بھارت جوڑو یاترا : مودی و امیت شاہ کے لیے بڑا چیلنج - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-11-13

بھارت جوڑو یاترا : مودی و امیت شاہ کے لیے بڑا چیلنج

bharat-jodo-yatra

بھارت جوڑو یاترا : مودی و امیت شاہ کے لیے بڑا چیلنج
سنجے راؤت کی رہائی اور گجرات الیکشن بھی بنا سر درد
حاکمانِ وقت کے سامنے ، ایک نہیں تین چیلنج ہیں !

حاکمانِ وقت سے میری مراد ، وزیرِ اعظم نریندر مودی اور ان کے دستِ راست امیت شاہ ہیں۔ حاکمانِ وقت اس لیے ، کہ اِن دنوں یہ خود کو ، عوام کے ذریعے منتخب کیا گیا وزیراعظم اور وزیرِ داخلہ نہیں ، بالترتیب بھارت کابادشاہ ، اور وزیر سمجھ رہے ہیں ، بھلے ان کے سر پر تاج اور مُکٹ نہ ہوں۔ ان کا یہ ماننا ہے ، کہ اِس جمہوری اور سیکولر بھارت میں ، یہ جو کہہ دیں ، پارلیمنٹ کے اندر ، اپنی بھاری اکثریت کے بَل پر ، جو بھی ایکٹ منظور کردیں ، بھلے وہ عوام مخالف ہو ، آئین مخالف اور ملک کے امن و بھائی چارے کے لیے نقصان دہ ہو ، وہی ' قانون ' ہے ، وہی ' ضابطہ ' ہے۔
یہ سچ ہے کہ یہ دونوں آج ملک کے سب سے زیادہ بااثر اور طاقتور سیاست داں ہیں ، اور یہ بھی سچ ہے کہ ان کے ہر عمل کو ، آئینی اور غیرآئینی ، ایک بھاری اکثریت کی ، جنھیں ' بھکت ' کہا جاتا ہے ' حمایت ' حاصل ہے ، لیکن بااثر اور طاقتور ہونے ، اور بھکتوں کی بھاری اکثریت کا سہارا پانے کے باوجود ، اِن دنوں اِن کے سامنے کچھ ایسے چیلنج کھڑے ہو گئے ہیں ، بالخصوص تین چیلنج ، جو انھیں پریشانی میں ڈالے ہوئے ہیں ، اور اگر سینئر صحافی دیپک شرما کی زبان میں کہا جائے تو ' ان کی نیند اڑائے ہوئے ہیں '۔
ایک بڑا چیلنج راہل گاندھی کی ' بھارت جوڑو یاتر ا ' ہے ، دوسرا چیلنج مہاراشٹر کے سابق وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے اور ان کے دستِ راست سنجے راؤت ہیں ، خاص طور پر اب ،جب کہ سنجے راؤت ای ڈی کی قید سے آزاد ہوکر جیل سے باہر آئے ہیں ، اور تیسرا چیلنج گجرات میں ، جہاں جلد ہی اسمبلی کے الیکشن ہونا ہیں ، عام آدمی پارٹی کے سربراہ ، دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال ، اور کانگریس کی پیش رفت ہے۔ ہماچل پردیش میں بھی اس جوڑی کے سامنے سخت مسائل منھ پھاڑے کھڑے ہیں ، لیکن وہاں کا تذکرہ نہیں ہوگا کیونکہ کل سنیچر کے روز وہاں اسمبلی کے الیکشن ہوچکے ہیں۔


پہلے راہل گاندھی اور ان کی ' بھارت جوڑو یاترا ' کے چیلنج پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ یہ 3570 کلو میٹر لمبی یاترا 7 ، ستمبر کو کنیا کماری سے شروع ہوئی تھی ، یہ ڈیڑھ سو دن تک چلے گی ، اس کا اختتام کشمیر میں ہوگا۔ اس یاترا کے مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، بھارت توڑنے والی طاقتوں کے خلاف کھڑا ہونا اور سارے ہی بھارتیوں کو پیار ومحبت کے رشتے سے جوڑنا ہے ، یوں کہہ لیں کہ فرقہ پرستی کے خلاف لڑنا ہے۔ دوسرے مقاصد ہیں ، ملک کی معاشی بدحالی ، بےروزگاری ، آسمان کو چھوتی مہنگائی اور سیاسی خوف کے خلاف لڑنا اور آواز اٹھانا اور عوام کو بیدار کرنا۔ حالانکہ کانگریس اس یاترا کو ' غیر سیاسی ' قرار دے رہی ہے ، لیکن اس یاترا سے کانگریس کا سیاسی فائدہ بھی ہوتا نظر آ رہا ہے ، اس کی ساکھ بھی بہتر ہوتی نظر آ رہی ہے اور راہل گاندھی کو ، ایک سلجھے ہوئے سیاست داں کے روپ میں ، لوگ قبول بھی کر رہے ہیں۔ ایک فائدہ کانگریسی ورکروں کا جوش و خروش سے سامنے آنا ہے۔


لیکن اس یاترا کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ بی جے پی ' بیک فُٹ ' پر نظر آنے لگی ہے ، اس کے خیمہ میں گھبراہٹ صاف دیکھی جا رہی ہے۔ جب یہ یاترا شروع ہوئی تھی تب ، بی جے پی نے اس پر نکتہ چینیاں اور تنقیدیں شروع کی تھیں ، لیکن جیسے جیسے یاترا کو قبولیت ملتی گئی اور بھاری تعداد میں لوگ اس میں شامل ہونے لگے ، راہل گاندھی عام لوگوں کے رابطے میں آنے لگے ، اور بڑے ، بوڑھے ، خواتین اور بچے و بچیوں میں راہل گاندھی کے ساتھ یاترا میں پورے جوش وخروش سے شامل ہونے کی چاہ بڑھنے لگی ، تو بی جے پی کے ہوش و حواس اڑنے لگے ، اور یہ واضح ہونے لگا کہ بی جے پی کو ، اس یاترا پر نکتہ چینی اور تنقید کرنے کے لیے کوئی ' موضوع ' ہاتھ نہیں آ رہا ہے۔
بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے دو ایک بار یاترا میں راہل گاندھی کو مسلمانوں اور عیسائی راہب کے ساتھ دیکھ کر ، بالخصوص ایک ایسی ننھی بچی کی انگلی پکڑ کر چلتے دیکھ کر ، جو سر پر مخصوص انداز میں اسکارف کی وجہ سے مسلمان لگ رہی تھی ، کانگریس پر مسلمانوں کی ' منھ بھرائی ' کا اور ' ہندو مخالف ' کا تیر چلایا ضرور تھا ، لیکن ان کے سارے تیر خطا کر گیے ، کوئی نشانے پر نہیں لگا ، اُلٹا سوشل میڈیا نے ان کے لتّے لے لیے۔ اب بی جے پی کے ترجمان اور لیڈران یاترا کے تعلق سے بہت سوچ سمجھ کر منھ کھول رہے ہیں ،اور بات بھی کرتے ہیں تو یہ کہ کانگریس الیکشن جیت کر تو دکھاے۔


یہ سچ ہے کہ اس یاترا کا کوریج ' میڈیا -گودی میڈیا ' کی طرف سے یا تو ہو ہی نہیں رہا ہے یا بہت ہی کم ہو رہا ہے ، لیکن اس کے باوجود جب جب بھی یاترا کا کوریج ہوا ہے ، راہل گاندھی بی جے پی پر بھاری پڑے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بی جے پی کو سخت جواب سننے کو مل رہے ہیں ، مثلاً جب سمبت پاترا نے ' منھ بھرائی' کی بات کی تھی تو سوشل میڈیا نریندر مودی کی ، مسلمانوں سے ہنس ہنس کر ملتے ہوئی تصویروں سے بھر گیا تھا۔ مہاراشٹر میں اس یاترا کا زبردست استقبال ہوا ہے ، اور راہل گاندھی نے بھی یہاں جگہ جگہ کھل کر مودی حکومت پر حملہ کیا ہے۔ بی جے پی اور مودی و شاہ کی جوڑی پر ، لوگوں میں ڈر پھیلا کر اور لوگوں کو معاشی طور پر کمزور کرکے ، انھیں اپنی نفرت کی سیاست کے لیے استعمال کرنے کا ایسا الزام لگایا ہے ، جسے جھوٹ تو نہیں کہا جا سکتا ہے۔


مہاراشٹر میں راہل گاندھی کی ' بھارت جوڑو یاترا ' کی اپنی ایک سیاسی اہمیت بھی ہے۔ مہاراشٹر میں آج کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں ، شیوسینا اور این سی پی ، جو کل تک اقتدار میں تھیں ، آج اپوزیشن میں ہیں ، وہ اس یاترا کے ساتھ ہیں ، بلکہ یاترا میں شریک ہیں۔ این سی پی سپریمو شردپوار کی رکن پارلیمنٹ بیٹی سپریہ سولے نے ، ناندیڑ جاکر یاترا میں نہ صرف شرکت کی ، بلکہ وہاں سے بدحال معیشت ، مہنگائی اور بےروزگاری جیسے سلگتے مسائل اٹھا کر مودی سرکار کو نشانے پر بھی لیا۔ سپریہ سولے نے دو بہت ہی اہم سوال اٹھائے ، ایسے سوال جو مہاراشٹر کی شندے - فڈنویس سرکار کو تو کٹگھرے میں کھڑا ہی کرتے ہیں ، مرکز کی مودی سرکار کو بھی کٹگھرے میں کھینچ لاتے ہیں۔ سنجے راؤت کو ای ڈی کی قید سے ملی آزادی کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نواب ملک اور انل دیشمکھ کو کیوں قید رکھا جا رہا ہے ، انھیں بھی انصاف ملنا چاہیے ، اور یہ کہ " طاقت کسی کے ساتھ ناانصافی کرنے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ عوام کی خدمت کے لیے ہوتی ہے۔" اس طرح کوئی نام لیے بغیر بھی ، سپریہ سولے نے ، ای ڈی کے سیاسی اور غیر قانونی استعمال کا ( سنجے راؤت کی گرفتاری کو عدالت نے غیرقانونی کہا ہے ) پر انگلی اٹھا دی ہے۔ سپریہ سولے کا سب سے بڑا حملہ ، مہاراشٹر سے چار بڑے پروجیکٹوں کا باہر جانا تھا۔
یہ شندے - فڈنویس سرکار کے لیے ، ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ، اُسے سوجھ نہیں رہا ہے۔ اور یہ مرکزی سرکار پر بھی ایک حملہ ہے ، کیونکہ کہا یہی جارہا ہے کہ ، مودی کی سرکار نے مہاراشٹر کو ملنے والے چاروں بڑے پروجیکٹ چھین کر گجرات اور آسام بھیج دیے ہیں۔ یہ مسئلہ راہل گاندھی نے بھی اٹھایا۔ شیوسینا کے نوجوان قائد آدتیہ ٹھاکرے بھی ہنگولی جاکر ، راہل گاندھی کی یاترا میں شریک ہوئے اور کہا کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے ، اس کے خلاف ، دو مختلف نظریات رکھنے والے سیاست داں بھی ایک پلیٹ فارم پر آ سکتے ہیں۔ شندے - فڈنویس کے لیےیہ یاترا جو مشکلات پیدا کر رہی ہے ، مہاراشٹر سےیاترا کے گذرنے کے بعد بھی وہ مشکلات آسانی سے ختم نہیں ہوں گی۔


راہل گاندھی کو مل رہی عوامی مقبولیت سے یہ اندازہ ہورہا ہے کہ اگر تینوں ہی سیاسی پارٹیوں ، کانگریس ، شیوسینا اور این سی پی ، نے سوجھ بوجھ کے ساتھ الیکش لڑا تو شندے - فڈنویس کے لیے جیت حاصل کر پانا ، اگر ناممکن نہیں ، تو دشوار ترین ضرور ہوگا۔ لیکن اس کے ساتھ ایک سوال بھی ہے ، کیا آئندہ لوک سبھا الیکشن تک ، یاترا سے جو ماحول بنا یا بن رہا ہے ، اُسے کانگریس اور اس کی حلیف پارٹیاں برقرار رکھ سکیں گی؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ بی جے پی فرقہ پرستی کی سیاست کو اُس حد تک لے جا سکتی ہے ، کہ سارا بھائی چارہ جھٹکے میں بکھر جائے۔ بہرحال فی الحال تو اس یاترا نے بی جے پی اور اس کے دونوں مکھیاوں کو پریشانی میں ڈال رکھا ہے ، اور اگر ہماچل پردیش اور گجرات کے الیکشن میں بی جے پی کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے ، تو وہ اِس یاترا کی ایک کامیابی ہوگی۔


سنجے راؤت کا ای ڈی کی اسیری سے رہا ہونا ، مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کے لیے پریشانی کا سبب تو ہے ہی ، لیکن ضمانت پر ملنے والی اس رہائی سے شندے - فڈنویس سرکار کی پریشانیاں بھی بڑھ جائیں گی ، بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ سنجے راؤت کی رہائی نے مرکز اور ریاست کی سرکاروں کے سامنے دوسرا سب سے بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ رہائی کے بعد سنجے راؤت نے یوں تو کوئی ایسی بات ، جسے ای ڈی یا مرکزی و ریاستی حکومتوں پر تنقید کہا جائے ، نہیں کی ہے ، اس کا ایک سبب یقیناً ضمانت پر باہر آنا ہے۔ ضمانت کے اپنے کچھ قاعدے ہوتے ہیں ، جن پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن سنجے راؤت نے یہ اشارہ تو دے ہی دیا ہے کہ وہ شندےکے خلاف ، جنہیں شیوسینا ' غدار ' کہتی ہے ، کام کرتے رہیں گے۔ دوسری جانب ادھو ٹھاکرے نے ، سنجے راؤت کی رہائی کے بعد ، ای ڈی کو نشانے پر لے لیا ہے ، اسے ' پالتو ' کہا ہے اور اس کی تشبیہ ' ڈکیت ' سے دی ہے۔
ای ڈی اور اس کے ساتھ مودی و شاہ کی جوڑی سنجے راؤت کی رہائی کے بعد ' بیک فُٹ ' پر ہے ، خاص کر اس لیے کہ عدالت نے اِس گرفتاری کو سرے سے غیرقانونی کہہ دیا ہے ، اس وجہ سے ای ڈی کے سارے وہ کیس ، جو اپوزیشن کے لیڈران کے خلاف ہیں ، مشکوک ٹھہرے ہیں ، اور دوسروں کی ، جیسے کہ نواب ملک اور انل دیشمکھ ، رہائی کے لیے آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ آنے والے دن مہاراشٹر کی سیاست کے لیے بھی اور مرکزی سیاست کے لیے بھی دلچسپ ہوں گے۔
تیسرا چیلنج گجرات کے اسمبلی الیکشن ہیں ، جنہیں مودی اور شاہ کا ، اب تک کا سب سے مشکل ترین الیکشن کہا جا رہا ہے۔ کیوں ؟ اس سوال پر آئندہ ، اسی کالم میں غور کریں گے۔



Bharat jodo Yatra, challenge to Modi and Amit Shah. Analysis: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں