اصناف سخن : تعارف اور مثالیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-27

اصناف سخن : تعارف اور مثالیں

asnaaf-e-sukhn

اس عالم آب و گل میں بولی جانے والی بے شمار زبانوں میں اردو سب سے کم عمر زبان ہے ،مگر اپنی کمسنی کے بعد بھی اردو زبان میں ادب کے ایسے سرمائے موجود ہیں جو نہ صرف آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں بلکہ اپنے معیار کے اعتبار سے اتنے بلند ہیں کہ اس کی اکثر اصناف عالمی ادب سے آنکھ سے آنکھ ملاسکتی ہیں،نیز اردو زبان و ادب کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ اس نے بہت کم وقت میں عروج و ترقی کے مراحل کو طے کیا اسی لئے اسے اپنی نوع بہ نوع تخلیقات و تصنیفات کی بنا پر ہندوستانی ادبیات میں اہم مقام حاصل ہے نیز عالمی پیمانے پر بھی ہندوستان کی دیگر ادبیات کے مقابلے میں اردو زبان و ادب کا چلن زیادہ ہے ۔
دنیا کی تمام زبانوں کے ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اسی طرح اردو زبان و ادب بھی دو حصوں میں منقسم ہے :اصناف سخن یعنی شعر و شاعری اور دوسرا اصناف نثر ، ان میں سے ہر ایک کی کئی قسمیں ہیں ، چنانچہ اس مضمون میں چند ایک اصناف سخن کی تعریف اور مثالوں کو ذکر کیا جائے گا۔


(1) حمد :

یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہے تعریف ، اللہ کی تعریف میں کی جانے والی نظم کو حمد کہتے ہیں ، حمد میں ضروری ہے کہ انداز بیاں انتہائی عاجزانہ اور مؤدبانہ ہو ، زبان پاکیزہ اور بلاغت سے پر ہو ،تاہم شاعر حمد برائے حمد نہیں بلکہ اللہ کے عشق میں ڈوب کر لکھے ،جیسے:
مرا جی ہے جب تک تری جستجو ہے
زباں جب تلک ہے یہی گفتگو ہے


(2) مناجات:

اس کا مطلب ہے دعا ، تنہائی میں اللہ سے سرگوشی کرنا ، اس صنف میں شاعر کا مقصد اللہ سے التجا و گذارش ہوتی ہے،جیسے:
اے عزت اور اے عظمت والے
رحمت اور عدالت والے
دکھڑا تجھ سے کہنا دل کا
اک بشریت کا ہے یہ تقاضا
دل پہ ہے جب کوئی برچھی چلتی
آہ کلیجہ سے ہی نکلتی


(3) نعت:

نبی اکرم ﷺ کے محامد و محاسن اورحسن جمال کے بیان کرنے کو کہتے ہیں ، نعت لکھنے والے کو نعت گو شاعر ، نعت پڑھنے والے کو نعت خواں کہاجاتا ہے ، چنانچہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بہت سے صحابہ کرام نے نعتیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے، منجملہ تمام صحابہ کے حضرت حسان بن ثابت ؓ کو شاعر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا ہے جنہوں نے نبی کی تعریف و توصیف اور حضور کے دفاع میں اشعار کہے،جیسے :
قبلہ وہ کعبہ ایمان رسول عربی
دو جہاں آپ پہ قربان رسول عربی


(4) منقبت :

عرف عام میں اشعار کے ذریعہ کسی بزرگ یا ولی یا برگزیدہ شخصیت کی تعریف کرنے منقبت کہتے ہیں ،جیسے :
دہر ، جز جلوہ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
مظہرفیض خدا ، جان و دل ختم رسلؐ
قبلہ آل نبیؐ ، کعبہ ایجاد یقین
کس سے ہوسکتی ہے مداحی ممدوح خدا
کس سے ہوسکتی ہے آرائش فردوس بریں


(5) غزل :

وہ صنف نظم ہے جس کا ہر ایک شعر الگ مضمون کا حامل ہو اور اس میں عشق و عاشقی کی باتیں بیان ہوئی ہوں خواہ وہ عشق حقیقی ہو یا عشق مجازی ، لیکن آج کل غزل میں عشق و عاشقی کے علاوہ دنیا کا کوئی بھی موضوع زیر بحث لایا جاتا ہے ، غزل کے موضوعات میں بڑی وسعت اور تنوع ہوتا ہے ، غزل اردو کی مقبول ترین صنف سخن ہے ا س کی مخصوص ہیئت ہوتی ہے ، غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے اور اس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں جیسے:
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو ایک نظر میں رضامند کرگئی
اس شعر میں " اتر" اور "کر " قافیہ ہیں اور ردیف "گئی " ہے ۔
غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے اور اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے، جیسے:
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
غزل کا سب سے اچھا شعر "بیت الغزل " کہلاتا ہے ،غزل کے اشعار کی تعداد تین سے پچاس تک متعین کی گئی ہے لیکن عام طور پر سات، نو یا گیارہ یعنی طاق اشعار پر مشتمل ایک غزل ہوتی ہے ۔


(6) قصیدہ:

لفظ "قصد" سے مشتق ہے ، قصیدہ ایسی شاعری کو کہتے ہیں جس میں قصد یا ارادے سے کسی کی تعریف یامذمت کی جاتی ہے ،تعریف ہو تو قصیدہ مدحیہ کہلاتا ہے اور مذمت ہو تو قصیدہ ہجویہ کہلاتا ہے ۔قصیدہ در اصل اس مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے پہلے شعر کے دونوں اور باقی تمام اشعار کے دوسرے مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوں لیکن ردیف کی پابندی ضروری نہیں ، اردو ادب میں قصیدہ فارسی سے داخل ہوا اور اردو میں مرزا رفیع سودا اور ابراہیم ذوق جیسے شعرا نے قصیدے کی صنف کو اعلی مقام تک پہنچایا ، قصیدے کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے بسا اوقات درمیان میں بھی مطلعے لائے جاتے ہیں ایک قصیدے میں اشعار کی تعداد کم سے کم پانچ ہے اور زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں تاہم اردو اور فارسی میں کئی کئی سو اشعار ملتے ہیں ، جہاں تک قصیدے میں استعما ل کی جانے والی زبان کا تعلق ہے تو اس کی زبان بڑی پرشکوہ اور لہجہ بلند آہنگ ہوتا ہے نیز الفاظ و تراکیب اور تشبیہات و استعارات کا موزوں استعما ل اس کو چار چاند لگا دیتا ہے،جیسے :
شسوار طریقہ انصاف
نو بہار حدیقہ اسلام
جس کا ہر فعل صور ت اعجاز
جس کا ہر قول معنی الہام


(7) مثنوی:

اس نظم کو کہتے ہیں جو مسلسل ہو اور اس میں کوئی واقعہ یا داستان کا ذکر ہو ،جہاں تک لفظ مثنوی کے لغوی معنی کا تعلق ہے تو اتنا واضح ہے کہ "مثنوی " عربی لفظ ضرور ہے مگر اس کا تعلق عربی کی کسی صنف سے نہیں ہے ۔ مثنوی چونکہ لفظ مثنوی سے ماخوذ ہے جس کا لفظی معنی " دو دو کیا گیا " نقل کے مطابق اصل " جوڑ ۔جوڑ " کے ہیں ۔ اس معنی کی مناسبت مثنوی کی ہیئت سے ہے ، مثنوی کی ہیئت یہ ہے کہ اس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور حسب ضرورت قوافی بدلتے رہتے ہیں۔ اس صنف میں اشعار کی تعداد متعین نہیں بلکہ عموما مثنویاں طویل ہوتی ہیں جن میں ہزاروں اشعار ہوتے ہیں اور اشعار مسلسل ہوتے ہیں ۔
مثنوی کے موضوعات میں رزم و بزم ، حسن و عشق ، تہذیب و اخلاق ، تصوف و فلسفہ ، تاریخ و سوانح سب شامل ہیں لیکن اردو میں عشقیہ مثنویاں زیادہ لکھی گئیں ہیں جن میں مافوق الفطری عناصر زیادہ ابھر کر سامنے آئے اور جدید دور میں قومی ، ملی ، ملکی اور سماجی مسائل پر بھی مثنویاں لکھی گئیں ہیں ۔


(8) شہر آشوب :

اس سے مراد ایسی صنف سخن ہے جس میں کسی ملک یا شہر کے بگڑتے حالات ، ابتری ، بد امنی ،انتشار و کرب اور اقدار کی شکست و ریخت کا بیان ہو ، اس کے لئے کوئی مخصو ص ہیئت متعین نہیں یہ عموما مخمس ، مسدس ، قطعی ، رباعی چھوٹی مثنوی اور قصیدے کی ہیئت میں لکھے گئے ہیں ۔


(9) واسوخت :

ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں محبوب کے ظلم و ستم ، بے التفاتی اور بے اعتنائی سے تنگ آکر شاعر رد عمل کے طور پر " یارے دیگر " کی تعریف و توصیف اور حسن و جمال کی مدح سرائی کرتے ہوئے اس سے دل لگانے کی بات کرتا ہے ،واسوخت کی یہ صنف فارسی سے اردو میں آئی ہے اور فارسی میں اس کو ترویج دینے والے وحشی یزدی ہے، اس کی مثال ہے :
تو جو بدلا ہے تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی ، اور نہیں اور سہی


(10) ریختی :

ایسی صنف سخن ہے جس کی شناخت ہیئت سے نہیں بلکہ موضوع سے ہوتی ہے ، اس صنف میں صنف نازک کو عاشق اور مرد کو معشوق کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے ، ریختی میں عورت کے جذبات کے ترجمانی عورتوں کی زبان اور محاورے میں کی جاتی ہے نیز عورتوں کے معاملات و کیفیات کا ذکر ریختی میں بہت دلچسپ انداز میں اور چٹخارے کے ساتھ کیا گیا ہے ،جیسے :
مجھے کہتی ہیں باجی تو نے تاکا اپنے دیور کو
نہیں دبنے کی میں بھی گر نہیں تاکا تو اب تاکا


(11) رباعی :

اردو شاعری کی ایک اہم صنف ہے بئیتی اعتبا ر سے اس میں چار مصرعے ہوتے ہیں انھیں چار مصرعوں کی وجہ سے ایک مکمل مضمون یا خیال مسلسل اور مربوط ہوتے ہیں ۔ رباعی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی " چار چار " کے ہیں ، رباعی کے پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور تیسرا مصرعہ بے قافیہ ہوتا ہے لیکن ایسی بھی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں جن میں چاروں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔اردو کی دوسری اصناف کی طرح رباعی بھی فارسی کے تتبع میں شروع ہوئی اردو کے پہلے صاحب دیوان محمد قلی قطب شاہ رباعی کے پہلے شاعر مانے جاتے ہیں ان کی کلیات میں متعدد رباعیاں موجود ہیں ، قلی قطب شاہ کے یہاں خمریہ ، نعتیہ ، مدحیہ اور عشقیہ مضامین پر مشتمل رباعیاں ملتی ہیں ۔ دکنی شعرا میں سراج اورنگ آبادی اور ولی کے یہاں بھی رباعیاں ملتی ہیں جو گرچہ تعداد میں کم ہیں مگر اہم ہیں :
ہر صبح غموں میں شام کی ہے میں نے
خونابہ کشی مدام کی ہے میں نے
یہ مہلت کم کہ جسے کہتے ہیں عمر
مرمر کے غرض تما م کی ہے میں نے


(12) قطعہ :

عربی زبان میں قطعہ ایک مسقل صنف سخن کی حیثیت رکھتی ہے اردو میں بھی قطعہ کی روایت موجود ہے مگر اس کا چلن بہت عام نہیں ہے بہت ہی کم شعرا نے مستقل قطعات کہے ہیں ، فنی اعتبار سے قطعات میں موضوع کی کوئی قید نہیں ہر طرح کے موضوعات ا س میں سماسکتے ہیں ، قطع میں کم سے کم دو شعر ہوتے ہیں اور زیادہ کی کوئی تعداد متعین نہیں ، قطعہ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے تمام اشعار آپس میں مربوط اور ہم وزن و ہم قافیہ ہوں اور معنوی اعتبار سے ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں اور اس میں کسی بحر یا وزن کی تخصیص نہیں البتہ رباعی کی مخصوص بحر سے اس کا منفرد ہونا ضروری ہے :
دلوں کو مرکز مہر و وفا کر
حریم کبریا سے آشنا کر
جسے نان جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر
(علامہ اقبال ؒ)


***
Dr.Abdul Samad Nadvi
Head Dept of Arabic, Milliya College, Beed, M.S

Genres of Urdu Poetry, Introduction and Examples. - Dr. Abdul Samad Nadvi

2 تبصرے: