ہمارا تعلیمی منہج اور عصری تقاضے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-08-02

ہمارا تعلیمی منہج اور عصری تقاضے

our-education-system-and-contemporary-requirements

خالقِ کائنات نے انسانوں کو جہاں تمام مخلوقات میں سب سے افضل بنایا وہیں ان کے اوپر بہت سی ایسی ذمہ داریاں بھی عائد کردیں جن سے دوسری مخلوقات کو آزاد رکھا گیا ہے ان ذمہ داریوں کی تفویض کی بنیاد در حقیقت قوتِ ارادی کی مضبوطی، حسِ طبع کی پختگی اور علم و آگہی کی فراوانی پہ رکھی گئی؛ چناں چہ یہ تمام اوصاف اگر کسی مخلوق میں بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں تو وہ صرف انسان ہے اور انہیں اوصاف و خصوصیات کی وجہ سے انہیں اشرف المخلوقات کے نشانِ امتیاز اور تمغۂ اعزاز سے نوازا گیا، ان امتیازی اوصاف میں بھی علم کو خصوصی درجہ حاصل ہے؛ یہی وجہ ہے کہ وجہِ تخلیقِ آدم کے طور پر فرشتوں کے سامنے انکی علمیت کو ہی پیش کیا گیا تھا۔


اس حقیقت سے بھلا کس صاحبِ بصیرت کو مجالِ انکار ہوسکتا ہے کہ علم ہی ہمارے تخیلات کو نئی پرواز عطا کرتا ہے، ہمارے ذہن و فکر کے بند دریچوں کو وا کرکے انہیں تفکر و تدبر کی ضیا پاشیوں سے بقعۂ نور میں تبدیل کردیتا ہے، آنکھوں کو سرمۂ بصیرت سے نوازتا اور طائرِ تعقل کو قوتِ پرواز سے ہم رکاب کرتا ہے، جہانِ آگہی کے نِت نئے گوشوں سے دل و نگاہ کو متعارف کراتا اور حروف و الفاظ کی تہوں میں پوشیدہ گنجینۂ معانی کے رازہائے سربستہ سے واقف کراتا ہے، افلاکِ علم و فن پہ موجود رنگا رنگ قوس قزح سے دل کو نور اور آنکھوں کو سرور بخشتا ہے، ادراک کی پیش قدمیوں کیلیے دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے کا سامان فراہم کرتا اور فطرت کے مقفل قصرِ ابیض میں موجود بیش قیمت خزینوں کی ملکیت بخش کر اسے دنیائے تگ و تاز میں ممتاز کردیتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ وہ حقائق ہیں جن سے کسی بھی ذی ہوش کو جرأت انکار نہیں ہوسکتی؛ کیوں کہ یہ ابدی صداقت بھی ہیں اور آفتابِ نیم روز کی طرح واضح و روشن بھی۔


علم اور حصولِ علم نہ صرف یہ کہ شخصی ارتقا کا مستند حوالہ ہوتا ہے بلکہ قوم کی فلاح اور ملک و ملت کی ترقی کا وسیلہ اور ذریعہ بھی ہوتا ہے؛ چناں چہ جس قوم میں تعلیم و تعلم کا رواج جتنا عام رہا ہے وہ قوم اتنا ہی زیادہ عظمتوں کے چرخ پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکتی اور اپنی علمی ضوفشانیوں سے پوری دنیا کو جگمگاتی رہی ہے، خود اپنے ملکِ عزیز کے شاندار ماضی کا جائزہ لیں اور مغلیہ دورِ سلطنت کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہر میدانِ علم کے رجالِ کار اپنی علمی لیاقت اور فنی صلاحیت کے ساتھ اپنی علمیت کا لوہا منواتے اور ان کارہائے نمایاں کے ذریعے اپنی انفرادیت کی دھاک بٹھائے نظر آئینگے جن کے اَن مٹ نقوش صدیاں گزر جانے کے بعد بھی زندہ اور مرورِ ایام کی تہہ در تہہ گرد پڑجانے کے بعد بھی تابندہ ہیں اور جو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہمارا ماضی کتنا شاندار رہا ہے، ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ ہمارا حال کس قدر افسوس ناک ہے اور ساتھ ہی یہ حوصلہ بھی عطا کرتے ہیں کہ ہمارا مستقبل پھر سے تابناک ہوسکتا ہے۔


آج روس، کناڈا، امریکہ، لندن، جرمنی اور فرانس سمیت جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں اگر مجموعی طور پر ان کی شرحِ خواندگی دیکھی جائے تو 99 فیصد، بلکہ بعض ممالک میں تو سو فیصد بھی دیکھنے کو مل جائے گی؛ لیکن اس کے برعکس اگر ہندوستان، خصوصا یہاں کے مسلمانوں کے تعلیمی تناسب پر غور کریں تو ایک رپورٹ کے مطابق صرف 58۔3 فیصد مسلمان ہی خواندہ ہیں جو ہندوستان میں بسنے والے دوسرے تمام مذاہب کے لوگوں میں سب سے کم ہے یہی شرحِ خواندگی ہے جو ہمیں بحیثیتِ فرد بھی اور بحیثیتِ سماج بھی ملکی و ملی اور بین الاقوامی سطح پر ترقی یافتہ بناتی ہے اور تعلیم کے تئیں یہی بیداری ہے جو پوری دنیا پر اپنی بالادستی قائم کرنے اور قائم رکھنے میں معین و مددگار ثابت ہوتی ہے نیز مذہبِ اسلام میں بھی تعلیم کو بنیادی اہمیت دی گئی کہ قرآن پاک کی ابتدائی آیتیں جو بذریعۂ وحی نازل ہوئیں ان میں پڑھنے پڑھانے کی ہی ترغیب و ہدایت دی گئی تھی؛ تاہم اس احساس و ادراک کے باوجود بھی ہماری تعلیمی پسماندگی بڑھتی ہی جا رہی ہے جو قابلِ افسوس بھی ہے اور باعثِ عار بھی:
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی "اقرأ" سے ہوا تھا


ایک تو مسلمانوں کی شرحِ خواندگی دن بہ دن گھٹتی جا رہی ہے، ستم بالائے ستم یہ کہ علوم میں بھی دینی اور عصری کی تفریق کرکے ہمارے نظامِ تعلیم پر کاری ضرب لگائی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو دینی جامعات کے فضلا ہیں وہ عصری علوم سے نابلد ہوتے ہیں اور ان کیلیے دنیاوی امور میں ترقی کے مواقع بہت کم رہتے ہیں اور جو عصری اداروں کے تعلیم یافتہ ہیں انہیں دینی علوم کی کچھ خبر ہی نہیں ہوتی، بلکہ ایک بڑی تعداد تو ان لوگوں کی بھی ہے جنہیں بنیادی اسلامی تعلیمات و شرعی احکام کا بھی علم نہیں ہوتا اور وہ مکمل طور پر مغربیت کے آگے مرعوب، بلکہ مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں اور انہیں ترقی کے منازل صرف اور صرف مغربی طرزِ حیات اور ملحدانہ افکار و نظریات میں ہی نظر آنے لگتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نصابِ تعلیم و نظامِ تربیت پر نقد کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
"جدید تعلیم و تہذیب کے مزاج اور اسکی طبیعت پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اسلام کے مزاج اور اسکی طبیعت کے بالکل منافی ہے اگر ہم ان کو بجنسہ لے کر اپنی نوخیز نسلوں میں پھیلائینگے تو انکو ہمیشہ کیلیے ہاتھ سے کھو دینگے آپ ان کو وہ فلسفہ پڑھاتے ہیں جو کائنات کے مسئلے کو خدا کے بغیر حل کرنا چاہتا ہے، آپ ان کو وہ سائنس پڑھاتے ہیں جو معقولات سے منحرف اور محسوسات کا غلام ہے، آپ ان کو تاریخ، سیاست، معاشیات، قانون اور تمام علومِ عمرانیہ کی وہ تعلیم دیتے ہیں جو اپنے اصول سے لے کر فروع تک اور نظریات سے لے کر عملیات تک اسلام کے نظریات اور اصولِ عمران سے یکسر مختلف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر فی الواقع علی گڑھ یونیورسٹی کو مسلم یونیورسٹی بنانا ہے تو سب سے پہلے مغربی علوم و فنون کی تعلیم پر نظرِ ثانی کیجیے، ان علوم کو جوں کا توں لینا ہی درست نہیں ہے، طالبِ علموں کی لوحِ سادہ پر ان کا نقش اس طرح مرتسم ہوتا ہے کہ وہ ہر مغربی چیز پر ایمان لاتے چلے جاتے ہیں"
(تنقیحات، ص: 126)


نیز وہ علومِ اسلامیہ کو بھی قدیم کتابوں سے جوں کا توں لینے کی بجائے اسلام کے دائمی اصول اور حقیقی اعتقادات اور غیر متبدل قوانین پر متاخرین کی آمیزشوں کو داخل کرنے کا مشورہ دیتے ہوے لکھتے ہیں:
"آپ کو معاشیات کی تعلیم میں اسلامی نظمِ معیشت کے اصول، قانون کی تعلیم میں اسلامی قانون کے مبادی، فلسفہ کی کتابوں میں حکمتِ اسلامیہ کے نظریات، تاریخ کی تعلیم میں اسلامی فلسفۂ تاریخ کے حقائق اور اسی طرح علم و فن کی تعلیم میں اسلامی عنصر کو ایک غالب اور حکمراں عنصر کی حیثیت سے داخل کرنا ہوگا"
(تنقیحات، ص: 127)


دراصل ہمارے فطری نظامِ تعلیم کی روح کو مجروح کرنے میں دینی اور عصری علوم کی تفریق کا بڑا دخل ہے جو ہمارے متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کی دین ہے، انگریزوں نے ہی ایسا نصابِ تعلیم ہمارے اوپر تھوپ دیا تھا کہ جس میں اسلامی علوم کو بالکلیہ خارج کرکے ہمارے صدیوں پرانے تعلیمی نظام کی کایا پلٹ کر ہمارے تاریخی ورثے کو تباہ کردیا تھا تاکہ مسلمانوں کو مکمل طور پر مغربیت زدہ کرکے ذہنی غلامی میں جھونکا جا سکے؛ لیکن تبھی ہمارے اس وقت کے اکابر علما نے اسلامی علوم کے تحفظ کی خاطر خالص دینی ادارے کے قیام کی ضرورت محسوس کی اور اسی مقصد سے ام المدارس دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی اور پھر پورے ملک میں اسی طرز پر مدارس کا جال بچھایا گیا؛ اگر ہم اس پسِ منظر میں موجودہ مدارس کو دیکھیں تو یقینا ہمارے مدارس اپنے مشن اور مقصد میں صد فیصد کامیاب نظر آئینگے کہ وہ بجا طور پر دینی علوم کے تحفظ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں؛ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ فوری ردِ عمل تھا اور اُن حالات میں اسی کی ضرورت بھی تھی لیکن اب اگر نصاب کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کردیا جائے تو مدارس کی اہمیت و افادیت فزوں تر ہو جائے گی۔


ہم یہ نہیں کہتے کہ یہاں سے ڈاکٹر انجنیئر پیدا کیے جائیں البتہ اگر کوئی یہاں سے نکلنے کے بعد ڈاکٹر انجنیئر بھی بننا چاہے تو اسکے لیے راستہ کھلا ہونا چاہیے، تبھی ہمارے اُس قدیم ترین نظامِ تعلیم کی تباہی کا کسی حد تک ازالہ ممکن ہو سکے گا کہ جس کی بدولت ایک ہی درس گاہ سے دینی اور عصری علوم کے ماہرین نکلا کرتے تھے، مفتی محمد تقی عثمانی صاحب "ہمیں کیسا نظامِ تعلیم چاہیے؟" کے عنوان سے ایک مضمون میں قدیم ماضی کے نظامِ تعلیم پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
" اس وقت جامعۃ القرویین میں جو علوم پڑھائے جاتے تھے اُن میں اسلامی علوم، تفسیر، حدیث، فقہ اور اس کے ساتھ ساتھ طب، ریاضی، فلکیات جنہیں ہم آج عصری علوم کہتے ہیں وہ سارے علوم پڑھائے جاتے تھے ابن خلدون، ابن رشد، قاضی عیاض اور ایک طویل فہرست ہمارے اکابر کی ہے جنہوں نے جامعۃ القرویین میں درس دیا۔۔۔۔۔۔ ہوتا یہ تھا کہ دینِ اسلام کا فرضِ عین علم سب کو اکٹھا دیا جاتا تھا اس کے بعد اگر کوئی علمِ دین میں تخصصات حاصل کرنا چاہتا تھا تو وہ اسی جامعۃ القرویین میں علم دین کی درس گاہوں میں پڑھتا، اگر کوئی ریاضی پڑھانے والا ہے تو وہ ریاضی بھی وہاں پڑھا رہا ہوتا، اگر کوئی طب پڑھانے والا ہے تو وہ طب بھی وہاں پڑھا رہا ہوتا؛ یہ سارا کا سارا نظام اس طرح چلا کرتا تھا؛ جامعۃ القرویین کی طرح جامعہ زیتونہ تیونس اور جامعۃ الازہر مصر کا نظامِ تعلیم بھی رہا، یہ تینوں یونیورسٹیاں ہمارے قدیم ماضی کی ہیں۔۔۔۔۔"


چناں چہ اگر آج ہم اسی صدیوں پرانے نظام کو واپس نہیں لا سکتے تو کم از کم یونیورسٹیز کی راہ ہموار کرکے اس کیلیے سبیل ضرور پیدا کر سکتے ہیں نیز ہمارے وہ عصری ادارے جو ہمارے دائرۂ اختیار میں ہیں، اگر ان کے جدید تعلیم و تہذیب کے مزاج کو مغربیت کے زیرِ اثر نہ چھوڑ کر اسلامی مزاج میں ڈھال دیں اور اسلامی عنصر کو غالب اور حکمراں عنصر کی حیثیت سے داخل کردیں اور اسلام کے دائمی اصول، حقیقی اعتقادات اور غیر متبدل قوانین کو جدید رنگ میں رنگ کر اپنے نظام و نصاب کا لازمی حصہ بنا لیں تو ہمارا تعلیمی معیار بھی قابلِ رشک ہوگا، ہمارے طلبہ کی ذہنیت بھی اسلامی سانچے میں ڈھلی ہوگی اور ہمارے دینی و عصری اداروں کی اہمیت و افادیت بھی فزوں تر ہوجائے گی؛ یعنی:
ایک پتھر کی بھی تقدیر سنور سکتی ہے
شرط یہ ہے کہ قرینے سے تراشا جائے!


***
لقمان عثمانی۔ بیگوسرائے، بہار۔

Email: mdluqmanusmani[@]gmail.com


Our present education system and contemporary requirements. Article: Luqman Usmani

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں