پھندے کا تماشا - افسانہ از زید مشکور - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-29

پھندے کا تماشا - افسانہ از زید مشکور

phande-ka-tamasha-short-story-zaid-mashkoor

"ارے تم میری بات کیوں نہیں سن رہی ہو، اپنی مما کو کیوں نہیں سمجھا رہی ہو، بس دس ہی لاکھ کا تو مسلہ بچا ہے، چالیس لاکھ کا تو حل ہو گیا ہے، پتہ نہیں اب تم کو کیا ہو گیا ہے، کیا میں نے تم سے کبھی کوئی جھوٹا وعدہ کیا ہے کہ تمہیں میرے اوپر بھروسہ نہیں ہو رہا؟"
ساحل تین دن پہلے کی طرح آج پھر فون پر چیخ رہا تھا، اس کا چہرہ غصہ سے سرخ تھا، وہ عجیب باؤلا سا نظر آ رہا تھا، اس کے بدن کی تمازت اندرونی طیش کی شکایت کر رہی تھی۔


ساحل کے والدین‌ تقریباً پچیس تیس برس پہلے روزگار کی تلاش میں گاؤں سے دہلی آئے تھے، یہاں آکر وہ شروع میں تو بہت پریشان رہے، مگر پھر انہوں نے اپنا خود کا ہوٹل کھول لیا، ہوٹل کھولتے ہی ان کی قسمت چمک اٹھی، ہوٹل پر ہر وقت گاہکوں کی بھیڑ لگی رہتی، رات کے کھانے کے وقت تو ہوٹل میں کندھے سے کندھا چھلتا، کیوں کہ یہاں کا کھانا لذیذ ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر ہوٹلوں کے بالمقابل سستا بھی ہوتا تھا۔
ساحل کی بس پیدائش ہی گاؤں کی تھی، ورنہ اس کی مکمل پرورش دہلی میں ہی ہوئی تھی لہذا اس کے مزاج میں یہاں کا عیش و عشرت سما ہوا تھا۔ وہ تین لڑکوں میں اپنے والدین کا منجھلا لڑکا تھا۔ اس کا من پڑھائی لکھائی میں کبھی نہیں لگا، اس کے والد نے پڑھانے کی بہت کوشش کی، مگر پھر مجبور ہو کر بارہ تیرہ سال کی ہی عمر میں ہوٹل کی ذمہ داری میں اپنے ساتھ اسے شامل کر لیا۔ پڑھنے لکھنے سے ستر کوس دور رہنے والے ساحل نے اس ذمہ داری کو بخوشی قبول کر لیا، اور بڑے شوق سے ہر ایک چیز کی مکمل نگرانی رکھنے لگا۔ ساحل کیش کاؤنٹر پر بیٹھتا، بغیر کسی گڑبڑ کے گاہکوں کا حساب کرتا، اس کے لین دین میں کبھی کوئی فرق نہیں آتا۔
ایک دن درمیانی قد و قامت، چھریری جسامت ، خوبصورت اور صاف رنگت والی ایک لڑکی نے کچھ کھانا پیک کرا کر ساحل کے کاؤنٹر پر دستک کی اور دو ہزار کا نوٹ ساحل کی طرف بڑھایا۔ ساحل اس کے چمکتے چہرہ پر نظر ڈالتے ہی اس نازک اندام کے حسین سراپے میں کھو گیا۔ اس کے حساب کی مہارت کا کچھ اتا پتہ نا تھا، اس نے عجب مدہوشی کے عالم میں حساب سے زیادہ روپئے اس کے ہاتھ میں تھما دیئے، وہ ابھی بھی اس کی نگاہوں کی بلاخیزی میں ڈوبا ہوا تھا، کہ پیچھے سے ایک گراہک کی آواز آئی: " ارے جلدی کرو، مجھے ٹرین پکڑنی ہے"۔
تب کہیں جا کر ساحل کو ہوش آیا کہ وہ کیش کاؤنٹر پر بیٹھا ہے، اور اس کے سامنے گراہکوں کی ایک بھیڑ کھڑی ہے، ورنہ ابھی تک وہ تو اپنے آپ کو تخیلات کی ایک الگ دنیا میں بسائے ہوئے تھا۔


آج ساحل گراہکوں کو جیسے تیسے نپٹا رہا تھا، وہ لڑکی تو جا چکی تھی، مگر ساحل کا ذہن و دماغ ابھی بھی اسی کے خیالات میں کھویا ہوا تھا، ادھر لڑکی نے مہمانوں کی ضیافت سے فارغ ہو کر جب ساحل کے ذریعے لوٹائے گئے روپیوں کو گنا، تو وہ حساب سے کہیں زیادہ نکلے، اب اس نے ساحل کی حواس باختگی کا مطلب کا سمجھ‌ لیا تھا۔ اس نے جانے انجانے میں کچھ سوچ کر مسکرایا اور زائد روپیوں کو اپنے پاس رکھ کر بقیہ روپیے والدہ کو لوٹا دیے، وہ بار بار اپنی جیب کی طرف ہاتھ بڑھاتی، روپئے نکالتی، اور پھر مسکرا کر واپس رکھ لیتی۔
دس بارہ دن ہو گئے تھے، اس درمیان میں سیکنڑوں گراہک آئے ہوں گے، اور خوب آمدنی بھی ہوئی، مگر ان سب سے ہٹ کر ساحل کی نگاہیں ایک خاص گراہک کی آمد کی منتظر تھیں۔ آج ساحل کاونٹر پر کچھ حساب کر رہا تھا، کہ یکلخت کسی اسکوٹی کے ہارن نے اس کی یکسوئی کو توڑ دیا، اس نے رجسٹر بند کرکے پارک ہوتی ہوئی اسکوٹی پر اپنی نظریں دوڑائیں، قبل اس کے وہ کسی ملازم سے کچھ مانگے اس نے ہاتھ کے اشارے سے ‌اس کو اپنی طرف بلا لیا، اور سامنے رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔


دونوں ایک دوسرے کو کچھ دیر تک ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے، قبل اس کے وہ اپنا آرڈر بک کرائے، کہ اتنے میں ساحل کے منہ سے بے اختیار سوال نکلا:
آپ کا نام کیا ہے ؟
" میرا نام زارا ہے، میں یہیں تیسری گلی میں رہتی ہوں " بڑی تیزی سے جواب دیتے ہوئے وہ اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگی۔
"مجھے معلوم ہے آپ کا نام ساحل ہے، آپ پچھلے دو تین سالوں سے یہاں کیش کاؤنٹر پر ذمہ داری سنبھال رہے ہیں"
" اور ہاں پچھلی بار جب میں آئی تھی، تو آپ نے تین سو روپے زیادہ واپس کر دیے تھے، یہ لیجئے اپنے روپے " زارا نے ساحل کی طرف تین سو روپیے بڑھاتے ہوئے کہا۔
"ارے نہیں۔۔۔ نہیں، اب رہنے دیں، داصل کبھی کبھی بھیڑ میں ایسا ہو جاتا ہے" ساحل نے لڑکھڑاتے ہوئے الفاظ میں تیزی سے جواب دیا۔
" آپ کا کوئی کانٹیکٹ نمبر ہے ؟ تاکہ گھر سے آرڈر کر سکوں، ہوٹل والا نمبر تو بہت بزی رہتا ہے، جلدی رسیو نہیں ہوتا " زارا نے شکایتی لہجہ میں سوال کیا۔
"یہ لیجئے، یہ میرا پرنسنل نمبر ہے، آپ کسی وقت بھی آرڈر کر سکتی ہیں، میں ملازم کے ذریعہ آپ کا آرڈر پہنچوا دوں گا" ساحل نے زارا کو اپنا پرسنل کارڈ تھماتے ہوئے کہا۔
ابھی ساحل اور زارا نے اپنی اپنی باتیں شروع کی تھیں، کہ پیچھے سے کسی ملازم کی آواز آئی، ساحل بھیا ! بہت چیک رکھی ہوئی ہیں، آج بھیڑ نہیں ہے آپ بینک چلے جائیں، ابا کا فون آیا تھا، ابا نے پہلے آپ کو ہی فون کیا تھا مگر آپ رسیو نہیں کیا۔
ساحل اور زارا نے ایک دوسرے کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا، اور پھر ملنے کا وعدہ کر دونوں کرسی سے اٹھ گئے، ساحل کی نگاہیں اس وقت تک زارا کا پیچھا کرتی رہیں، جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی۔


ایک دن ساحل کے فون پر نئے نمبر سے کال آئی، ساحل نے نا چاہتے ہوئے بھی فون ریسیو کر لیا.
"ہیلو۔۔۔۔۔ کون ؟؟"
"جی میں زارا بول رہی ہوں، مجھے کچھ آرڈر کرنا ہے، اور آپ کیسے ہیں، طبیعت کیسی ہے؟" آرڈر کا بہانا بنا کر پتہ نہیں زارا نے ایک سانس میں کتنے جملے ادا کر دئے۔
"اس وقت ملازم کہیں دور گیا ہے، آپ خود آجائیں تو بہتر ہے" ساحل نے بھی ملازم کی عدم موجودگی کا بہانا کر کے زارا کی ملاقات کا موقع میسر کر لیا۔
وہ دونوں چند مہینوں میں اچھے دوست بن گیے تھے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دوستی میں پختگی آ رہی تھی، دونوں گھنٹوں ایک دوسرے سے فون پر باتیں کرتے، اور باہر پارکوں میں ملاقاتیں کرتے۔ ساحل اور زارا کے تعلقات کو تقریباً ایک سال ہو رہا تھا، دونوں کی یہ دوستی اب کسی اور رشتے میں بدل چکی تھی، شاید جس کو محبت کہتے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن دونوں کی بات چیت نہ ہوتی ہو، خواہ ایک دو منٹ ہی کیوں نہ ہو، اور کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا کہ جس میں دونوں کی ملاقات نہ ہوتی ہو۔ ساحل زارا کے ہر نخرے برداشت کرتا، ہر ناز اٹھاتا، زارا بھی ساحل کی ہر ایک بات مانتی، بنا اس کی مرضی کے کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔


" ساحل ہم دونوں گھر والوں کی نظروں چھپتے چھپاتے کب تک اس طرح ملیں گے ؟ " زارا نے ساحل کے بازو میں ہاتھ ڈالے اس کندھے پر سر رکھتے ہوئے پوچھا۔
" ٹھیک ہے ہم دونوں اپنے اپنے گھر میں بات کرتے ہیں" ساحل نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بڑی نرمی سے جواب دیا۔
شام میں ساحل جب گھر پہنچا، تو ذرا بدلا ہوا نظر آرہا تھا، اس کے دل کی دھڑکنیں کچھ کہنا‌ چاہ رہی تھیں، مگر الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے، آخر کار اس نے بڑی ہمت کرکے امی کو اپنے اور زارا کے تعلقات کے بارے میں بتا دیا، امی نے نوخیز عمر کی ایک شرارت سمجھ کر بس ڈانٹ دیا، اور کہا " ابھی تمہاری شادی والی عمر نہیں ہے، اپنے کام پر دھیان دو"۔


"ساحل ! کیا ہوا ؟ کیا گھر میں بات کی تھی " اگلی صبح زارا نے کال کرتے ہی پہلا سوال یہی کیا۔
"ہاں میں نے امی سے بات کی تھی، مگر انہوں نے کم عمری کا حوالہ دیتے ہوئے منع کر دیا، اور تم نے کی؟
ساحل نے جواب دیتے ہوئے اپنا سوال بھی پیش کر دیا۔
" بات کیا کرتی ، تمہارا نام لیتے ہی مما کا پارہ چڑھ گیا، اور پھر سے ہزاروں سوال، اور مجھے تم سے دور رہنے کی سختی سے ہدایت دی"۔ زارا نے پریشان کن لہجہ میں جواب دیا۔
" نہیں زارا ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا ہے، ہم نے پہلی ملاقات میں جو طے کیا تھا، وہی میرا آخری فیصلہ تھا، اور رہے گا، اس کے علاوہ میں کسی بھی فیصلے پر راضی نہیں ہے"۔


شاید زارا کی ماں نے اس کو ایسے ایسے حسین خواب دکھائے تھے، اور پھر اس کا ایسا برین واش کیا تھا،‌ کہ چند ماہ سے زارا نے پہلے کے طرح ساحل سے ملنا ختم کر دیا۔ دونوں کے تعلقات میں شاید کچھ کمی آ گئی۔ زارا اب تھوڑا بہت ساحل کو نظرانداز بھی کرنے لگی تھی۔ اب اس نے زیادہ فون کرنا بھی بند کر دیا تھا، ستم یہ کہ کبھی کبھی ساحل کی کال کٹ بھی کر دیتی تھی۔ زارا کے ایسے رویہ کو تقریباً ڈھیر سال ہو رہا تھا، مگر ساحل کی محبت میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا، بلکہ اس کی چاہت کی شدت میں اضافہ ہی ہوا تھا۔


"زارا تم نے شادی کے سلسلے میں مما سے بات کی تھی ؟" دو بار زارا کے فون کاٹنے کے بعد تیسری بار ریسیو ہونے پر ساحل نے یکایک سوال کیا۔
" ہاں میں نے بات کی تھی، مما کہہ رہی تھیں، کہ ساحل یہیں دہلی میں پچاس لاکھ کی زمین خرید کر تمہارے نام کرے، تب میں تمہاری اس سے شادی کروں گی "
زارا نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا۔
قریب تھا کہ ساحل کے ہاتھ سے فون گر جائے، مگر اس نے خود سنبھالا، زارا کے اس تاجرانہ رویہ سے اس پر جیسے بجلی گر گئی تھی۔ مگر پھر بھی اس نے مکمل ہوش و حواس کے ساتھ خود کو سنبھالے رکھا۔
" ٹھیک ہے زارا ! میں اس سلسلے میں اپنے والدین سے بات کرتا ہوں، میں ان کو اس بات پر بھی راضی کر لوں گا " ساحل نے لڑکھڑاتے ہوئے الفاظ کو درست کرتے ہوئے کہا۔


آج ہوٹل سے واپسی پر ساحل کا چہرا اترا ہوا تھا، وہ گھر آتے ہی معمول کے مطابق آنگن میں بیٹھنے کے بجائے سیدھا کمرے میں چلا گیا۔ ساحل کی امی نے سمجھا کہ شاید آج زیادہ کام کی وجہ سے اس نے ایسا کیا ہے۔ رات کے کھانے کے وقت بھی اسے کئی بار آواز دی گئی، تب کہیں وہ کمرے سے نکل کر آیا، اور جیسے تیسے کھانا حلق سے اتارنے کے بعد پھر سیدھے کمرے میں چلا گیا، اس کی حرکت پر امی سے رہا نہیں گیا۔ وہ اس کے پیچھے بھاگی آئیں، اور گبھرائی ہوئی بولیں: ساحل سب خیریت تو ہے؟
ساحل نے گھبراتے ہوئے زارا کی مما کی پیش کش کو اپنی امی کے سامنے رکھا جسے سنتے ہی امی کا پارا چڑھ گیا۔
"ساحل ! میں نے پہلے ہی کہا تھا، اس کلموہی زارا سے دور رہو، ڈربے جیسے گھر میں رہنے والے شہر کے یہ لوگ بڑے حریص اور لالچی ہوتے ہیں، ہم گاؤں والوں سے ان کا مزاج بہت مختلف ہوتا ہے، بیٹا ہم تمہاری شادی گاؤں کی اچھی سے اچھی لڑکی کریں گے، جس سے تم چاہو گے، جانے دو اس کلموہی کو۔۔۔۔" ایک سانس میں سارے جملے امی بول گئیں۔
" نہیں امی ! میں اس کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کروں گا، پلیز آپ ابو سے بات کریں " ساحل نے منت کرتے ہوئے کہا۔
"جو میں نے کہا یہی ابو کہیں گے، آخر اور بھی تو دو لڑکے ہیں، تم اکلوتے تھوڑے ہو " امی نے غصے بھرے لہجہ میں چلا کر کہا۔
" ارے اتنی دیر سے تم ماں بیٹے کیا اودھم مچائے ہو ؟ آخر کیا ماجرا ہے، کہ مجھے آنا پڑا " امی کی چیخ سنتے ہی ابو کمرے میں داخل ہوئے۔


امی نے ساری بات ابو کے سامنے رکھ دی۔
"ساحل تم پاگل تو نہیں ہو گئے، میں نے تم پر بھروسہ کر کے سارا کاروبار تمہارے ذمہ کیا، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرے دو اور بچے نہیں، بس تم ہی اکلوتے ہو، اگر اکلوتے بھی ہوتے تب بھی میں تمہاری ہر الٹی سیدھی خواہشیں پوری نہ کرتا " ابو پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے تیز آواز میں بولے۔
" ابو ! پلیز آپ میری یہ پہلی اور آخری بات مان لیں، اس سے پہلے میں نے تو کبھی کوئی خواہش نہیں کی، اور نا آئندہ کروں گا، پلیییییز ابو۔۔۔" ساحل نے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
" نہیں ہرگز نہیں، تم پاگل ہو گئے ساحل ! میں نہیں " ابو اپنا سر پیٹتے ہوئے بڑی اونچی آواز میں چیخے۔
" ابو ! یہ میرا آخری فیصلہ ہے، اگر میری شادی زارا سے نہیں ہوئی، تو میں جان دے دوں گا، پھر مجھے آپ کی ایک کوڑی کی بھی ضرورت نا ہوگی، اپنی ساری جائداد اپنے دونوں بیٹوں میں ہی بانٹ دیجئے گا " ساحل نے منت سماجت کرتے ہوئے اپنا آخری فیصلہ سنا دیا، اور کمرے میں سناٹا ہو گیا، صرف تینوں کی سسکیوں کے علاوہ کوئی آواز نہیں تھی۔


"زیب ! انسان اپنی اولاد سے ہی ہارتا ہے، میں اپنے بچے کو کھونا نہیں چاہتا ہوں، میں نے سوچا ہے کہ گاؤں کی آدھی زمین بیچ کر اپنے بچے کی زندگی بچا لوں، تمہارا کیا خیال ہے زیب ؟" ایک لمبی سے جمائی لے کر ابو نے ساحل کی امی زیبا سے پوچھا۔
" میں بھی یہی کچھ سوچ رہی تھی، مگر ہمت نہیں ہورہی تھی، رات بھر ایک پل بھی آنکھ نا لگی ، عجیب کشمکش میں جاگتے ہوئے رات کٹی، ہائے میرا بچہ۔۔۔۔۔۔" یہ کہتے ہوئے زیبا پھپھک کر رو پڑی۔
"ساحل بیٹا ! ہمیں تمہاری جان سے زیادہ عزیز کچھ نہیں، ہم گاؤں کی آدھی جائیداد اور آبائی گھر کا نصف حصہ بیچ دیں گے، جس کی کل قیمت چالیس لاکھ بنتی ہے۔ پھر میں اور تمہاری امی گھر کے آدھے حصے میں کسی طرح گزارا کر لیں گے" ابو نے ساحل کو اپنا فیصلہ سنا کر ایک لمبی سانس لی، یہ سنتے ہی ساحل کا دل بلیوں اچھل گیا، کسی طرح وہاں سے ہٹ کر زارا کو خوشخبری سنانے کے لئے بھاگا۔


"اففو کہاں ہے آخر یہ زارا کی بچی، فون کیوں نہیں اٹھا رہی ہے؟" ساحل فون کو جھلا کر بیڈ پر پھینکا اور کافی دیر انتظار کے بعد بالآخر سو گیا۔
اگلے دن ساحل نے زارا کو فون کیا، زارا کے فون رسیو کرتے ہوئے، ساحل نے ابو کے فیصلے سے باخبر کیا۔
"ساحل، رکو میں امی سے بات کرکے تمہیں کال کرتی ہوں" کہتے ہوئے زارا نے کال کٹ کر دی۔
ساحل ریسیونگ بٹن پر انگوٹھا رکھے زارا کی کال کا انتظار کر رہا تھا، کہ بیل ہوئی، کال ریسیو ہوتے ہی زارا بولی:
" ساحل امی کہہ رہی ہیں، کہ ہم نے پچاس لاکھ کی بات کی تھی، اور تمہارے ابو تو چالیس کی ہی بات کر رہے ہیں، امی نے کہا ہے، کہ پورے پچاس لاکھ پر ہم آگے بات بڑھائیں گے " زارا اپنی امی کے بیان کو دہراتے ہوئے بولی۔
"زارا تم اتنی بدل کیسے گئی ہو، میں نے تم سے سچی محبت کی ہے، اور تم تو تجارت پر اتر آئی، زارا کہیں تمہاری امی تم کو استعمال تو نہیں کر رہیں؟" ساحل کی آواز اچانک بلند ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں زارا نے کال کٹ کر دی، اور دوبارہ رسیو نہیں کی۔


ساحل آج پھر سے زارا کو کال پر سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا:
"زارا ہماری فیملی کے لئے چالیس لاکھ ہی بہت بڑی رقم ہے، بیچارے ابو نے کس طرح انتظام کیا، بس وہی جانتے ہیں، اتنی رقم تو بہت کافی ہے"۔
" نہیں امی نے صاف منع کر دیا ہے" زارا نے انکاری لہجہ میں دو ٹوک انداز میں جواب دیا۔
" زارا تم سمجھ کیوں نہیں رہی، اگر کہیں اور سے شادی ہوئی تو میں جان دے دوں گا " ساحل کا لہجہ بپھر گیا۔
" دیکھو اگر تم نے پھر اونچی آواز میں بات کی، تو میں کال کٹ کر دوں گی، پھر رسیو بھی نہیں کروں گی، اور ہاں فالتو میں بار بار جان دینے کی بات مت کیا کرو، دو سال سے جان دینے، پھانسی لگانے اور پھندے سے لٹکنے والے جھوٹے جملے سن سن کر میرے کان پک گیے ہیں، لیکن کبھی تم نے پھندا لگایا نہیں۔" زارا نے ترش روئی سے جواب دیا۔
"بہت شوق ہے نا تم کو مجھے پھندے سے لٹکے ہوئے دیکھنے کا، آؤ ویڈیو کال پر دکھاتا ہوں" ساحل نے غصے میں کہا۔
" ہاں آ رہی ہوں ویڈیو کال پر، اگر ہمت ہے تو دکھاؤ، بڑے آئے جان دینے والے، ہنہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" زارا نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔


ساحل نے ویڈیو کال کرکے موبائل کو میز پر دیوار کے سہارے رکھا، اور دوڑ کر اندر اسٹور روم سے رسی لے آیا۔ اتفاق سے آج کی شام گھر پر ساحل کے سوا کوئی اور نہیں تھا، سب لوگ دو دن کے لئے گاؤں گئے ہوئے تھے۔ رسی لاکر ساحل نے زارا کی آنکھوں کے سامنے پنکھے سے باندھ کر پھندا بنایا، اور اسٹول پر کھڑے ہوکر پھندے کے اندر گردن ڈال لی۔ پھندے کو گردن میں ڈال کر وہ زارا کو دکھا رہا تھا کہ اسی دوران اچانک اس کا پیر پھسلا، اور یکایک اسٹول ساحل کے قدموں سے جدا ہو گیا۔ اب ساحل چھٹپٹاتے ہوئے پھندے سے جھول رہا تھا، رات کی تاریکی اور گھر کی تنہائی میں ساحل کی چیخیں بے سود تھیں۔ ادھر پھندے کے تماشے کے ڈر سے زارا کی بھی کال کٹ چکی تھی۔
اگلی صبح پنکھے سے جھولتی جوان لاش، پولیس کی گاڑیوں کے بجتے سائرن، ماں باپ کی دردناک سسکیاں اور چیخیں، عزیزوں کی آہ و بکا اور پھندے کا تماشہ تھا بس، اور کچھ نہیں۔


***
زید مشکور (لکھنؤ، اترپردیش)
ای-میل: shaikhzaid947[@]gmail.com
زید مشکور

Phande ka tamasha. Short story by: Zaid Mashkoor

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں