علامہ اقبال ایک صالح مفکر اور اسلامی شاعر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-09-21

علامہ اقبال ایک صالح مفکر اور اسلامی شاعر

allama-iqbal-righteous-thinker-and-islamic-poet

ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنم اب تک
اس کے نغموں میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

شاعری ہر زبان کی دل آویز ہوتی ہے، اور اردو زبان اس دلکشی میں اپنا جواب نہیں رکھتی، اردو شاعروں کی فہرست بہت طویل ہے، شاعروں کی اس کثرت نے اردو زبان کو بہت نفع پہنچایا، اس میں وسعت پیدا کی، لچک پیدا کی، گہرائی و گیرائی پیدا کی، تنوع اور جدت پیدا کیا، اسی باعث اردو زبان کو نئے نئے محاورے ملے، نئی نئی دل آویز ترکیبیں عالم وجود میں آئیں، نئے خیالات پروان چڑھے، زبان کو حسن بیان ملا، اور حسن بیان کو زبان ملی، نطق و کلام میں زور و جوش پیدا ہوا، نئے نئے اسلوب اور نت نئے انداز بیان ابھرے، خوش نما اور خوب رو الفاظ سامنے آئے، اگر اردو شاعری میں یہ تنوع نہ ہوتا اور اردو شاعروں کی یہ کثرت نہ ہوتی تو ان تمام خوبیوں اور نعمتوں سے اردو زبان محروم رہ جاتی۔


ہر شاعر اپنا ایک اسلوب رکھتا ہے، اور ایک خاص رنگ کا تابع ہوتا ہے، اردو شاعروں کے اسالیب، اپنے تنوع اور تجدد کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہیں، شاعر ہو یا نثار، ادیب ہو یا انشا پرداز ، سب کے نطق و کلام کا ایک مخصوص مرکز ہوتا ہے، اسی میں وہ ترقی کرتا ہے، یہیں سے وہ فروغ حاصل کرتا ہے، اور یہی ان کے عروج کا سرچشمہ ہوتا ہے، اگر وہ اس رنگ و اسلوب سے بغاوت کر بیٹھے تو اپنا وقار قائم نہیں رکھ سکتا۔
لیکن اقبال ایک ایسا شاعر ہے جو ہر اسلوب کا ماہر ہے، نامور مورخ و ادیب اور ماہر اقبالیات جناب رئیس احمد جعفری ندوی اقبال کے متعلق اپنے جداگانہ انداز میں لکھتے ہیں:
"اقبال ہر جہتی شاعر ہے، وہ غزل گو بھی ہے، اور قصیدہ خواں بھی، مناظر قدرت اور مظاہر فطرت کا پرستار بھی، اور کشور دل کی تباہی و بربادی کا سوگوار اور ماتم وار بھی، وہ نعت بھی کہتا ہے ، اور منقبت بھی، اور حمد بھی، وہ زندگی کے مسائل سے بھی بحث کرتا ہے اور فلسفہ کی گتھیاں بھی سلجھاتا ہے، وہ شاعر بھی ہے، حکیم بھی، فلسفی بھی ہے، صالح مفکر بھی، شاعری کے ساتھ ساتھ پیغمبری بھی کرتا ہے، وہ زمین پر رہتا ہے، اور : 'پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتا ہے'
آسمان کی خبریں لاتا ہے، نئی نئی ترکیبیں وضع کرتا ہے، وہ سیاست کی بھی باتیں کرتا ہے، شخصیتوں کو زیر بحث لاتا ہے، تاریخ کا سمندر بھی کھنگالتا ہے، عقیدۂ وطنیت و قومیت کی دھجیاں بھی فضائے آسمانی میں اڑاتا ہے، ان تمام اور مختلف متنوع حیثیتوں میں وہ فرد نظر آتا ہے، اور کہیں بھی اس کی انفرادیت مجروح نہیں ہوتی"
(اقبال اپنے آئینے میں ، ص 36/37)


اقبال کو جس رنگ میں دیکھئے وہ یکتا و بے ہمتا نظر آئے گا ، وہ روتا ہے تو دوسرے بھی بلبلا اٹھتے ہیں، وہ سینہ کوبی کرتا ہے تو دوسرے بھی اپنا جیب و دامن پھاڑنے لگتے ہیں، وہ مسلمانوں سے دو ٹوک باتیں کرتے ہوئے کہتا ہے :
" گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی"
کہیں وہ مسلم نوجوانوں کے طاؤس و رباب کی عادت اور عیش کوشی پر خون کے آنسو روتے ہوئے کہتا ہے کہ :
کبھی اے نوجواں مسلم تدبّر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا


اگر اقبالیات کا بغور مطالعہ کیا جائے، تو یہ واضح ہوگا کہ اقبال کا فکر ایک ایسی روشن شاہ راہ ہے، جس پر زندگی کے قافلے گزرے ہیں اور یہ وہ شاہراہِ حیات ہے جس پر اقبال کے مرد مومن کے قدموں کے نشانات آج بھی ابھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جس میں روشنی ہے ، چمک ہے اور جگمگاہٹ ہے، اقبال نے یہ کبھی نہیں کہا کہ اس کا فکر کوئی نیا فکر ہے، اس کا فلسفہ کوئی نیا فلسفہ ہے، اس نے زندگی کیلئے کسی نئے راہ کا انکشاف کیا، بلکہ اس کا کلام اس بات کی شہادت ہے کہ حقیقی زندگی وہی ہے جو " فیضانِ سماوی" سے بہرا اندوز ہو، اور یہ وہی زندگی ہے جو ایک قادر مطلق، علیم و خبیر، دانا و بینا، خالق و مالک ہستی کی بتائی ہوئی زندگی ہے، جو اسلام کا ضابطۂ حیات ہے، اقبال کا فکری محور بھی دراصل اسلام ہی ہے:
شوق میری لے میں ہے شوق میری نے میں ہے
نغمۂ اللہ ھو میرے رگ و پے میں ہے


یقیناً اقبال نے یورپ دیکھا تھا مگر کعبہ رسیدہ بھی تھا، دماغ گرچہ فلسفی تھا پر دل صوفی تھا، رازی کے پیچ و تاب سے بھی واقف تھا تو رومی کے سوز و گداز سے بھی آشنا، گفتار میں جوش تھا تو کردار میں ہوش، اسلوب شاعرانہ تھا تو طبیعت واعظانہ، علومِ جدیدہ کا شہسوار مگر ایمان و یقین سے سرشار، خود تو یورپ کے الحاد خانہ میں تھا، مگر دل حجاز کے خدا خانہ میں تھا۔


اقبال نے کوئی عام اور روایتی شاعری نہیں کی، بلکہ اپنے شاعرانہ اسلوب میں قرآن مجید کے آیتوں کی تفسیر ، اور احادیث مبارکہ کی تشریح بیان کی۔
چنانچہ گل سر سبد علامہ سید سلیمان ندوی رح وفات اقبال پر اپنے بلیغانہ اسلوب میں رقمطراز ہیں:
"اقبال ہندوستان کی آبرو، مشرق کی عزت اور اسلام کا فخر تھا، آج دنیا ان ساری عزتوں سے محروم ہو گئی، ایسا عارف، عاشق رسول شاعر ، فلسفہ اسلام کا ترجمان اور کاروان ملت کا حدی خواں صدیوں کے بعد پیدا ہوا تھا، اور شاید صدیوں کے بعد پیدا ہو، اس کے دہن کا ہر ترانہ بانگ درا، اس کے جان حزین کی ہر آواز زبور عجم، اس کے دل کی ہر فریاد پیام مشرق، اس کے شعر کا ہر پر پرواز بال جبریل تھا، اس کی فانی عمر گو ختم ہو گئی، لیکن اس کی زندگی کا ہر کارنامہ جاوید نامہ بن کر ان شاءاللہ باقی رہے گا۔
مرحوم کی زندگی کا ہر لمحہ ملت کی زندگی کیلئے ایک نیا پیام تھا، وہ توحید خالص کا پرستار، دین کامل کا علمبردار اور تجدد ملت کا طلبگار تھا، اس کے رونگٹے رونگٹے میں رسول انام علیہ السلام کا عشق پیوست تھا، اور اس کی آنکھیں جسم اسلام کے ہر ناسور پر اشکبار رہتی تھیں، اس نے مستقبل اسلام کا خواب دیکھا تھا، اسی خواب کی تعبیر میں اس کی ساری عمر ختم ہوگئی، اس کے دل میں اسلام کا حقیقی سوز تھا، نئے زمانے کی جھوٹی آب و تاب اور نئے تمدن کی ظاہری چمک دمک سے اس کی آنکھیں خیرہ نہ تھیں۔
اقبال کی تصنیفات زمانہ میں یاد رہیں گی، وہ اسلام کا غیر فانی لٹریچر بن کر ان شاءاللہ رہے گا، ان کی شرحیں لکھی جائیں گی، نظرئیے ان سے بنیں گے، ان کا فلسفہ تیار ہوگا، اس کی دلیلیں ڈھونڈھی جائیں گی، قرآن پاک کی آیتوں، آحادیث شریفہ کے جملوں، مولانا رومی اور حکیم سنائی کے تاثرات سے ان کا مقابلہ ہوگا، اور اس طرح اقبال کا پیام اب دنیا میں ان شاءاللہ زندہ رہے گا، اور اقبال زندہ جاوید۔
(یاد رفتگاں۔ ص 182/183)


***
مبشر کفیل۔ حضرت گنج، لائن بازار، پورنیہ، بہار۔
mubashshirkafil[@]gmail.com

Allama Iqbal, a righteous thinker and Islamic poet. - Article by: Mubashshir Kafil

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں