تبصرہ کتاب - راستے خاموش ہیں از مکرم نیاز - مبصر عافیہ حمید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-09-06

تبصرہ کتاب - راستے خاموش ہیں از مکرم نیاز - مبصر عافیہ حمید

raaste-khamosh-hain-short-stories-by-mukarram-niyaz

"راستے خاموش ہیں"
اس نام میں ہی کچھ ایسی جاذبیت ہے کہ ذہن میں پہلا سوال یہی آیا۔۔۔ کہ راستے کیوں خاموش ہیں؟ اور پورے افسانوی مجموعہ میں، میں خاموش راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ مکرم نیاز صاحب کے اس افسانوی مجموعے میں کل 13/ افسانے شامل ہیں۔
آغاز سے بات کریں تو سرورق پر کسی مایوس لڑکی کا عکس اور طویل راستے کی خاموشی، کتاب کو دیدہ زیب بناتے ہیں۔ لڑکی کی کھلی زلفیں اور اداس چہرہ۔ لاتعداد نسوانی کرداروں کے درد کی عکاسی کرتا ہے۔
مکرم نیاز صاحب نے کتاب کا انتساب اپنے تین عزیز رشتوں کے نام کیا ہے ماں، بیوی، اور پھوپھی۔ خوش قسمتی سے یہ تینوں کردار نسوانی ہیں۔ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ صاحب کتاب نسوانی کردار کے متعلق نہایت حساس ہیں۔


افسانوں کی ابتدا "تیری تلاش میں" سے شروع ہو کر "ایک وائلن محبت کنارے"پر ختم ہوتا ہے۔ قبل اس کے کہ افسانوں پر تفصیلی گفتگو ہو جو آنکھوں کو خیرہ کرے وہ صاحب کتاب کے قلم سے لکھی ہوئی دستاویز ہے۔ جس کے بارے میں صاحب کتاب کا کہنا کہ "جو کہا نہیں وہ سنا کرو"، واقعی قابل تعریف ہے، یعنی یہ خواہش کہ "جو کہا نہیں گیا۔ یا جو میں کہہ نہیں سکتا آپ وہ بھی سن لینے کی صلاحیت رکھیں۔"
"جو کہا نہیں وہ سناکرو" یہ افسانہ نگار کی خود سے ہم کلامی ہے۔ ایک قلم کار کی الجھنوں و مسائل اس کی اندرون جنگ، تحت الشعور کے خیالات اور فکر کی موجیں، سب اس تحریر میں موجود ہیں۔ یہاں ایش ٹرے میں پڑی راکھ، سگریٹ اور لائٹ کا چلے جانا اور پھر اچانک سے بجلی کا آ جانا، کمرے میں روشنی ہونا، سب علامت اور استعارہ ہے۔ نیز کسی سنجیدہ، تجربے کار، اعلیٰ فن کار کی تحریر کی شہادت بھی ہے۔


مکرم نیاز صاحب کے اس مجموعے کو اول تا آخر پڑھنے کے بعد جو الفاظ سب سے پہلے زبان پر وارد ہوئے اور ذہن کو کچوکے لگانے لگے وہ یہ کہ: مکرم صاحب، آپ کے راستے خاموش نہیں بلکہ بے حد شور کرتے ہیں۔ جگہ جگہ تنبیہ و نصیحت، احساس ذمہ داری، فرض، شعور کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ یہ راستے چیختے ہیں، چلاتے ہیں، اپنوں سے بچھڑنے کی روداد غم سناتے ہیں، رشتوں کی خود غرضی پر بین کرتے ہیں۔ یہ راستے گھر سے دور پردیس میں بیٹھے مجبور نوجوان کی مشینی زندگی کے کرب کو بیان کرتے ہیں۔
یہ راستے بھلا کہاں خاموش ہیں؟


ان افسانوں کا اگر مجموعی جائزہ لیا جائے تو کچھ رنگ ایسے بھی ہیں جن کی شبیہ آپ تمام تر افسانوں میں محسوس کر سکتے ہیں۔ افسانہ نگار کے اکثر افسانوں میں وطن سے دوری، پردیس کی مشقت، زمین سے دوری کی تکلیف، رشتوں کی بدلتی ہوئی تصویر، اپنوں کی بے وفائی، رشتوں سے بے یقینی، ہر چہرے کو خود غرض سمجھنا، مثلاً افسانہ "تیری تلاش میں" مرکزی کردار اس ہرن کی مانند ہے جس کی ناف میں مشک موجود ہے مگر وہ اس خوشبو کے لیے میلوں دوڑ لگاتا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار بھی اسی ہرن کی مانند ہے جس کی نگاہ میں ہر شخص خودغرض ہے۔ پھر چاہے وہ ماں باپ ہوں، بیوی ہو یا دوست ہو۔ اورآخر میں وہ خود کی آنکھوں میں اسی خودغرضی کے عکس کو دیکھتا ہے۔ یہ افسانہ رشتوں سے اعتبار کھوتا ہوا افسانہ ہے۔ حالانکہ موجودہ حالات بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ ہرچند کم ہی سہی لیکن ابھی بھی کچھ رشتوں کا پاس و لحاظ باقی ہے۔ بہرحال یہ افسانہ نئی سوچ کے بچوں کے فکری نہج کی عکاسی کرتا ہے۔ ہماری نئی نسل والدین کی خدمت اور قربانی کو بھی ان کی ذمہ داری اور فرض بتاتی ہے۔


دوسرا افسانہ "اگہی" ایک بے چین و پریشان شخص کی اس فکر پر منحصر افسانہ ہے جو ہمیشہ اس بات سے پریشان رہتا ہے کہ ساری دنیا، سارے لوگ اتنے بے خبر کیوں ہیں۔ اسے لگتا ہے کہ سارا عالم سو رہا ہے اس کا شکوہ ایک حد تک بجا ہے۔ یہ افسانہ ایک شخص اور اس کے نفس کے درمیان باہمی کشمکش بھری گفتگو کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس افسانے کا مرکزی کردار اپنے بہنوئی کی موت کو لوگوں کے سوئے ضمیر سے بہتر سمجھتا ہے۔
مکرم نیاز صاحب کے افسانے ایک فکر ایک زاویے ایک سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے اکثر افسانوں میں مکالماتی گفتگو ہے۔ کبھی سامنے کوئی حقیقی وجود ہوتا ہے، کبھی خیالی، تصوراتی، یا تخیلاتی وجود ہوتا ہے اور کبھی کبھی صرف انسان اور اس کا ضمیر ہوتا ہے۔ جس کی کشمکش کی عکاسی آپ کا قلم خوب کرتا ہے۔ آپ کے افسانوں میں کہانی پن کم ہے، کچھ کہانی بغیر کسی خاص مرکزی کردار کے بغیر بھی آگے بڑھ گئے مثلاً "شکست ناتمام" آپ کے افسانے جدید طرز پر سوچے اور لکھے گئے ہیں۔ مکرم نیاز صاحب کے افسانے تجربے اور مشاہدے کی بہترین خمیر سے گوندھے ہوئے ہیں۔ اکثر افسانے ہجرت کے غم سے آشنا ہیں مثلاً افسانہ "زمین"۔


مکرم نیاز صاحب کے افسانے مٹتی ہوئی پرانی تہذیب پر بین کرتے ہیں، نیز نئی تہذیب کے استقبال کے لیے بانہیں کھولے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ آپ کے یہاں قدیم و جدید کے درمیان رنجش ہے۔ آپ کے افسانوں کے نام سے کچھ کچھ افسانوں کی جڑوں کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً خلیج، جس کو عام لفظوں میں کھائی کہیں گے۔ یہ لفظ دوری یا مسافت کو ظاہر کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور شاید اس افسانے میں "خلیج" سے مراد وقت ہے۔ وہ وقت جو باپ اور بیٹے کے درمیان حائل ہے۔ یہاں بھی دو تہذیبوں کا آپسی ٹکراؤ ہے۔ دو منفرد سوچوں کا خوبصورت تجزیہ ہے۔ مگر اس افسانے میں ایک بات جو مجھے کھٹک رہی ہے وہ یہ کہ ایک طوائف کی تعلیم و ڈگری۔۔۔ اگر آج طوائفوں کے کوٹھے نے اتنی ترقی کرلی ہے تو بے حد خوشی کی بات ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ علم ان کو اس اندھیرے سے اجالوں کی طرف لے آئے۔
اسی طرح افسانہ "راستے خاموش ہیں" اس شخص کی ذہنی الجھن اور سوالوں پر منحصر ہے جو پردیس سے وطن لوٹا ہے اور جس کی اعلیٰ معیاری سوچ سے ہر ایک مرعوب ہے۔ مگر ایسا حقیقتاً نہیں۔ یہ صرف اس شخص کی خام خیالی ہے کیونکہ وطن کی کوئی بھی چیز اجنبی نہیں ہوئی۔ سب کچھ پہلے جیسی ہے۔ مگر اسے نہیں پتہ وہ خود اجنبی ہوگیا ہے۔ وہ بڑے شہروں کی مصروفیت میں اپنے وطن کی مٹی کی خوشبو بھول گیا۔ بہرحال یہ ایک عمدہ افسانہ ہے۔
اس مجموعے میں ایک افسانہ "سوکھی باؤلی" کے نام سے مجموعے کی زینت بڑھا رہا ہے۔ "سوکھی باؤلی" علامت ہے۔ ایک ایسے شخص کی جس سے وقت نے تمام زرخیزی چھین لی۔ اب وہ شخص بے ثمر درخت سا لگتا ہے۔ اور محسوس ہوتا ہے اب کسی کو اس کی ضرورت نہیں۔ یہ افسانہ واقعی قابل تعریف ہے۔ یہ افسانہ نئی نسل کی طرز زندگی اور ان کی سوچ پر کاری ضرب ہے۔ یہ افسانہ کرب ہے، گھروں کے اندر اٹھتی دیواروں کا کرب۔ اس افسانے کے ذریعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ایک حویلی ٹکڑوں میں بٹ کر فلیٹ نما گھروں میں تبدیل ہو گئی۔ مگر افسوس کسی کو کیا پتہ چھوٹے ہوتے گھروں کے ساتھ انسانی سوچ اور انسانی دل بھی چھوٹے ہو جائیں گے۔


افسانہ گلاب، کانٹے اور کونپل میں بھی وطن سے دور رہنے والے ان مجبور لوگوں کی روداد غم کا ذکر ہے جو اپنے شب و روز، دوستوں اور یاروں سے دل لگا کر گذارتے ہیں۔ اس افسانے میں تعصب پرستی کی عمدہ جھلک نظر آتی ہے جب برسوں بعد بھی پردیس میں ان کو باہری ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اسی کرب کو مکرم نیاز صاحب نے اس افسانے کے ذریعے احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔
مکرم نیاز صاحب کے یہاں قوس و قزح کے تمام رنگ موجود ہیں۔ مثلاً آپ کے یہاں افسانوں میں درد وغم، شکوہ سے لے کر عشق و محبت، رومانیت، جنسیات، نفسیات سبھی کچھ موجود ہے۔ نفسیات پر بات کریں تو تقریباً تمام ہی افسانوں میں تقریباً تقریباً یہ رنگ موجود ہے۔ مگر "اداس رات کا چاند" اور "بے حس"، "کرن" اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔


افسانوں کے اس مجموعے میں جو افسانہ مجھے سب سے زیادہ پسند آیا وہ ہے "درد لادوا"۔ اس افسانے کا تمام تانا بانا ایک تخلیق کار، ایک قلم کار کے ارد گرد بنا گیا ہے۔ اس افسانے میں "ڈوبتے سورج" کو علامت بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ کسی کے لیے وہ صرف غروب آفتاب ہے۔ مگر حقیقتاً روز شام وہ ایک تہذیب، ایک دور کے زوال کا اعلان کرتا ہے۔ اور اس کے زوال کا دکھ آسمان کی سرخی (شفق )کہلاتی ہے۔
یہ افسانہ حقیقی معاشرے کا شفاف آئینہ دکھاتا ہے۔ جہاں "ھٰذا من فضل ربی" لکھ کر لوگ ریاکاری اور ناشکرا پن کرتے ہیں۔ اس افسانے میں مرکزی کردار، اپنے دوست کی حادثاتی موت کو سوچ کر لوگوں کے خودغرض چہروں کو یاد کرتا ہے۔ اور ہر ایک سے بدگمان ہونے لگتا ہے۔ حتیٰ کہ پیاری محبوبہ سے بھی اس کی دلچسپی کم ہونے لگتی ہے۔ مگر آخر میں اس کو ایک نئے افسانے کا عنوان ملتا ہے جس سے اس کے دوست کی موت کا دکھ کم ہو جاتا ہے۔ مگر اس طرح سے وہ خود بھی خودغرضی کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے۔ انسان کے اندر شاید ایک خودغرض انسان چھپا ہے جو موقع ملتے ہی سامنے آ جاتا ہے۔ یہ افسانہ بھی انسانی نفسیات کو ظاہر کرتا ہوا عمدہ افسانہ ہے۔


اس مجموعے میں شامل آخری افسانہ "ایک وائلن کی محبت" بھی دل کو چھوتا ہوا افسانہ ہے۔ اس افسانے میں جنریشن گیپ ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی بالکل آئینے کی طرح صاف ہو جاتی ہے کہ ہر کہانی زمانہ بدلنے کے ساتھ دہرائی جاتی ہے، بس چہرے بدلتے ہیں۔ کہانی قریب تر وہی ہوتی ہے اس افسانے میں بھی جمی کا وائلن ایک بچی کے پاس اسی انداز میں پہنچتا ہے۔ جیسے جمی کے پاس آیا تھا۔ اس افسانے میں والدین کی شفقت اور قربانیوں کا ذکر بخوبی ہے۔ ساتھ ہی ایک بچے کی نفسیات پر افسانہ نگار کی مکمل گرفت معلوم ہوتی ہے۔


تمام افسانوں کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ مکرم نیاز صاحب نے یہ افسانے نہایت کرب کی حالت میں لکھے ہیں۔ یہاں درد، شکوہ، حوادث زمانہ، تجربہ، مشاہدہ، مطالعہ، سبھی کچھ موجود ہے یہاں ذہنی تناؤ، اندرونی کشمکش، لاشعور، تحت الشعور، خودکلامی، حساسیت، تصور، تخیل، فکر و ہمدردی ہر رنگ افسانے کے حسن کو بڑھاتے ہیں۔
بلاشبہ مکرم نیاز صاحب کے افسانوں نے خاموش راستے کو قوت گویائی عطا کر دی ہے اس لیے اب راستے خاموش نہیں بلکہ شور کرتے ہیں۔


***
عافیہ حمید۔ ریسرچ اسکالر، خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی، لکھنؤ
ای-میل: aafiyahameed6[@]gmail.com

A review on Raaste khamosh hain, a collection of short stories by Mukarram Niyaz. Reviewer: Aafiya Hameed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں