مظفر حنفی کے نام کچھ ادبی خطوط - تبصرۂ کتاب از شاہ عمران حسن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-09-10

مظفر حنفی کے نام کچھ ادبی خطوط - تبصرۂ کتاب از شاہ عمران حسن

muzaffar-ke-naam-khutoot

ہندوستان کے معروف نقاد، محقق، ادیب اور شاعر پروفیسر مظفرحنفی کی رحلت کو دو برس ہوگئے۔ پروفیسر مظفر حنفی صرف ایک شاعر وادیب ہی نہیں تھے بلکہ ایک منظم شخصیت کے مالک تھے، جنھوں نے زندگی کا ہر لمحہ بہت ہی منظم طریقے، سلیقے اور نپے تلے انداز میں گزارا۔ جو بھی کام انھوں نے کیا، اس کا حق ادا کردیا۔ نثر میں گئے تو ایسی نثر تخلیق کی کہ لوگ عش عش کرنے لگے، تحقیق میں گئے اس میں بھی اپنی منفرد مثال قائم کی حتیٰ کہ جب سفرنامہ 'چل چنبیلی باغ میں' لکھا تو قاری ان کی تحریر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ ہر صنف میں نہ انہوں نے کام کیا، اور کامیاب رہے۔
انہوں نے بیسویں صدی کے نصف اوّل کے ایک عظیم شاعر شاد عارفی سے شرف تلمذ حاصل کیا، شاد عارفی پر جو کام انہوں نے سر انجام دیا ہے، اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہی کام وہی کرسکتے تھے، جب بھی شاد عارفی پر گفتگوکی جائے گی، پروفیسر مظفرحنفی کے بغیر ادھوری رہے گی۔


پروفیسر مظفرحنفی کا اصل نام ڈاکٹر محمد ابوالمظفر تھا، تاہم وہ 'پروفیسر مظفرحنفی' کے نام سے ادبی دنیا میں معروف ہوئے۔ ان کی پیدائش یکم/ اپریل 1936ء کو ہوئی اور 84 برس کی عمر میں 10/ اکتوبر 2020ء کو نئی دہلی میں وہ انتقال کر گئے۔
یوں تو پروفیسر مظفرحنفی کی زندگی میں ہی ان کے فن اور شخصیت پر کام بہت ہوچکے ہیں۔ تاہم انتقال کے بعد اس میں مزید پیش رفت ہوئی۔ ان پر باضابطہ کئی کتابیں شائع ہوئیں اور رسائل و اخبارات نے ان کی حیات و جہات پر نمبرات شائع کئے۔


حال ہی میں پروفیسر مظفرحنفی کے حوالے سے ایک اہم کتاب 'مظفر حنفی کے نام' شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو ان کے صاحبزادے اور ادیب انجینئر فیروز مظفر نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب دراصل ان خطوط کا مجموعہ ہے جو وقفے وقفے سے مختلف شاعر و ادیب اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے انھیں لکھے تھے۔ اس کتاب میں کل 1184صفحات ہیں، جو مظفر حنفی میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے۔


زیر نظر کتاب کے ساتھ انجینئر فیروز مظفر نے ایک مبسوط مقدمہ بھی تحریر کیا ہے، جو خاصہ کی چیز ہے، انہوں نے نہ صرف مرتب کردہ خطوط کے حوالے سے گفتگو کی ہے بلکہ والد صاحب کی زندگی پر بھی تھوڑی بہت روشنی ڈالی ہے۔
کتاب کی پہلی جلد میں موجود ادیب و شعرا میں پروفیسر آل احمد سرور، احمد ندیم قاسمی، اسلوب احمد انصاری، احمدسعید ملیح آبادی، ابوالکلام قاسمی، اویس احمد دوراں، اقبال مرزا، اظہر عنایتی، اندر سروپ سری واستو، ابراہیم اشک، انیس امام، افتخار امام صدیقی، بشیر بدر، بلراج کومل، بسمل عارفی، پروین کماراشک، پریت پال سنگھ، تسکین زیدی، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، جوگندر پال، جسٹس کے ایم یوسف، جمال اویسی، حکیم عبدالحمید(ہمدرد)، حامد انصاری، حفیظ بنارسی، پروفیسر خلیق انجم، خلیق الزماں نصرت، دلیپ سنگھ، دلشاد لاری، ڈاکٹر علی احمد جلیلی، ڈاکٹر انور مینائی، ذکاالدین شاداں، رضانقوی واہی، رام لعل، زبیر رضوی، رشید حسن خان، رفعت سروش، زبیر احمد فاروقی، ستیہ پال آنند، سیفی سرونجی، شمس الرحمٰن فاروقی، شجاع خاور، شین کاف نظام، شہریار، شان بھارتی، شاہد علی خان، شمیم فاروقی، ششی ٹنڈن، صغری مہدی، ضمیر کاظمی، طیب انصاری، ظفر گورکھ پوری، عزیز قریشی(گورنر)، ظ۔انصاری اور عبدالصمد وغیرہ کے نام شامل ہیں۔


جب کہ دوسری جلد میں عشرت قادری، پروفیسرعبدالباقی، پروفیسرعزیز اندوری، پروفیسرعتیق احمد صدیقی، پروفیسر عنوان چشتی، عمیق حنفی، پروفیسرعتیق اللہ، پروفیسرعلی احمد فاطمی، پروفیسرعلیم اللہ حالی، عبدالطیف اعظمی، عابد سہیل، علقمہ شبلی، غلام مرتضیٰ راہی، غلام سرور، فضا ابن فیضی، فاروق نازکی، قتیل شیفائی، پروفیسر قمر رئیس، قیصرتمکین، کنہیا لال کپور، کوثرصدیقی، کرشن کمار طور، محبوب راہی، گلزار دہلوی، مشفق خواجہ، مخمور سعیدی، منوررانا، وزیرآغا، معصوم شرفی، نشترخانقاہی، ناوک حمزہ پوری اور مفتی عتیق الرحمٰن قاسمی وغیرہ کے خطوط شامل اشاعت ہیں۔


ان خطوط کے مطالعہ سے ہماری عصری ادبی تاریخ کی بہت سی ان کہی داستان منظر عام پر آگئی ہے، جو یقیناً ادب کا بہت بڑا سرمایا ہے۔ ان خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی پروفیسر مظفرحنفی سے مشورے طلب کر رہا ہے تو کوئی ان سے مضمون لکھنے کی درخواست کر رہا ہے، کوئی اپنی کتاب پر مقدمہ لکھنوانا چاہتا ہے تو کوئی اپنی تحریری اصلاح کے لیے خط لکھ رہا ہے تو کوئی کسی اور چیز کے لیے ان کے در پردستک دے رہا ہے اور وہ ہر ایک کی دادرسی کر رہے ہیں، کاش ان خطوط کے ساتھ پروفیسرمظفر حنفی کے جوابات بھی شامل اشاعت ہوجاتے تو یقینی تھا کہ ادبی دنیا پر ایک اوربڑا احسان ہوتا۔ مگر یہ صرف خام خیالی ہے کہ کیوں کہ یہ ممکن نہیں۔
خیال رہے کہ ڈاکٹر محبوب راہی سے پروفیسرمظفرحنفی کی ایک مدت تک طویل خط و کتابت ہوتی رہی۔ اس کے بعد ڈاکٹر محبوب راہی نے ایک کتاب 'مکتوبات بنام محبوب راہی' مرتب کی جوکہ قابل مطالعہ ہے۔


پروفیسر مظفرحنفی کو وقفے وقفے سے ہندوستان کے مختلف مقامات پر رہنے کے مواقع ملے، وہ جہاں بھی رہے لوگوں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور ان سے خط کتابت جاری رکھی۔ نقل مکانی کرتے ہوئے وہ اپنی زندگی کے آخر میں دہلی میں آباد ہو گئے۔ ان کی ساری چیزیں بھی دہلی آگئیں۔ ان میں بے شمار خطوط بھی تھے۔
انجینئر فیروز مظفر نے ان خطوط کا مطالعہ کیا تو ان کی افادیت کو محسوس کیا۔ پھر اس کے بعد بذات خود انہوں نے اس کو ترتیب دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ خود بتاتے ہیں اس کی جمع و تدوین میں پسینے چھوٹ گئے، مسلسل چھ ماہ تک کام کرنا پڑا۔ ظاہر سی بات ہے ایک خط کو پڑھنا، دیکھنا، ترتیب لگانا، اس کی کمپوزنگ کرنا اور پھر اس کو حرف تہجی (alphabetical order)کے اعتبار سے ترتیب دینا کوئی آسان کام نہ تھا۔ تاہم انھوں نے اس مشکل ترین معرکہ کو سر کرلیا اور ان خطوط بلکہ ادبی شہہ پاروں کو منظر عام پر لاکر ادبی دنیا پر احسانِ عظیم کیا ہے۔


اس اہم ترین کام کو سرانجام دینے کے لیے یقینی طور پرانجینئر فیروز مظفر مبارک باد کے مستحق ہیں، اگر وہ ان خطوط کومنظر عام پر نہ لاتے تو شاید ان اہم ادبی شہہ پاروں سے استفادہ کرنا ممکن نہ تھا۔
زیر نظر کتاب میں انجینئرفیروز مظفر نے اپنے والد محترم پروفیسر مظفرحنفی کے کچھ ذاتی خطوط بھی نقل کئے ہیں، جو کہ انھوں نے اپنے اہل خانہ کو لکھے تھے۔ ان خطو ط کو پڑھنے سے جہاں ایک ذمہ دار شوہر کی جھلک دکھائی دیتا ہے وہیں ایک مشفق باپ کی محبت عیاں ہوتی ہے، وہیں ایک خط اس میں ان کے والد محترم عبدالقدوس کا بھی ہے، اس خط سے اندازہ ہوتا ہے ہے کہ وہ اپنے والدین کی فرماں بردار اولاد تھے۔
انجینئر فیروز مظفر ادب میں تحقیق اور ترتیب نہ صرف دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ اس میں صنف میں باضابطہ وہ کام بھی کرتے ہیں، ان کی اب تک ایک درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کتابوں پر انہیں مختلف انعامات سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ فی الوقت وہ عالمی تحریک اردو اور مظفرحنفی میموریل سوسائٹی کے سربراہ ہیں۔ میں ایک بار اس اہم ترین کام سرانجام دینے کے لیے انہیں مبارک باد دیتا ہوں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!


***
شاہ عمران حسن، پلاٹ نمبر 22، اے بلاک، خسرہ نمبر 824، مکی مسجد کالونی، نالہ روڈ، سریتا وِہار، نئی دہلی - 110076

E-mail: sihasan83[@]gmail.com
Mobile: +91-9810862382

شاہ عمران حسن

Muzaffar ke naam kuch adabi khutoot. Reviewer: Shah Imran Hasan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں