فلمی دنیا کی باتیں مکرم نیاز کے قلم سے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-11-20

فلمی دنیا کی باتیں مکرم نیاز کے قلم سے

filmi-dunya-qalmi-jaiza-book-review

ابھی ابھی مکرم نیاز کی کتاب " فلمی دنیا : فلمی جائزہ - تبصرے / تجزیے " ختم کی ہے۔ اس کتاب نے ، اردو کی فلمی صحافت سے متعلق بہت ساری باتیں یاد دلا ددی ہیں۔ سچ کہیں تو اردو کی فلمی صحافت کا ماضی سنہرا تھا ، لیکن آج تاریک ہے ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اردو میں آج فلمی صحافت تقریباً ختم ہو چکی ہے تو زیادہ درست ہو گا۔ اردو کےاخبار انگریزی یا ہندی سے ترجمہ کی ہوئی فلمی خبریں شائع کر دیتے ہیں ، اور سمجھتے ہیں کہ فلمی صحافت کا حق ادا ہو گیا۔


میں چھوٹا ہی تھا ، لیکن مجھے خوب یاد ہے کہ میری اخباروں و کتابوں کی دکان پر ( جو عرصہ ہوا ختم ہو چکی ہے ) دہلی سے شائع ہونے والے ، ہر دور کے ، سب سے بہترین فلمی رسالے ( نصف ادبی بھی ) ' شمع ' کی ، دو سو سے زائد کاپیاں بکتی تھیں۔ یہ تو ایک دکان کی بات تھی ، جبکہ اُس زمانے میں جگہ جگہ ایسی دکانیں موجود تھیں اور ہر جگہ اردو پڑھنے والے پائے جاتے تھے ، اب اندازہ لگا لیں کہ صرف ممبئی میں ' شمع ' کی کتنی کاپیاں نکل جاتی ہوں گی ! کئی پرچے آتے تھے ، ' روبی ' جسے رحمٰن نیّر نکالتے تھے ، ' فلمی ستارے '، ' شکیلہ '، ' کہکشاں ' جو ' انقلاب ' پبلیکیشنز سے شائع ہوا کرتا تھا ، ' گلفام ' اور مزید کئی۔ ' بلٹز ' اور دیگر اخباروں کے فلمی صفحے ہوتے تھے ، جنہیں اردو کےمترجم نہیں اصلی فلمی صحافی ترتیب دیا کرتے تھے ، اخباروں کے دفاتر میں دعوت نامے اور فلم کی نمائش پر ٹکٹ آتے تھے۔ یہی نہیں فلمساز ، ہدایت کار اور اداکار اردو اخباروں ، رسالوں اور ہفت روزوں میں شائع ہونا باعث فخر سمجھتے تھے۔
اب یہ سب ختم ہو گیا ہے۔ قصور اس میں ہمارا ہی ہے کہ نہ ہم نے اپنی زبان کو اپنانے کی کوشش کی اور نہ ہی صحافت کا ( ہر طرح کی ) معیار بلند کرنے کی سعی کی۔ اِن حالات میں مکرم نیاز کی یہ کتاب اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن کی طرح ہے۔ موصوف میرے دوست ہیں ، خوب پڑھتے اور لکھتے ہیں ، انہیں ادب سے تو نسبت ہے ہی کہ وہ سید رؤف خلش مرحوم کے صاحب زادے ہیں ، لیکن فلمی صحافت سے بھی انہیں گہرا تعلق ہے ، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ ایک اچھے فلمی صحافی ہیں۔
کتاب جس کا ذکر اوپر آیا ہے ، فلمی تبٖصروں اور تجزیوں پر مشتمل ہے ، لیکن یہ عام سے تبصرے اور تجزیے نہیں ہیں۔ مدیر ' اثبات ' اشعر نجمی کے بقول ،" مکرم نیاز ایک افسانہ نگار بھی ہیں ، یعنی وہ ایک ادیب بھی ہیں ، چنانچہ ان کے تبصروں میں وہ سطحیت اور عامیانہ پن بالکل نظر نہیں آتا جو مثلاً عام فلمی مبصروں کا طرۂ امتیاز ہے۔" وہ مزید لکھتے ہیں ( اشعر نجمی کی یہ تحریر کتاب میں شامل ہے ):
" مکرم کے تقریباً ہر تبصرے میں وہ ناقدانہ رفعت نظر آتی ہے جنہیں گلیمر زدہ مبصر نہیں دیکھ پاتا ہے۔"


اردو کی فلمی صحافت کی دگرگوں صورتِ حال کو دیکھ کر ہی مکرم نیاز کو ، اس کتاب کی اشاعت کا خیال سوجھا۔ وہ "منظر کی جستجو ہے تو باہر نکل کے آ" کے عنوان سے ، کتاب کی وجۂ اشاعت کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ:
" 'تعمیر نیوز' کےایک ماہانہ تحریری مقابلہ کے مضامین دیکھ کر، خوشی ہوئی کہ اردو کی ہماری نئی نسل فلمی صحافت کی جانب بھی متوجہ ہے اور دکھ اس بات کا ہوا کہ اس میدان میں مطلوب معیار تک پہنچنے سے ابھی وہ قاصر ہیں۔"
انھوں نے جب اپنے کئی دوست صحافیوں سے بات کی تو پتہ چلا کہ اخباروں کی انتظامیہ فلم و کھیل جیسے موضوعات پر لکھنے کی نہ ہی تو حوصلہ افزائی کرتی ہے اور نہ ہی ترغیب دیتی ہے۔ ( میں فلم و کھیل کے ساتھ ادب کا اضافہ بھی کرنا چاہوں گا ) وہ لکھتے ہیں:
" قومی سطح کا اردو فلمی منظر نامہ بڑی مایوس کن صورتِ حال کا شکار ہے۔"
لیکن وہ ایک خوش کُن خبر دیتے ہیں کہ: " سوشل میڈیانے فلمی صنعت اور او ٹی ٹی پلیٹ فارم کی کارکردگی پر تبصرہ و تجزیہ کرنے والوں کی ایک نئی اردو نسل کو سامنے لایا ہے جس میں غالب اکثریت پڑوسی ملک پاکستان کے قلمکاروں کی ہے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اس نسل نے ہالی ووڈ کے ساتھ ساتھ بالی ووڈ ، جنوبی ہند کی فلموں اور او ٹی ٹی کے سیریز / سیزنز کا وقیع جائزہ لیا ہے جو قارئین کو متاثر بھی کر تا ہے اور لکھنے والے کی تحسین و ستائش پر مجبور بھی۔"
وہ بتاتے ہیں کہ:
"اس ضمن میں فیس بک کے کچھ فلمی گروپ کا تذکرہ بھی ضروری ہے جن میں سر فہرست " موویز پلانیٹ " [Movies Planet] نامی گروپ ہے جس کے ہزار ہا اراکین ہیں۔ سچ کہا جائے تو اسی گروپ کی تحریروں سے متاثر ہو کر کچھ برس قبل راقم الحروف نے بھی فلمی صحافت کے اس شعبہ کی جانب توجہ کی۔ بلکہ اصل وجہ یہ رہی کہ متذکرہ گروپ میں ہندوستانی قلم کاروں کی گنی چنی تعداد نے دلگرفتہ کیا تھا۔ "
وہ مزید لکھتے ہیں کہ:
" پروفیشنل سطح پر لکھنے والے ختم ہوتے جار ہے ہیں۔ اس میدان میں ہندوستان سے اردو کی نمائندگی کا بیڑہ اُٹھاتے ہوئے جب راقم الحروف نے فلمی تبصرے و تجزیہ پر مبنی اپنے مضامین پیش کرنا شروع کیے تو انہیں کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔"


کتاب میں کُل 21 تبصرے و تجزیے شامل ہیں۔ مکرم نیاز کی تحریر کی ایک خاص خوبی ، ان کا عام روش سے ہٹا ہوا ہونا اور ہر تبصرے میں الگ الگ انداز کا اختیار کرنا ہے۔ مزید یہ کہ وہ اپنے تبصروں اور تجزیوں میں اٖضافی معلومات بھی دیتے چلتے ہیں، مثلاً فلم " نکاح " پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ فلم کی ہیروین سلمیٰ آغا کے بارے میں جو معلومات دیتے ہیں وہ بہتوں کو نہیں معلوم ہوگی ، یہ کہ سلمیٰ آغا پاکستانی نژاد برطانوی اداکارہ ہیں ، لیکن 2017ء میں انہیں غیر ملکی ہندوستانی کی شہریت دے دی گئی ہے۔
شاہ رخ خان پر اپنے تجزیے میں وہ جہاں شاہ رخ کی فلمی دنیا میں آمد اور ان کی فلموں کا تعارف کراتے ہیں وہیں اُن کے نظریۂ حیات کا وہ ذکر بھی کرتے ہیں کہ شاہ رخ خان کا یہ ماننا ہے کہ:
"کیرئر کے شروع میں پیسہ بہت ضروری ہوتا ہے لیکن آگے چل کر پیسے سے کہیں زیادہ صبر اور اطمینان ضروری ہو جاتا ہے۔"


مکرم نیاز کے تبصرے کا انداز پُراثر ہے ، قاری پڑھتا چلا جاتا ہے ، چند تبصرے تو ایسے ہیں جو مجھے " شمع " میں چھپے راہی معصوم رضا کے اعلیٰ ترین تبصروں کی یاد دلا گئے۔
کتاب میں کئی انگریزی فلموں پر بھی تبصرے شامل ہیں ، اور تمل ، تیلگو، ملیالم و کنڑ فلمی دنیا کا ، وہاں کی فلموں اور اداکاروں کا تعارف بھی کرایا گیا ہے۔
کتاب اور مکرم نیاز کے اِن مضامین پر ، اپنی رائے کے طور پر ، میں اشعر نجمی کی تحریر سے یہ جملہ نقل کرنا چاہوں گا:
" زیرِ نظر کتاب اردو کی فلمی صحافت جو 'شمع' کے بعد تقریباً ختم ہو گئی تھی ، کے ازسرِ نو آغاز کا اعلان ہے۔"


مکرم نیاز نےکتاب کا انتساب ، یہ جملے لکھتے ہوئے ، "ان دو عزیز شخصیات کے نام جنہوں نے فلموں کے ذوق ، معیار اور تحسین و تنقید کے حوالے سے میری حوصلہ افزائی کی"، اپنے چچا جان ( مرحوم ) سیّد منیر اور ماموں جان ( مرحوم ) سیّد نوری پاشا کے نام کیا ہے۔
کتاب امیزون پر دستیاب ہے ، لیکن موبائل نمبر 8096961731 پر رابطہ کر کے بھی یہ کتاب حاصل کی جا سکتی ہے۔


A review on the book 'Filmi Dunya Qalmi Jaiza'. Book Review: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں