ادھو ٹھاکرے کو سزا دینے امیت شاہ کا ارادہ - کالم از شکیل رشید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-09-11

ادھو ٹھاکرے کو سزا دینے امیت شاہ کا ارادہ - کالم از شکیل رشید

amit-shah-uddhav-thackeray-words-war

شیوسینا کے ہاتھ سے ممبئی چھین کر
ادھو ٹھاکرے کو امیت شاہ سزا دیں گے!

ادھو ٹھاکرے کو 'سزا' دی جائے گی۔
مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ ممبئی آ ئے اور ادھو ٹھاکرے کو 'دھمکی' دے گئے!
بات صرف دھمکی تک ہی محدود نہیں تھی ، صرف یہی نہیں کہا کہ ادھو ٹھاکرے کو 'سزا' ملے گی ، بلکہ یہ الزام بھی لگایا کہ انھوں نے بی جے پی کو 'دھوکہ' دیا ہے ، وعدہ وفا نہیں کیا ہے۔ شاہ نے ایک بات اور بھی کہی ، ایک ایسی بات جو ، کسی جمہوری ملک میں ، کوئی ایسا سیاست داں ہی کہہ سکتا ہے جسے جمہوری قدروں کا پاس نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ اب ممبئی میں بی جے پی ہی کا غلبہ ہونا چاہیے ، اور یہ کہ شیوسینا کو اس کی ہی زمین پر دفن کر دیا جائےگا۔
مطلب یہ کہ شیوسینا سمیت دوسری ساری سیاسی پارٹیوں کا ، اب ممبئی سے وجود ختم ہو جانا چاہیے۔ یہ کچھ ویسی ہی بات تھی ، جیسی کہ بی جے پی کے صدر نڈا نے بہار کے اپنے دورے پر کہی تھی ، کہ اب بہار میں صرف بی جے پی ہی کا راج ہو گا۔ اور ان کے اس بیان کے فوراً بعد ہی بی جے پی کے حلیف وزیراعلیٰ نتیش کمار نے بی جے پی سے رشتہ توڑ کر اسے سڑک پر لا کر کھڑا کر دیا ، اور وہ بھاجپائی جو حکومت میں تھے ان کی ساری اکڑفوں نکال دی۔


کیا تھا یہ وعدہ جس کا امیت شاہ نے ذکر کیا ہے ، اور جس کے وفا نہ ہونے پر وہ ادھو ٹھاکرے کو 'سزا کی دھمکی' دے گئے ہیں ؟ اور کیا ہے وہ ' سزا' جو وہ دیں گے ؟
بات شروع ہوتی ہے 2019ء کے اسمبلی الیکشن سے۔ چلیے کچھ اس الیکشن کی بات کر لیں : مہاراشٹر میں 288 ممبران کی اسمبلی میں بی جے پی کو 105 سیٹیں یعنی گذشتہ کے مقابلے 17 سیٹیں کم ملی تھیں ، شیوسینا بھی گذشتہ کی 63 کے مقابلے سات سیٹیں کم حاصل کر پائی تھی ، اس الیکشن میں این سی پی رہنما شرد پوار نے کمال کر دیا تھا ، انھوں نے ریاست کے اور کسانوں کے مسائل اٹھانے کے ساتھ بی جے پی اور شیوسینا گٹھ جوڑ کو نشانے پر رکھاتھا نتیجتاً این سی پی کو گذشتہ الیکشن کے مقابلے 13 زائد سیٹوں پر یعنی کل 54 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اگر کانگریس کے کسی قائد نے شردپوار کی طرح انتخابی مہم چلائی ہوتی تو این سی پی اور کانگریس کے گٹھ جوڑ کو کہیں بڑی کامیابی حاصل ہوتی ، اور ریاست کے سیاسی حالات آج جو ہیں، وہ نہ ہوتے۔


مذکورہ پس منظر میں بات آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ جائے گی۔ شیوسینا اور بی جے پی کا گٹھ جوڑ دوبارہ ریاست پر حکمرانی کے لیے تیار تھا ، بلکہ تیاری تقریباً مکمل تھی ، دیویندر فڈنویس دوبارہ سر پر وزیراعلیٰ کا تاج رکھنے کے لیے سجنا دھجنا شروع بھی ہو گئے تھے۔ حالانکہ شیوسینا کے خیمے سے یہ آواز اٹھنے لگی تھی کہ اس بار پہلے ڈھائی سال کے لیے شیوسینا ہی سے کسی کو وزیراعلیٰ بنایا جاناچاہیے ، لیکن بی جے پی نے اس آواز کو نقار خانہ میں طوطی کی آواز سمجھنے کی بھول کی۔ اور یہ اس کی سب سے بڑی بھول تھی۔ ادھو نے بی جے پی کی کوئی بات نہیں مانی اور این سی پی و کانگریس سے سیاسی مفاہمت کرکے اسی طرح بی جے پی کو کنارے لگا دیا جیسے کہ آج نتیش کمار نے بہار میں بی جے پی کو کنارے لگا دیا ہے ، اور خود وزیر اعلیٰ بن گئے۔
سیاسی اتحاد کی تبدیلی کا یہ ایک بڑا اور اہم واقعہ تھا ، اس کی وجہ سےصرف فڈنویس ہی کے نہیں بی جے پی کے بھی کے سارے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے تھے۔ اسی کو امیت شاہ 'دھوکہ' بھی کہہ رہے ہیں اور 'بےوفائی' بھی قرار دے رہے ہیں ، اور اسی 'جرم' کے لیے وہ ادھو کو 'سزا' بھی دینا چاہتے ہیں ، حالانکہ باخبر سیاسی حلقوں کی مانیں تو ، دونوں سیاسی پارٹیوں میں بات یہ ہوئی تھی کہ دونوں ڈھائی ڈھائی سال حکومت سنبھالیں گی ، یہ طئے نہیں تھا کہ کون پہلے وزیراعلیٰ بنے گا اور کون بعد میں۔
دراصل شیوسینا کے سامنے گذشتہ حکومت کا تجربہ تھا ، فڈنویس سرکار نے اسے اس بری طرح سے نظرانداز کیا تھا کہ اسے یہ لگ رہا تھا کہ اگر کوئی شیوسینک وزیر اعلیٰ پہلے کے ڈھائی سال میں نہیں بنا ، تو بعد کے ڈھائی سال میں بھی نہیں بن پائے گا ، اسے بی جے پی کی قیادت کے وعدے پر قطعی بھروسہ نہیں تھا۔ اس وقت شیوسینا اور بی جے پی دونوں ہی کو ، یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ مہاراشٹر پر 'قبضے' کی جنگ میں فتح چاہے جس پارٹی کی ہو ، بی جے پی کی یا شیوسینا کی ، نقصان میں دونوں ہی رہیں گے۔ اگر اس وقت بی جے پی شیوسینا سے جنگ جیت جاتی اور اس کی حکومت بن جاتی تو شیوسینا کا 'سکڑتا وجود' دو سال پورے ہونے سے پہلے ہی 'سکڑ' جاتا ، بلکہ ممکن تھا کہ شیوسینا وجود میں ہوتے ہوئے بھی 'بے وجود' ہوجاتی۔
اور اگر اس وقت شیوسینا اپنی باتیں منوا لیتی تو بی جے پی کی اس 'طاقت' میں ، جسے ہر سیاسی مرض کا علاج سمجھا جاتا ہے ، ناقابلِ تلافی کمی آجاتی اور 'اپنی بات منوانے' کی اس کی 'صلاحیت' بے دھار ہو کر رہ جاتی۔ چونکہ بی جے پی کے سر پر اپنے 'ناقابلِ تسخیر' ہونے کا بھوت چڑھا ہوا تھا ، اور آج بھی یہ بھوت اس سے چمٹا ہوا ہے ، اور سارے 'بھاجپائی' وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی قیادت کو اپنے لیے بھی اور پارٹی کے لیے بھی 'جادوئی' سمجھنے لگے تھے ، اور آج بھی سمجھتے ہیں ، اس لیے مہاراشٹر اسمبلی کے نتائج سے انھوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا ، اور آج بھی مہاراشٹر کے سیاسی حالات سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ نقصان ہوا ہے ، شیوسینا کا بھی اور بی جے پی کا بھی ، اور اس نقصان کا خمیازہ آئندہ کے اسمبلی اور پارلیمانی الیکشن میں دونوں کو بھگتنا پڑ سکتا ہے ، اور نقصان بھاری ہو سکتا ہے۔


شیوسینا کے حق میں چند باتیں جاتی ہیں۔ ایک اہم بات تو یہ ہے کہ جس طرح سے بی جے پی کی قیادت نے ای ڈی ، سی بی آئی اور انکم ٹیکس کی ایجنسیوں کا ستعمال کر کے شیوسینا کو توڑا ہے ، اس کے ممبران اسمبلی کو اپنے ساتھ ملایا ہے اور جس طرح ادھو ٹھاکرے کو ذلیل کرنے کی کوشش کی ہے ، اسے مہاراشٹر کی ایک بہت بڑی آبادی نظر انداز نہیں کرے گی۔ امیت شاہ کا حالیہ بیان کہ ادھو کو 'سزا' دیں گے اور شیوسینا کو اس کی سرزمین یعنی ممبئی میں دفن کردیں گے ، اپنے آپ میں شیوسیناکے بانی بال ٹھاکرے کی توہین ہے ، اور بال ٹھاکرے کا نام ، ان کی موت کے بعد بھی ریاست کی سیاست میں ایک اثر رکھتا ہے ، لہٰذا یہ کہنے کا ، کہ شیوسینا کو ممبئی میں دفن کر دیں گے ، مطلب بال ٹھاکرے کی شیوسینا کو دفن کرنے کی دھمکی ہے ، یہ دھمکی بھی مہاراشٹرین عوام کی ایک بڑی تعداد ہضم نہیں کر ے گی۔
یہ شیوسینا ہی تھی جو مہاراشٹر بالخصوص ممبئی میں بی جے پی کے عروج کا سبب بنی تھی۔ ممبئی میں شیوسینا - بی جے پی گٹھ بندھن کی تاریخ سے واقف لوگ خوب جانتے ہیں کہ اگر شیوسینا نے بی جے پی کا ہاتھ نہ تھاما ہوتا تو ، اس ریاست میں بی جے پی آج جس قدر مضبوط اور توانا ہے ، اتنی قطعی نہیں ہوتی۔ جس طرح مرکز میں این ڈی اے میں شامل سیاسی پارٹیوں نے ، جن میں اکثر سیکولر تھیں ، بی جے پی کو سہارا دے کر اٹل بہاری واجپائی کی حکومت بنوائی اور مرکزی سیاست میں بی جے پی کو 'مرکز نظر' بنوانے میں اہم کردار ادا کیا ، بالکل اسی طرح شیوسینا کا کردار ممبئی میں تھا۔


ویسے ایک سچ یہ بھی ہے کہ مرکز اور ریاست مہاراشٹر میں بی جے پی کے ساتھ 'گٹھ بندھن' خود بالترتیب این ڈی اے کی سیاسی سیکولر پارٹیوں اور شیوسینا کے لیے ، اپنے اپنے 'سیاسی مفادات' کو پروان چڑھانے کا ایک ذریعہ بھی تھا۔ دونوں ہی طرف اقتدار کی بھوک تھی۔ مگر آج صورت حال یہ ہے کہ بی جے پی اس قدر مضبوط اور توانا ہوگئی ہے کہ اس نے اپنی حلیف سیاسی پارٹیوں کو ٹھینگا دکھانا شروع کردیا ہے۔ مہاراشٹر ا میں جب فڈنویس کی سرکار تھی ، تب ہی اس نے شیوسینا کو 'عضو معطل' بنادیا تھا۔ اہم ترین محکموں اور وزارتوں سے اس کو محروم رکھاگیا تھا۔ سرکاری منصوبوں میں شیوسینا کے کردار کو تقریباً صفر کر دیا گیا تھا۔ ادھو ٹھاکرے اور ان کے دست راست رکن راجیہ سبھا سنجے راوت نے ، جو ان دنوں جیل میں ہیں ، اسی دور سے ہی بی جے پی پرتنقید شروع کر دی تھی اور مہاراشٹر کی اس وقت کی فڈنویس سرکار پر حملے کیے تھے۔ فڈنویس سرکار نے بھی گاہے گاہے شیوسینا پر حملے بولے تھے۔ اشیش شیلار اور کرت سومیّا کا کھل کر شیوسینا پر حملوں کے لیے استعمال کیا گیا تھا ، جیسے آج کیا جا رہا ہے۔
شاید اسی وقت شیوسینا کو یہ احساس ہوا ہو کہ ، بی جے پی سے دامن چھڑا کر ، مہاراشٹر کی سیاست میں ایک بااثر اور مضبوط سیاسی پارٹی کے طور پر ، خود کو منوانا اب ضروری ہے۔ اور شاید اسی لیے ، اسمبلی الیکشن کے بعد ، اس نے بی جے پی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا اور ادھو ٹھاکرے وزیرِ اعلیٰ کے عہدے کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ جو بھی بات رہی ہو ، اب ادھو ٹھاکرے کے سامنے ،اپنے سیاسی کیرئیر ، اور اپنی پارٹی کے وجود کو بچانے کا ایک بڑا چیلنج ہے۔ ان کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ چکی ہے ، اسے پھر سے قدموں پر کھڑا کرنا آسان نہیں ہوگا ، اس کے لیے ادھو کو ایک مشکل جنگ لڑنا ہوگی۔ انہیں لوگوں کی ہمدردی حاصل ہو رہی ہے ، لیکن اگر یہ ہمدردی انہیں ووٹ نہ دلوا سکی تو ان کا سیاسی کرئیر ختم ہو جائے گا ، اور بی جے پی کہ ہر طرح سے کوشش ہوگی کہ اب ادھو کی شیوسینا کوئی الیکشن نہ جیت سکے۔
امیت شاہ نے 'سزا' کی جو دھمکی دی ہے ، اس کا مطلب بالکل سامنے ہے ، شیوسینا کو اس بار ممبئی میونسپل کے الیکشن میں جیتنے نہیں دیا جائے گا۔ اگر شیوسینا کے ہاتھ سے ممبئی کارپوریشن نکل جاتا ہے ، تو سمجھ لیں کہ امیت شاہ اپنی دھمکی یعنی ادھو کو 'سزا' دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ممبئی پر کوئی ساٹھ سال سے ٹھاکرے خاندان کا راج ہے ، اس راج کو ٹھاکرے خاندان کے ہاتھ سے چھین لینا ایک 'سزا' ہی ہوگی ، لیکن کیا یہ اتنا آسان ہے ؟ کیا بی جے پی اپنے 'مشن ممبئی' میں شیوسینا کو مات دے سکے گی؟ اور کیا شیوسینا کے باغی بے شرمی کے ساتھ اپنی اس پارٹی کو ، جس کے دم سے وہ آج عیش کر رہے ہیں ، بی جے پی کے ہاتھوں 'بے وجود' ہوتا دیکھ سکے گی ؟
ان سوالوں کے ساتھ ایک اور اہم سوال ہے ،جو شیوسینا اور بی جے پی کی لڑائی میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا ، عوام کسے ووٹ دیں گے ، بی جے پی کو ، ادھو ٹھاکرے کی شیوسیا کو یا باغی ایکناتھ شندے کی شیوسینا کو ؟ رہی بی جے پی تو اس کے لیے ڈگر آسان نہیں ہے ، اس نے شیوسینا کا سہارا لے کر ممبئی اور مہاراشٹر میں چلنا سیکھا ہے ، اس کے بغیر اس کے لیے راہ میں دشواریاں ہی دشواریاں ہیں۔



'Uddhav Thackeray Needs To Be Taught A Lesson': Amit Shah. Analysis: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں