مرتضیٰ ساحل تسلیمی (اصل نام: مرتضیٰ علی خاں) (پیدائش: 30/جون 1953 - وفات: 21/اگست 2020ء)
معروف شاعر، صحافی، ادیب اور ادبِ اطفال کے نامور قلمکار رہے ہیں جو گذشتہ سال کرونا وبا کی لہر کا شکار ہو گئے۔ ان کی پہلی برسی پر ایک ایسی یادگار کتاب "بچوں کا ادب اور مرتضیٰ ساحل" تعمیرنیوز کی جانب سے باذوق قارئین کی خدمت میں پیش ہے جو مرتضیٰ ساحل تسلیمی کے فن اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کروانے میں معاون ثابت ہوگی۔ تقریباً ڈیڑھ سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 6 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
مرتبِ کتاب محمد مسلم غازی اس کتاب کے تعارفی مضمون "کہتا ہوں سچ کہ ۔۔۔" میں لکھتے ہیں ۔۔۔
مرتضیٰ ساحل تسلیمی ہمہ صفت انجمن اور تحریک کا نام ہے۔ ایک غیرجانبدار باشعور قاری اور ناقد ان کی جہد مسلسل، شب و روز کی ریاضت اور محنت و جدوجہد کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے۔ اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ ان کے پاس کچھ ہے، وہ بعض خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں اور ان کو تحریر کا قدرتی ملکہ حاصل ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بچوں کے ادب میں (کیونکہ یہی موضوعِ بحث ہے) میں ساحل کا مقام کسی کا عطاکردہ پیشہ ور نقاد کا نامزد کردہ نہیں ہے بلکہ انہوں نے خود بنایا ہے، اشتہار بازی سے حاصل نہیں کیا۔
بعض نام نہاد نقاد بچوں کے ادب کی تاریخ کا ذکر کرتے وقت ساحل کو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ نظرانداز کر گئے جبکہ یہ شفیع الدین نیر، مائل خیرآبادی کے سلسلہ کی ایک مضبوط کڑی ہیں۔ ان کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ بچوں کے ادب کو پروازِ تخیل کے بوجھل پن سے بچایا اور اصلاحی پیغامات اس خوبصورتی سے کہانیوں کے اندر پرو دئے کہ وہ براہ راست وعظ و عبادت کا رنگ اختیار نہ کر پائے۔
اس پل صراط پر بہت سے لوگ چلے، کچھ راستے میں دم توڑ گئے یا قبلہ ہی بدل دیا لیکن مرتضی ساحل تسلیمی نے شکست تسلیم نہیں کی اور نہ ہی اسے ساحل پر لنگرانداز کیا بلکہ ان کا سفر مسلسل جاری ہے۔ وہ جو لکھتے ہیں، اس میں نیا رنگ ہے۔ وہ اپنی تحریروں کے خود خالق ہیں اور اپنے منفرد رنگ کے راوی بھی۔ انہوں نے کسی بھی مقام پر خود کو دہرانے کی ہیضہ کن بیماری سے کوسوں دور رکھا ہے جس میں ہمارے آج کل کے بیشتر ادیب گرفتار ہیں۔
اس کتاب کی اشاعت کا قصد میں نے کئی سال قبل کیا تھا لیکن کافی مشکلات آئیں۔ میں بڑے احترام اور صاف گوئی سے عرض کروں گا کہ ساحل صاحب نے بھی کچھ کمی نہیں کی۔ ان کی منکسرالمزاجی اور ان کی ہمہ صفت انتہائی مصروفیت نے مجھے مایوس کیا۔ وہ تو اپنے بارے میں ایسی کتاب کی اشاعت کے لیے آمادہ تک نہیں تھے۔ دو صفحات لکھنے میں بھی انہوں نے طویل وقت لیا جبکہ اس دوران رسائل کے لیے سینکڑوں صفحات لکھے ہوں گے۔
کتاب کی تاخیر سے اشاعت کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ کئی بزرگ ادیب و شاعر اس دنیا سے رخصت ہو گئے جنہوں نے اپنے احساسات سے نوازا تھا۔۔۔ آنجہانی ظفر پیامی اور کنور مہندر سنگھ بیدی سحر صاحب۔ جناب کیف بھوپالی اور جناب سراج انور مرحومین نے بھی اپنے تاثرات رقم کیے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ مرحمت فرمائے۔ آمین۔
امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ ادبی حلقوں میں اس کتاب کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بچوں کے ادب پر ریسرچ کرنے والوں کے لیے بھی غالباً ایک اہم حوالہ ثابت ہوگی۔
نوٹ: جن مشاہیر نے ساحل صاحب کے فن و شخصیت کا مختصر جائزہ لیا ہے، ان میں یہ اسمائے گرامی بھی شامل ہیں۔۔۔
مہندی سنگھ بیدی سحر، دیوان بریندرناتھ ظفر پیامی، محمد جاوید اقبال، سیدہ نسرین نقاش، مائل خیرآبادی، سید شہاب الدین، قاضی حسین احمد، مولانا سلیمان قاسمی، نعیم صدیقی، مریم جمیلہ، سید عزیز الحسن جعفری، خورشید احمد، سہیل انجم، ڈاکٹر الطاف حسین۔
اور اس کتاب میں شامل ساحل صاحب کی نگارشات کے عناوین ہیں ۔۔۔
غزل، گیت، اے میرے دلِ ناداں، پہیلیاں، بوجھو تو جانیں، حجام، بدلہ، کھوٹی اٹھنی، شمی کے کھلونے، صلہ، شکایت اور اداریے۔
مرتضیٰ ساحل تسلیمی اپنے مضمون "من آنم کہ من دانم" میں لکھتے ہیں ۔۔۔
۔۔۔ میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ بچوں کے لیے لکھنا بہت مشکل کام ہے۔ خود کو بچوں کی سطح پر لانا پڑتا ہے۔ ان کے مسائل کا تجزیہ ان کی ذہنی سطح سے کرنا پڑتا ہے۔ بچوں کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے، اگر قریب سے مشاہدہ کیا جائے، اگر بچوں کو پوری سنجیدگی سے پڑھا جائے تو یہ اپنے آپ میں ایک دلچسپ مشغلہ ہے۔ میں نے گزشتہ پندرہ سال میں بچوں کے لیے جو کچھ لکھا ہے وہ بچوں کے ادب کی کسی تعریف کے سانچے میں ڈھال کر نہیں لکھا ہے۔ شاید کوئی دوسرا ادیب بھی اس طرح نہیں لکھتا ہوگا۔ البتہ جو کچھ لکھا ہے اس میں یہ کوشش کی ہے کہ بچوں کے لیے دلچسپ ہو، معلوماتی ہو اور مفید بھی ہو۔ یعنی میری تحریریں پڑھ کر بچوں میں اخلاقی قدریں پیدا ہوں، وہ اچھے انسان بنیں اور برائی سے نفرت کریں۔ لیکن سب کچھ غیرمحسوس طریقے پر ہو۔
***
نام کتاب: بچوں کا ادب اور مرتضیٰ ساحل
مرتبہ: محمد مسلم غازی
ناشر: سید پبلشنگ کمپنی، نئی دہلی (سن اشاعت: 1994ء)
تعداد صفحات: 162
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 6 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Bachchon Ka Adab Aur Murtaza Sahil.pdf
فہرست | |||
---|---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | تخلیق کار | صفحہ نمبر |
1 | کہتا ہوں سچ کہ ۔۔۔ | محمد مسلم غازی | 8 |
2 | من آنم کہ من دانم | مرتضیٰ ساحل تسلیمی | 12 |
3 | احساسات | پروفیسر آل احمد سرور / پروفیسر قاضی عبدالستار | 14 |
4 | مرتضیٰ ساحل کا فن | ڈاکٹر ابن فرید | 15 |
5 | ساحل کے فن کو خراجِ تحسین | پروفیسر ابوالکلام قاسمی | 17 |
6 | میری رائے ہے کہ ۔۔۔ | اکبر علی خاں عرشی زادہ | 18 |
7 | نایاب ہیرا | محمد اعظم خاں | 20 |
8 | صالح ادیب مرتضیٰ ساحل | کیف بھوپالی | 23 |
9 | نیک جذبوں کا ادیب | وصی اقبال | 25 |
10 | بچوں کا شعری ادب اور مرتضیٰ ساحل | عتیق جیلانی سالک | 33 |
11 | میرا دوست میرا بھائی - اپنے اداریوں میں | تبسم نشاط | 50 |
12 | باتیں ان کی یادیں میری | ایس۔ فضیلت | 57 |
13 | بچوں کا شاعر اور ادیب | عزیز مرادآبادی | 66 |
14 | نظمِ حسرت میں بھی مزا نہ رہا | سراج انور | 75 |
15 | بچوں کے ادب کا ٹکسال | انجم بہار شمسی | 80 |
16 | خاموش ساحل | سراج الدین ندوی | 88 |
17 | مرتضیٰ ساحل - ایک تقابلی مطالعہ | فاروق علی خاں | 95 |
18 | ساحل تا ساحل | ہوش نعمانی | 100 |
19 | اچھا انسان اچھا ادیب | محمد اطہر مسعود خاں | 103 |
20 | صاف ذہن کے مالک | عرفان خلیلی | 107 |
21 | بچوں کا منفرد ادیب | سالک دھام پوری | 109 |
22 | بچوں کا ساحل | رئیس رام پوری | 112 |
24 | مرتضیٰ ساحل تسلیمی : مشاہیر کی نظر میں | مختلف شعرا و ادبا | 116 |
23 | مرتضیٰ ساحل - ایک جائزہ | محمد مسلم غازی | 123 |
25 | نگارشاتِ ساحل | مرتضیٰ ساحل تسلیمی | 127 |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں