تھے، صہیب بھائی سے فون پر بات ہوہی رہی تھی، کمرے پہنچتے ہی فریش ہوکر نماز سے فارغ ہوئے اور کھانا چُن دیا گیا، اس وقت کھانے پر انیس بھائی کے ساتھ شہزی، سعد اور صہیب بھائی موجود تھے، تمام لوازمات سے دسترخوان سجا ہوا تھا انیس بھائی کی گفتگو جاری تھی، مختلف موضوع زیر بحث آئے لیکن میری توجہ بریانی پر ہی رہی، بھئی بریانی تھی کہ کیا تھا بس نہ پوچھئے، ایسی شاندار اور مزیدار کہ کھاتے چلے جاؤ، بریانی کے شوقین تو شروع سے ہیں لیکن کبھی ایسی بریانی کھانے کو نہیں ملی، یوں سمجھئے تاج محل کے ساتھ بریانی بھی شاندار لگی، کھانے کے بعد کافی دیر تک باتوں کا سلسلہ جاری رہا، باتوں باتوں میں کسی نے گھر سے چوڑیوں کی فرمائش یاد دلا دی، صہیب بھائی نے ایک دو جگہ فون بھی گھمایا لیکن بات بنی نہیں اس لئے طے یہ پایا کہ ہم لوگوں کی تو اگلے دن صبح سات بجے کی ٹرین سے لکھنؤ واپسی ہے البتہ عابد بھائی یہ کام نپٹا کر دہلی کے لئے تھوڑی تاخیر سے روانہ ہوں، انیس بھائی نے صبح اپنے ہاتھ کی چائے پلانے کا وعدہ کیا اور وہ سونے چلے گئے۔
رات کافی گزر چکی تھی اور تکان سر توڑ تھی لہذا پہلے بیگ پیک کیا پھر حقہ کا ایک دور چلا، اس کے بعد سب اپنے بستر پہ دراز تھے، صبح الارم کی مہربانی سے جلد آنکھ کھل گئی، اٹھ کر وضو کیا اور لباس تبدیل کرکے باہر نکلے تو دیکھا انیس بھائی چائے لئے حاضر ہیں، چائے پی کر نماز سے فارغ ہوئے، اور ساڑھے چھ بجے صہیب بھائی کی ڈرائیو میں انیس بھائی کے ساتھ ریلوے اسٹیشن پہنچے، سورج دھند میں چھپا ہوا تھا اور ہلکی ہلکی خنک ہوا منھ کو چوم رہی تھی، گاڑی سے اتر کر رسمی گفتگو کے بعد سلام دعا ہوئی اور فیروزآباد کو رخصتی سلام دیتے ہوئے پلیٹ فارم کی طرف بڑھ گئے، پانچ دس منٹ کے انتظار کے بعد کہرے کے پیچھے سے ٹرین دھک دھک کرتی سیٹی بجاتے ہوئے پلیٹ فارم پر آلگی اور اجنبی مسافروں کے ساتھ ہم لوگ بھی ٹرین میں سوار ہوگئے، اور ریل سیٹی دے کر پٹری پر دھیرے دھیرے سرکتے ہوئے کچھ ہی دیر میں ہوا سے باتیں کرنے لگی، ساڑھے چار گھنٹے کا یہ پورا سفر موبائل کی روشن اسکرین پر بھٹکتے اور ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کر سونے کی کوشش میں کٹ گیا، ساڑھے گیارہ بجے ٹرین نے لکھنؤ چھوڑ دیا، میرے ایک عزیز دوست ضیاء الرحمن کریمی بھی اسی وقت پٹنہ سے لکھنؤ پہنچے تھے، ان سے فون پر بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ ابھی چار باغ ہی میں ہیں، سو ریلوے اسٹیشن سے نکل کر چھوٹی لائن کے پھاٹک کے سامنے ان سے ملاقات کی اور ای رکشہ سے بیس منٹ میں ندوہ (گھر) پہنچ گئے، اس طرح آگرہ کا سفر تمام ہوا۔
رہ طلب میں کسے آرزوئے منزل ہے
شعور ہو تو سفر خود سفر کا حاصل ہے

***
ایس ایم حسینی۔ ندوہ کیمپس، ڈالی گنج، لکھنؤ۔

Email: hamzahusaini0981[@]gmail.com


Itinerary of Agra and Firozabad. - A travelogue by: S. M. Husaini

1 تبصرہ:

  1. اردو جب لکھا کریں تو ارد لفظ ہی لکھا کریں جیسے کنفرم ہوگیا یا اس طرح کے لفظ سے مزہ کرکرا ہوجاتا ہے ، اردو کی چاشنی میں کمی آجاتی ہے اور رواں دواں تحریر نہیں رہ پاتی ہے

    جواب دیںحذف کریں