ہنسنا، مسکرانا اور قہقہہ لگانا ایک بہترین ورزش ہے کیونکہ ہنسی اور ہماری خوش طبعی ہمارے صحت پر اثر انداز ہوتی ہے جس طرح دیگر اشیاء ہمارے وجود کو متاثر کرتی ہیں۔ ہنسی در حقیقت ہمارے دل کی خوشی اور اطمینان کا بھی مظہر ہے۔ ہنسی اور خوش طبعی کے متعلق کوئی ذاتی رائے ظاہر کرنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ قارئین کو دنیا کے چند دانشوروں اور اصحابِ فکر کی ہنسی کے متعلق جو رائے ہے اسے بتا دیا جائے تاکہ بات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
آج سے ہزاروں سال پہلے کی ایک مقدس کتاب کے ذریعے حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک مقولہ ہم تک پہنچا ہے کہ: "دل کی شادمانی اور خوشی عمدہ دوا کی طرح نفع پہنچاتی ہے"۔
خیر حضرت سلیمان علیہ السلام تو بہت ہی پرانے زمانے کے مفکرین میں سے تھے اگر انہیں چھوڑ بھی دیا جائے تو دور جدید کے بھی مفکرین اور صاحب الرائے لوگوں کا بھی وہی خیال ہے جو حضرت سلیمان علیہ کا تھا۔
ڈاکٹر ہیوف لینڈ لکھتے ہیں کہ:
"ہنسنا ایک بہت ہی صحت افزا ورزش ہے اور میرے علم میں جتنی بھی چیزیں ہیں ان میں ہنسی سب سے زیادہ ہضم غذا میں مدد دینے والی چیز ہے اور ہمارے بزرگوں میں یہ رسم بھی تھی کہ کھاتے وقت دل چسپ گفتگو کے ذریعے لوگوں کو ہنساتے بھی تھے جو ایک درست اور طبی اصول پر مبنی عمل تھا"۔
ایک اور بڑے معروف و مشہور ڈاکٹر مارشل کا قول ہے کہ "اگر آپ عقلمند ہیں تو خوب ہنسا کیجیے"۔
ڈاکٹر پاسکنڈے نے عرصہ دراز تک ڈیڑھ سو مریضوں پر تجربہ کرنے کے بعد یہ رائے ظاہر کی ہے کہ: "ہنسی کی بدولت عضلات (جسم کا گوشت) کا تناؤ دور ہو جاتا ہے اور ہر رگ و ریشہ کو آرام میسر ہوتا ہے"۔
اسی طرح ایک دوسرے معروف و مشہور ڈاکٹر کی رائے ہے کہ: "اگر اچھے طریقے سے ہنسنے کی عادت اور بکثرت قہقہے اس دنیا میں موجود ہوتے تو جتنے ہسپتال، ڈاکٹر اور نرسوں کی فوجیں آج کل کام کر رہی ہیں ان میں سے اکثر لوگوں کی ضرورت نہ رہتی"۔
مشہور زمانہ امریکی ادارے "میو کلینک" کے مطابق اچھی حس مزاح اور ہنسی و قہقہے تمام بیماریوں کا علاج تو نہیں کر سکتیں لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا جا رہا ہے کہ ہنسنے کے بہت فوائد ہیں۔
"میو کلینک" کے مطابق ہنسنے سے انسان کی سوچ کے ساتھ ساتھ اس کے جسم پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہنسنے سے انسان کے جسم میں آکسیجن کی زیادہ مقدار داخل ہوتی ہے۔ اس کا دل، پھیپھڑے اور پٹھے متحرک ہوتے ہیں اور جسم میں مفید کیمیکلز جاری ہوتے ہیں، انسان کے جسم میں دباؤ کم ہوتا ہے، موڈ اچھا ہوتا ہے، بیماریوں سے لڑنے کی طاقت بڑھتی ہے اور درد کم ہوجاتا ہے۔
بہر حال اب یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ ہنسنا اور دل کھول کر ہنسنا بہترین ورزش ہے جس کی بدولت ہماری غذا اچھی طرح ہضم ہوتی ہے اور ہماری تندرستی ترقی کی راہیں اختیار کرتی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہمارے جسم کی تمام عضلات بلکہ وہ تمام چھوٹی چھوٹی رگیں بھی جو ہماری آنکھوں اور حلوق میں موجود ہیں وہ زور کی ہنسی کے بدولت حرکت میں آ جاتی ہیں اور کون نہیں جانتا کہ ان ہی رگوں کی نشو نما کی بدولت ہماری تندرستی بھی پروان چڑھتی ہے اور ہمارے جسم کی مناسب نشو نماء ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قدرت نے چھوٹے بچوں کو خواہ مخواہ ہر وقت شور مچاتے رہنے اور بلا کسی وجہ ہنستے رہنے کی عادت بخشی ہے تاکہ اس کے ذریعے انکی رگیں متحرک رہیں اور جسم دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا رہے۔
اس کے بالکل برعکس غصہ، نفرت اور رنج و غم کا اثر انسانی دماغ اور دماغ سے نکلنے والی باریک باریک تاروں پر جنہیں اعصاب کہا جاتا ہے، حد سے زیادہ خراب پڑتا ہے اور تمام دنیائے طب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غم و غصہ سے زیادہ اعصاب و دماغ کو کمزور و ناکارہ بنا دینے والی کوئی اور چیز نہیں ہے۔
شیخ سعدی شیرازی کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ "غصہ ایک ایسی آگ ہے کہ جو غصہ کرنے والے کو تو ضرور جلا دیتی ہے لیکن غصہ دلانے والے پر اس کا شعلہ بھی نہیں پڑتا"۔
یہاں ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ رونے سے بھی تو جسم کے بعض عضلات حرکت میں آ جاتے ہیں اور انکی ورزش بھی ہو جاتی ہے پھر یہ ورزش جسمانی صحت کے لئے کیوں نہیں مفید ہوتی ہے؟
اسی طرح غصے کے اظہار کے وقت بھی جسم کے عضلات پر کافی اثر پڑتا ہے، ماتھے پر شکن پڑ جاتی ہے، ہونٹ سوکھ جاتے ہیں، ناک کے نتھنے پھول جاتے ہیں، دانت بھینچ لیے جاتے ہیں اور بسا اوقات ہاتھ پیر سب حرکت کرنے لگتے ہیں گویا کہ وہ بھی ایک طرح کی ورزش ہوتی ہے لیکن وہ ورزش مفید کیوں نہیں ہوتی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ غصے کی حالت میں انسان پر دو طرح کی کیفیتیں طاری ہوتی ہیں، ایک تو دماغی اور عصبی نظام کی برہمی، اور دوسری اندرونی رگوں میں رطوبتوں میں کمی، یہی وجہ ہے کہ غصے کی حالت میں جو خفیف سی ورزش ہوتی ہے وہ فائدے کے بجائے ہمارے جسم کو الٹا نقصان پہنچا دیتی ہے۔
انسان کا چہرہ خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا بچہ۔۔۔ اس وقت سب سے زیادہ حسین ہوتا ہے جب وہ ہنستا اور مسکراتا ہے اور سب سے زیادہ نفرت انگیز اور ڈراؤنا اس وقت لگتا ہے جب وہ غصہ یا رونے کا اظہار کرتا ہے۔
ایک مشہور فرانسیسی ادیب روکتے نے لکھا ہے کہ: "اس زمین کی سب سے زیادہ دل خوش کن آوازوں میں ایک آواز لڑکیوں کے قہقہوں کی بھی ہوتی ہے"۔
اسی کے پیش نظر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس دنیا میں مکروہ ترین آوازوں میں سے ایک آواز وہ بھی ہے جو غصہ اور نفرت کے جذبات کے ساتھ انسان کے منہ سے نکلتی ہے۔
ڈاکٹر شام فورٹ نے کہا ہے کہ آپ کی عمر کے جتنے دن بے کار گزرے ہیں ان میں سب سے زیادہ بری طرح برباد ہونے والا دن اسے سمجھیے جس میں آپ پورے دن میں ایک مرتبہ بھی نہ ہنسے ہوں!!
شہاب الدین فلاحی (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد)
ansariammar8948[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں