مرتضیٰ ساحل تسلیمی : اچھا انسان اچھا ادیب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-10

مرتضیٰ ساحل تسلیمی : اچھا انسان اچھا ادیب

bachchon-ka-adab-aur-murtaza-sahil

سفیدی مائل جسامت اور ملاحت سے بھرپور گندمی رنگ،چمکدار سیاہ ہلکے خمدار بال جیسے جوہڑ کے ٹھہرے ہوئے پانی میں ایک ہلکی موج آکر منجمد ہو گئی ہو۔ چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح گول، چشمے کے پیچھے سے جھانتی ہوئی مسکین و معصوم خوبصورت کالی آنکھیں، ناک تھوڑی پتلی۔۔ خاندانی عظمت اور وقار کی آئینہ دار، بھرے بھرے گال، پتلے لب جن کا اندرونی حصہ پان سے سرخ، صحت مند جسم، متناسب قد، ہلکی آواز، انداز بیان شیریں، طرز گفتگو دلنشیں، ہاتھ ملانے کا مخصوص اور گرمجوشی والا انداز، آنکھوں میں نرم مسکراہٹ، ہونٹوں پر گداز تبسم، اپنی قوم اور اپنے وطن کے درد میں تڑپتا ہوا نرم و نازک دل۔ وہ۔۔ جن کو ہر شخص اپنا ہمدرد و رفیق مانتا اور گردانتا ہے جن کے بارے میں جیسا سنا ویسا دیکھا اور جیسا دیکھا ویسا ہی پایا۔۔ یہ ہیں ساحل بھائی۔۔۔ مرتضٰی ساحل تسلیمی!


بات 74ء کی ہے۔ اس سال 4/جولائی کو قلعہ معلی رام پور کے خوبصورت سبزہ زار پر ہم نے ایک میٹنگ کی تھی اور اسی روز میٹنگ کے بعد بزم اردو کے نام سے ایک دارالمطالعہ اور ایک لائبریری کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اس سلسلے میں ہم نے پورے شہر کے ادیبوں، شاعروں اور ادب نواز لوگوں سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات کا اہم مقصد لائبریری کے لئے فنڈ اور کتابوں کی فراہمی تھا۔ ہمیں اس میں قدم قدم پر کامیابی ملی تھی اور ہم نے ہزاروں رسائل اور کتابیں جمع کرلی تھیں۔ اسی دوران میں ایک روز میں اپنے عزیز دوستوں پرویز اختر صاحب اور مبارک الحق صاحب کے ساتھ ادارہ الحسنات گیا تھا تاکہ ادارہ الحسنات سے شائع ہونے والے رسائل ہمیں ہر ماہ مل جایا کریں۔ وہیں ساحل بھائی سے ملاقات ہوئی تھی۔ ہم غیر شناسا لوگ پہلی بار ان سے ملے تھے لیکن انہوں نے ہم سب کی چھوٹی سی عمر اور کام کی نوعیت کے لحاظ سے جانفشانی اور محنت کی بہت تعریف کی تھی ، اور ہر ممکن تعاون دینے کا وعدہ کی اتھا اور بلا شبہ انہوں نے اپنا وعدہ پورا بھی کیا۔ اس ضمن میں عبدالملک سلیم صاحب کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ انہوں نے توجہ سے ہماری بات سنی اور ادارہ سے شائع ہونے والے کئی پرچے ہماری لائبریری کے نام مستقل جاری کر دئے۔


ساحل بھائی نے پہلی ملاقات میں ہی یہ تاثر دیا تھا کہ جیسے وہ ہمیں برسوں سے جانتے اور پہچانتے ہوں اور جب ہم وہاں سے لوٹے ہیں تو ان کی میٹھی مسکراہٹ اور گرم محبت سے سرشار ہوچکے تھے جیسے پورے جسم میں معطر معطر سی مدہوشی سرایت کرچکی ہو۔ پھر۔۔ تب سے آج کا دن ہے جب بھی ملو، وہی دل کو چھو لینے والی مسکراہٹ وہی محبت کی شدت، وہی گرم جوشی کا مصافحہ ، وہی۔۔۔! اس دور میں کوئی اپنوں سے بھی ایسے کب ملتا ہے جیسے وہ ہر ایک سے ملتے ہیں ایسے لازوال انداز رکھنے والے انسان کی رفاقت پر، صحبت پر کسے فخر نہ ہوگا۔ سو ہمیں بھی ہے اور کیوں نہ ہو کہ وہ ہر ایک سے اپنے پن سے ہی ملتے ہیں۔


میں نے ساحل بھائی کے روپ میں ایک مجسم آہنی مرد دیکھا ہے۔ اگر سوچا جائے تو واقعی سوچنے کی بات ہے کہ۔۔ کیسا ہے یہ فولادی انسان! جو ہر وقت کام میں مصروف نظر آتا ہے۔ کام۔۔۔ کام۔۔۔ کام۔۔ جب دیکھو کام سے برسر پیکار۔ جب ملو کچھ کرنے کی لگن۔ شخصیت نہ ہوئی ایک ادارہ ہوگیا ، اور اس میں شک بھی کیا ہے۔ پانچ رسائل کی مکمل ذمہ داری۔ دیکھے سے حیرت ہوتی ہے سننے سے تعجب ہوتا ہے۔ گرمی ہو، سردی ہوو کہ بارش ہو، ساحل بھائی ادارے کے کام میں مصروف ہیں ، جیسے اپنے چوڑے چکلے لیکن ناتواں کاندھوں پر پوری قوم کی اصلاح کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں ، جیسے اپنے نازک سے دل میں ساری قوم و ملت کا دردوکرب اٹھائے جی رہے ہوں۔ ساحل بھائی کے سمندر کی طرح گہرے پرسکوت چہرے سے کچھ بھی پتہ نہیں چلتا کہ اصلاح کے اس کام میں انہوں نے کتنے زخم اٹھائے ہیں۔ کتنے گھاؤ کھائے ہیں اور اس کا ہمیں اندازہ ان کے اداریے پڑھ کر ہوتا ہے۔ ملت کے درد میں ڈوبے ان کے قلم کی کاٹ سیدھی دل میں اتر جاتی ہے اور دل قاش قاش ہو جاتا ہے۔


ساحل بھائی صرف اتنا ہی نہیں کرتے کہ رسائل ترتیب دیدئیے یا ان کی مکمل ذمہ داری سنبھال لی اور باقی اللہ اللہ خیر صلا۔ بلکہ وہ خود بھی افسانے ، مضامین اور بچوں کے لئے خوبصورت سبق آموز اصلاحی کہانیاں اور نظمیں لکھتے ہیں۔ اچھا لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں بلکہ بہت خوب!


برصغیر کے عظیم ادیب و شاعر حضرات۔۔۔ افسر میرٹھی، محمد اسماعیل میرٹھی، اقبال، حالی، سراج انور،شفیع الدین نیر، محوی صدیقی ، تلوک چند محروم۔ محمد حسین حسان ، ابوالمجاہد زاہد۔ مائل خیرآبادی وغیرہ صاحبان نے بچوں کے لئے جو کچھ لکھا اور ان میں سے اب بھی جو لوگ لکھ رہے ہیں وہ لا ثانی، لا فانی ، بے مثال اور لاجواب ہے۔ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ساحل بھائی بھی ہیں، جو 72ء سے بچوں کے لئے مسلسل لکھ رہے ہیں اور بچوں کے لئے اب تک سینکڑوں کہانیاں اور نظمیں لکھ چکے ہیں۔ ان کی کہانیوں کے تقریباً دودرجن مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور۔۔۔۔”ابھی تو میں جوان ہوں” کے مصداق امید ہے کہ ساحل بھائی بچوں کے ادب میں مزید قابل ذکر اضافہ کریں گے۔ ایک اہم بات جس پر ہم جتنا بھی فخر کریں کم ہے اور جتنی بھی خوشی منائیں تھوڑی ہے وہ یہ کہ ساحل بھائی کی چند نظمیں مہاراشٹر گورنمنٹ نے کورس میں بھی شامل کردی ہیں۔


دنیا میں ایسے لوگ کم ہی ہوئے ہیں جو دوسروں کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں۔ اور نئے فن کاروں کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہوں۔ ساحل بھائی کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی قلمکار کی دل شکنی نہیں کرتے۔ ہمیشہ اس کی ہمت بندھاتے ہیں ، اچھے اچھے مشورے دیتے ہیں۔ سینکڑوں ادیب جن کو انہوں نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ، آج ادب میں ایک بلند مقام پر کھڑے ہیں اور ساحل بھائی جیسے ان سے پوچھتے ہیں، مجھے پہچانتے ہوو؟ اور وہ جواب دیتے ہیں کہ اپنے محسن کو بھلا کوئی بھولا بھی کرتا ہے ؟


ساحل بھائی ہر وقت ہشاش بشاش اور چاق و چوبند نظر آتے ہیں۔ میں نے ان کو کبھی پژمردہ اور غمگین نہیں دیکھا۔ یہ الگ بات ہے اور جیسا کہ میں اوپر کہہ بھی چکا ہووں وہ اپنی قوم کے در د میں من ہی من روتے اور پلکوں آنسو جذب کرتے ہیں۔
وہ ہر محفل اور نشست کی جان نظر آتے ہیں۔ اپنے چست فقرے ، نرم مسکراہٹ ، اور برجستگی میں جواب نہیں رکھتے۔ یہ ناممکن ہے کہ ساحل بھائی سے کوئی ملے اور پھر ان کو بھول جائے۔ یہ میرا دعوی ہے۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ گزشتہ سال ہم نے ایک آل انڈیا کہانی مقابلہ کرایا تھا۔ کہانیوں پر فیصلہ 31/جوولائی 87ء کو کیا گیا تھا۔ ججوں میں ایس فضیلت صاحب ، تبسم نشاط صاحب، عتیق جیلانی سالک صاحب اور ساحل بھائی تھے۔ چھ، سات، گھنٹے یہ پروگرام چلا تھا۔ ان ہی دنوں ٹیٹا گڑھ (مغربی بنگال) سے برادرم شوکت اسرار خان بھی آئے ہوئے تھے سو انہوں نے بھی اس پروگرام میں شرکت کی تھی اور ساحل بھائی سے حد درجہ متاثر ہوئے تھے۔ وہ چند روز یہاں رہ کر چلے گئے ، لیکن ساحل بھائی کی یاد میں ان کے تڑپتے خط آج بھی میرے پاس آتے رہتے ہیں۔


ایک ضروری بات میں یہ بھی کہوں گا کہ اتنے اچھے ادیب و شاعر ہوتے ہوئے بھی ساحل بھائی اپنے آپ کو قطب مینار ہرگز نہیں سمجھتے۔ ہماری بزم۔۔ "ہم قلم" کے لئے انہوں نے ہمیشہ ہمیش تعاون دیا۔ اچھے مشورے بھی دئیے، وقت بھی دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو طویل عمر دے اور وہ ادب میں ہمیشہ درخشاں ستارہ کی طرح جگمگاتے رہیں۔ آمین!


***
ماخوذ از کتاب: بچوں کا ادب اور مرتضیٰ ساحل - مرتبہ محمد مسلم غازی
ناشر: سید پبلشنگ کمپنی، نئی دہلی (سن اشاعت: 1994ء)

Murtaza Sahil Taslimi: A nice person and a good writer. by: Athar Masood Khan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں