یوسف ناظم : کتنا زور تھا اس کمزور میں - خاکہ از علیم خان فلکی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-09-15

یوسف ناظم : کتنا زور تھا اس کمزور میں - خاکہ از علیم خان فلکی

yusuf-nazim

میں نے کہا: "آپ بہت کمزور لگ رہے ہیں"۔
برجستہ جواب ملا: "کمزور میں بھی تو زور ہے!"
کچھ عرصہ گزرا یوسف ناظم صاحب سے آخری ملاقات ہوئے۔ زور تو یقیناً ان میں غضب کا دیکھا لیکن قلم اور زبان میں، حاضر جوابی اور بذلہ سنجی میں، مزاح مزاح میں سنجیدہ تیر چلا دینے میں لیکن پاؤں میں اتنا زور نہیں تھا کہ عمرہ ادا کر سکیں۔ کتنی حسرت اور آرزو تھی ان کے الفاظ میں کہ:
"امریکہ لندن اور ساری دنیا گھوم چکا اب ایک عمرہ ادا کرنے کی تمنا ہے دیکھئے یہ تمنا کب پوری ہوتی ہے"۔
کئی کتابوں اور بے شمار مضامین کا مصنف شائد اپنی کتابِ عمل کا آخری باب اپنے مالکِ حقیقی کے گھر کے دیدار پر ختم کرنا چاہتا تھا لیکن تقدیر نے مہلت نہ دی۔ میں نے عرض کیا کہ عمرہ کیلئے اب آپ کی صحت اس قابل نہیں ہے۔ کہا کہ: "نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں ، یہ پاؤں کا درد عارضی ہے، میں بالکل ٹھیک ہوجاؤں گا، پھر آپ لوگ بھی تو وہاں ساتھ ہوں گے ناں"۔
میں نے وعدہ کرلیا کہ ہم اہلِ جدہ آپ کی اس خواہش کو ضرور پورا کریں گے۔ جدہ کے احباب بھی متمنی تھے کہ اس بہانے ان کی صحبت سے فیضیاب ہونے اور جدہ کی ادبی فضاؤں کو گرمانے کا ایک موقعہ بھی ہاتھ آئے گا۔ پھر پتہ چلا کہ نمونیا نے ان کے زور کو نظر لگا دی۔ لیکن حقیقت شاید یہ تھی کہ خالقِ دو جہاں سے جا ملنے کی خواہش نے زور لگایا اور انہوں نے نمونیا کو استعمال کیا۔ ان کی اور ہماری انہیں عمرہ کروانے کی خواہش ادھوری رہ گئی۔ وہ بیت اللہ کے مہمان بننے کی آرزو میں صاحب البیت سے راست جا ملے۔ اِنّا للہ و انا الیہ راجعون۔


اُس آخری ملاقات کا ایک ایک لفظ ابھی تک کانوں میں گونج رہا ہے۔ ناچیز کی ادبی صلاحیت اور حیثیت ان کے سامنے ایک تتلانے والے شیرخوار سے زیادہ نہیں تھی لیکن ان کی ہمت افزائی اور قدردانی یوں جیسے ان کا ہمعصر کوئی ادیب ان سے ملنے آیا ہو، محض ان کی اعلیٰ ظرفی اور وسیع القلبی کا ایک عظیم نمونہ تھی۔ شائد ان کا یہی وصف تھا کہ ہند و پاک کا چاہے کوئی ادیب و شاعر ہو یا کوئی ادبی انجمن، یوسف ناظم صاحب سے پہلی بار بھی مل کر یہی محسوس کرتے تھے جیسے مرحوم سے ان کی دوستی اور وابستگی برسوں پرانی ہے۔
ایک مزاح نگار کا تجربہ کسی بھی سنجیدہ ادیب، محقق یا دانشور کے تجربے سے کہیں زیادہ گہرا ، حقیقت سے قریب اور کھرا ہوتا ہے۔ وہ تخیلات کی دنیا میں کم اور حقیقی دنیا میں زیادہ سفر کرتا ہے۔ اور اس سفر میں پیش آنے والی چوٹوں، دھکّوں اور رستے ہوئے آبلوں کو وہ ہنسی کے فواروں میں ضم کر کے آنے والے قافلوں کیلئے سنگ میل بنا دیتا ہے۔ وہ حالات کی تلخیوں کو انگیز کرکے ماحول کو مزید حبس کا شکار ہونے نہیں دیتا بلکہ کبھی زیرِ لب مسکراہٹ دیتا ہے اور کبھی مزاح کی ہلکی ہلکی پھوار کے ذریعے سوچنے والے ذہنوں کو تازگی اور نمو بخشتا ہے۔ اس کا ثبوت یوسف ناظم کی تحریریں ہیں۔ اب ان کی صورت صرف ان کی تحریروں میں ہی ملے گی۔ اپنے بے شمار سیاسی تجزیوں، مزاحیہ کالم اور علمی و ادبی شہ پاروں کے ذریعے وہ صرف ادب ہی کی نہیں بلکہ سیاسی اور سماجی تاریخ بھی چھوڑ گئے ہیں۔ لیکن سانحہ یہ ہیکہ یہ زبان جو بہت تیزی سے روبہ زوال ہے، کے زمانے کو ان کے چھوڑے ہوئے خزانوں سے موتی چننے کی کم ہی توفیق ہوگی۔ ناچیز کو کچھ کتابیں تحفتاً دیتے ہوئے بڑے درد کے ساتھ انہوں نے کہاتھا کہ:
"آئندہ نسلوں میں ان کتابوں کو پڑھنے والے کہاں ہوں گے؟"


اردو کے حال اور مستقبل پر گفتگو کرنا میری کمزوری ہے۔ کسی بڑی شخصیت سے مل کر جب تک اپنے اِس درد ِ مشترک پر دل بھر کے سن نہ لوں اور کہہ نہ لوں مجھے ملاقات بے مقصد لگتی ہے۔ یوسف ناظم صاحب سے اس موضوع پر مجھے بہت حوصلہ ملا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہیکہ اردو ادیبوں کی پذیرائی نہیں ہوتی۔ دراصل لکھنے والے محنت کرنا نہیں چاہتے۔ مطالعہ نہیں کرتے۔جو بھی اخبار یا رسالہ ہاتھ لگے، پڑھ کر جو کچھ ذہن میں آئے لکھ ڈالنا چاہتے ہیں اسلئے ان کی تحریروں میں نہ گہرائی ہوتی ہے نہ گیرائی۔ اور یہ بھی کہنا غلط ہیکہ اردو قارئین کی تعداد گِر رہی ہے۔ میرے نزدیک، جیسا کہ انہوں نے فرمایا، معیاری لکھنے والوں کی کمی ہو رہی ہے۔ اس میں اخبار و رسائل کے مالکان بھی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے چند اہم نام بھی گنائے جو اردو سے کما تو رہے ہیں لیکن اس میں سے لکھنے والوں کا جائز حق ادا کرنا نہیں چاہتے۔ مفت میں جو بھی مضمون ہاتھ لگے اُسی سے کام چلاتے ہیں۔


بات نکلی پبلیشرز کی۔ انہوں نے کہا کہ اردو کے ادیبوں اور دانشوروں کے قاتل اردو ہی کے پبلیشر حضرات ہیں۔ مصنف سے چھپوائی کا پورا پیسہ وصول کرتے ہیں اور کتابوں کا انبار اس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ وہ غریب فروخت کرنے سے تو رہا۔ مروتاً اور عنایتاً مفت بانٹ کر اپنی جمع پونجی لٹا دیتا ہے۔ اُدھر پبلشر الگ سے کتابیں شائع کرکے خود فروخت کرلیتے ہیں۔ بے شمار ہندوستانی ادیبوں کی تخلیقات کس طرح پاکستان میں پبلیشرز کی خیانت کا شکار ہوئیں اس کی مثالیں انہوں نے دیں اور یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں بھی صورتِ حال کچھ مختلف نہیں ہے۔ کئی پاکستانی شعراء و ادباء کی کتابیں ہندوستان کے ہر شہر میں مل جاتی ہیں جو کہ چوری سے شائع کی جاتی ہیں جن کا حقدار کو پتہ بھی نہیں چل پاتا۔ پتہ نہیں جب یوسف ناظم جیسا طاقتور مدعی اللہ کی عدالت میں مقدمہ دائر کرے گا اس وقت ان پبلشرز کا کیا حال ہوگا۔ ان پبلیشرز کو کوئی وکیل وہاں ملنے سے تو رہا کیونکہ سارے تو جہنم میں ہوں گے۔ دوسری طرف یوسف ناظم کو کسی وکیل کی حاجت ہی نہ ہوگی کیونکہ وہ اپنا مقدمہ خود لڑنے کی اتنی زبردست صلاحیت رکھتے تھے یہ تو خود ان کی تحریروں سے واضح ہے۔


دیوناگری کے موضوع پر بھی گفتگو رہی۔ انہوں نے کہا کہ اردو ادب اتنا طاقتور ہیکہ ہندی ادب کبھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ فلم اور سیریل اس کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔ لیکن ہندی ادب کو سرکاری سرپرستی کی وجہ سے جس قدر فروغ حاصل ہو رہا ہے اتنا اردو کو نہیں۔ بد قسمتی سے اردو کیلئے حکومت کروڑوں خرچ کرتی ہے لیکن یہ فنڈ جن ہاتھوں میں جاتا ہے انہیں اس کا شعور نہیں کہ اردو کو کیسے پروان چڑھایا جائے؟ اس لئے سارا پیسہ بے مقصد کاموں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ اسی کی وجہ سے اردو ادب بہت تیزی سے معدوم ہو رہا ہے۔ ہندی ادب کی مقبولیت کے پیش نظر انہوں نے فرمایا کہ ہندی ادب میں اردو ادیبوں اور شاعروں کے تعارف کیلئے دیوناگری کا استعمال غلط نہیں ہے۔ انہوں نے یوپی کے ایک اخبار کی مثال بھی دی جس کا نام میرے ذہن سے نکل گیا، جو دیوناگری میں ان کے مضامین نہ صرف شائع کرتا ہے بلکہ لکھنے والوں کو معقول معاوضہ بھی ادا کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یوسف ناظم صاحب کو کئی سرکاری اور ہندی ادبی حلقوں سے پذیرائی ملی۔


میری درخواست پر ناظم صاحب نے اپنی کچھ کتابیں عنایت فرمائیں۔ میں نے ہدیہ پیش کرناچاہا۔ لیکن انہوں نے پوری شانِ بے نیازی سے منع کر دیا۔ اور فرمایا کہ " میں نے اپنی کتابوں کو کبھی کمائی کا ذریعہ نہیں بننے دیا "۔ مجھے حیدرآباد کے ایک دانشور ادیب یاد آگئے۔ جب انہوں نے دورانِ گفتگو اپنی کتابوں کے بار بار حوالے دیئے تو مجھے ان کی ہمت افزائی کیلئے اخلاقاً ان کی کتابیں پڑھنے کا اشتیاق ظاہر کرنا پڑا۔ انہوں نے گھر کے اندر سے کچھ کتابیں منگوا کر سامنے رکھ دیں۔ میں نے تکلفاً اور تبرکاً دو تین کتابیں اٹھا لیں اور شکریہ ادا کیا۔ جواب میں شکریے سے مکمل بے نیازی برتتے ہوئے انہوں نے فرمایا:
"کوئی بات نہیں، ان کتابوں کی قیمت یوں تو پانچ سو روپئے بنتی ہے لیکن میں آپ سے صرف چار سو لوں گا۔ "
'کھایا نہ پیا گلاس پھوڑ کے پیسے دیا' کے مصداق میں اپنی جیب ہلکی کرکے باہر نکلا۔ مجھے یونس بٹ کا ایک جملہ یاد آ گیا کہ: "اللہ تعالیٰ نے ہر عقلمند کے حصّے کے بیوقوف پیدا کئے ہیں"، جنہیں عقلمند ڈھونڈھ ہی لیتا ہے۔ یا یہ بھی ہوتا ہیکہ بیوقوف خود اُسے ہماری طرح ڈھونڈھتے ہوئے پہنچ جاتا ہے۔ کاش یوسف ناظم صاحب بھی یہی کرتے۔ بمبئی جیسے شہر میں ان کے پاس دو کمروں کے فلیٹ کے بجائے ایک عالیشان وِلّا تو ہو جاتا۔


بات نکلی جوڑا جہیز کی۔ ناچیز کی تصنیف "مرد بھی جسم بیچتے ہیں۔۔۔جہیز کیلئے" کا ٹائٹل دیکھ کر وہ چونکے اور ہنس پڑے۔ میں نے پوچھا کیا غلط ہے؟ انہوں نے کہا " نہیں، بالکل صحیح ہے۔ لیکن بلّی کی دُم پر پاؤں رکھنے سے بلّی جھپٹ پڑتی ہے۔ آپ پاؤں نہیں رکھ رہے ہیں اچھا خاصا کچل رہے ہیں"۔
انہوں نے اس بات کی تائید کی کہ یہ لعنت کے خوگر صرف حیدرآباد یا بِہار میں نہیں ہر جگہ ہیں صرف شکلیں بدلی ہوئی ہیں۔ سماجی اصلاح کے موضوع اور بالخصوص شادی بیاہ کے موضوع پر یوسف ناظم صاحب کی تلخ لیکن مزاح سے بھرپور کئی تحریریں ہیں جن کی معنویت پر آدمی غور کرے تو اپنے آپ سے شرمسار ہو جائے۔ جیسے:

  • جہیز اور مہر میں بنیادی فرق یہ ہیکہ جہیز دیا جاتا ہے اور مہر لکھا جاتا ہے۔ مہر معاف کیا جا سکتا ہے لیکن جہیز معاف نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ایک پائی تک وصول کی جاتی ہے۔ - (سیر کر دنیا کی)۔
  • جہیز کی بارات دھوم دھام سے نکالی جاتی ہے، دلہن بھی ضمناً ساتھ جاتی ہے۔ دلہن کے پردہ نشین ہونے کی وجہ سے بات چیت میں دلہن کی کم اورجہیز کی فکر زیادہ کی جاتی ہے۔ - (سیر کر دنیا کی)
  • شادی بچوں کا کھیل نہیں تو شطرنج کا کھیل ضرور ہے۔ بازی کس کے ہاتھ ہوگی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ - (اہلیاؤں کے نام)
  • اچھی سوسائٹی وہ ہوتی ہے جس میں بیروزگار لڑکوں کا پچاس ہزار کا جہیز لیئے بغیر شادی کرنا جرم ہوتا ہے۔ یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس سوسائٹی میں مانگنے والوں کی تعداد کم ہوتی ہے وہ سوسائٹی جلد تباہ اور برباد ہو جاتی ہے اور تاریخ میں اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ سوسائٹی جتنی گئی گزری ہوگی آدمی اتنا ہی مہذب کہلائے گا۔ - (سیر کر دنیا کی)۔
  • نئی نسل کے بچوں کو بالغ ہونے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ بالغ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کتنی ہی عمدہ فلموں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ - ( سقراطیات)
  • ان شوہروں کی زندگی بہت اچھی گزرتی ہے جنہیں یہ یاد نہ رہے کہ وہ شوہر ہیں۔ - (ہم بھی شوہر ہیں)
  • ہر عورت کے پاس آنسوؤں کا ایک ریزروائر ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر پائپ لائین خراب ہو سکتی ہے لیکن عورت کا ریزروائر کبھی خراب نہیں ہوتا۔ - ( وجودِ زن سے ہے)
  • مردوں کی ثانوی حیثیت کا اس سے بھی ثبوت ملتا ہیکہ ساسیں خوشدامن کہلاتی ہیں لیکن کوئی خسر خوش قبا یا خوش کلاہ نہیں کہلاتا۔ - (وجود زن سے ہے)
  • سفر ناموں اور آپ بیتیوں میں جھوٹ کو چھوٹ ہوتی ہے۔ - (تمہید یوسف ناظم نمبر شگوفہ)
  • ادب میں روشن خیال لوگوں نے جتنی تاریکی پھیلائی ہے اتنی معتدل ذہن کے لوگ نہیں پھیلا سکے۔ (ایضاً)

یوسف ناظم صاحب کے دانشوری سے بھرپور طنز و مزاح میں ڈوبے ہوئے ایسے تیر جو ہر مزاح نگار کی سوچ کو اڑان عطا کرتے ہیں اگر جمع کیے جائیں تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ ان کے عمرے کی تمنا ان کی قبولیت اور جنت کا سامان بن جائے۔ آمین۔


***
ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد
aleemfalki[@]yahoo.com
موبائل : 09642571721
ڈاکٹر علیم خان فلکی

Yusuf Nazim, a literary sketch by: Dr. Aleem Khan Falaki

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں