نہی عن المنکر کا فریضہ - ترجیحی ضرورت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-28

نہی عن المنکر کا فریضہ - ترجیحی ضرورت

obligation-of-nahi-anil-munkar
مسلم معاشرے کی صورتحال پر ایک نظر
(معا شرتی تنزلّی کی اصل وجہ)

کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں اورمختلف قسم کی برائیوں مثلاًجھوٹ ، دھوکہ اور وعدہ خلافی وغیرہ کا ارتکاب بھی کرتے ہیں ۔ روزے بھی رکھتے ہیں اور لڑائی جھگڑے سے بھی باز نہیں آتے ۔ حمد و نعت کا شوق رکھتے ہیں اورگانے وغیرہ بھی سنتے ہیں۔ حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں اور رشوت و سود ی معاملات میں بھی ملوث ہیں، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار بھی کرتے ہیں اوربزرگانِ دین میں اللہ تعالیٰ کی صفات شامل کرکے شرک جیسا گناہ بھی کرتے ہیں۔ آج تقریباً ہر دسویں گھر میں ایک حاجی یا حافظ موجود ہے مگر اثرات ۔۔۔۔!!!؟؟ دوسرے الفاظ میں ہم نیکی کے کام بھی کرتے ہیں اور گناہ کے کام کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ !!
یہ بھی مشاہدہ ہے کہ فی زمانہ ہر ایک اپنی اپنی پسندکے فلاحی کاموں میں مشغول و مطمئن ہے۔ مثلاً ہر شخص دینی تعلیم کے فروغ کیلئے مسجد و مدرسہ بنانے ، غریبوں کے علاج ، ہسپتال بنانے، بھوکوں کو کھلانے، غریبوں کی شادیاں وغیرہ اور ان کاموں کیلئے چندہ، زکوٰۃ اور کھالیں وغیرہ جمع کرنے یا غلط اور غیر شرعی طریقوں سے کما کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کیلئے پرجوش اور مستعد ہے۔یعنی لوگوں سے پیسہ اکٹھا کرنے اور ان کے بلا حساب و کتاب استعمال کرنے والے فلاحی ادارے (NGO's) تو ملک میں بہت پائے جاتے ہیں مگر معاشرہ سے برائیاں مٹانے کیلئے کوئی موثر اور عملی کوشش نہیں ہوتی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نیکیوں کے انبار بڑھانے سے زیادہ اہم بات برائی کے معاملات سے دور رہنا اور گناہوں سے بچنا ہے ۔
اب صورتحال یہ ہے کہ برائی کا احساس یاپہچان مٹادی گئی ہے اور اس کی کراہیت ختم کردی گئی ہے۔انسان کے دل میں وہ کھٹکا (ضمیر کی آواز)جو برائی کرتے وقت محسوس ہوتا تھا اس کو ختم کردیاگیاجس کی وجہ سے برائی کا احساس یاتو بالکل ختم ہوگیا ہے یا برائی کو معمولی بات یا غیر اہم معاملہ سمجھا جانے لگا ہے۔مثال کے طور پر فرض نمازوں کے اوقات میں معاملاتِ زندگی میں مصروف رہنا اب ایک معمولی بات ہے ۔اسی طرح شریعت میں مسلمان مرد کا پائنچہ ٹخنے سے اوپر رہنا ضروری ہے مگر اب یہ ایک عیب سمجھا جاتا ہے اس کے برعکس خواتین پنڈلیاں تک دکھانے پر بے تاب ہیں، اسی طرح آج کے مسلمان والدین اپنے بچوں کے گانے اور تھرکنے پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے تالیوں سے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔جبکہ گانا اور موسیقی وغیرہ اسلام میں ممنوع اور ناپسندیدہ ہیں ۔جبکہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
"کسی بھی برائی کو حقیر نہ سمجھو کیونکہ یہ جمع ہوکر انسان کو ہلاک کردیتی ہیں ۔ " (مسند احمد)


دشمنانِ اسلام کا حربہ
(برائی کی اشاعت اور اصلاحی کاموں میں رکاوٹ)

مسلمان چونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادات کی ادائیگی اور رسول اکرم ﷺسے محبت کے معاملہ میں بہت حساس ہوتے ہیں اس لئے دشمنانِ اسلام مسلمانوں کو عبادات کی ادائیگی سے تو نہیں روکتے مگر ایک طرف تو وہ عقائد اور عبادات کی اصل روح کو متاثر کروانے والے کام کرواتے ہیں تاکہ عبادات بے فائدہ اور بے اثر ہوجائیں اور دوسری طرف وہ مسلمانوں کو گناہوں اور برائیوں میں اس طرح بتدریج ملوث کرواتے ہیں کہ برائی کا احساس ہی باقی نہ رہے۔یعنی دشمنانِ اسلام کا حربہ یا مقصد یہ ہے کہ گناہوں کے ارتکاب سے مسلمانوں کے دل سے قوتِ ایمانی کو ختم کردیا جائے کیونکہ قوتِ ایمانی کثرتِ گناہ سے متاثر ہوتی ہے۔نیز برائی کو اس قدر خوبصورت کرکے پیش کرتے ہیں کہ برائی ایک پرکشش اور قابلِ تقلید مثال بن جاتی ہے مثلاً سگریٹ نوشی کرتے ہوئے کلین شیو خوبصورت نوجوان کو ماڈل کے طور پر اس انداز سے دکھاتے ہیں کہ ہرنوجوان اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ویسے تو اخلاقی برائیوں اور گناہوں مثلاً زنا ،بے پردگی ، بے حیائی ، رشوت ، سود ، جوا ، دھوکا، نشہ آور اشیاء کا استعمال،اسراف اور بخیلی وغیرہ کو ہر معاشرے، ہر مذہب،ہر ضابطۂ اخلاق نے ہر زمانے اور ہر علاقے میں نہ صرف منع کیا ہے بلکہ روکنے کی تلقین (نہی عن المنکر) اور مزاحمت اور احتساب کا تعزیری نظام بھی وضع کیا ہے ۔ اور اسلام میں تو خصوصاً ہر قسم کی اخلاقی برائی اور اس کے پیداہونے والے اسباب پر قابو پانے کا ایک مکمل ضابطہ موجود ہے۔ اسلام کا فلسفہ یہ ہے کہ"فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے" کیونکہ قتل سے تو صرف ایک جان جاتی ہے مگر فتنہ (برائی ) سے بے شمار لوگوں کے نہ صرف ایمان و اخلاقیات ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے بلکہ معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔ چنانچہ آج کے دور میں اگر کوئی برائی کی اشاعت کرتا ہے یا برائی سے منع کرنے کی مزاحمت کرتا ہے تو سادہ ترین الفاظ میں وہ شخص نہ صرف بے حیا ، بے ضمیر ، غیرت سے عاری اور انسانیت کا دشمن ہے بلکہ شیطان کا نمائندہ اور آلہ کار ہے۔ ایساشخص بظاہراگر کلمہ گو ہے تو اس کو کم از کم یہ آیت ذہن میں ضرور رکھنی چاہیئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ)جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کیلئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ نہیں جانتے۔ (النور24:19)


مذکورہ بالا تمام دینی و اخلاقی تعلیمات کے باوجود یقینی طور پر انسانوں میں ایک ایسا گروہ پایا جاتا ہے جو یہ چاہتا ہے کہ دیگر تمام انسان اور مذاہب کے ماننے والے زیادہ سے زیادہ وقت ایسے گناہوں ، برائیوں اور اللہ کی نافرمانیوں میں ملوث رہیں جس کے نتیجہ میں ان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ٹوٹ جائے اور گناہوں کی وجہ سے وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوجائیں ۔ اور اگر مسلمانوں میں سے کوئی ایسا رویہ اختیار کرے کہ نیکی کرنے سے روکے اور برائی کی ترغیب دے تو اس کو کم از کم قرآن کریم کی یہ آیت ذہن میں رکھنی چاہئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ) تمام منافق مرد و عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں، یہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنی مٹھی بند رکھتے ہیں (کنجوسی، بخیلی کرتے ہیں)یہ اللہ کو بھول گئے، اللہ نے انہیں بھلادیا، بے شک منافق ہی فاسق و بد کردار ہیں ۔ (التوبہ 9: آیت67)


صورتِ حال کا ممکنہ حل
(نہی عن المنکر کے فریضے کی انجام دہی)

مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی تنزلی جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس کا تقاضا ہے کہ خرابیوں کی وجوہات اور سد باب پر فوری توجہ دی جائے ۔برائی کو بطور برائی واضح کیا جائے اور برائی کو پروان چڑھانے والے عوامل پر گرفت کی جائے ۔شریعت میں اس اہم کام کو نہی عن المنکر یعنی برائی سے روکنے کی اصطلاح کے تحت واضح کیا گیا ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں پر برائی، اس کے برے اثرات اور دنیاوی و اخروی نتائج واضح کئے جائیں ۔


کیا نہی عن المنکر کا فریضہ لازمی اور ترجیحی ہے؟
(اصل تبلیغ کیا ہے؟)

کلمہ توحید پر غور کریں اس میں بھی پہلی بات سب سے بڑی برائی(مُنکَر) یعنی غیر اللہ کی نفی یا اعلانِ انکار ہے ۔ دوسرے الفاظ میں شرک کا انکار سب سے ابتدائی اور اہم کام ہے اور یہی اصل تبلیغ ہے ۔ اسلام اور دیگر مذاہب و فلسفوں میں بنیادی فرق عقیدہ توحید اور اس کے عملی مطالبوں کے اطلاق ہی کا ہے یعنی عقیدے کی درستگی عبادات ، اذکار اور نیکی کے دیگر کام (حسنات) بجالانے سے زیادہ اہم ہے ۔ ایک معترض یہ سوال کرسکتا ہے کہ مسلمانوں میں تبلیغِ توحید کی کیا ضرورت ہے وہ تو پہلے ہی کلمہ گو ہیں؟ بس یہی وہ مفروضہ ہے جو سارے مسائل کی بنیاد ہے۔اور یہی وہ نکتہ بھی ہے جو سارے مسائل کا حل بھی مہیا کرتا ہے کیونکہ اگر ہم سارے لوگ مسلمان اور کلمہ گو ہیں تو موجودہ زمانہ میں مختلف صورتوں میں شرک کا ارتکاب کون کررہا ہے ؟اور کیا شرک صرف بتوں کو پوجنے کا نام ہے؟ ہم میں سے ہر ایک کو یہ جاننا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں کسی بھی دوسرے کو شامل کرنا شرک ہے اور یہ شرک کی سب سے خطرناک اور مروّجہ صورت ہے ۔ چنانچہ خدمتِ دین کا دعویٰ اور محنت کرنے والوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ اشاعتِ توحید اور ردِّ شرک کا کام پسند ، ناپسند یا اختیاری معاملہ نہیں ہے اور دعوتِ توحید کا کام ہی ان کی پہلی اور لازمی ترجیح ہونی چاہیئے اور یہ چیز رسول اکرم ﷺاور دیگر انبیاء علیہم السلام کے لائحہ عمل سے بھی واضح اور ثابت ہے۔ مندرجہ ذیل آیاتِ قرآنی اور احادیثِ رسولﷺ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(ترجمہ) اورتم میں سے ایک ایسی جماعت ضرور ہونی چاہیے جو (لوگوں کو) بھلائی کی طرف دعوت دے اور انہیں نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ اور یہی لوگ کامیابی پانے والے ہیں۔ ( اٰلِ عمران 3: آیت 104)
مزید فرمایا:
(ترجمہ) اور جب ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ ہلاک ہی کرنے والا ہے یا ان کو سخت سزا دینے والا ہے ، انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے روبرو عذر کرنے کیلئے(کہ ہم نے اپنا فریضہ پورا کیا تھا) اور اس لئے بھی کہ شاید یہ ڈر جائیں ۔سو جب وہ اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایاجاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو برائی سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ حکم عدولی کیا کرتے تھے ۔ (الاعراف 7 ، آیت 164-165)
اس کے علاوہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا :
تم میں سے جو بھی برائی کو دیکھے اسے چاہئے کہ وہ ہاتھ سے روکے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں ہی اس کو برا جانے یہ سب سے کمزور ایمان کی نشانی ہے ۔(مسلم)
نیز فرمایا:
راستوں پر بیٹھو تو اس کے حقوق ادا کرو، صحابہ yنے پوچھا کہ اس کے حقوق کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نگاہ نیچی رکھنا، راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ، سلام کا جواب دینا اور نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا۔ (بخاری ،مسلم)
نیز فرمایا:
وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی بڑے کی عزت نہ کرے، کسی چھوٹے پر رحم نہ کرے ، نیکی کا حکم نہ دے اور برائی سے کسی کو نہ روکے۔ (صحیح ابن حبان)



Obligation of Nahi-an-il-Munkar, Priority Necessity

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں