تعلیم کی اہمیت اور ہمارا تعلیمی نظام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-11-19

تعلیم کی اہمیت اور ہمارا تعلیمی نظام

education-importance-and-education-system

فی زمانہ تعلیم کی اہمیت و افادیت ایسا موضوع بن چکا ہے جو کہ کسی کے لئے بھی اجنبی نہیں۔ تعلیم انسان کی بنیادی ضرورتوں کا حصہ بن چکی ہے۔ پچھلی دو تین دہائیوں میں اس شعبے میں انقلابی صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ اعداد و شمار سے بھی یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں خواندگی کے تناسب میں اصافہ ہوا ہے۔ اب ایسے میں اگر ہم ذہن میں یہ گمان پالنا شروع کر دیں کہ ہم نے علم کی معراج کو پا لیا ہے تو یہ سراسر فریب ہوگا کیوں کہ اس حقیقت کا ایک دوسرا بھی پہلو ہے جس سے کہ چشم پوشی نہیں برتی جا سکتی۔
بےشک تعلیمی تناسب میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ اضافی تناسب بالکل بھی تشفی بخش نہیں ہے کیوں کہ ڈراپ آؤٹ کرنے والے طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے تعلیم کے بنیادی مقصد کے حصول میں ابھی بھی بےشمار اڑچنیں حائل ہیں۔ تعلیم کی اہمیت و لازمیت کی توثیق کے باوجود ابھی بھی اعلی تعلیم کی راہیں ناہموار اور تنگ نظر آتی ہیں۔ اس کے پیچھے کئی طرح کے عوامل کارفرما ہیں ان میں سے ایک واضح وجہ تعلیمی اداروں کو منفعت بخش ادارہ بنانے کی کوشش ہے، جس کی وجہ سے تعلیمی و تربیتی پہلوؤں پہ غور و فکر کرنے کے بجائے مادی سہولت کے نام پہ فیس میں اس حد تک اضافہ کر دیا جاتا ہے کہ متوسط طبقے کے لوگ بھی بمشکل اسے پورا کر پاتے ہیں۔
اس مہنگائی اور بڑھتی بےروزگاری کے دور میں بنیادی اخراجات پورا کرتے ہوئے اعلی تعلیم کے لئے گنجائش پیدا کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ جدید دنیا میں یہ بلاشبہ تعلیم ہی ہے جو کسی قوم کی خوشحالی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری میں اس ملک کی طاقت اور مقام کا تعین کرتی ہے۔ وہ افراد جو معیاری تعلیم سے آراستہ ہیں، ایک بہترین ذریعہ ہے جو ایک ریاست اپنی سیاسی اور معاشی ترقی کے عمل میں بروئے کار لا سکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایک اچھا، منظم اور جدید تعلیمی نظام ہوتا ہے، جبکہ ہندوستان سمیت بیشتر ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک اس شعبے میں پیچھے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ابھی بھی اس کی طرف مطلوب توجہ دینے کو تیار نہیں حکومتوں کے سامنے بس ایک ہی ہدف ہے وہ ہے اقتدار، اس کے بعد معاشرتی و تعلیمی نظام کی باری آتی ہے۔


اگر ہم حکومت کی طرف سے مختص کئے جانے والے تعلیمی بجٹ پہ ایک نظر ڈالیں تو وہ بھی اطمینان بخش نہیں حکومت نے 2021-22 میں وزارت برائے تعلیم کے لئے 93224 کروڑ روپئے مختص کئے جو کہ 2020-21 کے بجٹ سے 6 اعشاریہ 13 فیصد کم ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے وضع کرنے کے باوجود بھی بجٹ میں اس کو کوئی خصوصی توجہ نہیں دی گئی۔
نئی تعلیمی پالیسی:2020ء کو بدلتے وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس تعلیمی پالیسی کا بنیادی مقصد اقوام متحدہ کے تعلیم سے منسلک پائیدار ترقیاتی اہداف ایس ڈی جی نمبر 4 حاصل کرنا ہے اس پالیسی کو 2030-40 کی دہائی کے دوران نافذ کیا جائے گا۔ ایک طرف ہمارا ملک عالمی مسابقتی دوڑ میں "وشو گرو" (عالمی رہنما) بننے کا خواب دیکھ رہا ہے، دوسری طرف اس کے لئے خصوصی بجٹ کے مختص کرنے سے گریزاں ہے۔


ملک میں بڑھتی بدعنوانی کا یہ عالم ہے کہ تعلیمی نظام بھی اس سے پاک نہیں۔ تعلیمی اخراجات ہیں کہ وقت کے ساتھ بڑھتے ہی جا رہے ہیں اس کو کم کرنے کے لئے مرکزی حکومت بالکل بھی سنجیدہ نہیں۔ آبادی کے حساب سے سرکاری تعلیمی اداروں کا تناسب بھی بہت کم ہے، اساتذہ کی تقرری میں بھی بےجا ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے۔ وقتی مادی فائدے کے لئے ملک کے مستقبل کو گروی رکھا جا رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ وشو گرو بننے کی بات کیا محض فقرہ بازی ہے؟ لوگوں کو گمراہ کرنے کا ذریعہ ہے؟ یا واقعی اس کی زمینی سطح پہ کوئی حقیقت بھی ہے؟
اقوام متحدہ کے ادارے برائے تعلیمی، سائنس اور ثقافت آرگنائزیشن یونیسکو نے گذشتہ سال اپنی تعلیمی رپورٹ میں کہا تھا کہ ہندوستان میں اساتذہ کی کمی ہے۔ یہاں اساتذہ کی کمی کو طلبہ و اساتذہ دونوں جھیل رہے ہیں۔ 69 فیصد اساتذہ بنا کسی معاہدے کے کام کر رہے ہیں، ان کے پاس جاب سیکیورٹی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ نے یہ اعداد و شمار حکومت کے ذریعے فراہم کرائے گئے اعداد و شمار کی روشنی میں تیار کئے ہیں۔ یونیسکو کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت 9:5 ملین کا تناسب برائے اساتذہ و طلبا ہے اور مجموعی طور پہ نظر ڈالی جائے تو پہلی نظر میں اساتذہ اور طلبہ کا تناسب مناسب لگتا ہے۔ لیکن غور سے دیکھا جائے تو اس میں کچھ خامیاں ہیں مثلاً سیکنڈری سطح پہ طلبہ اساتذہ تناسب 47:1 ہے جب کہ مجموعی سطح پہ یہ تناسب 26:1 ہے۔ یونیسکو کا کہنا ہے کہ ریگولر ملازمت کے مقابلے میں کنٹریکٹ پہ اساتذہ کو رکھنے پر پیچیدگی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ صورتحال پرائیویٹ اور سرکاری دونوں زمروں کے اسکولوں میں تقریباً ایک جیسی ہے یعنی زیادہ تر اساتذہ یعنی 69 فیصد، کنٹریکٹ پہ ہی کام کر رہے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں ملک میں تعلیمی نظام کی صورتحال کو جزوی طور پہ سمجھا جا سکتا ہے۔ ہم اعداد و شمار کی تفصیل میں جانے کے بجائے ان پہلوؤں پہ بات کرنا چاہیں گےجس کی وجہ سے تعلیمی نظام متاثر ہو رہا ہے۔


سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے اعلی عہدوں پہ فائز لوگ اکثر اپنے مالی فائدوں کے لئے ادارے کے اصول و ضوابط کو نظر انداز کرنے میں قطعی عار محسوس نہیں کرتے۔ اس سے نہ صرف تعلیم کے معیار کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ معاشرے کی سالمیت بھی خطرے میں ہوتی ہے۔ یہیں سے بدعنوانی بھی اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کر دیتی ہے۔ تعلیم گاہیں جو انسان کے اندر خیر و شر کے درمیان تمیز قائم کرنے اور مثبت شعور کی نشو و نما کے لئے قائم کی گئیں تھیں وہیں پہ ہی تعلیم کی روح کو ضرب لگائی جانے لگی ہے۔ مجروح ذہنیت کے حامل افراد ہمیشہ مسائل کا سبب ہی بنے ہیں ایسے لوگ ہم اپنے اردگرد بآسانی دیکھ سکتے ہیں اس بیمار ذہنیت کی وجہ ہمارے تعلیمی ادارے بھی ہیں۔


موجودہ دَور میں ہمارے ملک کا تعلیمی نظام بہت سی تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔ اس میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی نظام میں تعلیم کو ابھی بھی وہ اہمیت حاصل نہیں ہے جو کہ مطلوب ہے۔ تعلیمی نظام کو خانہ پری کی طرح اہمیت دی جاتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جب تعلیم کو اس طرح ثانوی مقام پہ لا کھڑا کر دیا جاتا ہے تو وہاں کے تمام شعبہ ہائے حیات کی بنیادیں ہلنی شروع ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ ہر شعبے کے تمام افراد تعلیمی مراحل سے گذر کر کے ہی معاشرے میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ جب تعلیم کا اصل مقصد حذف کر دیا جائے تو مادہ پرستی اور بےحسی کو فروغ ملنا شروع ہو جاتا ہے جس سے انارکیت پیدا ہوتی ہے۔


وقت گذرنے کے ساتھ تعلیمی شعبہ خواہ کتنا ہی کیوں نہ وسیع ہو جائے لیکن اس کا بنیادی مقصد روز اول کی طرح ایک ہی ہے، وہ ہے فرد کے اخلاقی وجود کی تربیت کرنا اس کے اندر موجود انسانی خصائص کو بروئے کار لانا اور اس کو ودیعت کردہ صلاحیتوں کی اس طرح نشوونما کرنا کہ معاشرہ ترقی کرتا رہے۔ انسان اپنے اندر اتھاہ صلاحیتوں کے امکانات کے ساتھ پیدا ہوا ہے، اس کو دریافت کرنے کے لئے تعلیم کا سہارا لیا جاتا ہے۔ تعلیم صرف وہی نہیں ہوتی جو کسی ادارے اور اسکول وغیرہ میں دی جاتی ہے، تعلیم یہ بھی ہے کہ معاشرے کے افراد اس قدر باشعور ہوں کہ وہ اپنے اطراف موجود نوجوانوں کی صحیح رہنمائی کرتے ہوئے انھیں مقصد حیات سے روشناس کرائیں۔ کسی بھی معاشرے کا شعور اسی وقت نشو و نما پا سکتا ہے جب وہاں کا تعلیمی نظام بھی روایات و اقدار کی پاسداری کرنے والا ہو۔
آج ہمارے تعلیمی اداروں میں فقط علم اور انفارمیشن پہ ہی بات کی جاتی ہے وہ اخلاق انسانیت اور فطرت کے متعلق بات کرنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے کیوں کہ ان کے نزدیک اعلی تعلیم کا مقصد اعلی عہدوں تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں افسر کلکٹر ڈاکٹر انجینئر فلاسفر کی کمی نہیں لیکن انسان کا قحط پڑ گیا ہے۔
بحیثیت انسان کے ہمارے اندر احساس ایک اجنبی شئے بن گیا ہے، انسان کا اندرونی میکانزم اس طرح سے بنا ہے کہ اس میں توازن نہ ہونے کی صورت میں کئی طرح کی خرابیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ مثلاً ہم انسان اعلی عہدوں پہ ہوتے ہوئے بھی خوشی اور آسودگی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر کوئی لوگوں کے درمیان ہوتے ہوئے بھی آدمی خود میں اکیلا ہے۔ ایک طرف مادی آسائشیں ہیں وہیں دوسری طرف ذہنی کرب بھی پنپ رہا ہے خودکشی اور نفسیاتی و جسمانی عوارض کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔


ان سارے مسائل پہ اگر گہرائی سے غور کیا جائے تو ہم یہ بات تسلیم کرنے پہ مجبور ہوں گے کہ اس کی جڑیں کہیں نہ کہیں تعلیمی نظام کی بدحالی میں پیوستہ ہیں۔ انسانی زندگی کا سب سے بڑا حسن توازن اور اعتدال ہے جو کہ تعلیم اور تربیت کے درمیان ختم ہو کے رہ گیا ہے۔ اب فقط تعلیم کے چرچے ہیں تربیت ایک غیر متعلقہ موضوع بن چکا ہے۔ تربیتی خلا شعور کے فقدان کی سب سے بڑی وجہ ہے ایک بےشعور معاشرہ کبھی بھی آسودگی کو پا نہیں سکتا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم موجودہ وقت کی ترقی کے ساتھ رہتے ہوئے اپنے اسلاف کی روایات اور ان کے اوصاف و کردار کو بھی معاشرے میں شامل دیکھیں تو اس کا آغاز ہمیں خاندانی اور تعلیمی نظام سے کرنا ہوگا اپنی ذمے داریوں کو قبول کرنا ہوگا۔


کسی بھی شعبے میں اصلاحات کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ فریقوں سے مشاورت کی جائے تاکہ وہ نہ صرف اس کو اپنائیں بلکہ نفاذ کے اس سارے عمل کا حصہ بنیں۔ تعلیمی اصلاحات میں اکثر Patch work کا رحجان ملتا ہے۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی اصلاحات یوں ہی بے ربط طریقے سے کر دی جاتی ہیں اس سے تھوڑی دیر کے لئے ہم لوگوں کو متاثر بھی کردیتے ہیں جن پر کامیابی کا ڈھنڈورا بھی پیٹا جاتا ہے لیکن اس طرح کا Patch work ایک جامع اور دیرپا تعلیمی ترقی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ یہ بات اہم ہے کہ تعلیمی اصلاحات اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک متعلقہ اداروں اور افراد کو مشاورت کے عمل میں شریک نہیں کیا جاتا، وسائل کی فراہمی نہیں کی جاتی ،جب تک حکومتیں اور اداروں کے ذمےدار تعلیمی اہداف کے حصول کے لئے یکسو نہیں ہوتے اور تعلیمی اصلاحات کے نفاد کے لیے احتساب کا موثر نظام قائم نہیں ہو سکتا۔


***
علیزے نجف۔ سرائے میر، اعظم گڈھ، اترپردیش
ایمیل: alizeysikander[@]gmail.com

Importance of education and our education system. Essay by: Alizey Najaf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں