ملائم سنگھ یادو اور مسلمان - کالم از معصوم مرادآبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-15

ملائم سنگھ یادو اور مسلمان - کالم از معصوم مرادآبادی

کالم نگار معصوم مرادآبادی، ملائم سنگھ یادو کے ساتھ (فائل فوٹو)

سماج وادی پارٹی کے بانی ملائم سنگھ یادو گزشتہ 10 اکتوبر کو 82 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ وہ تین بارملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے وزیراعلیٰ اور ایک بار ملک کے وزیردفاع رہے۔ 1997 میں وہ کمیونسٹ لیڈر کامریڈ ہرکشن سنگھ سرجیت کی مدد سے وزیراعظم کی کرسی کے بہت قریب پہنچ گئے تھے، لیکن سابق وزیراعظم وی پی سنگھ اور لالو پرساد یادو نے ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہونے دی۔


ایک معمولی اسکول ٹیچر کی حیثیت سے اپنی زندگی شروع کرنے والے ملائم سنگھ سیاست کی چوٹی تک کیسے پہنچے، اس کی داستان دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ ان کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ لمحہ وہ تھا،جب ان کے بیٹے اکھلیش یادو نے انھیں بے دست و پا کرکے سماجوادی پارٹی کی صدارت ہتھیا لی تھی۔ اس صورتحال سے حددرجہ پریشان ہوکر انھوں نے اپنے ایک قریبی کارکن سے کہا تھا "کیا میں اب خودکشی کرلوں؟" انھوں نے سماجوادی پارٹی کو بڑی محنت اور جدوجہد سے سینچا تھا اور یو پی کے مسلمان ان کی سب سے بڑی سیاسی پونجی تھے۔ مسلم ووٹ کی بدولت ہی وہ تین بار وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچے اور 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں انھیں 22 سیٹوں پر کامیابی ملی۔ میں نے ایک صحافی کے طورپر جن سیاست دانوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے، ان میں ملائم سنگھ کا نام سرفہرست ہے۔


یہ غالباً 1994 کا واقعہ ہے۔ دہلی میں ملائم سنگھ یادو کو ایک ایسے شخص کی تلاش تھی، جو اردو زبان پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ خوش خط بھی ہو۔ دراصل اس وقت کے شاہی امام سید عبداللہ بخاری نے انھیں مسلم مسائل پر اردو میں ایک خط لکھا تھا، جس کا جواب وہ اردو میں ہی دینا چاہتے تھے۔ کسی نے اس کام کے لیے خاکسار کا نام تجویز کیا۔ ایک روز صبح صبح سماجودای پارٹی کے دفتر سے میرے پاس فون آیا۔ "ملائم سنگھ جی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ گیارہ بجے نارتھ ایونیو پہنچ سکتے ہیں؟"
میں وقت مقررہ پر پہنچا تو ملائم سنگھ وہاں موجود تھے۔ انھوں نے شاہی امام کا خط میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ: "ذرا پڑھئے تو اس میں کیا لکھا ہے؟" میں نے اس خط کی عبارت انھیں سنائی۔ بعض اردو الفاظ ان کی سمجھ میں نہیں آئے تو انھوں ان کے معنی پوچھے۔ پھر مجھ سے کہا کہ آپ ایسے ہی خوشخط الفاظ میں میری طرف سے انھیں جواب لکھ دیجئے۔ میں نے ان کا جواب خوبصورت الفاظ کا جامہ پہناکر خوش خطی میں تحریرکر دیا۔ یہاں میرا خوشنویسی کا فن زیادہ کام آیا۔ اپنے خط کی خوبصورت تحریر دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ ہم چند لائن لکھتے ہیں تو عبارت کہاں سے کہاں پہنچتی ہے،آپ نے اتنی لائنوں کو بڑے سلیقے سے لکھ دیا۔ یہ ملایم سنگھ یادو سے میرا پہلا براہ راست تعارف تھا جو بعد کو ایک رشتے میں تبدیل ہوا۔


ملائم سنگھ مشہور سوشلسٹ لیڈر رام منوہرلوہیا کے سب سے بڑے پیروکار تھے اور انھوں نے ہی لوہیا کے نام کو زندہ رکھا۔ یہاں تک کہ لکھنؤ میں لوہیا ٹرسٹ کی داغ بیل ڈالی۔ ملائم سنگھ نے لوہیا کی سماجوادی تحریک سے متاثر ہوکر ہی اپنی پارٹی کا نام سماجوادی پارٹی رکھا تھا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے سماجواد کو نئے معنی پہنائے، جس کی وجہ سے ان کی پارٹی میں امرسنگھ کو عروج حاصل ہوا، جو بعد کو ان کی پارٹی پر آسیب کی طرح چھا گئے۔
امرسنگھ نے سماجوادی پارٹی کو پوری طرح کارپوریٹ کلچر میں ڈھالا۔ درحقیقت ملائم سنگھ دوراندیشی کے مقابلے میں ہمیشہ وقتی فائدے کو اہمیت دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیکولر سیاست کا پیروکار ہونے کے باوجود سنگھی حلقوں میں بھی رسائی رکھتے تھے۔ حالانکہ آر ایس ایس نے ہی انھیں "مولانا ملائم" کا خطاب دیا تھا۔ 2019 کے عام انتخابات سے پہلے جب انھوں نے بھری پارلیمنٹ میں سونیا گاندھی کی بغل میں بیٹھ کر نریندر مودی کو دوبارہ وزیراعظم بننے کا "آشیرواد" دیا تو سیکولر حلقوں میں انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 2019 میں لوک سبھا میں ان کے ممبران کی تعداد گھٹ کر پانچ رہ گئی اور اب محض دو ممبر ڈاکٹرشفیق الرحمن برق اور ڈاکٹر ایس ٹی حسن ہی لوک سبھا میں سماجوادی کے نام لیوا بچے ہیں۔


یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ملائم سنگھ کی سیاست کا محور و مرکزمسلمان تھے۔ مسلمانوں کے بل پرہی انھوں نے تین بار یو۔پی میں وزیراعلیٰ کا تاج پہنا۔ اس بحث سے قطع نظر کہ ان کی سیاست مسلمانوں کے لیے مضر تھی یا مفید، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ وہ کھل کر مسلمانوں کے حق میں بولتے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 90 کی دہائی میں جب وشو ہندو پریشد کا رام جنم بھومی آندولن عروج پر تھا تو وہ واحد سیاست داں تھے جو بابری مسجد کے حق میں بیان دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے دور اقتدار میں بابری مسجد کے گنبدوں پر چڑھنے والے نام نہاد کارسیوکوں پر گولی چلوائی اور شدت پسند ہندوؤں میں ولن کے طور پر مشہور ہوئے۔
درحقیقت بابری مسجد تنازعہ پر ان کے دو ٹوک موقف نے ہی انھیں مسلمانوں کا "مسیحا" بنایا تھا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے جب بابری مسجد کی اراضی تین حصوں میں تقسیم کرنے کا عجیب وغریب فیصلہ سنایا تو یہ ملائم سنگھ ہی تھے جنھوں نے کہاتھا کہ "مسلمان خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں"۔ وہ مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنا جانتے تھے اور اس کا سب سے زیادہ سیاسی فائدہ بھی انھوں نے اٹھایا۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے بابری مسجد کے بدترین مخالف کلیان سنگھ اورساکشی مہاراج کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کا کام بھی کیا۔ بہرحال مسلمانوں کی مذہبی قیادت نے ان کے انتقال کو سیکولر سیاست کا ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔


اگر یہ کہا جائے تو نے جا نہ ہوگا کہ بابری مسجد تنازعہ کا عروج دراصل ان کی سیاسی طاقت کے عرو ج کا زمانہ تھا۔ جیسے جیسے اس مسئلہ نے زور پکڑا ویسے ویسے ان کی سیاسی طاقت بھی بڑھتی چلی گئی۔ 2012 کے یوپی اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد انھوں نے اس بات کا برملا اعتراف کیا تھا کہ مسلمانوں نے اپنے سارے ووٹ سماجوادی پارٹی کی جھولی میں ڈال دئیے ہیں، لہٰذا سماجوادی کارکنوں کو ان کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ لیکن لوگوں نے دیکھا کہ اس کے ایک سال بعد جب مظفر نگر میں بھیانک مسلم کش فساد ہوا تو ان کی سرکار اسے روکنے میں قطعی ناکام رہی۔
یہیں سے مسلمانوں کے ذہن میں ملائم سنگھ اور ان کی پارٹی کے تعلق سے کچھ سوالات پیدا ہونے شروع ہوئے اور غالباً اسی کا نتیجہ تھا کہ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں ان کے ممبران اسمبلی کی تعداد 30 پر سمٹ گئی۔ فروری 2022 کے اسمبلی چناؤ میں ملائم سنگھ کا نعرہ بالکل بدل چکا تھا۔ انھوں نے پارٹی دفتر میں کارکنوں کو خطاب کرتے ہوئے کسانوں، نوجوانوں اور تاجروں کے لیے کام کرنے کا نعرہ دیا اور مسلمانوں کا نام تک نہیں لیا، ورنہ وہ اپنی ہر تقریر میں مسلمانوں کا نام ضرور لیتے تھے، لیکن اس کے باوجود سماجوادی پارٹی اس الیکشن میں بھی مسلمانوں کی پہلی پسند رہی۔


سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے بعد ملائم سنگھ یادو نے ان کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کام کیا؟ اس کا جواب صرف یہ ہے کہ انھوں نے اس پورے عرصہ میں مسلمانوں کی جذباتی تسکین کا کام کیا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ انھوں نے اپنے دوسرے دور حکومت میں اردو اساتذہ اور مترجمین کی بھرتی کے ذریعہ کچھ مسلمانوں کو روزگار فراہم کیا اور یوپی میں تمام سرکاری محکموں کے نام اردو میں لکھوائے، لیکن دیگر سیکولر سیاست دانوں کی طرح انھوں نے بھی مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لیے کوئی ٹھوس کام کرنے کی بجائے جذباتی نعروں کا سہارا لیا۔ مسلم ووٹوں کے سہارے اقتدار حاصل کرنے کے باوجود وہ یادوؤں کو ہی آگے بڑھاتے رہے۔


***
بشکریہ: معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

Mulayam Singh Yadav and the Muslims - Column: Masoom Moradabadi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں