اقبال اشہر کی زبانی شاعروں کے قصے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-22

اقبال اشہر کی زبانی شاعروں کے قصے

shairon-ke-qisse-book-by-iqbal-ashhar

مشاعرہ کی دنیا میں اقبال اشہر کا نام شاعری بطور خاص نظم کے حوالہ سے ملک وبیرون ملک کے کسی اسٹیج پر محتاج تعارف نہیں، نستعلیق شخصیت کے حامل شائستگی اور متانت سے معمور اپنی شعری بنت اور اظہار خیال کے نرالے اور سادہ انداز سے شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والے اقبال اشہر کی تازہ کتاب "شاعروں کے قصے" میں بیس تحریریں ہیں، فہرست میں پروفیسر وسیم بریلوی، مخمور سعیدی، ڈاکٹر بشیر بدر، راحت اندوری، منور رانا اور ابو جلال پوری جیسے اہم اسماء شامل ہیں، بیسواں اور آخری خاکہ بقلم خود صاحب کتاب کا ہے۔
زیر نظر کتاب ایک سو تراسی (183) صفحات پر مشتمل ہے اور پہلا خاکہ گلزار دہلوی کا ہے، جو گلزار دہلوی کے خاندانی پس منظر کے ساتھ ان کی ذاتی اور گنگا جمنی شخصیت کی ایک ایک پرت سلیقہ سے کھول کر بیان کرتا ہے، اقبال اشہر کی نثر میں چست الفاظ اور ظریفانہ جملے تحریر میں جان ڈال دیتے ہیں۔
"گلزار دہلوی کا قد چھوٹا تھا مگر چھوٹی بات کرنا انہیں سخت ناپسند تھا۔"
"زتشی خاندان کے اکثر بزرگوں کے سر کا اگلا حصہ بالوں سے محروم تھا مگر علم پروری کے لحاظ سے یہ تمام گنجے سر بڑے زرخیز ثابت ہوئے۔"
"ایک پین کی نِب اردو رسم الخط کے احترام میں ٹیڑھی کٹی ہوئی۔"


اقبال اشہر کے شعری کلام سے صرف نظر ان کی نثر کا اسلوب بھی بہت پیارا ہے البتہ کہیں کہیں عبارت بوجھل ہوجاتی ہے لیکن جس صنف کا انہوں نے انتخاب کیا ہے اس میں موجود قصے اس ثقل کو شکست دے دیتے ہیں۔ دوسرا خاکہ بشیر بدر کا ہے جس میں ان کی نجی اور مشاعرہ کی زندگی پر خاصی روشنی پڑتی ہے، علاوہ ازیں کئی اثر انگیز قصے ذکر کئے ہیں جو معنی خیز ہونے کے ساتھ ایک سبق بھی دیتے ہیں، اقبال صاحب خاکہ نہیں لکھتے ہیں بلکہ گزرے روز وشب کے حسین لمحوں کو تحریر میں چنتے ہیں، ان کی نثر بہت پیاری ہوتی ہے کبھی کبھی تو کنفیوز ہوجاؤ آیا یہ نثر ہے یا شعر، تعبیرات کا پرلطف استعمال مزید اہمیت بخشتا ہے۔ راحت اندوری صاحب کے تعارف میں ان کے گہرے رنگ سے متعلق "بلالی رنگ" سے تشبیہ دے کر دیکھئے کتنی خوبصورت تعبیر استعمال کی ہے۔ نصرت گوالیار کا خاکہ پڑھنا شروع کرو تو لگتا ہے کہانی سنا رہے ہیں بالکل وہی افسانوی انداز، نپے تلے جملے اور تعبیرات، درمیان درمیان میں اشعار کا تڑکا لطف دو بالا کردیتا ہے۔
اقبال صاحب نے شاعروں کے قصے میں ان ہی شعراء کا انتخاب کیا ہے جن کے ساتھ مشاعرہ کے شب وروز گزرے بلکہ یہ کہئے پل پل کا ساتھ رہا اور پچاسوں سفر اور سیکنڑوں مشاعروں میں ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، یہ بھی بتادینا ضروری ہے کہ شاعروں کے مختصر تعارف اور شعری مجموعے کے ذکر نے کتاب کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔
مشیر جھنجھانوی کا خاکہ بھی نہایت دلچسپ ہے جس میں ان کی شاعر نوازی کے کئے قصے درج ہیں۔ اگلے چند صفحات میں موج رامپوری سے اپنے تعلق کو اقبال اشہر نے اس خوبصورتی سے لفظوں کی طشتری میں پروسا ہے مانو کسی دریا کنارے مدھم سروں میں گنگناتا ہوا کوئی گیت۔


ظرافت کے سانچے میں ڈھلے یہ معلوماتی قصے تھکے ہوئے ذہنوں اور مرجھائے ہوئے دلوں کے لئے اکسیر اور ان کو شگفتگی بخشتے ہیں۔ اقبال اشہر نے کتاب میں بیسویں صدی کے نصف سے تاحال پرانی دلی میں آباد شعراء کی ایک کہشکشاں بنادی ہے اور بہت سلیقہ سے شعراء کا رسمی تعارف بھی پیش کیا ہے، جس میں شاعروں سے متعلق کئی نئی باتیں آشکار ہوتی ہیں، مثلا ایک زمانہ میں مشہور شاعر منور رانا تخلص آتش کیا کرتے تھے، علاوہ شعراء کی آپسی چپقلش اور سرد جنگ کی کہانیاں بھی ملتی ہیں۔ یہ کتاب شاعروں کے احوال اور ان سے واقفیت کے لئے ایک مستند دستاویز بھی کہی جاسکتی ہے، جس کے مطالعہ سے مشاعروں کی روایت اور اس کے مزاج سے متعلق بہت کچھ پڑھنے اور جاننے کو ملتا ہے، ان شعراء کا ذکر جن سے ایک پیڑھی نابلد ہے اور یادوں میں کہیں خو بو بھی نہیں ملتی ہے، اقبال صاحب نے یوں کہئے کرید کرید کر اتنے خوبصورت اور شائستہ انداز میں پیش کیا ہے کہ پڑھتے جاؤ، سر دھنتے جاؤ، اقبال صاحب کی نثر میں بھی شعر کی پرچھائی نظر آتی ہے لیکن بس کچھ دھندلی دھندلی سی البتہ اس سے زیادہ کی نہ گنجائش ہے اور نہ ہی ضرورت۔
پرانی دلی کے گلی کوچوں اور ان میں آباد شعراء کی رہائش گاہوں کے علاوہ شاعروں کی بیٹھک کے حوالہ سے ادبی حیثیت کا حامل سلیمان ٹی اسٹال اور دیگر چائے خانوں پر ہونے والی نشستوں کا نقشہ نہایت تفصیل سے کھنیچا ہے کہ بعض اوقات سفرنامہ کا گمان ہوتا ہے اور قاری سیاہ و اجلی روشنی میں پرانی دلی کی گلیوں میں بھٹکنے لگتا ہے۔ دراصل یہ بایں صورت ممکن ہوسکا کہ اقبال صاحب کا بچپن ان ہی گلی کوچوں کی چوکھٹ، کھلتے بند ہوتے کوانڑوں اور کھڑکیوں کو دیکھتے ہوئے گزرا، مصنف پرانی دلی اور اس کی چوکھٹوں میں آباد ایک ایک گوشہ کی سیر کرا دیتے ہیں، ایک مثال ملاحظہ ہو:
"اگلے دن جامع مسجد سے تراہا بیرم خان تک، کوچہ چیلان سے کلاں محل تک، ترکمان دروازے سے سوئی والان تک، چوڑی والان سے بلی ماران تک، فراش خانے سے گلی قاسم جان تک، بیری والے باغ سے نبی کریم تک ہر ادب نواز کی زبان پر اس شعر کے خالق کا نام تھا "راحت اندوری"۔


راحت اندوری کا ایک قصہ مشہور ہے، وہ کہتے ہیں میں ایک شو میں کراچی گیا تھا، وہاں سے ہمیں بائی روڈ سکّھر کی طرف جانا تھا تو جون ایلیاء سویرے مجھے ہوٹل پہ لینے آئے، تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ سکّھر تک جانے میں کتنا وقت لگے گا تو انہوں نے کہا "تین پیگ بس"۔ ایسا ہی ایک مزیدار قصہ اقبال صاحب نے راحت اندوری اور رئیس امروہوی کے نسبت سے ذکر کیا ہے:
"کہرے سے بچنے کے لئے ہم لوگ ظہرانے کے فوراً بعد نکل پڑے تھے پھر بھی سفر تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا، شدید ٹھنڈ کی وجہ سے بزرگ شاعر رئیس رامپوری کو بار بار پیشاب آرہا تھا اور ان کی گاڑی کو بار بار رکنا پڑ رہا تھا، ساتھ ساتھ چلنے کا وعدہ دوسری گاڑی کو بھی رکنے پر مجبور کررہا تھا، جب ہم سب چائے پینے کے لئے ایک ڈھابے پر رکے تو میں نے طاہر بھائی سے پوچھا سہسوان اب کتنی دور ہے؟ وہ تو سوچتے ہی رہ گئے، راحت صاحب نے بڑی معصومیت سے کہا: بس دو پیشاب اور"۔
"شاعروں کے قصے" پڑھنا شروع کیا جائے تو لگتا ہے کہ خاکوں کا مجموعہ ہے، ذرا اور صفحات پلٹیں تو تذکرہ کا گمان ہوتا ہے پھر مزید ورق گردانی سے احساس ہوتا ہے کہ نہیں یہ تو ڈائری ہے یا خود نوشت کا لائٹ ورژن، جس میں مصنف نے دیگر شعراء کے حالات اور قصوں کے درمیان نہایت آہستہ اور شائستہ انداز میں اپنی شعری اور مشاعرہ کی زندگی کی پوری روداد بیان کی ہے جو ہر دوسرے شاعر کے ساتھ مسلسل سفر میں ہے۔ البتہ وقتاً فوقتاً بعض تحریروں میں قصوں کی کمی کا احساس بھی تازہ ہوتا رہتا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ مصنف اس کمی کو دور کرنے کے لئے خود قصے گڑھتا نہیں ہے بلکہ ہو بہو قاری کے سامنے رکھ دیتا ہے۔
کتاب میں بہت سے ایسے قصے ہیں جو آپ کو بور نہیں ہونے دیں گے، پرانی دلی کا نئی نسل کے لئے گمنام شاعر قیصر حیدری اور مخدوم زادہ مختار عثمانی کا ایک مکالماتی قصہ پیش ہے:
"وہ بیشتر چپ چپ سے کھوئے کھوئے سے رہتے تھے مگر کبھی کبھی پاناما کی سگریٹ پیتے پیتے ان پر مالیخولیا کا ایسا دورہ پڑتا تھا کہ چپائے سے چپتے تھے اس عالم وارفتگی میں مختار احمد عثمانی ان سے آہستگی سے کہتے تھے: قیصر صاحب واپس آجائیے۔
مگر ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا، مختار کچھ وقفے بعد پھر کہتے : قیصر صاحب واپس آجائیے۔
دوسری بار کے ٹہوکے سے وہ بدک جاتے: مختار! تم چوتیا ہو۔
مختار کو اطاعت گزاری کے ہاتھوں مجبور ہوکر کہنا پڑتا تھا: بے شک بے شک۔"
رجنی گندھا پان مصالحہ کا فیض صرف کالج، یونیورسٹی، اسکول کی سیڑھیوں اور شہر کی سڑکوں تک محدود نہیں بلکہ اس نے ہر جگہ گند مچایا ہے، معراج فیض آبادی کے تذکرہ میں اقبال صاحب کی زبانی سنئے "اگر ہندوستان میں رجنی گندھا پان مصالحہ ایجاد نہ ہوتا تو وہ سینکڑوں اور مشاعروں کو اپنی منفرد اور شائستہ نظامت سے یادگار اور باوقار بناتے"۔


قیصر حیدری، افسر جمشید، منظر بھوپالی، پاپولر میرٹھی، مختار عثمانی اور ظفر تابش جیسے شاعروں کے ذکر کے بعد آخری خاکہ دو حصوں پر مشتمل بقلم خود اقبال اشہر کا ہے، اقبال صاحب نے مضمون کی ابتداء بہت ہی افسانوی بلکہ داستانوی انداز میں کی ہے اور بغیر کسی لاگ لپیٹ کے گھریلو حالات، تعلیم وتربیت اور زندگی کے نشیب وفراز کا ذکر جامع انداز اور کم لفظوں میں کیا ہے، بچپن سے یہ کہانی شروع ہوتی ہے اور 1985 میں سترہ سال کی عمر میں پہلا مشاعرہ پڑھنے سے لے کر عالمی مشاعروں میں شرکت اور اس دوران پیش آنے والے واقعات اور زندگی کی صبح وشام کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے اقبال صاحب کا شعری سفر پرانی دلی کی تاروں بھری چھت پر اسم اعظم کی برکت کا نتیجہ ہے، بقول اقبال اشہر:
"کچھ دن پہلے کی بات ہے وہ چھت پر سونے کے ارادے سے لیٹا ہوا تھا نیند تو نہیں آئی مگر پہاڑی بھوجلہ پر ہورہے ایک مشاعرہ میں پڑھا گیا ایک مصرع ہوا کی دوش پر لہراتا ہوا آگیا "پڑھا ہوگا کسی نے اسمِ اعظم" اس سے پہلے کہ دوسرا مصرع سماعت آشنا ہوتا ہوا کی رفتار دھیمی پڑگئی، مصرع رستے میں ٹھٹک گیا۔۔۔۔۔۔ بس پھر کیا تھا حضرت کی پوری رات اسی بے چینی میں کٹ گئی۔۔۔۔۔۔۔ اگلا مصرع یہ ہوگا، نہیں یہ ہوگا۔" اس طرح اردو دنیا کو سیاہ اجلی شب سے ایک خوبصورت اور مترنم شاعر مل گیا جس کی یہ نظم کبھی نہیں بھلائی جاسکتی "اردو ہے میرا نام، میں غالب کی سہیلی"۔ اقبال اشہر کی یہ نظم بچپن سے سماعت میں محفوظ ہے لیکن چند ماہ قبل لکھنؤ میں "انداز بیاں اور" کے مشاعرہ میں اس تخلیق کار کو نگاہوں کے سامنے کچھ فاصلہ پر سننے اور دیکھنے کا پہلا اتفاق تھا، ملاقات کی خواہش تب بڑھ گئی جب نانا جان ڈاکٹر ابرار احمد خسرو کے ساتھ ان کی تصویر نظر نواز ہوئی البتہ "شاعروں کے قصے" ہاتھ میں آنے کے بعد یہ خواہش سہ آتشہ ہوچکی ہے۔
کتاب کی طباعت عمدہ ہے اور سرورق پر گلزار دہلوی، وسیم بریلوی، راحت اندوری، منور رانا اور انور جلال پوری کے علاوہ بھی کئی تصویریں آویزاں ہیں، گراں گزرنے والی پروف کی چند معمولی غلطیاں دور ہوجائیں تو کتاب میں دلچسپی کا ایک جہان آباد ہے جو قاری کو اپنے سے دور نہیں جانے دیتی۔


کتاب: شاعروں کے قصے
مصنف: اقبال اشہر
سن اشاعت: 2022ء
صفحات: ایک سو تراسی (183)
قیمت: دو سو روپئے
ناشر: عرشیہ پبلیکیشنز، دہلی
***
ایس ایم حسینی۔ ندوہ کیمپس، ڈالی گنج، لکھنؤ۔

Email: hamzahusaini0981[@]gmail.com , Mob.:08960512979


ShairoN ke qisse, a book by Iqbal Ashhar. - Book Reviewer: S. M. Husaini

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں