نواب اچھے مرزا صاحب قبلہ کی صحبت میں متعدد مرتبہ پریس کانفرنس کا ذکر آیا، لیکن وہ عرصے تک "پریس کانفرنس" کا مفہوم یہ سمجھتے رہے کہ وہ پنچایت جو چھاپے خانے میں ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ جب بھی ان کے سامنے لیاقت علی خاں اور چودھری سر ظفر اللہ وغیرہ کی پریس کانفرنسوں کا تذکرہ آیا، انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ:
اماں! سچ کہنا، کیا یہ لوگ اس قدر بے پیندے کے ہو گئے ہیں کہ چھاپہ خانوں میں جا کر بھیڑ جماتے اور گپیں ہانکتے ہیں؟
جب ایک روز نیاز مند نے انہیں "پریس کانفرنس" کا مطلب سمجھایا تو فرمانے لگے کہ البتہ یہ ایک معقول بات ہوئی۔ لاحول ولا قوۃ۔ ہم ابھی تک پریس کانفرنس کی لم ہی نہ سمجھے۔
بہرحال اس روز سے مرزا صاحب تاک میں رہے کہ جب بھی موقع ہوگا ، پریس کانفرنس منعقد فرمائیں گے اور مزے سے اپنا بیان دنیا بھرکے اخباروں میں چھپوائیں گے۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ لیاقت علی خاں صاحب پنجاب کے دورے پر تشریف لے گئے اور اخبار نویسوں کو روز روز کے جھنجٹ سے چھٹی ملی۔ مرزا صاحب کو یہ موقع غنیمت معلوم ہوا اور جھٹ قلمدان کھول۔۔ نیشا پوری قلم سے زرفشانی کاغذ پر بخط گلزار اخبار نویسوں کے نام دعوت نامے تحریر کئے۔ ہر دعوت نامے کا مضمون اس قسم کا تھا:
"فصاحت دستگاہ ، صحافت پناہ جناب دبیر و مدیر اخبار۔۔ بعافیت باشند اما بعد۔۔۔ گزارش بخدمت عالی آنکہ فدوی ہمیشہ سے غلام اہل کمال کا۔۔۔ اور جاں نثار اہل قلم کا رہا ہے وجہ یہ کہ خود فدوی کا تعلق ایک ایسے خاندان فضیلت نشان سے ہے کہ شہرہ اس کا اوقاف تابہ قاف ہے۔ پدر بزرگوار اس عاجز کے مایہ ناز لکھنو المسمیٰ بہ مرزا پھویا صاحب قبلہ مدظلہ العالی صاحب ہوئے ہیں اور جد امجد اس ننگ اسلاف کے عالی جناب مرزا زٹلی صاحب اعلی اللہ القامہ تھے کہ اپنے علم و فضل کے لحاظ سے نہ محتاج تعریف ہیں نہ محتاج تعارف۔ فدوی صرف قلم کے کوچے کا ہی شہ سوار نہیں ہے بلکہ الحمدللہ زمرہ اہل سیف سے بھی ہے اور قسم بذات خدائے عزوجل کہ فن تیغ زنی ، نیزہ بازی، صف آرائی اور شہ سواری میں یگانہ روزگار اور شہرہ آفاق گنا جاتا ہے۔ خیر آمدم بر سر مطلب۔۔ درخواست یہ ہے کہ اس بد نصیب کی کہ آج شب کو حضور والا فدوی کے یہاں آش جو اور نان خشک تناول فرما کر فدوی کو ہم چشموں میں ممتاز اور اپنے کو سرفراز فرمائیں۔
والسلام سنت الاسلام احقر العباد: اچھے مرزا۔"
مرزا صاحب کے اس خط نے کراچی کے ارباب صحافت کے حلقے میں عجیب زندگی اور دلچسپی پیدا کر دی اور وقت موعودہ پر کراچی کے بہت سے نامہ نگاران اخبارات دلوں میں بے پناہ شوق و ارمان لئے مرزا صاحب کے دروازے پر جا دھمکے۔ دق الباب کیا تو مرزا صاحب سر سے پاؤں تک اوبچی بنے دولت خانے سے برآمد ہوئے۔ اے سبحان اللہ کیا لباس تھا۔ سر پر فولادی خود، بر میں شیروانی ، شیروانی پر زرہ کی قسم کی خفتان۔۔۔ (واسکٹ) ایک ہاتھ میں تلوار اور ایک ہاتھ میں خامۂ مشکبار، گویا وہ سر سے پاؤں تک اہل قلم اور اہل سیف بنے ہوئے تھے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرزا صاحب کو اس حلیے میں دیکھ کر کیا عالم ہوا ہوگا اہل صحافت کا۔ مگر کیا مجال کہ چوں کرتے، لب کھولتے تو سر کھل جاتے۔ سر ہلاتے تو گردن قلم ہو جاتی، آنکھ اٹھاتے تو آنکھیں نکال لی جاتیں۔ غرض یہ کہ مرزا صاحب نے نامہ نگاران اخبارات کے ہجوم کو دیوان خانے میں ( مرزا صاحب نے اپنے فلیٹ کے برآمدے کو دیوان خانہ قرار دیا ہے ) بٹھایا اور اب باضابطہ پریس کانفرنس شروع ہوئی اس پریس کانفرنس میں جو سوالات و جوابات ہوئے ان کا خلاصہ درج ذیل ہے :
نامہ نگار: کوریا کے متعلق جناب کا کیا خیال ہے؟
مرزا صاحب: بندے نے آج تک اس مرض کا نام نہیں سنا۔ کیا ملیریا کی قسم کا کوئی بخار ہے ؟
نامہ نگار: قبلہ مرض نہیں ایک ملک کا نام ہے۔
مرزا صاحب ( حیرت سے اچھل کر) ہائیں! اماں کیا سچ کہہ رہے ہو؟ دنیا کے کس طرف واقع ہوا ہے یہ ملک؟ بندے نے آخر کو دوں دے کر نہیں پڑھا یا وہ جغرافیے کا ماہر ہے یہ عاجز۔ بھلا کس ملک سے ناواقف ہیں ہم؟ چین، ماچین، تتار، کوچک، باختر، بالا باختر، کوہ قاف، فرنگستان، سراندیپ، حبشہ، پرستان، ملک اجنہ ، ملک ظلمات غرض ان تمام بر اعظموں کو چاٹے پڑا ہے یہ بد نصیب۔ تعجب ہے آج تک "کوریا" کا نام نہیں سنا گیا، کیا کوئی جزیرہ ہے؟
نامہ نگار: قبلہ چین کے قریب ایک ملک ہے کوریا۔
مرزا صاحب: تو حضرت ماچین کہئے نا! لیجئے اب سارا معمہ حل ہوگیا آخر تاریخ دانی کا جوہر کسے کہتے ہیں ؟ تو سنئے حضرت چین ماچین۔ ایک بہت بڑا ملک ہے کسی زمانے میں شہنشاہ افراسیاب جادو کے ماتحت تھی یہ اقلیم اور کوکب نور افشاں اور امیر حمزہ کے پوتے ایرج نامور نے فتح کیا تھا اس سر زمین کو۔ اے سبحان اللہ کیا رن پڑا تھا؟ مگر بندہ اس وقت ان واقعات کی تفصیل نہیں بیان کرے گا ، آپ حضرات خود اہل علم نظر آتے ہیں ، حوالے کے لئے چند نایاب کتابوں کے نام لکھ لیجئے۔ انشاء اللہ اس ملک کی پوری تاریخ معلوم ہو جائے گی۔ لکھئے ان تاریخوں کے نام:
ایرج نامہ ہر دو جلد مصنفہ منشی احمد حسین قمر مرحوم ، تورج نامہ، کوکب نامہ، افراسیاب نامہ جلد ہفتم مصنفہ استاد فیضی ملک الشعراء دربار اکبری، بوستانِ خیال مصنفہ امداد علی بریلوی ، اگر جناب کو مزید تفصیلات معلوم کرنے کی ضرورت ہو تو داستان امیر حمزہ اور رزم نامہ عمر عیار ضمیری کا مطالعہ کافی ہوگا۔ یہ سب کتابیں منشی نول کشور نے چھاپی ہیں اور اس عاجز کے کتب خانے میں موجود ہیں ، بلکہ شب و روز زیر مطالعہ رہتی ہیں۔
نامہ نگار: قبلہ داد نہیں دی جا سکتی آپ کے مبلغ علم کی۔ واللہ! کمال ہو گیا کن کن تاریخوں کے نام گنوائے ہیں ؟ خیر تو عرض یہ ہے کہ اس ملک میں جو جنگ ہو رہی ہے اس کے متعلق کیا خیال ہے آپ کا؟
مرزا صاحب ( سناٹے میں آکر) جنگ؟ ایں جنگ شروع ہو گئی تو گویا ایرج نامور نے لوح طلسم حاصل کرلی اور گنبد سحر کو توڑ دیا۔
نامہ نگار: حضور ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ کیسی لوح طلسم ، کیسا گنبد سحر؟
مرزا صاحب: (غور و فکر کے عالم میں آہستہ آہستہ) بے شک آپ لوگوں کو نہیں معلوم کیونکہ آپ کا مبلغ علم از میٹرک تا بہ ایم اے محدود ہے۔ آپ کو کیا معلوم کہ اس ربع مسکون میں کتنے ممالک ہیں؟ کتنی بادشاہتیں ہیں؟ کتنے تاجداران گردوں رکاب اپنی اپنی قلمرو میں حکمراں ہیں؟
نامہ نگار: مگر قبلہ! آخر کچھ فرمائیے تو آپ سوچ میں کیوں پڑ گئے؟
مرزا صاحب:(کسی قدر چونک کر) آپ نے کہا تھا کہ چین ماچین میں جنگ چھڑ گئی ہے، مجھے اس جنگ کی داستان والد ماجد سنایا کرتے تھے۔ ایرج کا چین ماچین پر حملہ بہمن ہزار دست سے زبردست مقابلہ، ایرج کا بہمن سے شکست کھانا اور ایک پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر جان دینے کا قصد کرنا، پردۂ غیب سے خواجہ خضر کا نمودار ہونا اور ایرج کو بتانا کہ جب تک لوح طلسم ہاتھ نہ آئے گی بہمن شکست نہ کھائے گا ، لہذا تم پہلے لوح طلسم حاصل کرو اور اس کے بعد جنگ کا قصد کرنا۔ یہ لوح گنبد سحر میں محفوظ ہے اور گنبد کو توڑے بغیر اس لوح کا دستیاب ہونا محال ہے۔ بندے نے یہ داستان عبرت بیان یہیں تک سنی ہے۔ اب آپ کہتے ہیں کہ قلمروئے چین و ماچین میں جنگ شروع ہوگئی تو لا محالہ بندے کا ذہن اس اقعے کے تاریخ پہلوؤں کی طرف منتقل ہوگیا ، جنگ چھڑنے کے معنی کیا ہوئے ؟ یہ کہ ایرج کو لوح ہاتھ آگئی، گنبد کا سحر ٹوٹ گیا اور اس نے بہمن ہزار دست پر حملہ کردیا۔ سمجھے آپ۔
نامہ نگار: قبلہ! اس لڑائی میں تو ٹرومین اور اسٹالین کا مقابلہ ہے یہ آپ ایرج اور بہمن کو کہاں سے لے دوڑے؟
مرزا صاحب: (کسی قدر برافروختہ ہوکر) سچ کہا ہے کسی نے خدا ایمان دے نہ دے عقل ضرور دے ، بندۂ خدا میں تاریخ بیان کررہا ہوں ، آپ اخباری گپوں کو لئے بیٹھے ہیں۔ اب آپ نے کیا بندے کو جغرافیے سے بالکل کورا ہی سمجھ رکھا ہے ؟ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ ٹرومین امریکہ نامی قلمرو کے بادشاہ عالی جاہ کا نام ہے اور اسٹالین اس عہد کا ثانی کیقباد و کیکاؤس یعنی شہنشاہ ملک روس ہے۔ اللہ کے بندو! کہاں ٹرومین اور و اسٹالین اور کہاں چین و ماچین؟ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔
نامہ نگار: مرزا صاحب! تبت پر بھی تو چین کی فوجوں نے دھاوا بول دیا۔۔
مرزا صاحب: (بلا مبالغہ سوا پانچ فٹ اچھل کر) قسم کلام مجید کی۔ ہائیں بونوں کے ملک پر حملہ ہو گیا۔ لیجئے جناب قیامت آ گئی اللہ اکبر، بھئی جس روز ایں جناب نے مرغیوں کو بانگ دیتے اور عورتوں کو تقریر کرتے سنا تھا اسی روز سمجھ گیا تھا کہ قیامت قریب ہے۔ لیجئے آپ نے ان تمام اندیشوں کی تصدیق کردی ، کتب قدیمہ میں قرب قیامت کی جو علامتیں لکھی ہیں، ان میں بونوں کے ملک پر چین کے حملے کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ہے ہے کیا زمانہ آگیا۔
نامہ نگار: مرزا صاحب! آخر فرمائیے تو کہ اس حملے کی اہمیت کیا ہے ؟
مرزا صاحب: حضرت! کس زبان سے بتاؤں؟ اچھا سنئے آپ جانتے ہیں کہ چین کے باشندے "چنیا بیگم" کے شیدائی ہوتے ہیں۔ ایک ذرا سی گھول کر پی لی اور عمر بھر کے لئے دین و دنیا سے بے نیاز ہو گئے ، چین کے لوگوں کو لڑائی بھڑائی سے کیا سروکار؟ چنانچہ پچھلی تاریخوں اور معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ چین ہمیشہ "چنیا بیگم" کے طفیل جنگ و خون ریزی سے محفوظ رہے گا۔ لیکن آخر زمانے میں چین کے اندر "افیون" کا سخت قحط پڑ جائے گا۔ اور نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ رتی بھر افیون ڈھونڈے نہ ملے گی، اس وقت چینی فوج بدحواس ہوکر اٹھ کھڑی ہوگی اور "چنیا بیگم" کے فراق میں پہلے "بالشتیوں اور بونوں کے ملک" یعنی تبت پر حملہ کرے گی۔ بالشتیے جم کر چینیوں کا مقابلہ کریں گے ، مگر پھر آخر میں اس شرط پر صلح ہو جائے گی کہ بونوں کا بادشاہ ہر سال چین کی مملکت کو دوخروار افیون، ہزار گھٹے نیشکر اور ہزار پیٹی قلاقند، خراج کے طور پر پیش کیا کرے گا۔ جب بونے اور چینی ایک دوسرے کے حلیف بن جائیں گے تو وہ قوم یاجوج ماجوج کے بادشاہ عالی جاہ سے درخواست کریں گے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہفت اقلیم کی فتح کے لئے نقارۂ جنگ پر چوب پڑے۔ یاجوج ماجوج کا بادشاہ بہت سے ربع مسکوں کو مسخر کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
وہ چینیوں اور بالشتیوں کی درخواست منظور کر کے اپنے پہاڑوں سے اترے گا۔۔ لشکر یاجوج و ماجوج پوری سد سکندری کو چاٹ کر ہضم کرلے گا اور ڈکار تک نہ لے گا۔ جب یہ دیوار زمین کے برابر ہو جائے گی تو یاجوج ماجوج کی فوج اور چینیوں کی سپاہ تمام دنیا کو لوٹ کر صاف کردے گی اور اس طرح قیامت آ جائے گی اور حضرت اس سارے ہنگامے کی بنیاد "چنیا بیگم" ہونگی۔
نامہ نگار: حضور والا! یہ تو ہم سمجھ گئے کہ بالشتیوں کا ملک "تبت" ہے لیکن یہ قوم یاجوج ماجوج اور یہ سد سکندری؟
مرزا صاحب: (انتہائی افسوس کے لہجے میں) اللہ اللہ کیا زمانہ ہے کہ ہماری قوم کے نوجوان تاریخ و جغرافیے کو قطعاً فراموش کر چکے ہیں۔ وہ باتیں جو ہماری نانی اماں مرحومہ تک کے ورد زبان تھیں آپ لوگوں کو اچنبھا اور عجوبا معلوم ہوتی ہیں۔ قسم کلام مجید کی چلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ تو بہ توبہ ! اس قدر جہالت، اتنی بے خبری؟ اس درجہ سادہ لوحی؟ یعنی آپ لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ یاجوج ماجوج کی قوم کون ہے؟ کہاں رہتی ہے؟ سد سکندری کس چڑیا کا نام ہے؟ حیف صد ہزار حیف!
نامہ نگار: حضرت! آخر زبان سے تو پھوٹیے کہ آپ کا اشارہ کس طرف ہے؟
مرزا صاحب! خبردار، چونچ سنبھال کے۔ ورنہ قسم عباس علمدار کی، سر خاک پر ٹھوکریں کھاتا نظرآئے گا۔ یہ لیاقت علی خاں کی پریس کانفرنس نہیں ہے کہ بکریوں کی طرح پان چبائے جا رہے ہیں، بھینسوں کی طرح جگالی کی جارہی ہے اور اونٹ کی طرح بلبلایا جا رہا ہے اور وزیر اعظم بہادر ہیں کہ ٹک ٹک ، دیدم دم نہ کشیدم۔
یہ اچھے مرزا کی پریس کانفرنس ہے اور۔۔۔۔
مرزا صاحب کا پارہ غضب اور چڑھتے دیکھ کر نامہ نگاران صحافت کے ہوش ففرو ہوگئے اور ایک ایک نے آہستہ آہستہ کھسکنا شروع کیا۔ مرزا صاحب کا جلال معاذ اللہ! ہاتھ تلوار کے قبضے پر تھا اور بار بار مونچھوں پر تاؤ دیتے تھے تااینکہ چند نیاز مندان قدیم نے پانی کا گلاس پیش کیا اور مرزا صاحب پانی کے ساتھ غصے کو بھی نوش جان فرما گئے اور اس کے بعد بمشکل پریس کانفرنس کو برخاست کیا گیا۔
ماخوذ از کتاب: مقالاتِ اچھے مرزا (حصہ اول)
مرتبہ : رئیس امروہوی۔ ناشر: رئیس اکاڈیمی، کراچی (سن اشاعت: 1975ء)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں