26/11 کی 14 ویں برسی گزر گئی۔
اس دن شہید ہیمنت کرکرے بہت یاد آئے۔ ان کی یاد آنی ہی تھی ، صرف اس لیے نہیں کہ انھوں نے " بھگوا آتنک واد " کو بے نقاب کیا تھا ، اس لیے بھی کہ انھوں نے ایک بہت بڑی اقلیت کا ، اپنے عمل سے ، اس ملک کے آئین ، سیکولرزم اور جمہوریت پر ، متزلزل ہوتا ، اعتماد بحال کیا تھا۔ اور اسی تاریخ کو وہ شہید بھی ہو گیے تھے ، کیوں اور کیسے شہید ہوئے ، ایک ایک ایسا سوال ہے ، جس کا آج تک کوئی معقول جواب نہیں مل سکا ہے۔
26 ، نومبر 2008ء ، وہ دن تھا جب ممبئی پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ در انداز پاکستانی دہشت گردوں نے سی ایس ٹی سے لے کر قلابہ ، تاج ہوٹل ، چھبڈ ہاؤس اور ٹرائی ڈنٹ (نریمان پوائنٹ) تک ایسی اندھا دھند گولی باری کی تھی کہ دفتروں سے گھر واپس ہو رہے ، سڑکوں پر چلتے پھرتے ، تفریح کےلیے گھروں سے باہر نکلے اور بیرون ملکوں سے تجارت ، سیاست یا کسی اور مقصد کے لیے آئے لوگ ایک بڑی تعداد میں موت کی نیند سو گیے تھے۔ سی ایس ٹی ایس پر لاشیں بچھ گئیں تھیں۔ اوبرائے ، ٹرائی ڈنٹ اور ہوٹل تاج جنگ کے میدان بن چکے تھے۔
ممبئی پر حملے کے پس پشت کیا مقصد تھا؟ اس سوال کا بھی 'حقیقی جواب' آج تک نہیں مل سکا ہے۔ یہ کہنا آسان ہے کہ ہندوستان کو سبق سکھانے کےلیے پاکستانی دہشت گرد بھیجے گیے تھے۔ لیکن کیا ہندوستان کو سبق سکھانا ہی واحد مقصد تھا ؟ یہ وہ سوال ہے ، جس کا مہاراشٹر کے ایک اعلیٰ ریٹائرڈ پولس افسر ایس ایم مشرف نے ، حملے کے چند مہینوں کے بعد اپنی ایک کتاب " ہو کِلڈ کرکرے " میں ، جواب دینے کی کوشش کی تھی۔
ان کا یہ کہنا تھا کہ حملے دو طرفہ تھے ، ایک پاکستانی دہشت گردوں کی طرف سے اور ایک ملک کے اندر پنپنے والے دہشت گردوں کی طرف سے۔ ایک کا مقصد شہر میں خوف اور دہشت کی فضا طاری کرناتھا ، اور دوسرے کا مقصد اس فضا کا فائدہ اُٹھانا کر بے حد جری ، ایماندار ، سیکولر پولس افسر ہیمنت کرکرے کو راستے سے ہٹانا تھا ، جس نے ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار 'ہندو دہشت گردی' کو 'بے نقاب' کرنے کی جسارت کی تھی۔
ہیمنت کرکرے اُس وقت کے اے ٹی ایس سربراہ تھے۔ سی ایس ٹی ریلوے اسٹیشن کے عین سامنے ' ٹائمز آف انڈیا ' اور انجمن اسلام کی عمارتوں کے درمیان سے ایک چھوٹی سی سڑک گزرتی ہے ، جو عام طور پر شام ہوتے ہی سنسان ہو جاتی ہے ، اور اس دن جب شہر پر قیامت ٹوٹی ہوئی تھی تب تو یہ سڑک اور بھی ویران اور سنسان تھی۔ اور اسی ویران ، سنسان سڑک پر کاما اسپتال ہے۔ اسی سڑک پر ' دہشت گرد ' گھات لگائے بیٹھے تھے۔ جب پولس کو یہ اطلاع ملی کہ دہشت گرد کاما اسپتال میں داخل ہو چکے ہیں ، اور انہوں نے دو گارڈوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا ہے ، اور وہ اسپتال میں بھی موت کا بازار گرم کر سکتے ہیں ، تو کرکرے اپنے ساتھ دو اعلیٰ پولس افسران وجے سالسکر اور اشوک کامٹے کو لے کر کاما اسپتال کی طرف بڑھے ، اور تینوں ہی 'دہشت گردوں ' کے ہاتھوں مارے گیے۔
یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ مالیگاؤں بم دھماکہ 2008ء کے معاملے میں کرکرے نے جو چھان بین کی تھی ، وہ ہندوستان کی تاریخ کی پہلی ایسی چھان بین تھی جو ' ہندو توادی دہشت گردوں ' کے چہرے اجاگر کرتی تھی۔ انہوں نے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور کرنل پروہت کو دھر دبوچا تھا۔ کئی اور ' ہندو تووادی ' پکڑے گئے تھے ، اور انہوں نے یہ اشارہ دیا تھا کہ وہ جلد ہی ایک بہت بڑے ' ہندوتوادی ' کو گرفتار کرنے والے ہیں ، لیکن اس سے پہلے ہی 11/26 ممبئی حملوں میں وہ شہید ہو گیے۔
کئی سوال ہیں جو اس شہادت کے بعد اُٹھے اور آج تک ان کے جواب نہیں مل سکے ہیں۔ ملک میں سیاہ وسفید کے جو مالک ہیں انہوں نے آنکھیں بند کرکے یہ مان لیا ہے کہ کرکرے ' پاکستانی دہشت گردوں ' کا نشانہ بنے تھے۔ اگر کسی نے اس نظریے کی مخالفت کی تو اسے ' قوم دشمن' تک قرار دیاگیا۔ مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالرحمن انتولے مرحوم نے آخر تک اس نظریے کو قبول نہیں کیا تھا۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ کرکرے کو اس لیے راہ سے ہٹایاگیا ہے کہ وہ 'ہندو دہشت گردی' کو بے نقاب کر رہے تھے۔ اور یہ بات سچ بھی ہے۔ کرکرے نے آر ایس ایس کی دہشت گردی کو بے نقاب کر دیا تھا۔ سنگھ نے کچھ اس طرح کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی کہ ہر 'دہشت گردانہ واردات' کا الزام مسلمانوں کے ہی سر منڈھ دیا جاتا تھا۔ ملک کے سابق ڈپٹی وزیراعظم اور وزیرداخلہ ایل کے اڈوانی کہا کرتے تھے کہ " یہ سچ ہے کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا لیکن پکڑا جانے والا ہر دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے۔"
اُن دنوں بھی میڈیا خوب ' مسلم دہشت گردی ' کی تشہیر کرتاتھا۔ وزراء فوراً ہی کسی نہ کسی مسلم تنظیم یا جماعت کا نام ' مشتبہ ' کے طور پر لے لیتے تھے۔ کرکرے نے اس پر روک لگا دی ، اور سنگھ کی ساری منصوبہ بندی کو بے نقاب کر دیا۔ ایس ایم مشرف نے ، اپنی مذکورہ انگریزی کتاب میں ، جس کا اردو ترجمہ 'کرکرے کے قاتل کون؟' ہے کے نام سے شائع ہوا ہے ، تحریر کیا ہے کہ ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ ایک حقیقت ہے ، لیکن سی ایس ٹی ، کاما ، رنگ بھون لین کے واقعے پر راز کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ مشرف نے پردے کو اُٹھانے کی کوشش بھی کی ہے۔ کرکرے کے قتل کے پس پشت انہوں نے آئی بی اور بحریہ انٹلی جینس ڈائریکٹوریٹ میں موجود ' برہمنی عناصر ' کو ذمے دار قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق ' برہمنی عناصر ' نے امریکہ اور ' را ' کی ایک خفیہ اطلاع کو دانستہ چھپایا تھا تاکہ کرکرے کو شہید کرنا ممکن ہوسکے۔
ان کے مطابق سی ایس ٹی پر سی سی ٹی وی کیمروں سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی ، کاما اسپتال کے دہشت گرد مراٹھی بول رہے تھے ، دہشت گردانہ حملے میں مہاراشٹر کے ستارا علاقہ کا ایک سِم کارڈ استعمال کیاگیا تھا اور افراتفری پیدا کرکے ایسے حالات پیدا کیے گیے تھے کہ کرکرے ' موت کے منہ میں ڈھکیلے جا سکیں '۔
مشرف لکھتے ہیں کہ کرکرے اور اُن کے ساتھیوں کو قتل کرنے والے ' غیر ملکی' نہیں تھے ، اس کا مطلب یہ کہ وہ پاکستانی نہیں تھے بلکہ 'ملکی' تھے۔
شہید ہیمنت کرکرے کے قتل کے پس پشت جو بھی عناصر ہیں ، آج تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکی ہے۔ شہید ہیمنت کرکرے کو آج تک انصاف نہیں مل سکا ہے۔ 11/ 26 کو مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ اور اعلیٰ پولس افسران انہیں اور دوسرے شہداء کو خراج عقیدت تو پیش کر دیتے ہیں ، لیکن حقیقی خراج عقیدت سے وہ آج تک محروم ہیں۔
حقیقی خراج عقیدت ، ان عناصر کی سرکوبی ہوگا ، جو اُن کے قاتل ہیں اور ان 'ہندو تو وادیوں ' پر لگام کسنا ہوگا ، جو ملک کو تباہ کر رہے ہیں۔ افسوس کہ ان کی موت کے بعد ' ہندو توادی دہشت گردوں ' کی طرف سے اسی طرح آنکھیں بند کرلی گئی ہیں جیسے کہ شہید ہیمنت کرکرے کے اے ٹی ایس سربراہ بننے سے پہلے آنکھیں بند تھیں۔ حقیقی خراجِ عقیدت تو دور ، کرکرے کی شہادت کے بعد ، اُن کی توہین کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے !
مالیگاؤں بم بلاسٹ 2008ء (اور 2006ء) کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سمیت چھ ہندو توادی ملزمین کو' کلین چٹ' دینا اور کرنل پروہت اینڈ کمپنی پر سے ' مکوکا ' ہٹانا ، نیز سادھوی کو رکن پارلیمنٹ بنوانا ، شہید کرکرے کو گویا کہ ملزمین کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے۔ پس ازمرگ اُن کو دروغ گو ، غیر منصف ، بے قصوروں کو پھنسانے والا اور جانبدار قرار دے کر ساری دنیا میں ایک ' بے ایمان افسر' کے طور پر پیش کرنا ہے۔ ملک کی قومی تفتیشی ایجنسی ( این آئی اے) کا یہ کہنا کہ ' سادھوی اور پروہت کو پھنسانے کے لیے اے ٹی ایس نے جو کارروائیاں کیں وہ ' مشکوک' لگتی ہیں۔ اس کا برآمد آرڈی ایکس پر سوالیہ نشان لگاکر یہ ظاہر کرنا جیسے کہ آرڈی ایکس اے ٹی ایس نے ہی پلانٹ کیا تھا ، شہید کرکرے کی اُس پوری چھان بین اور تفتیش پر ہانی پھیرنے جیسا ہے۔
جس افسر نے ، ملک میں پہلی بار ' بھگوا دہشت گردی ' کے چہرے کو بے نقاب کیا ، اور لوگوں کے سامنے یہ سچ پیش کیا کہ دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینا اصلاً سنگھی سازش اور منصوبہ بندی کا ایک حصہ ہے ، وہ ملک کا وفادار تھا ، غدار نہیں تھا۔ لیکن جس طرح اُس کی زندگی ہی میں اُس کو نشانے پر لے لیا گیا تھا ، اُسی طرح موت کے اِتنے دنوں بعد بھی وہ نشانے پر ہی ہیں۔
کرکرے کا کارنامہ کیسے بھلایا جا سکتا ہے! بات 2008ء کی ہے ، وہ 29 ، ستمبر کا دن تھا ، جب مالیگاؤں کے بھکّو چوک پر زور دار بم دھماکہ ہوا تھا ، جس میں سات افراد ہلاک اور 79 سے زائد زخمی افراد ہوئے تھے۔ اسی روزگجرات کے موڈاسا میں بھی بلاسٹ ہوا تھا ، جس میں ایک بچہ ہلاک ہوا تھا۔ حسبِ روایت پولس اور سنگھی عناصر نے دھماکے کے فوراً بعد ' سیمی' اور ' انڈین مجاہدین' کا نام لے کر مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ لوگ خوب جانتے ہیں کہ مالیگاؤں میں خوف ودہشت کی ایک نئی لہر چل پڑی تھی۔ لوگ 2006ء کے بڑا قبرستان اور مشاورت چوک کے بم دھماکوں کے بعد ، ہونے والی گرفتاریوں سے ویسے ہی ڈرے اور سہمے ہوئے تھے۔ مالیگاؤں کے مسلمانوں کے سروں پر گرفتاری کی ایک نئی تلوار لٹکنے لگی تھی۔ پولس حرکت میں آئی بھی ، لیکن چونکہ اس بار اے ٹی ایس کی سربراہی ایماندار پولس افسر ہیمنت کرکرے کے سپرد تھی اس لیے اندھا دھند گرفتاریاں نہیں ہوئیں۔
اُس وقت کے نائب وزیراعلیٰ آر آر پاٹل نے ، جو وزیر داخلہ بھی تھے ، جب دھماکے کے بعد مالیگاؤں کا دورہ کیا تھا ، تب انہیں غمزدہ مگر غصے سے بھرے ہوئے شہریوں کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ احتجاج کرنے والوں میں خواتین کی اچھی خاصی تعداد شامل تھی۔ آر آر پاٹل نے یقین دلایا تھا کہ ' انصاف ' ہوگا۔ لیکن حکومت نے کوئی ' انصاف ' نہیں کیا ،' انصاف ' کرکرے نے کیا۔ شہید اے ٹی ایس سربراہ نے بھکّو چوک سے اپنی تفتیش کا آغاز کیا۔ وہاں اس ' مشتبہ ' موٹر سائیکل پر توجہ مرکوز کی جس کا دھماکے میں استعمال کیا گیا تھا ، اور کڑیاں ملاتے ہوئے ایک ہندو سادھوی تک رسائی حاصل کرلی ، جس کا نام پرگیہ سنگھ چندر پرتاپ سنگھ ٹھاکر تھا ، جو مدھیہ پردیش کی رہنے والی تھی اور ان دنوں ریاست گجرات کے شہر سورت میں رہ رہی تھی۔
سادھوی پرگیہ کی کہانی بڑی ہی دلچسپ ہے۔ وہ ان دنوں وشوا ہندوپریشد کی خواتین سے متعلق ونگ ' درگاواہنی' کی قومی ایگزیکیٹو سکریٹری تھی۔ اس سے پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے یہ اعتراف تو کرلیا کہ موٹر سائیکل اس کی تھی ، مگر یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ اُسے منوج شرما عرف جوشی کے ہاتھوں فروخت کرچکی ہے۔ منوج جوشی آر ایس ایس کا سرگرم رکن اور دوہرے قتل کا ایک ملزم ، جسے بعد میں گولی مارکر قتل کردیا گیا تھا۔ پرگیہ سنگھ سے پوچھ گچھ کی بنا پر شیام لال ساہو تک رسائی ہوئی جو بی جے پی کا رکن تھا اور بم بلاسٹ کی سازش میں سادھوی کا معاون۔ اس کے بعد ساری سازش بے نقاب ہوتی چلی گئی۔ ریٹائرڈ میجر رمیش اپادھیائے کی پونے سے ، سمیر کلکرنی کی بھوپال سے ، پونے سے اجئے رائکر اور راکیش دھاوڑے کی ، ڈومبیولی سے چنتامنی مہاترے کی اور پھر سب سے بڑی کرنل پروہت کی ، گرفتاریاں ہوئیں اور ملک میں ' ہندو آتنک واد ' کا خوفناک چہرہ اُجاگر ہوگیا۔
کرکرے نے کل گیارہ افراد کو حراست میں لیا ، ان میں سے پروہت اور دیانند پانڈے کے قبضے سے تین لیپ ٹاپ ضبط کیے گیے جن میں ' برہمن راشٹر' کا بلیوپرنٹ تھا ، یعنی ملک کو ' ہندوراشٹر ' میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی۔ یہ لیپ ٹاپ بڑی اہمیت رکھتے ہیں ، انہیں اہم ترین ثبوتوں میں سے ایک کہا جاسکتا ہے ، ان میں انتہا پسند تنظیم ' ابھینو بھارت ' کی مکمل تفصیلات موجود ہیں۔ یہ وہ تنظیم ہے جس سے کرنل پروہت جڑا ہوا تھا۔ اس تنظیم کا قیام 2002-3 میں کیا گیا تھا۔ اس کے بنیاد گذاروں میں کٹر برہمن فرقہ پرست شامل تھے۔ اس کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد ہندوستان میں منتخب عوامی حکومت کو ختم کرکے اس کی جگہ ہندوراشٹر کا قیام اور آئین کی جگہ ویدوں اور سمریتوں کی بنیاد پر قوانین کا نفاذ تھا
یہ سچ بھی سامنے آیا کہ اس تنظیم کو نیپال اور اسرائیل اور ناگا انتہا پسندوں کی مدد حاصل ہے۔ تین میں سے دولیپ ٹاپ میں ' ابھینو بھارت' کی میٹنگوں کے 48 آڈیو اور ویڈیو ریکارڈ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ہیمنت کرکرے اپنی شہادت سے قبل صرف تین آڈیو اور ویڈیو کلپوں کو تحریری صورت دے کر تفتیش کرنے میں کامیاب رہے تھے ، باقی کی ویڈیو اور آڈیوکلپوں کی چھان بین باقی تھی اور انہیں تحریری صورت دیا جانا تھا۔ یہ کام این آئی اے نے کیا یا نہیں ، پتہ نہیں ! لیپ ٹاپ سے آنجہانی کرکرے کو یہ پتہ چلا تھا کہ' ابھینوبھارت ' کی میٹنگیں احمد آباد ، اجین ، فرید آباد ، کولکاتہ ، بھوپال ، میں ہوئی تھیں۔ اب کرکرے نہیں رہے ہیں ، نہ جانے اُن کی ساری تفتیش محفوظ بھی ہے یا نہیں !
بشکریہ: شکیل رشید فیس بک ٹائم لائن (ممبئی اردو نیوز، اتوار کالم، 27/نومبر 2022ء)
khansh.rasheed[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں