آزاد لٹریری فورم (الف) کے زیراہتمام ادبی، سماجی خدمت گزار و خاتون صحافی محترمہ عائشہ مقصود کا تہنیتی جلسہ میڈیا پلس آڈیٹوریم، جامعہ نظامیہ کامپلکس گن فاونڈری میں منعقد ہوا۔ اس تہنیتی تقریب میں شہر کی مختلف سیاسی ، تہذیبی ، فلاحی و ادبی تنظیموں کے علاوہ قلمکار و بیرونی ممالک کے ادبی نمائندے بھی موجود تھے۔ اس اجلاس کی صدارت جناب اعجاز علی قریشی ایڈووکیٹ صدر آزاد لٹریری فورم نے کی۔
محترمہ عائشہ مقصود امریکی سرزمین پر ایک عرصہ سے قیام پذیر ہیں اور ان دنوں چھٹیوں کے دوران اپنے وطن حیدرآباد آئی ہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنے دورِ طالب علمی میں صحافت اور شہر کے اردو اخبارات سے وابستہ ہو کر اردو زبان کے فروغ اور اسے پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس موقع پر آزاد لٹریری فورم اور دیگر کی جانب سے ان کی گلپوشی کی گئی۔
محترمہ عائشہ مقصود نے کہا کہ امریکہ میں تارکین وطن نے حیدرآباد کی روایات و تہذیب، بھائی چارگی و ملنساری کے نقوش کو زندہ رکھا ہے اس لیے اس تہذیب کے آج امریکی بھی دلدادہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آج جو مقام انہیں حاصل ہوا ہے وہ زبان اردو کی خدمت، والدین اور اساتذہ کی بدولت ہے۔ انھوں نے اپنے اسکول، کالج، یونیورسٹی میں تعلیمی مراحل سے گزرنے کا ذکر کرتے ہوئے لکچرر و پروفیسر صاحبان کی تعلیمی رہنمائی و مدد کی بھی ستائش کی۔ ان اساتذہ میں جو حیات ہیں ان کی صحت کے لئے دعا اور جو دنیا سے رخصت ہو گئے ان کے حق میں دعائے مغفرت کی۔ انہوں نے اپنے رفیق حیات اور اپنی اولاد کا بھی تعارف کروایا اور بتایا کہ بچے عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم میں آگے ہیں اور شوہر جناب ریاض خان ایروناٹیکل انجنئیر ہیں۔
امریکہ میں اردو تقریبات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں ادبی مقابلے و بیت بازی کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے جس میں بڑی تعداد حصہ لیتی ہے۔ ان سرگرمیوں سے جہاں ان کی علمی صلاحیت میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں اس مصروفیت سے وہ لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔ امریکہ میں اردو زبان بڑی تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہے گو کہ گھر میں اردو زبان میں ہی بول چال ہوتی ہے جب کہ ماحول سارے کا سارا انگریزی ہے۔ اردو کی ترقی اور اس میں دلچسپی کے باعث مرد و خواتین اور بچوں میں اسلامی تعلیمات، قران مجید و نبی کریم صلی علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو پڑھنے اور سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حیدرآباد میں اردو زبان کے فروغ کے لئے جو مسلسل کاوشیں جاری ہیں ان کے متعلق سن کر یا اخبارات کے ذریعہ پڑھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ رمضان کی ساعتوں میں امریکہ میں جو ماحول ہوتا ہے اور وہاں مسلمان جس طرح عبادت کی ادائیگی میں سنجیدگی و دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں، یہ سب غیر معمولی ہوا کرتا ہے۔
کنوینر ڈاکٹر مصطفی علی سروری نے مہمانان اور شرکاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے آزاد لٹریری فورم کا تعارف کروایا اور کہا کہ یہ فورم اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار مستقبل میں بھی ادا کرتا رہے گا اور ہر لحاظ سے آزاد رہے گا۔
انھوں نے اپنے تعلیمی دور کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ محترمہ عائشہ مقصود سے یونیورسٹی میں تعلیمی مقابلوں کے دوران ملاقات ہوا کرتی تھی۔ وہ جہاں ایک بہترین مقررہ ہیں وہیں بیت بازی اور دیگر مقابلہ جات میں ان سے مقابلہ کرنا مشکل ہوا کرتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ الف کے ذریعہ مختلف اردو سرگرمیاں آئیندہ بھی جاری رہیں گی۔
جناب آفاق متین (آئر لینڈ) نے اپنے دورِ طالب علمی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اردو زبان کی ترقی و بقاء میں طلباء نے بھی اپنا کردار نبھایا ہے۔ آئر لینڈ کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اردو کے فروغ کا کام زور و شور سے جاری ہے۔ اردو کلب آئر لینڈ کے تعاون سے اردو تقاریب منعقد ہوا کرتی ہیں۔ انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ الف کے ذریعہ اردو کا جو پلیٹ فارم بنا ہے اس سے زبان کی ترقی ہو اور تارکین وطن بھی اس کاز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
محترمہ رفیعہ نوشین نے الف کے قیام اور اس کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ الف کے ذریعہ جہاں خواتین ، طالبات، مصنفین کی ہمت افزائی کی جائے گی، وہیں گروپ ازم سے آزاد ہو کر اردو کے فروغ کے لئے کام کرنا اولین مقصد بھی ہے۔
ڈاکٹر محبوب خان اصغر نے کہا کہ محترمہ عائشہ مقصود جنھوں نے اردو زبان کو اپنا مقصد و محور بنایا ہے، اردو زبان کی ترقی و فروغ میں ایک طاقت کا کام کر رہی ہیں۔ اردو زبان ایک طاقتور زبان کا نام ہے جو ہر ملک میں بولی و سمجھی جاتی ہے اور یہ زبان قیامت تک تابندہ رہے گی۔
جناب باسط ملک نے کہا کہ اردو زبان ازل سے اپنی مٹھاس کو برقرار رکھے ہوئے ہے اس لیے مسلم ہو یا غیر مسلم، سبھی اس زبان کے دلدادہ ہیں اور کالجز اور یونیورسٹی کے اردو میڈیم میں داخلے لیتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان کے فروغ و ترقی میں محترمہ عائشہ مقصود کی بے لوث خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ انھوں نے شہر کے اردو اخبارات میں اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ طالب علمی کے دور سے ہی وہ ذہین رہی ہیں اس لئے ان کی خدمات غیر معمولی ہیں جسے امریکہ میں بھی انہوں نے جاری رکھا ہوا ہے۔
ڈاکٹر محمد ناظم علی نے کہا کہ مادری زبان کی اہمیت کا اندازہ اس وقت لگایا جا سکتا ہے جب دیگر زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی اردو زبان کے سیکھنے کی دل میں تڑپ رہتی ہے۔ جبکہ اساتذہ کو حکومت نے اچھی خاصی مراعات دے رکھی ہیں اس کے باوجود اسکولوں میں براے نام اردو کو پڑھایا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر مظہر قادری نے کہا کہ عائشہ مقصود شروع سے ہی اردو زبان و ادب اور سماجی و فلاحی کاموں کے ذریعہ ہمیشہ آگے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو زبان کے ساتھ عصری زبان کو بھی ساتھ لے کر چلا جائے۔ محترمہ عائشہ مقصود نے اپنی دلچسپی سے جو مقام بنایا ہے اس لئے لوگ انھیں ادبی، سماجی، تعلیمی و صحافت کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
ڈاکٹر اسلم فاروقی نے کہا کہ محترمہ ہونہار شروع سے رہیں، جب بھی ادبی مقابلے ہوا کرتے تھے انھوں نے اپنے پہلے مقام کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اللہ تعالی انھیں صحت و عافیت سے رکھے۔ امریکہ میں وہ اردو زبان و تہذیب کو زندہ رکھے ہوئے ہیں وہیں خواتین اور بچوں کی محفلیں سجا کر زبان کے فروغ میں اپنا حصہ ادا کر رہی ہیں۔
اس یادگار تقریب کے موقع پر محترمہ عائشہ مقصود کی بکثرت گلپوشی کی گئی۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں سے تحفے بھی پیش کیے جن میں ننھے بچوں کے لئے چاکلیٹ تھے۔ قاری جنید کی قرات سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹر مصطفی علی سروری نے کاروائی چلائی اور شکر یہ ادا کیا۔
بشکریہ : روزنامہ آداب تلنگانہ، حیدرآباد (یکم/اگست 2022)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں