یومِ سر سید - ایک تعارف بچوں کے لیے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-20

یومِ سر سید - ایک تعارف بچوں کے لیے

sir-syed-day-introduction-for-children

پیارے بچو!
'یومِ سر سید یا سر سید ڈے' اس بے مثل شخصیت کی یومِ پیدائش پہ مناتے ہیں جنھوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل بدل کر رکھ دیا۔اس شخصیت کا اصل نام سید احمد خان ہے۔ جنھیں ہم سر سید احمد خان کے نام سے جانتے ہیں۔
ہر سال17/اکتوبر کو 'سر سید ڈے یا یومِ سر سید' منایا جاتا ہے۔ سر سید احمد خان کی پیدائش 17/ اکتوبر 1817ء دہلی میں ہوئی تھی۔ ان کے والدسید محمد تقی ایک صوفی بزرگ تھے۔ وہ مغل بادشاہ شاہ عالم دوئم کے بہت قریبی تھے۔ مغل دربار ہی سے سر سید احمد خان نے قرآن اور سائنس کی تعلیم حاصل کی۔اعلیٰ تعلیم کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کالج گئے۔یونیورسٹی آف ایڈنبرگ نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔برٹش حکومت نے انکی خدمات کو سراہتے ہوئے انھیں "سر" کا خطاب دیا۔ اس طرح وہ 'سید احمد خان ' سے ' سر سید احمد خان' کہلائے۔
سر سید احمد خان ایک دور بین شخص تھے۔جب ہمارا ملک انگریزوں کا غلام تھا۔ ملک کے لوگ اس غلامی سے چھٹکارا پانے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ مختلف انجمنوں کے ذریعہ تحریکوں میں شامل ہوکر مختلف طرح کی آزادی کی لڑائی کے لیے منصوبے بنا رہے تھے۔ٹھیک اسی وقت سر سید احمد خان مسلمانوں کے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کچھ مختلف انداز سے کر رہے تھے۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ ملک کو آزاد کرانے کی کوشش جاری ہے۔ ایک نہ ایک دن یہ کوشش رنگ لائے گی۔ ہمارا ملک آزاد ہوگا۔ مگر ہمارے ملک کے مسلمان نہ تودولت مند اور نہ ہی تعلیم یافتہ ہیں۔اس لیے مسلمانوں کا مستقبل روشن اسی وقت ہوگا جب وہ تعلیم یافتہ ہوں گے۔اس لئے انھوں نے کسی بھی انجمن یا ادارے سے نہ جڑ نے کا فیصلہ کیا۔ اپنی دور بینی کے مطابق تن تنہا ایک الگ جنگ لڑ نے میں مصروف رہے۔


جس طرح ملک کے لوگوں نے ملک کی آزادی کے لیے اجتماعی طور پرمذہب ،ذات اور نسل سے پرے متحد ہو کر فرنگیوں سے جنگیں لڑیں اور 1947میں15/ اگست کے دن ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا۔ ٹھیک اسی طرح سر سید احمد خان بھی انفرادی طور پر ایک نہیں کئی جنگیں لڑیں۔ایک ایسی جنگ جومستقبل میں ہندوستان کے عوام و قوم کی بھلائی کے لیے تھی۔ دوسری آزاد ہندوستان میں معاشی آزادی کی جنگ تھی۔ تیسری جو خاموشی کے ساتھ صدیوں کا فاصلہ طے کرنے والی جنگ تھی۔چوتھی جوان کے بعد بھی جاری و ساری رہنے والی جنگ تھی اور پانچویں جو بغیر کسی جانی و مالی نقصان کے صرف فائدہ پہنچانے والی دائمی جنگ تھی۔ ایک ثابت قدم، مستقل مزاج اور دور اندیش شخص ہی ایسی جنگ کا منصوبہ بنا کر لڑ سکتا ہے۔ یہ ایک عام انسان کی سوچ او رفکر سے بالا ترہے۔ اس جنگ میں نہ صرف سرسید احمد خان فاتح ہوئے بلکہ ہزاروں لوگوں کو بھی فاتح بنایا۔حال میں بھی فاتح ہو رہے ہیں۔مستقبل میں بھی فاتح ہوتے رہیں گے۔
پیارے بچو! انھوں نے اس تعلیمی مشن کو کامیاب کرنے کے لئے لوگوں سے گالیاں سنی، جوتے کھائے مگر ثابت قدمی سے اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہے۔ ملک اور قوم کی فکر لئے ہوئے سب سے پہلے مراد آباد میں سن 1859ء میں ایک انگلش میڈیم پرائمری اسکول قائم کیا۔ بعد ازاں سن 1975ء میں " محمڈن اینگلو اورینٹل ہائی اسکول" کا قیام عمل میں آیا۔ ان دو اسکولوں کے قیام کے درمیانی فاصلہ سولہ سال کاہے۔ اس درمیان انھوں نے ایک ٹرانسلیشن سو سائٹی قائم کی جو" سائنٹفک سو سائٹی" کے نام سے مقبول ہوئی۔ اس سوسائٹی کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مغربی جدید علوم کی انگریزی کتابوں کا ترجمہ کرکے اپنی مادری زبان میں شائع کرنا تاکہ جدید علوم کی تدریسی ساز و سامان کا انتظام ہو سکے۔


اس کے علاوہ انھوں نے سن 1860میں رسالہ' خیر خواہ مسلمانان'، 1866ء میں رسالہ 'علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گیزٹ' اور1870ء میں 'تہذیب الاخلاق' جاری کیا۔اس کا خاص مقصد مسلمانوں کی سماجی فلاح وبہبود اور تنظیم تھا۔انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ ملک و قوم کی ہی نہیں بلکہ زبان و ادب کی بھی اہم خدمات انجام دیں۔انھوں نے خود بہت کچھ لکھا اور دوسروں سے بھی لکھوایا۔ سرسید احمد خان نے کئی درجن کتابیں اور سیکڑوں مضامین سلیس زبان میں تحریر کی تا کہ عام لوگ بھی بہ آسانی سمجھ سکیں۔سرسید احمد خان پہلے شخص ہیں جنھوں نے اردوکو اجتماعی مقصد کا ترجمان اور علمی مطالب کا اظہار کا وسیلہ بنایا۔


سر سید نے جو ہائی اسکول قائم کیا تھا، اسے جدیدتدریسی ساز وسامان سے پُر ہونے کے سبب سن 1877ء میں کالج کا درجہ دے دیا گیا۔جس کا نام "محمڈن اینگلو اورینٹل کالج" رکھا گیا۔ پھریہی کالج ان کی وفات کے بائس سال بعد سن 1920 ء میں یونیورسٹی بن گئی۔ جو"علی گڑھ مسلم یونیورسٹی" کے نام سے پوری دنیا میں اپنی پہچان بنائی۔آج اس یونیورسٹی کی عمرسو سال سے زائد ہو چکی ہے۔اب ان کی دور بینی کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہم جوآج سوچ رہے ہیں وہ سر سید احمد خان دیڑھ سو سال پہلے سوچ چکے تھے۔یہاں سے فارغ طالب علموں میں صرف ہماری قوم ہی کے بچے نہیں ہیں بلکہ برادرانِ وطن کے بھی بچے ہیں۔جوپوری دنیا میں پھیل کر، اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہے ہیں۔ قابلِ قدرعہدے پر فائز ہو رہے ہیں۔ قوم و ملت کے ساتھ ساتھ ملک کا بھی نام روشن کر رہے ہیں۔


سرسید احمدخان نے جب مسلمانوں کو عصری تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیا تو ان پر کفر کے فتوے لگے۔انھیں کافروں کا ساتھی کہا گیا۔ان پر جوتے چپل برسائے گئے۔ پھر بھی انھوں نے ہار نہیں مانی۔مسلمانوں کو سمجھاتے رہے کہ تعلیم مسلمانوں کے لئے کتنی ضروری ہے؟ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کیوں ضروری ہے؟۔ یہ بات ہمیں ایک صدی بعد سمجھ میں آئی۔آج ہمیں پتہ چلا کہ عصری تعلیم کیوں ضروری ہے؟۔تعلیم کے بغیر آج کا انسان ادھورا ہے۔ہر میدان میں جدید ٹکنالوجی کا اثر دکھ رہا ہے۔ اگر سائنس اور ٹکنالوجی کا یہ مشن سر سید احمد خان دیڑھ سو برس پہلے نہ چلائے ہوتے تو ہم مسلمان جہالت کی دلدل میں اس طرح پھنس گئے ہوتے کہ نکلنے کی کوئی راہ نہ ملتی۔خدا کا شکر ہے کہ ہمارے اسلاف میں سیرسید احمد خان جیسی شخصیت تھی۔ جن کی دوربینی نے آج ہمیں اس لائق بنایا کہ ہم برادران وطن کیا پوری دنیاکے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے لائق ہیں۔


سرسید احمد خان جیسی شخصیت ہزاروں سالوں میں پیدا ہوتی ہے۔ جو قوم و ملت کو صحیح راہ دکھا سکے۔ انھوں نے صرف راہ ہی نہیں دکھائی بلکہ اذیتیں سہہ کر ہمارے لئے تعلیمی راہ کو ہموار کیا تاکہ ہم اس پر بہ آسانی سے چل سکیں۔آج ہم ان کی بنائی ہو ئی راہ پر چل رہے ہیں۔ا نھوں نے عصری تعلیم کے تعلق سے مسلمانوں سے کہا تھا کہ " فلسفہ (قرآن) ہمارے دائیں ہاتھ میں ، سائنس اور ٹکنالوجی ہمارے بائیں ہاتھ میں اور لا الہ اللہ ہمارے سر کا تاج ہے"۔جسے ہم نے سمجھنے میں ایک صدی گزار دی۔
پیارے بچو! مذکورہ بالا باتوں کی روشنی میں دیکھیں تو انھوں نے ہمارے لئے جو کیا، ہم ان کے لئے کچھ نہیں کر پا رہے ہیں اور ہم کر بھی نہیں پائیں گے۔ کیونکہ ؂
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا


ایسی ہی ایک شخصیت سر سید احمد خان بھی تھے۔ جنھیں ہم معمار قوم، مصلح قوم اورمحسنِ قوم کے لقب سے پکارتے ہیں۔ ان ہی کی یومِ پیدائش 17/اکتوبر کو ان کے نام ہی سے منسوب کر کے ہر سال ہم " سر سید ڈے" یا " یومِ سر سید"مناتے ہیں۔ یہ دن پورے ملک میں منایا جاتا ہے۔ لیکن جو سماں ان کے قائم کردہ 'علی گڑھ مسلم یونیورسٹی' میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے، وہ کسی دوسری جگہ نہیں ملتا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کے لئے یہ دن عید کا دن ہوتاہے۔ اس لئے "یومِ سر سید " بڑے ہی شان و شوکت سے مناتے ہیں۔ اس دن مختلف طرح کے پرگرامز ہوتے ہیں۔ پروگرامز کے علاوہ کھانے پینے کا ایسا انتظام ، جن کا اہتمام ہم اپنے تہواروں میں بھی نہیں کر پاتے۔


***
Osman Manzil, H/No. 387/1/166, Sthirpara Road West, Purbasha
PO:Kankinara, Distt-North 24 Parganas, Pin-743126 (West Bengal)

Sir Syed Day, an introduction for children by Khatab Alam Shaz.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں