حجاب فیصلہ : کیا باحجاب طالبات کی زندگیوں کی کسی کو فکر ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-16

حجاب فیصلہ : کیا باحجاب طالبات کی زندگیوں کی کسی کو فکر ہے؟

hijab-row-judgement

لیجیے جناب! حجاب معاملہ پر سپریم کورٹ بٹ گیا !

ویسے بٹنے کا یہ عمل باعثِ حیرت نہیں ہے کہ ان دنوں سارے بھارت میں لوگ بٹے ہوئے ہیں۔ نفرت کی ایک آندھی چل رہی ہے ، اور لوگوں کو ایک دوسرے سے مخالف سمت میں اڑاتی چلی جا رہی ہے۔ کچھ دائیں جانب ، تو کچھ بائیں جانب ، اور کچھ درمیان میں۔
نفرت کی بات پھر کبھی ، آج حجاب معاملہ کی بات ہو جائے۔ واضح رہے کہ یہ معاملہ گذشتہ سال جولائی میں اس وقت شروع ہوا تھا جب کرناٹک کے اڈوپی ضلع کے ایک جونیئر کالج نے طالبات کو حجاب پہن کر اسکول جانے سے روک دیا تھا۔ یکم جولائی 2021ء کو گورنمنٹ پی یو کالج فار گرلز کی انتظامیہ نے کالج یونیفارم پر فیصلہ لیا تھا کہ کس قسم کے لباس کو قبول کیا جائے گا اور کون سے قسم کا لباس ممنوع ہوگا۔ انتظامیہ نے کہا تھا کہ طالبات کے لیے ان ہدایات پر عمل کرنا لازمی ہے۔ جب کووڈ لاک ڈاؤن کے بعد کالج دوبارہ کھلا تو کچھ طالبات کو معلوم ہوا کہ سنیئر طالبات حجاب پہن کر آتی تھیں۔ ان طالبات نے اس بنیاد پر کالج انتظامیہ سے حجاب پہننے کی اجازت مانگی تھی۔
واضح رہے کہ اڈوپی ضلع میں جو کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی سرکاری جونیئر کالجوں کے یونیفارم کا فیصلہ کرتی ہے اس کی سربراہی مقامی رکن اسمبلی کرتے ہیں۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی رگھویر بھٹ نے مسلم طالبات کا مطالبہ قبول نہیں کیا اور انھیں کلاس کے اندر حجاب پہننے کی اجازت نہیں دی گئی۔


بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق جب دسمبر 2021ء میں طالبات نے حجاب پہن کر کیمپس میں داخل ہونے کی کوشش کی تو انھیں باہر ہی روک دیا گیا۔ ان لڑکیوں نے اس کے بعد ہی کالج انتظامیہ کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ فروری 2020ء میں اڈوپی کے پری یونیورسٹی کالج کی انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ مسلمان خواتین کالج کی حدود میں تو حجاب کا استعمال کر سکتی ہیں لیکن کلاس کے دوران نہیں۔ اس اعلان کے بعد ، کالج کی انتظامیہ کی جانب سے حجاب کے خلاف سخت اقدام کی وجہ سے کالج کی آٹھ طالبات کئی ہفتوں سے کلاسوں میں نہیں جا سکی تھیں۔ کالج میں ہزار طالبات میں سے صرف 75 مسلمان تھیں ، ان میں بھی کوئی ایک درجن لڑکیاں ہی حجاب یا برقعہ پہنتی تھیں۔ کالج انتظامیہ کی جانب سے کارروائی ، اور طالبات کے حجاب نہ اتارنے پر مصر رہنے کی بات ، دیکھتے ہی دیکھتے آگ کی طرح سارے ملک میں پھیل گئی۔
اس کا ایک ردعمل یہ سامنے آیا کہ اڈوپی کے کالج سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر چکمنگلور میں کوپا کے ایک کو - ایڈ کالج میں بہت سی طالبات نے بھگوا رنگ کا اسکارف پہننا شروع کر دیا۔ اور پھر کرناٹک کے تقریباً سارے تعلیمی اداروں میں باحجاب طالبات کو حجاب اتارنے پر مجبور کیا جانے لگا ، اس تعلق سے اُس دور میں سوشل میڈیا پر بہت سی ویڈیو اَپ لوڈ کی گئی تھیں ، انہیں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں سنا اور دیکھاجا سکتا ہے کہ ایک طالبہ انتظامیہ سے درخواست کر رہی ہے کہ اسے امتحانات کی تیاری کے لیے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے ، لیکن کالج کے پرنسپل اسے حجاب کے ساتھ داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر رہے ہیں۔
یہی نہیں وہ ویڈیو آج بھی دیکھی جاسکتی ہے جو اس معاملہ میں ہندو تووادیوں کی منصوبہ بندی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ ویڈیو حجاب کے واقعے سے ایک دن قبل کی ہے ، بھگوا دھاری نوجوانوں کے ایک گروہ نے اسی کالج میں آکر مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر احتجاج کیا تھا۔ بعد میں کرناٹک میں کم از کم تین دیگر کالجوں میں بھی ایسے ہی احتجاج کیے گئے۔
اس وقت کرناٹک کے وزیرتعلیم نگیش بی سی نے کہا تھا کہ بھگوا رنگ کے اسکارف اور حجاب دونوں پر ہی پابندی لگنی چاہیے۔ حجاب کا معاملہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے بیچ دوریوں کو بڑھانے کے لیے مزید گرمایا گیا۔ سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے حجابی طالبات پر شرم ناک بہتان لگائے گیے۔ اتر پردیش میں 10، فروری 2022ء سے اسمبلی کے الیکشن تھے ، اس الیکشن کی انتخابی مہم میں بی جے پی نے ، اور آدتیہ ناتھ یوگی نے حجاب کے معاملہ کو شامل کر لیا۔ کرناٹک میں جو سیاسی اتھل پتھل مچی ہوئی تھی ، اس میں بھی حجاب معاملہ کو خوب ہوا دی گئی۔ افسوس کہ کسی کو بھی اُن مسلم بچیوں کی ، جو باپردہ بھی رہنا چاہتی تھیں اور پڑھنا بھی چاہتی تھیں ، کوئی خیال نہیں رہا۔


جنوری 2020ء میں حجاب پر پابندی کے خلاف کرناٹک ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ، اور مارچ کے مہینے میں کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب پر پابندی کو درست قرار دے دیا۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ " اسلام کے مطابق حجاب لازمی نہیں ہے۔" ہائی کورٹ نے اپنے 129 صفحات پر مشتمل فیصلے میں قرآن کی آیات اور متعدد اسلامی تحریروں کا حوالہ دیا تھا۔ طالبات کی جانب سے ، کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ، جس پر جمعرات 13 ، اکتوبر کو ، ایک لمبی سماعت کے بعد ، فیصلہ سنایا گیا ، جو بٹا ہوا تھا۔
یہ جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس ہیمنت گپتا کی ڈیویژن بنچ تھی ، یعنی دو ججوں پر مشتمل بنچ۔ جسٹس ہیمنت گپتا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو درست ، جائز اور صحیح قرار دیا ، اور فیصلے کے خلاف جو 26 اپیلیں دائر کی گئی تھیں انہیں خارج کر دیا۔ اس فیصلے کے دوسرے ہی دن وہ ریٹائرڈ ہو گئے۔ جسٹس سدھانشو دھولیا نے کرناٹک ہائی کورٹ کے ، حجاب پر پابندی کی برقراری کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے تمام دائر اپیلوں کے حق میں ٖفیصلہ دیا۔ چونکہ دو ججوں پر مشتمل بنچ کا فیصلہ بٹا ہوا ہے اس لیے اب ملک کے چیف جسٹس یو یو للت اسے بڑی بنچ کے سپرد کریں گے ، ایک ایسی بنچ جو پانچ یا سات ججوں پر مشتمل ہوگی ، تاکہ جو بھی فیصلہ آئے وہ بھلے بٹا ہوا ہو ، لیکن طاق عدد ہونے کی بِنا پر ، کوئی فیصلہ ، حجاب کے حق یا اس کی مخالفت میں کرنا ممکن ہو سکے۔

جسٹس ہیمنت گپتا کے حجاب پر پابندی برقرار رکھنے کے فیصلے پر مجھے ملک کے ایک سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی یاد آ گیے۔ اپنے ریٹائرہونے سے ایک روز پہلے ، انہوں نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے سونپنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ لہٰذا اگر مسلمانوں اور ہندوؤں سے متعلق کوئی حساس معاملہ عدالت میں ہوتا ہے ، اور مجھے پتہ چلتا ہے کہ فیصلہ سنانے کے ایک دن بعد جج صاحب ریٹائر ہونے والے ہیں ، تو دل یہ کہنے لگتا ہے کہ فیصلہ یکطرفہ ہوگا۔
یہ سننے کے بعد کہ معاملہ اب ایک لارجر بنچ یعنی بڑی بنچ کے سامنے پیش ہوگا ، مجھے طلاق ثلاثہ کا مقدمہ یاد آگیا ہے۔


بات 2017ء کی ہے ، سپریم کورٹ کی پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ ایک 35 سالہ خاتون سائرہ بانو کے طلاق کے مقدمہ پر سماعت کرتے ہوئے طلاق ثلاثہ کے جائز یا نا جائز ہونے پر فیصلہ دینے والی تھی۔ پانچ ججوں میں سے تین نے یہ فیصلہ دیا کہ طلاق ثلاثہ غیر اسلامی ہے۔ اس کے بعد پارلیمنٹ میں طلاق ثلاثہ کے خلاف ایک قانون منظور کرا لیا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ مودی سرکار نے مسلم خواتین کی حالتِ زار دیکھ کر طلاق ثلاثہ پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے طلاق ثلاثہ کے فیصلے پر کوئی بات نہیں کرنی ہے سوائے اس کے کہ جس مودی سرکار کو مسلم خواتین کی طلاقوں سے نیند نہیں آتی تھی ، اس مودی سرکار کو کیسے مسلم بچیوں کو تعلیم سے محروم کر کے نیند آئے گی۔
خیر بات چل رہی تھی بڑی بنچ کی ، تو ہمارے سامنے بڑی بنچ کی ایک مثال موجود ہے ، کہیں پھر اسی طرح کا کوئی فیصلہ نہ آجائے کہ پھر سارے ملک کے تعلیمی اداروں میں ان مسلم طالبات کا ، جو حجاب پہننا چاہتی ہیں ، باحجاب ہونا دشوار ہو جائے۔ ایک اطلاع کے مطابق 17 ہزار مسلم طالبات نے تعلیمی سلسلہ اس لیے منقطع کر لیا ہے کہ وہ حجاب اتارنا نہیں چاہتیں۔ یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ اگر کوئی "مسکان" حجاب پہننا چاہتی ہے تو کیا یہ اس کا حق نہیں ہے ؟
سوال کیا جاتا ہے کہ ایک سیکولر ملک میں کیوں کسی تعلیمی ادارے میں حجاب پہن کر آیا جائے ، یہ تو ایک مذہبی شعار ہے ؟ اس سوال کا جواب اس سوال سے بھی دیا جا سکتا ہے کہ کیا کسی سرکاری دفتر میں دیوی دیوتاؤں کی تصاویر کا لگانا ، ان پر پھول ہار چڑھانا یا کسی اسکول میں صلیب کا نصب کرنا یا سکھ فرقے کے افراد کو پگڑی پہننے کی اور کرپان رکھنے کی اجازت دینا ، یا بہت سے ہندوؤں کا اپنے ماتھے پر تلک اور ٹیکہ لگا کر سرکاری دفاتر میں آنا ، کیا مذہبی حقوق نہیں ہیں ؟
بلاشبہ یہ سب مذہبی حقوق ہی ہیں ، لیکن قابلِ اعتراض نہیں ہیں ، کیونکہ یہ آئینی حقوق ہیں ، ان سے روکنا آئین کی توہین کرنا ہوگا۔ کیا لوگ نہیں جانتے کہ اس سیکولر ملک کی ایک ریاست اترپردیش میں ایک یوگی بھگوئے لباس میں وزیرِ اعلیٰ کی گدی پر بیٹھتا ہے ، ایک سادھوی ، جو مالیگاؤں بم بلاسٹ کی ملزمہ ہے ، بھگوئے لباس میں پارلیمنٹ میں جاتی ہے؟
سب جانتے ہیں۔ لیکن ہر ایک کو اپنی مرضی کا لباس ، چاہے وہ لباس مذہبی شناخت ہی کیوں نہ ظاہر کرتا ہو ، پہننے کی اجازت ہے ، کیونکہ یہ آئینی حق ہے ، اسی طرح انہیں بھی ، جو برقعہ پہننا چاہتی ہیں ، حق حاصل ہے کہ وہ برقعہ پہنیں۔ ممکن ہے کہ بہت سے لوگ کہیں کہ برقعہ مذہبی حق نہیں ہے ، لیکن سچ یہی ہے کہ برقعہ مذہبی حق ہے اور اسلامی شریعت میں برقعہ پہننے کی تاکید ہے۔ اب کوئی برقعہ پہنے نہ پہنے اس کی اپنی مرضی ، نہ کسی کے پہننے سے شریعت بدل جائے گی نہ کسی کے نہ پہننے سے شریعت کے اصول تبدیل ہو جائیں گے۔ یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ برقعہ یا حجاب سے روکنے کا معاملہ مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ آئینی بھی ہے۔


بھلے ایک جسٹس نے باحجاب طالبات کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کو ماننے سے انکار کردیا ہے ، لیکن یہ ایک حق بہرحال ہے۔ جسٹس دھولیا نے ایک بہت ہی اچھی بات کہی ہے کہ:
" اس معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ نے 'مذہب کا لازمی جزو' کے جس نظریہ کو بنیاد بنا کر پابندی کا فیصلہ سنایا وہ غیر ضروری ہے۔
ہائی کورٹ نے غلط راستہ اختیار کیا ، یہ دراصل آئین کے آرٹیکل 19(1) (اے )اور 25(1) کی رو سے شخصی آزادی اور پسند سے زیادہ کا معاملہ نہیں ہے۔ میرے ذہن میں یہ سوال تھا کہ کیا ہم پابندی کے ذریعے ان کی زندگی بہتر بنا رہے ہیں ؟ اسی سوال کی بنیاد پر میں نے 5 ، جنوری کے حکومت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پابندیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا۔"


اور سچ یہی ہے کہ سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ کے بٹے ہوئے فیصلے کے بعد سب سے بڑا سوال ہم سب کے سامنے یہی ہے کہ کیا ہم لوگ ان باحجاب طالبات کی زندگیوں میں کوئی بہتری لا رہے ہیں؟



Hijab row SC judgement. Analysis: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں